-----------------------------------------------------------
*🕯شرعی احکام اور اختیاراتِ مصطفٰی صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ🕯*
➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖
📬 ترجمہ: اور کسی مسلمان مرد اور عورت کیلئے یہ نہیں ہے کہ جب اللہ اور اس کا رسول کسی بات کا فیصلہ فرما دیں تو انہیں اپنے معاملے کا کچھ اختیار باقی رہے اور جو اللہ اور اس کے رسول کاحکم نہ مانے تو وہ بیشک صر یح گمراہی میں بھٹک گیا۔
(سورہ احزاب آیت نمبر 36)
اس آیت سے یہ معلوم ہوا کہ حضور پُر نور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، اللہ تعالیٰ کی عطا سے شرعی احکام میں خود مختار ہیں۔ آپ جسے جو چاہے حکم دے سکتے ہیں، جس کے لئے جو چیز چاہے جائز یا ناجائز کر سکتے ہیں اور جسے جس حکم سے چاہے الگ فرما سکتے ہیں۔
کثیر صحیح اَحادیث میں اس کے شواہد موجود ہیں، یہاں ان میں سے کچھ اَحادیث درج ذیل ہیں۔
*(1)* جب حرمِ مکہ کی نباتات کو کاٹنا حرام فرمایا گیا تو حضرت عباس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کے عرض کرنے پر اذخر گھاس کاٹنے کو حضور پُر نور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے جائز فرما دیا۔ چنانچہ حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے روایت ہے، رسول اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا:
’’اللہ تعالیٰ نے مکہ مکرمہ کو حرام فرمایا ہے، پس یہ مجھ سے پہلے کسی کے لئے حلال نہ ہوا اور نہ کسی کے لئے میرے بعد حلال ہو گا، میرے لئے بھی دن کی ایک ساعت حلال ہوا، نہ اس کی گھاس اکھاڑی جائے، نہ اس کا درخت کاٹا جائے اور نہ اس کا شکار بھڑکایا جائے اور اعلان کرنے کے علاوہ اس کی گری ہوئی چیز نہ اٹھائی جائے۔
حضرت عباس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ نے عرض کی: اِذخر کے سوا کیونکہ وہ ہمارے سناروں اور قبروں کے کام آتی ہے۔
ارشاد فرمایا: ’’چلو اِذخر کے سوا (دوسری گھاس نہ اکھاڑی جائے۔)
*( بخاری، کتاب الجنائز، باب الاذخر والحشیش فی القبر، ۱ / ۴۵۳، الحدیث: ۱۳۴۹)*
*(2)* حضرت ابو بردہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کے لئے چھ مہینے کے بکری کے بچے کی قربانی کر لینا جائز کر دیا۔
چنانچہ حضرت براء بن عازب رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں: ان کے ماموں حضرت ابو بردہ بن نیار رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ نے نمازِ عید سے پہلے قربانی کرلی تھی، جب انہیں معلوم ہوا یہ کافی نہیں تو عرض کی:
یا رسولَ اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، وہ تو میں کر چکا، اب میرے پاس چھ مہینے کا بکری کا بچہ ہے مگر سال بھر والے سے اچھا ہے۔
ارشاد فرمایا: ’’اِس کی جگہ اُسے کردو اور ہرگز اتنی عمر کی بکری تمہارے بعد دوسروں کی قربانی میں کافی نہ ہوگی۔
*(بخاری، کتاب العیدین، باب التکبیر الی العید، ۱ / ۳۳۲، الحدیث: ۹۶۸)*
*(3)* حضرت اُمِّ عطیہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہَا کو ایک گھر کے مُردے پر بَین کر کے رونے کی اجازت دے دی۔
چنانچہ حضرت اُمِّ عطیہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہَا فرماتی ہیں (جب عورتوں کی بیعت سے متعلق آیت اتری اور اس میں ہر گناہ سے بچنے کی شرط تھی کہ لَا یَعْصِیْنَكَ فِیْ مَعْرُوْفٍ، اور مردے پر بین کر کے رونا چیخنا بھی گناہ تھا) میں نے عرض کی: یا رسولَ اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، فلاں گھر والوں کا اِستثناء فرما دیجئے کیونکہ انہوں نے زمانہ ٔجاہلیّت میں میرے ساتھ ہو کر میری ایک میت پر نوحہ کیا تھا تو مجھے ان کی میت پر نوحے میں ان کا ساتھ دینا ضروری ہے۔ سیّدِ عالَم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’اچھا وہ مُستَثنیٰ کردئیے۔‘‘
*(مسلم، کتاب الجنائز، باب التشدید فی النیاحۃ، ص۴۶۶، الحدیث: ۳۳(۹۳۷)*
*(4)* حضرت اسماء بنت عمیس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہَا کو وفات کی عدت کے عام حکم سے الگ فرما دیا اور ان کی عدت چار مہینے دس دن کی بجائے تین دن مقرر فرما دی۔
