*تعلیماتِ تحفظِ ناموسِ رسالتﷺ*
اعلیٰ حضرت سیدنا الشاہ امام احمد رضا قدس سرہٗ العزیز لکھتے ہیں:
جب سورۂ "اذاجاء نصراللہ" حضوراقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے مرض وصال شریف میں نازل ہوئی،حضورفورابرآمدہوۓ۔پنجشنبہ(جمعرات)کادن تھا،منبرپرجلوس فرمایا،بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ کوحکم دیاکہ مدینہ میں نداکردو،لوگو! رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی وصیت سننے چلو،یہ آواز سنتے ہی سب چھوٹے بڑے جمع ہوئے،گھروں کے دروازے ویسے ہی کھلے چھوڑدیۓ،یہاں تک کہ کواریاں پردوں سے نکل آئیں،حدیہ کہ مسجدشریف حاضرین پرتنگ ہوئی اور حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم فرمارہے ہیں: اپنے پچھلوں کے لئے جگہ وسیع کرو،اپنے پچچھلوں کے لئے جگہ وسیع کرو۔پھرحضورپرنورصلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم منبرپرقیام فرماکرحمدوثناۓ الہی بجالاۓ،انبیاعلیہم السلام پردرودبھیجی،پھرارشادہوا:
*میں محمد بن عبد اللہ بن عبدالمطلب بن ہاشم عربی صاحب حرم محترم ومکہ معظمہ ہوں،میرے بعد کوئی نبی نہیں۔*
اعلیٰ حضرت قدس سرہٗ العزیز لکھتے ہیں:
"اللہ اللہ!ایک وہ دن تھاکہ مدینہ طیبہ میں حضورپرنورصلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی تشریف آوری کی دھوم ہے ۔زمین وآسمان میں خیرمقدم کی صدائیں گونج رہی ہیں،خوشی وشادمانی ہے کہ درودیوارسے ٹپکی پڑتی ہے،مدینے کے ایک ایک بچے کا دمکتا چہرہ اناردانہ ہورہاہے،باچھیں کھلی جاتی ہیں،دل ہیں کہ سینوں میں نہیں سماتے،سینوں پرجامے تنگ،جاموں میں قباۓ گل کارنگ، نورہےکہ جھماجھم برس رہاہے،فرش سے عرش تک نورکابقعہ بناہے،پردہ نشین کواریاں شوق دیدار محبوب کردگارمیں گاتی ہوئی باہر آئی ہیں۔"
*طلع البدر علینا من ثنیات الوداع۔وجب الشکرعلینامادعاللہ داع*
بنی نجارکی لڑکیاں کوچہ کوچہ محونغمہ سرائ ہیں۔
*نحن جوارمن بنی النجار۔یاحبذامحمدمن جار*
اعلیٰ حضرت رضی اللہ تعالیٰ عنہ لکھتے ہیں:
ایک دن آج ہے کہ اس محبوب کی رخصت ہے،مجلس آخری وصیت ہے،مجمع توآج بھی وہی ہے،بچوں سے بوڑھوں تک،مردوں سے پردہ نشینوں تک،سب کاہجوم ہے،نداۓ بلال سنتے ہی چھوٹے بڑے سینوں سے دل کی طرح بے تابانہ نکلے ہیں،شہربھرنے مکانوں کے دروازے کھلے چھوڑدۓ ہیں،دل کمہلائے،چہرے مرجھائے،دن کی روشنی دھیمی پڑگئ کہ آفتاب جہاں تاب کی وداع نزدیک ہے،آسمان پژمردہ،زمین افسردہ،جدھردیکھوسناٹے کاعالم،اتناازدحام اورہوکامقام،آخری نگاہیں اس محبوب کے روۓ حق نماتک کس حسرت ویاس کے ساتھ جاتی اورضعف نومیدی سے ہلکان ہو کربیخودانہ قدموں پرگرجاتی ہیں،فرط ادب سے لب بندمگردل کے دھوئیں سے یہ صدا بلند۔
*کنت السوادلناظری۔فعمی علیک الناظر۔من شاء بعدک فلیمت۔فعلیک کنت احاذر*
اللہ کامحبوب،امت کاراعی،کس پیارکی نظرسے اپنی پالی ہوئی بکریوں کو دیکھتا اورمحبت بھرے دل سے انہیں حافظ حقیقی کے سپردکررہاہے۔شان رحمت کوان کی جدائی کا غم بھی ہےاور فوج فوج امنڈتے ہوۓآنے کی خوشی بھی،کہ محنت ٹھکانے لگی،جس خدمت کوملک العرش نے بھیجا تھا باحسن الوجوہ انجام کو پہنچی۔
نوح کی ساڑھے نوسوبرس وہ سخت مشقت اور صرف پچاس شخصوں کو ہدایت،یہاں بیس تئیس سال میں بحمداللہ یہ روزافزوں کثرت۔کنیزوغلام جوق جوق آرہے ہیں،جگہ باربارتنگ ہوتی جاتی ہے،دفعہ دفعہ ارشاد ہوتاہے :آنے والوں کو جگہ دو،آنے والوں کو جگہ دو۔
