Header Ads

حضرت خواجہ بہاء الدین نقشبند رحمۃ اللہ علیہ

*📚 « مختصــر ســوانح حیــات » 📚*
-----------------------------------------------------------
*🕯 حضرت خواجہ بہاء الدین نقشبند رحمۃ اللہ علیہ🕯*
➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖

*نام و نسب:*
*اسم گرامی:* سید محمد۔
*لقب:* بہاء الدین، نقشبند۔
*مکمل نام اس طرح ہے:* خواجۂ خواجگان خواجہ سید محمد بہاء الدین نقشبند رحمۃ اللّٰه علیہ۔
آپ کا خاندانی تعلق ساداتِ کرام سے ہے۔

*تاریخِ ولادت:* آپ کی ولادت باسعادت 4/محرم الحرام 718ھ مطابق 7/مارچ 1318ء کو ’’قصر عارفاں‘‘ (جو بخارا کے مضافات میں واقع ہے) میں ہوئی۔

*قبل از ولادت بشارت:* پیدائش سے پہلے حضرت بابا محمد سماسی رحمۃ اللّٰه علیہ نے آپ کے تولد مبارک کی بشارت دی تھی۔ تولد سے تیسرے روز آپ کے جد امجد آپ کو حضرت بابا قدس سرہ کی خدمت میں لے گئے۔ حضرت بابا نے آپ کو فرزندی میں قبول فرمایا اور اپنے خلیفہ سید امیر کلال رحمۃ اللّٰه علیہ سے آپ کی تربیت کے بارے میں عہد لیا۔

*تحصیلِ علم:* بچپن سے ہی آپ کی پیشانی سے آثارِ ولایت ظاہر تھے۔ نہایت ہی ذہین و فطین تھے۔ ابتدائی تعلیم و تربیت اپنے گھر پر ہوئی۔ پھر حضرت خواجہ محمد سماسی رحمۃ اللّٰه علیہ کے عہد کے مطابق آپ کی مکمل تعلیم و تربیت ان کے خلیفہ حضرت سید امیر کلال رحمہ اللّٰه کے ہاں ہوئی۔ ابتداءً علوم ِ ظاہریہ کی تکمیل کروائی۔ جب اس میں کامل ہوگئے تو پھر باطنی علوم کی منازل طے کروائیں۔ اسی طرح بچپن میں ہی کاملین میں شمار ہونے لگا تھا۔ حضرت امیر کلال رحمہ اللّٰه کے علاوہ حضرت خواجہ عبدالخالق غجدوانی رحمۃ اللّٰه علیہ نے بھی آپ کی تربیت فرمائی۔ یہ تربیت اویسی طریقے پر ہوئی تھی۔

*بیعت و خلافت:* سلسلہ عالیہ نقشبندیہ میں آپ شمس الدین حضرت سید امیر کلال رحمہ اللّٰه سے بیعت ہوئے، اور خرقۂ اجازت حاصل کیا۔

*سیرت و خصائص:* قطب الاقطاب، فخر الامت، بانیِ سلسلہ عالیہ نقشبندیہ، خواجۂ خواجگان خواجہ سید محمد بہاء الدین نقشبند رحمۃ اللّٰہ علیہ۔ 
آپ کا شمار اکابر اولیاء کرام، اور احبارِ امت میں ہوتا ہے۔ آپ امام طریقت اور اپنے وقت کے عظیم مصلح تھے۔ آپ کی پُر اثر اور باکمال شخصیت کی بدولت، کمالِ ظاہری و کمالِ باطنی، اور سلسلہ عالیہ کی ہمہ جہت ترقی اور روحانی تربیت کے منفرد انداز نے سلسلہ خواجگان کو آپ کے نام سے منسوب کردیا اور وہ سلسلہ عالیہ نقشبندیہ کے نام سے آفاق میں موسوم ہوا۔