چنانچہ حضرت اسماء بنت عُمیس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہَا فرماتی ہیں: جب حضرت جعفر رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ شہید ہو گئے تو سیّد المرسَلین صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے مجھے حکم دیا: تم تین دن تک (سنگار سے) رکی رہو، پھر جو چاہو کرو۔
*(معجم الکبیر ، اسماء بنت عمیس الخثعمیۃ من المہاجرات ، عبد اللّٰہ بن شداد بن الہاد عن اسماء ، ۲۴ / ۱۳۹ ، الحدیث: ۳۶۹)*
*(5)* ایک شخص کے لئے قرآن مجید کی سورت سکھا دینا مہر مقرر فرما دیا۔
چنانچہ حضرت ابو نعمان ازدی رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں: ایک شخص نے ایک عورت کو نکاح کا پیغام دیا، سرکارِ دو عالَم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اس سے ارشاد فرمایا: مہر دو۔اس نے عرض کی: میرے پاس کچھ نہیں۔
ارشاد فرمایا: کیا تجھے قرآنِ عظیم کی کوئی سورت نہیں آتی، وہ سورت سکھانا ہی اس کا مہر کر، اور تیرے بعد یہ مہر کسی اور کو کافی نہیں۔
*(شرح الزرقانی، الفصل الرابع فیما اختص بہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم من الفضائل والکرامات، ۷ / ۳۵۶، مختصراً)*
*نوٹ:* یاد رہے کہ قرآن مجید کی کوئی سورت سکھانا یا کوئی پارہ زبانی یاد کر کے عورت کو سنا دینا اس کا شرعی مہر نہیں ہو سکتا اگرچہ عورت اس کا تقاضا کرے اور اگر عورت کے مطالبے پر شوہر نے ایسا کر دیا تو وہ مہر کی ادائیگی سے بری الذِّمہ نہ ہوگا، اگر عقدِ نکاح میں اس چیز کا تَعَیُّن نہیں ہوا جو مہر بن سکتی ہے تو شوہر پر مہرِ مثل دینا لازم ہو گا، ہاں اگر عورت اپنی مرضی سے یوں کہے: اگر تم مجھے فلاں پارہ یا سورت یاد کر کے سنا دو تو میرا مہر تجھے معاف ہے، تو یہ جائز ہے۔
*(6)* حضرت خزیمہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کی گواہی ہمیشہ کے لئے دو مَردوں کی گواہی کے برابر فرما دی۔
چنانچہ حدیث پاک میں ہے کہ سرکارِ دو عالَم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ایک اعرابی سے گھوڑا خریدا، وہ بیچ کر مکر گیا اور گواہ مانگا، جو مسلمان آتا اعرابی کو جھڑکتا کہ تیرے لئے خرابی ہو، رسولُ اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ حق کے سوا کیا فرمائیں گے (مگر گواہی کوئی نہیں دیتا کیونکہ کسی کے سامنے کا واقعہ نہ تھا) اتنے میں حضرت خزیمہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ بارگاہ میں حاضر ہوئے اور گفتگو سن کر بولے: میں گواہی دیتا ہوں کہ تو نے حضور اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے ہاتھ گھوڑا بیچا ہے۔ رسولُ اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’تم تو موقع پر موجود ہی نہیں تھے، پھر تم نے گواہی کیسے دی؟
عرض کی: یا رسولَ اللہ!صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، میں حضور کی تصدیق سے گواہی دے رہا ہوں اور ایک روایت میں ہے کہ ’’میں حضور اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے لائے ہوئے دین پر ایمان لایا ہوں اور یقین جانا کہ حضور حق ہی فرمائیں گے، میں آسمان و زمین کی خبروں پر حضور کی تصدیق کرتا ہوں تو کیا اس اعرابی کے مقابلے میں تصدیق نہ کروں گا۔اس کے انعام میں حضور اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ہمیشہ ان کی گواہی دو مَرد کی گواہی کے برابر فرمادی اور ارشاد فرمایا: ’’خزیمہ جس کسی کے نفع خواہ ضَرر کی گواہی دیں ایک انہیں کی گواہی کافی ہے۔
*( ابو داؤد،کتاب الاقضیۃ،باب اذا علم الحاکم صدق الشاہد الواحد۔۔۔الخ،۳ / ۴۳۱، الحدیث: ۳۶۰۷، معجم الکبیر، خزیمۃ بن ثابت الانصاری۔۔۔ الخ، عمارۃ بن خزیمۃ بن ثابت عن ابیہ، ۴ / ۸۷، الحدیث: ۳۷۳۰)*
*نوٹ:* شرعی احکام میں سیّد المرسَلین صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے اختیارات سے متعلق بہترین معلومات حاصل کرنے کے لئے فتاویٰ رضویہ کی 30 ویں جلد میں موجود اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ کے رسالے ’’مُنْیَۃُ اللَّبِیْب اَنَّ التَّشْرِیْعَ بِیَدِ الْحَبِیْب‘‘ (بیشک شرعی احکام اللہ تعالیٰ کے حبیب صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے اختیار میں ہیں ) کا مطالعہ فرمائیں۔
➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖
*المرتب⬅ قاضـی شعیب رضـا تحسینی امجــدی 📱917798520672+*
➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖
0 تبصرے
اپنا کمینٹ یہاں لکھیں