باسمہ تعالی وبحمدہ والصلوات والتسلیمات علی حبیبہ المصطفے والہ
علامہ کافی مراد ابادی علیہ الرحمہ کا یہ شعر بہت مشہور ہے۔
بلبلیں اڑ جائیں گی سونا چمن رہ جائے گا
بس رسول اللہ کا دین حسن رہ جائے گا
سوال ہے کہ جب تمام بلبل اڑ جائے تو دین حسن کہاں رہ جائے گا؟
کیا چمن کے درختوں پر رہ جائے گا،
یا فضاوں میں؟ پہاڑوں پر رہ جائے گا، یا سمندروں میں؟
او،تلاش کریں کہ دین حسن رہتا کہاں ہے؟ جب چمن اباد تھا تو دین حسن کا محل و مستقر کیا تھا؟
در اصل دین ان عقائد حقہ اور احکام الہیہ کا مجموعہ ہے جو اللہ تعالی کی بارگاہ سے حضور اقدس صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کو عطا ہوئے۔پھر اپ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم سے امت کو ملے۔اس کا محل و مستقر مومن کا قلب ہے تو مومن خواہ چمن میں رہے یا بحکم الہی چمن سے رخصت ہو کر عالم برزخ میں چلا جائے۔دین نبوی مومن کے قلب میں بہر صورت موجود و محفوظ رہتا ہے اور اخروی نعمتیں دائمی اور نوعیت کے اعتبارسے عظیم اور تعداد کے اعتبارسے کثیر ہیں۔اس لئے اپنے دلوں میں موجود دین حسن کا تحفظ کرو۔کیوں کہ اخروی نعمتوں کا مدار اسی دین حسن پر ہے۔
چمن کے بلبلوں کا رنگ بدلتا دیکھ کر تم اپنا رنگ نہ بدلنے لگو۔یہ بلبلیں اج ہیں اور کل نہیں۔خود جب تم چمن سے رخصت ہو جاو گے تو محض تمہارا دین حسن اور تمہارا عمل تمہارے ساتھ جائے گا۔اس لئے کسی کی محبت میں اپنے دین و ایمان کو باطل عقائد اور فاسد اعمال سے مخلوط نہ کرو۔ احباب و متعلقین،استاذ و پیر،یا جو کوئی تم کو دین حسن سے دور کرنا چاہے،تم اس سے دور ہو جاو۔تعلقات بنتے اور بگڑتے ہیں۔یہ فانی تعلقات ہیں۔اپنے دلوں میں اپنے دین کو مستحکم رکھو۔
اپنے دلوں میں دین کو مستحکم رکھنے کے واسطے سب سے اہم نسخہ یہی ہے کہ اس ذات اقدس سے اپنے روابط محبت کو قوی سے قوی تر کرو،جن کے طفیل وہ دین حسن میسر ہوا،جو اخروی نعمتوں کا سرچشمہ ہے۔جب ان کی محبت مستحکم ہو جائے گی تو کسی کے بہکاوے کا اثر نہیں ہو گا۔کیوں کہ کسی کے بہکاوے میں ادمی اسی وقت مبتلا ہوتا ہے جب کوئی غرض دنیاوی ہو،تو حق کو حق جان کر بھی غرض دنیاوی کے سبب باطل کو اختیار کر لیتا ہے۔لیکن جب اپ نے اس دنیا کو ایک سونا چمن اور فانی وطن تسلیم کر لیا ہے تو فانی نعمتوں کے حصول کے لئے دائمی نعمتوں کو ترک کرنے کا فیصلہ نہیں کر سکو گے اور اپنے ایمان و عقیدے پر مضبوطی سے قائم رہو گے۔
اسی طرح انسان اپنے اس پاس کے احباب و متعلقین یا پیر و استاذ کی محبت میں ایسا مستغرق ہو جاتا ہے کہ اس کی ہر بات پر امنا و صدقنا کہتا ہے۔جب اپ نے اپنی محبتوں کا عظیم حصہ حضور اقدس صلی اللہ تعالی علیہ وسلم سے منسلک کر دیا ہے تو نہ کسی سے اپ کو اندھی عقیدت ہے۔نہ اپ اس کی ہر بات پر انکھیں موند کر امنا و صدقنا کہیں گے۔پس حب مصطفوی اور تصور نبوی اپ کی دستگیری کرے گی اور اپ کسی کے بہکاوے میں مبتلا نہیں ہو سکیں گے۔
ہماری تحریر کا وہی مقصد ہے جو اپ سمجھ رہے ہیں یعنی حضور اقدس صلی اللہ تعالی علیہ وسلم سے بے انتہا محبت کی جائے اور دوسروں سے اس ذات پاک سے کم محبت یعنی محدود محبت کی جائے۔میں تو اسی طرف بلا رہا ہوں جس کا بیان حدیث نبوی میں ایا کہ سب سے زیادہ محبت اس ذات اقدس سے کی جائے جن کے طفیل ہمیں وہ دین حسن نصیب ہوا،جو اخروی نعمتوں،بلکہ دنیاوی نعمتوں سے بھی سرفرازی کا سرچشمہ اور سبب ہے۔
اب اگر کوئی پیر و استاذ یا دوست و رشتہ دار خود سے بے انتہا محبت کی دعوت دیتا ہے یا ایسی خواہش رکھتا ہے تو اس سے حدیث مصطفوی کا معنی دریافت کرو،جس میں سب سے زیادہ محبت حضور اقدس صلی اللہ تعالی علیہ وسلم سے کرنے کا حکم ایا۔
اپنی محبت میں فنا ہونے کی دعوت دینے والا پیر ہو یا استاذ،اس کی نیت صحیح معلوم نہیں ہوتی۔اس مادی دنیا میں پیر خود ہی اپنے ارباب ثروت اور اصحاب دولت مریدوں کا بظاہر پیر اور باطن میں مرید ہوتا ہے۔یہ فیض دیتے نہیں،بلکہ مریدوں سے فیض لیتے ہیں۔ایسے پیروں اور استاذوں کی محبت میں فنا ہونا یقینا نقصان دہ ہے۔یہ لوگ ما و شما کو منہ بھی نہیں لگاتے۔بادل ناخواستہ قدم بوسی کی اجازت دیتے ہیں۔
آجاو اسی حبیب اعظم کی طرف جن کے توسل سے سب کچھ ملا اور ان شاء اللہ تعالی سب کچھ ملے گا۔
قبر میں بھی انہیں کی جلوہ گری۔حشر میں ان کی شفاعت عظمی۔حوض کوثر پر وہی ہوں گے۔باب جنت وہی کھلوائیں گے۔ہر جگہ انہیں کے جلوے ہیں۔
اگر کوئی پیر و استاذ اسی ذات اقدس کی طرف تمہیں لے جائے تو اس کے پیچھے جاو۔اگر راستہ بدل دے تو رک جاو اور ادھر کا رخ کر لو جہاں دین حسن میں استحکام فراہم ہو،اور حب مصطفوی کی دولت لازوال سے سرفرازی ہو۔جہاں محبت الہی اور حب مصطفوی کے جام پلائے جائیں۔واللہ الموفق والہادی
طارق انور مصباحی
مدیر۔ماہنامہ پیغام شریعت دہلی
جاری کردہ۔30جولائی2020
0 تبصرے
اپنا کمینٹ یہاں لکھیں