تعلق باللہ، سنتِ رسول اللہ، محبتِ صحابہ و اہلبیت و اولیاء، تزکیۂ نفس، اور بالخصوص اتباعِ شریعت، معرفتِ الہی اور مشاہدۂِ حق کے ساتھ ساتھ معاشرتی و اجتماعی اصلاح، خدمتِ خلق، قیامِ عدل کی کوششیں اور لوگوں کو ظلم و جور سے بچانے کی مساعی اس سلسلہ کے مزاج میں شروع سے ہی موجود تھی، آپ نے اس مزاج میں اور پختگی پیدا کی۔ چنانچہ آنے والے ادوار میں اس منہج پر چل کر معاشرتی و عوامی مسائل کی طرف گہری دل چسپی لی اور جہاں تک ہو سکا حکمرانوں سے بہبود وفلاحِ خلائق اور کتاب وسنت کی ترویج کا کام لیا۔ یہی وجہ ہے کہ مخلوق خدا جوق در جوق ان کے حلقۂ ارادت میں شامل ہوکر کافر دولتِ ایمان اور فساق و فجار دولتِ تقویٰ سے مالا مال ہوتے تھے۔ ان نفوس قدسیہ کی بدولت اسلام کو عروج حاصل ہوا۔ اسلام ان گدڑی نشینوں کی سادہ اور پر اثر تبلیغ سے تمام بر اعظموں میں خوب پھیلا۔ اُس وقت آپ کے معاصرین میں حضرت شاہِ ہمداں رحمہ اللّٰه کشمیر کے عارضی نظاروں سے ہٹاکر حسن حقیقی کی طرف بلا رہےتھے، اور حضرت مخدوم جہانیاں رحمۃ اللّٰه علیہ ہند اور سندھ میں ہندوؤں کو مئے وحدت پلا رہے تھے۔ 
اسی طرح وسط ایشیاء میں حضرت خواجہ نقشبند رحمۃ اللّٰہ علیہ معرفت کا صور پھونک کر نئی زندگی عطاء کر رہےتھے۔لوگ ان کی روح پر آواز پر لبیک کہتے ہوئے جامِ وحدت سے مخمور ہوکر حقیقی منعم کی بارگاہ کے مقبول بنتے گئے۔

*روحانی مقام:* آپ نے فرمایا کہ منازل و مقامات کے طے کرنے میں حضرت حسین بن منصور حلاج کی صفت و مرتبہ میرے وجود میں ظاہر ہوئی۔ نزدیک تھا کہ وہ آواز جوان سے ظہور میں آئی تھی مجھ سے بھی ظاہر ہوجاتی ۔ بخارا میں ایک سولی تھی۔ مگر دونوں دفعہ میں اپنے آپ کو اس سولی کے نیچے لے گیا اور کہا کہ تیری جگہ یہی سولی ہے۔ عنایت الٰہی سے میں اس مقام سے عبور کر گیا۔ فرمایا کہ اویس قرنی رضی ﷲ عنہ کی روحانیت کا اثر علائق ظاہری و باطنی سے تجرد کلی اور انقطاع تمام ہے اور امام محمد علی حکیم ترمذی کی روحانیت کا اثر بے صفتی محض ہے۔ 
پھر فرمایا کہ میں نے سلطان بایزید رحمۃ اللہ علیہ اور شیخ جنید رحمۃ اللّٰه علیہ اور شیخ شبلی اور منصور حلاج رحمۃ اللّٰه علیہم اجمعین کے مقامات کی سیر کی۔ جہاں وہ پہنچے تھے میں بھی وہاں پہنچا یہاں تک کہ صفاتِ انبیاء کی سیر میں ایسی بارگاہ میں پہنچا کہ جس سے بڑی کوئی بارگاہ نہ تھی۔ 
میں نے جان لیا کہ یہ بارگاہِ محمدی ہے علیہ الصلوٰۃ والسلام۔ سلطان العارفین جب اس بارگاہ تک پہنچے تھے تو انہوں نے چاہا کہ سیر کرنے میں آنحضرتﷺ کی مماثلت کریں۔ اس لیے ان کی پیشانی پر دست رد مارا گیا۔ مگر میں نے ایسی گستاخی نہ کی بلکہ سر نیاز و تعظیم آپ کے آستانہ عزت و احترام پر رکھا۔