اس عام دعوت پر جب یہ مجمع ہولیا ہے سلطان عالم نے منبراکرم پر قیام کیا ہے۔بعدحمدوصلاۃاپنے نسب ونام وقوم ومقام وفضائل عظام کابیان ارشاد ہوا ہے۔
*مسلمانو!خداراپھرمجلس میلاداورکیاہے؟وہی دعوت عام،وہی مجمع تام،وہی منبروقیام،وہی بیان فضائل سیدالانام،علیہ وعلی آلہ الصلاۃ والسلام،مجلس میلاداورکس شئ کانام؟مگرنجدی صاحبوں کو ذکرمحبوب مٹانے سے کام"*
(جزاء اللّہ عدوہ بابائہ،ص:70.71،رضااکیڈمی،ممبئ)
میلاد النبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم شرک نہیں، ردشرک ہے،مگراسے سمجھنے کے لیے بھی دل میں عشق رسول،تعظیم رسول،یادرسول صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم چاہیے اس کے بغیر یہ فلسفہ کیسے سمجھ میں آسکتا ہے؟؟
خدابھلاکرے ہمارے محدثین ومفسرین کا،جنہوں نے میلادالنبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے فضائل وبرکات بیان کۓ اورآنے والی نسلوں تک اس مبارک ومشکبارپیغام کو پہنچا کردم لیا۔
برصغیر میں میلاد مصطفیٰ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی مجلسیں سجتی رہی،عشق رسالت مآب کے جام پلاۓ جاتے رہے،کیوں کہ یہی جان ایمان اورکان ایمان ہے اس کے بغیرتو خسران ہی خسران ہے۔
"ایمان یہ کہتا ہے میری جان ہیں یہ"
شیخ عبدالحق محدث دہلوی،شاہ عبد العزیز محدث دہلوی،شاہ عبد الرحیم دہلوی وغیرہم سب کے سب میلادکرتے رہے اوراس کے فضائل و برکات سے شادکام ہوتے رہے،علماۓ حرمین شریفین وغیرہم نے بھی میلادالنبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کااہتمام وانصرام کیا،کسی نے اس جائزومستحسن عمل کو شرک وبدعت سے تعبیرنہیں کیا۔
مگرجب ہندکے چندمنکرین میلادنے اس عظیم الشان،بے مثال،حسنات وبرکات سے بھری ہوئی محفل میلاد مصطفیٰ کو بدعت وخرافات کہا توعشق ومحبت کے امام نے،حب رسول،عشق رسول،تعظیم رسول کے پیغام کو عام وتام کرنےکےلۓ دلائل وشواہدسے مدلل کتابیں لکھیں،فتاوے جاری کئے،اورمیلادالنبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی محبت وعظمت اہل سنت کے سینوں میں ایسی پیداکردی،کہ کسی گمراہ کی گمراہی اثرنہ کرسکے۔
گمراہوں نے جس قدرمیلادکے ردمیں لکھااس سے کئ گنازیادہ امام احمد رضا نے میلادمصطفی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے اثبات وفضائل میں لکھ دیا،آج بھی ان کی تحریریں ،نادرونایاب کتابیں اہل سنت وجماعت کاعظیم سرمایہ ہیں۔
سطوربالامیں آپ نے میلادرسول صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی عظمت پرامام احمد رضا کاایک انوکھااندازواستدلال ملاحظہ کیاجس کی سطرسطرمحبت رسول،ادب رسول،کاآئینہ ہے پڑھتے آنکھیں رواں ہوجاتی ہیں،دل رونے لگتا ہے۔۔ایساعاشق،جس کے قلم کی سلاست و روانی،زبان کی مٹھاس و چاشنی،دلائل کی صلابت وپختگی،انصاف پسند قاری کوایسا مجبور کردیتی ہے کہ اس کاذہن ودماغ معطرہوجاتاہے اوروہ مسرورہوکریہ کہتاہوانظرآتاہے۔
*ملک سخن کی شاہی تم کورضامسلم۔جس سمت آگۓ ہوسکے بٹھادۓ ہیں۔*
جاری۔۔۔۔۔
ترسیل فکر:
*محمد اسلم رضا قادری اشفاقی*
{رکن: سنی ایجوکیشنل ٹرسٹ}
باسنی ناگور شریف۔
٢ربیع الاول شریف ١٤٤٢ھ
19اکتوبر2020
0 تبصرے
اپنا کمینٹ یہاں لکھیں