وَأَبْيَضَ يُسْتَسْقَي الْغَمَامُ بِوَجْهِهِ ثِمَالُ الْيَتَامَي عِصْمَةٌ لِلأَرَامِلِ

وَقَالَ عُمَرُ بْنُ حَمْزَةَ : حَدَّثَنَا سَالِمٌ، عَنْ أَبِيْهِ : رُبَّمَا ذَکَرْتُ قَوْلَ الشَّاعِرِ، وَاَنَا أَنْظُرُ إلَي وَجْهِ ﷺ يَسْتَسْقِي، فَمَا يَنْزِلُ حَتَّي يَجِيْشَ کُلُّ مِيْزَابٍ.

وَأَبْيَضَ يُسْتَسْقَي الْغَمَامُ بِوَجْهِهِ
ثِمَالُ الْيَتَامَي عِصْمَةٌ لِلأَرَامِلِ

*وَهُوَ قَوْلُ أَبِي طَالِبٍ. رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ وَابْنُ مَاجَه وَأَحْمَدُ*

*حضرت عبداللہ بن دینار ؓفرماتے ہیں کہ میں نے حضرت عبد اللہ بن عمرؓ کو یہ شعر پڑھتے ہوئے سنا:*

*’’وہ گورے (مکھڑے والے ﷺ) جن کے چہرے کے توسل سے بارش مانگی جاتی ہے، یتیموں کے والی، بیواؤں کے سہارا ہیں۔‘‘*

*حضرت عمر بن حمزہ کہتے ہیں کہ حضرت سالم (بن عبد ﷲ بن عمرؓ) نے اپنے والد ماجد سے روایت کی کہ کبھی میں شاعر کی اس بات کو یاد کرتا اور کبھی حضور نبی اکرم ﷺکے چہرہ اقدس کو تکتا کہ اس (رخِ زیبا) کے توسل سے بارش مانگی جاتی تو آپ ﷺ(منبر سے) اُترنے بھی نہ پاتے کہ سارے پرنالے بہنے لگتے۔*

*مذکورہ بالا شعر حضرت ابوطالب کا ہے۔*

*(الحديث رقم 58 : أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب : الاستسقاء، باب : سُؤَالِ النَّاسِ الإِمَامَ الإستسقاءَ إذا قَحَطُوا، 1 / 342، الرقم : 963، وابن ماجه في السنن، کتاب : إقامة الصلاة والسنة فيها، باب : ماجاء في الدعاء في الاستسقاء، 1 / 405، الرقم : 1272، وأحمد بن حنبل في المسند، 2 / 93، الرقم : 5673، 26، والبيهقي في السنن الکبري، 3 / 352، الرقم : 6218 - 6219، والخطيب البغدادي في تاريخ بغداد، 14 / 386، الرقم : 7700، والعسقلاني في تغليق التعليق، 2 / 389، الرقم : 1009، وابن کثير في البداية والنهاية، 4 / 2، 471، والمزي في تحفة الأشراف، 5 / 359، الرقم : 6775.)*📖

ایک تبصرہ شائع کریں

1 تبصرے

  1. اس شعر کے ترجمہ میں جو لفظ "*مکھڑے*" استعمال کیا گیا ہے کیا اس لفظ کے ساتھ چہرہ والضحی کو تعبیر کرنا کیا درست ہے ؟؟؟ کیوں کہ لفظ مکھڑے یہ پنجابی زبان کا لفظ ہے اور تصغیر ہے
    برائے مہربانی ایک بار توجہ دیں

    جواب دیںحذف کریں

اپنا کمینٹ یہاں لکھیں