*نظرِ عنایت کی برکت:* حضرت علاء الحق والدین قدس سرہ فرماتے تھے کہ ہمارے مرشد حضرت خواجہ کی نظر عنایت کی برکت سے طالبوں کا یہ حال تھا کہ قدم اول میں سب سعادت مراقبہ سے مشرف ہوجاتے تھے۔ جب نظر عنایت زیادہ ہوتی تو درجہ عدم کو پہنچ جاتے۔ جب اس سے بھی زیادہ نظر عنایت ہوتی تو مقام فناء کو پہنچ جاتے اور فانی ازخود باقی بحق ہوجاتے۔ اس حال میں حضرت خواجہ یوں فرمایا کرتے کہ ہم تو دولتِ وصال کے واسطہ ہیں۔ اربابِ تکمیل و ایصال کا طریقہ یہ ہے کہ بچوں کو طریقت کے گہوارے میں لٹاتے ہیں اور تربیت کے پستان سے دودھ پلاتے ہیں۔ یہاں تک کہ حد فصال کو پہنچ جاتے ہیں۔ اس کے بعد ان سے دودھ چھڑاتے ہیں اور بارگاہِ احدیت کا مَحرم بناتے ہیں۔ تاکہ حضرت عزت جل احسانہ سے بلا واسطہ فیض حاصل کرسکیں۔

*فقر و ایثار:* حضرت خواجہ فقیر تھے اور ہمیشہ فقر کی تائید کیا کرتے تھے۔ فرماتے تھے کہ ہم نے جو کچھ پایا ہے محبت فقر سے پایا ہے۔ آپ کے دولت خانہ موسم سرما میں خاشاک مسجد ہوا کرتا اور گرما میں پرانا بوریا۔ ہر چیز بالخصوص طعام میں حلال کی رعایت اور شبہات سے اجتناب میں نہایت احتیاط فرمایا کرتے تھے۔ اپنی مجلس میں ہمیشہ اس حدیث نبوی کو بیان فرمایا کرتے تھے: ان العبادۃ عشرۃ اجزاء تسعۃ منھا طلب الحلال و جزء واحد منھا سائر العبادات۔
عبادت دس جزء ہیں۔ جن میں سے نو طلب حلال ہیں اور ان میں سے ایک باقی عبادات ہیں۔باوجود کمال فقر کے آپ میں ایثار اعلیٰ درجہ کا تھا۔ جو شخص آپ کی خدمت میں ہدیہ لاتا۔ اتباعِ سنت کے طور پر آپ اسی قدر زیادہ اس کے ساتھ احسان کرتے۔ اگر کوئی دوست یا مہمان آپ کے درِ دولت پر آتا۔ جب شام ہوتی کھانا جس میں کچھ تکلف ہوتا لاتے اور اس کے آگے رکھتے۔ اور ایک طرف چراغ رکھ دیتے تاکہ وہ کھانا کھالے۔ اگر وہ سو جاتا اور ہوا سرد ہوتی تو خواہ گھر میں فقط ایک کپڑا ہوتا اس کو مہمان پر ڈال دیتے۔ آپ کا گذارہ زراعت سے تھا۔ ہر سال کچھ جو اور کچھ ماش بوتے۔ بیج۔ زمین اور بیلوں سے کام لینے میں بڑی احتیاط کیا کرتے۔ اکابر و علماء جو حاضر خدمت ہوتے آپ کا طعام بطور تبرک کھایا کرتے۔ شہر میں آپ کا کوئی مکان نہ تھا۔ کرایے کےمکان میں رہتےتھے۔ آپ کے ہاں کوئی خادم یا خادمہ نہ تھی۔ جب وجہ دریافت کی گئی تو فرمایا۔ بندگی با خواجگی راست نمے آید۔

*ملفوظاتِ عالیہ:* آپ کے تمام ملفوظاتِ عالیہ آب زر سے تحریر کرنے کے قابل ہیں۔ ان میں سے چند تحریر کیے جاتے ہیں۔

1۔ہمارا طریقہ نوادر سے ہے اور محکم دست آویز ہے۔ سنت مصطفےٰ ﷺ کے دامن کو پکڑنا اور آپ کے صحابہ کرام کے آثار کی پیروی کرنا ہے۔ اس راہ میں ہمیں بفضلِ الٰہی لایا گیا ہے۔ اول سے آخر تک ہم نے یہی فضلِ الٰہی مشاہدہ کیا ہے نہ کہ اپنا عمل۔ اس طریقہ میں تھوڑے سے عمل سے بہت فتوح حاصل ہوتی ہیں۔ مگر سنت کی متابعت کی رعایت بڑا کام ہے۔
2۔ جس شخص نے اللہ کو پہچان لیا اُس پر کوئی شے پوشیدہ نہیں رہتی۔ حضرت خواجہ علاؤ الدین رحمہ اللّٰه فرماتے تھے کہ اس کلمہ قدسیہ سے حضرت خواجہ کی مراد یہ ہے کہ عارف پر اشیاء کا ظاہر ہونا اس کی توجہ پر موقوف ہے۔
3۔ حدیث میں ہے: ’’الکاسب حبیب اللہ‘‘ یعنی کسب کرنے والا اللہ کا حبیب ہے۔ اس حدیث میں کسب ِرضا کی طرف اشارہ ہے نہ کہ کسب ِدنیا کی طرف۔
4۔جو شخص اپنے آپ کو بکلیت خود حضرت حق تعالیٰ و تقدس کے سپرد کردے۔ اس کا غیر حق جل وعلا سے التجا کرنا شرک ہے۔ یہ شرک عام لوگوں کے لیے معاف ہے۔ مگر خواص کے لیے معاف نہیں۔
5۔تو شمع کی طرح بن۔ تو شمع کی طرح نہ بن۔ شمع کی طرح بن بایں معنیٰ کہ تو دوسرے کو روشنی پہنچائے۔ اور شمع کی طرح نہ بن بایں معنیٰ کہ تو اپنےآپ کو تاریکی میں رکھے۔
6۔جس شخص نے کسی روز ہمارا جوتا بھی سیدھا کیا ہے ہم اس کی شفاعت کریں گے۔
7۔درویش کو چاہیے کہ جو کچھ کہے حال سے کہے۔ مشائخ طریقت کا قول ہے کہ جو شخص ایسے حال سے کلام کرتا ہے جو اس میں نہیں حق تعالیٰ کبھی اس کو اس حال کی سعادت نہ بخشے گا۔
8۔حضرت پیغمبر علیہ الصلوٰۃ والسلام کی دعا کی برکت سے مسخِ صورت اس امت سے مرتفع ہے مگر مسخِ باطن باقی ہے۔
9۔اولیا کو اسرار پر آگاہی ہے اور آگاہی دی جاتی ہے لیکن وہ بغیر اجازت ان کو ظاہر نہیں کرتے۔ کہتے ہیں کہ جس کے پاس جو کچھ ہوتا ہے وہ اسے چھپاتا ہے اور جس کے پاس کچھ نہیں ہوتا وہ شور مچاتا ہے۔ ’’اسرار کا چھپانا ابرار کا کام ہے‘‘۔ 
10۔لوگوں نے حضرت خواجہ قدس سرہ سے کرامت طلب کی۔ آپ نے فرمایا کہ ہماری کرامت ظاہر ہے کہ باوجود اتنے گناہوں کے ہم روئے زمین پر چل سکتے ہیں۔

*تاریخِ وصال:* خواجہ علاؤ الدین عطار رحمۃ اللّٰه علیہ کا بیان ہے کہ حضرت خواجہ کے انتقال کے وقت ہم سورہ یٰسین پڑھ رہے تھے۔ جب سورت نصف ہوئی تو انوار ظاہر ہونے لگے۔ پھر ہم کلمہ پڑھنے میں مشغول ہوگئے۔ اس کے بعد حضرت خواجہ کا سانس منقطع ہوگیا۔ حضرت کی عمر شریف پورے تہتر سال کی تھی۔ اور چوہترویں سال میں پیر کی رات 3/ ربیع الاول 791ھ میں وفات پائی۔ مزار مبارک ’’قصر ِعارفاں‘‘ مضافات بخارا، ازبکستان میں ہے۔

*ماخذ و مراجع:* تذکرہ مشائخِ نقشبندیہ۔ تاریخ مشائخِ نقشبند۔

➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖
*المرتب⬅ محـمد یـوسـف رضـا رضـوی امجـدی نائب مدیر "فیضـانِ دارالعـلوم امجـدیہ ناگپور گروپ" 9604397443*
➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے