عناصراربعہ کا کفراورمفسر و نص کا تعین ‏

باسمہ تعالیٰ وبحمدہ والصلوٰۃوالسلام علیٰ رسولہ الاعلیٰ وآلہ

عناصراربعہ کا کفراورمفسر و نص کا تعین 

سوال:بتایا جاتا ہے کہ اشخاص اربعہ کی کفریہ عبارتیں کفری معنی میں متعین او ر مفسر ہیں اور ناقابل تاویل ہیں۔کیا کسی عبارت کو کسی مفہوم میں مفسرقرار دینے میں خطا نہیں ہوسکتی؟ممکن ہے کہ وہ عبارتیں کفری معنی میں متعین ومفسرنہ ہوں،اور وہاں تاویل صحیح کی کوئی گنجائش موجود ہو،جو آج تک کسی کے ذہن میں نہ آسکی ہو؟

جواب:مفسر کے تعین میں خطا کا امکان یقینا موجود ہے،لیکن اس کا تعین محال نہیں۔

دودھ ایک لیٹر ہے یا نہیں؟اس کے تعین میں خطا کا امکان موجود ہے،لیکن تعین مشکل نہیں۔جو پیمانہ دودھ کی پیمائش کے لیے ہے،اس سے ناپ لینے پر یہ بات بدیہی طورپرثابت ہوجاتی ہے کہ دودھ ایک لیٹر ہے۔

اسی طرح مفسر کے تعین کا پیمانہ یہ ہے کہ وہاں تاویل بالدلیل اور تاویل بلا دلیل کی گنجائش نہ ہو۔
 اب رہی تاویل باطل کہ اس کا عبارت سے کسی طرح کوئی تعلق نہ ہو،اورجب بھی اس تاویل باطل کوقبول کیا جائے تو کلام کا اصل مفہوم باطل ہوجائے تو ایسی تاویل درحقیقت تحریف وتبدیل ہے۔اس کا نام تاویل باطل اور تاویل متعذرہے۔یہ فقہا ومتکلمین کسی کے یہاں مقبول نہیں۔

قرآن مجید کی مفسرآیات مقدسہ اور مفسراحادیث متواترہ کے مفسر ہونے میں کسی اہل حق(اہل سنت وجماعت) کا اختلاف نہیں ہوتا۔اس سے واضح ہوتا ہے کہ مفسر کا تعین بدیہی ہے،نظری نہیں۔

مفسر آیت قرآنیہ یا مفسر حدیث متواتر سے جو ثابت ہوتا ہے،وہ ضروری دینی ہوتا ہے۔ضروری دینی میں کسی اہل حق کا اختلاف نہیں ہوتا ہے۔

ضروری دینی کا ثبوت مفسر آیت قرآنیہ اور مفسر حدیث متواتر،اسی طرح اجماع متواتر اورعقل صیح سے ہوتا ہے۔اگر کوئی کسی مفسر آیت اور مفسر حدیث متواتر کو مفسر نہیں مانتا ہے تووہ اس سے ثابت ہونے والے معنی ومفہوم کو ضروری دینی نہیں مانے گا،اور ضروری دینی کو ضروری دینی نہیں ماننے والے کی دوصورت ہے۔

(الف)اگر وہ اس ضروری دینی کا انکار کرتا ہے،یا تاویل کے ذریعہ دوسرا معنی بتا تا ہے تووہ کافر ہے۔

(ب)اگر اس مفسر کے مفہوم کومانتا ہے،لیکن اس کو ضروری دینی نہیں مانتا ہے تووہ گمراہ ہے۔ 
مندرجہ بالا تشریح سے واضح ہوگیا کہ کسی اہل حق کا اختلاف کسی مفسر کے مفسر ہونے میں نہیں ہوتا ہے۔

مفسر کے بعد حنفی اصول فقہ میں نص کا درجہ ہے۔اس میں بھی اہل حق کا اختلاف نہیں ہوتا۔

 مفسر کو متکلمین قطعی بالمعنی الاخص کہتے ہیں اور نص کو قطعی بالمعنی الاعم۔مفسر سے جوثابت ہو،وہ ضروری دینی ہے،اور نص سے جو ثابت ہو،وہ ضروریات اہل سنت میں سے ہوتا ہے۔ضروریات دین وضروریات اہل سنت میں اہل حق (اہل سنت وجماعت) کااختلاف نہیں ہوتا۔

جب قطعی بالمعنی الاعم کے قطعی بالمعنی الاعم ہونے(یعنی نص کے نص ہونے) میں بھی اہل حق کا اختلاف نہیں ہوتا تو پھر قطعی بالمعنی الاخص کے قطعی بالمعنی الاخص ہونے(یعنی مفسر کے مفسر ہونے)میں اختلاف کیسے ہوسکتا ہے۔اس سے واضح ہوگیا کہ کسی عبارت کا مفسر یا نص ہونا ان امور سے نہیں جو اہل حق کے یہاں مختلف فیہ ہوجائے۔

فرض اعتقادی قطعی بالمعنی الاعم ہوتا ہے۔ اس قطعی بالمعنی الاعم کی قطعیت میں اہل علم کا اختلاف نہیں ہوتا۔ 

امام احمدرضاقادری نے فرض اعتقادی کے بارے میں تحریرفرمایا:
اَلاَمرُالَّذِی اَذعَنَ المُجتَہِدُ طَلَبَہ جَزمِیًّا وَحَتمِیًّا-فان کان ذلک الاذعان فی درجۃ الیقین المعتبرفی اصول الدین-وعلٰی ذلک التقدیرلا تکون المسئلۃ الامجمعًا عَلَیہَا بین ائمۃ الدین-لان ما فیہ خلافٌ وَلَو مَرجُوحًا لَا یَصِلُ الٰی دَرجۃ ہذا الیقین-فہو فرض اِعتِقَادِیٌّ-وَ مُنکِرُہ کَافِرٌ مُطلَقًا عِندَ الفُقَہَاءِ وَکَافِرٌ عند المتکلمین اذا کَانَتِ المَسءَلَۃُ من ضروریات الدین-وَاِنَّمَا ہٰذَا اَحوَطُ وَاَسَدُّ عند المحققین وَمُعَوَّلٌ وَمُعتَمَدٌ عِندَ اَسَاتِذَتِنَا الکِرَام(فتاویٰ رضویہ ج۱ص۶-رضا اکیڈمی ممبئ)

توضیح:جب فرض اعتقادی یعنی قطعی بالمعنی الاعم میں ائمہ کرام کا اختلاف نہیں ہوتا تو ضروریات دین میں بھی یقینی طورپر اختلاف نہیں ہوگا،کیوں کہ ضروریات دین قطعی بالمعنی الاخص ہوتی ہیں۔ قطعی بالمعنی الاخص میں جانب موافق قطع ویقین کے ساتھ ثابت ہوتی ہے،اور اس کی جانب مخالف قطع ویقین کے ساتھ باطل ہوتی ہے۔دونوں جانب میں خلاف کا احتمال بعید بھی نہیں ہوتا،یعنی جانب موافق کے ثبوت میں عدم ثبوت کا احتمال بعید بھی نہ ہو، اور جانب مخالف کے بطلان میں عدم بطلان کا احتمال بعید بھی نہ ہو،یہی قطعی بالمعنی الاخص ہے۔
بلفظ دیگر قطعی بالمعنی الاخص میں جانب موافق واجب الثبوت ہوتی ہے اور جانب مخالف محال ہوتی ہے،یاتومحال بالذات ہوگی،یا محال بالغیر۔جب ایسا یقین پالیا جائے تو کسی اہل حق کواختلاف کی گنجائش نہیں رہتی، اوراہل باطل واہل تعصب کے اختلاف کا اعتبار نہیں کیا جاتا،جیسا کہ شرح عقائد نسفی میں سوفسطائیہ، سمنیہ وغیرہ کے اختلاف کا اعتبار نہیں کیا گیا۔

 قطعی بالمعنی الاعم وہ ہے جس میں جانبین سے احتمال قریب معدوم ہو،یعنی جانب موافق کے ثبوت میں عدم ثبوت کا احتمال قریب نہ ہو،اور جانب مخالف کے بطلان میں عدم بطلان کا احتمال قریب نہ ہو،یہی قطعی بالمعنی الاعم ہے۔

ائمہ مجتہدین واہل علم کا اس میں بھی اختلاف نہیں ہوتا ہے۔

طارق انور مصباحی
 
 جاری کردہ:19:اکتوبر 2020

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے