علامہ اقبال حسنی کا تعارفی جائزہ / از محمد نوید سرور قادری مصباحی‏

بسم اللہ الرحمن الرحیم 

علامہ اقبال حسنی کا تعارفی جائزہ

       اللہ تبارک و تعالی نے اس خاکدان گیتی پر بے شمار افراد پیدا فرمایا۔ جو اپنے حصے اور نصیبے کی زندگی گزار کر اس دار فانی سے دار بقا کی جانب کوچ کر گئے۔ کیوں کہ رب قدیر کا یہ مستحکم اور اٹل فیصلہ ہے " کل نفس ذائقۃ الموت " کہ ہر نفس اور جان دار چیز کو موت کا مزہ چکھنا ہے ۔ موت کے اس فلسفے اور دنیا کی مادیات اور ترقیات کو پیش نظر رکھیں تو معلوم ہوگا کہ دنیا نے تو بہت ترقی کرلی ہے لیکن اب تک کوئی ایسا مشروب یا ماکلول شئی تیار نہیں کیا ہے کہ جسے کھا اور پی لینے کے بعد انسان ابدی زندگی حاصل کرلے اور موت سے رستگاری پالے۔ نیز یہ بھی ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ اس دنیا میں بہت سارے بنی نوع انساں آنکھیں کھولتے اور بند کرتے ہیں مگر معاشرے اور سوسائٹی پر اس کا کچھ خاص اثر نہیں پڑتا ۔ لیکن اسی دھرتی پر کچھ ایسے افراد بھی جنم لیتے ہیں جو اپنے کارناموں اور خدمات سے لوگوں کے وسط قلب میں اپنی جگہ بنا لیتے ہیں اور وہ جب یہ دنیا چھوڑ کر جاتے ہیں تو لوگوں کی پلکیں نمناک، آنکھیں اشکبار اور قلوب رنجیدہ ہوجاتے ہیں ۔ اور زندگی کے ہر موڑ پر اس شخصیت کی یاد ستاتی رہتی ہے ۔ جن کی یادوں کو طاق نسیاں بنانا محال نہیں تو کم ازکم امر دشوارضرور ہوتا ہے ۔
      ان ہی شخصیات میں سے ایک عظیم شخصیت مفکر ملت، مصلح قوم و امت ،ہمدرد سنیت، آفتاب خطابت، عالم نبیل، فاضل جلیل، ادیب شہیر حضرت علامہ و مولانا سید اقبال احمد حسنی برکاتی ناظم اعلی جامعہ برکات منصور و صدر ادارہ شریعہ مگدھ کمشنری گیا علیہالرحمۃ والرضوان کی ذات گرامی ہے۔ جنہوں نے اپنی پوری زندگی ملت وامت کے نام کر کے قیادت وسیادت کا فقید المثال نمونہ پیش فرمایا ۔

ولادت:- اس عظیم ہستی کی پیدائش ایک زمیندار، دیندار، متمول،اعلی اور سادات خاندان میں ۵/دسمبر ۱۹۵۷ء بمطابق ۱۲/جمادی الاول ۱۳۷۷ھ کو ہوئی۔

تعلیمی مراحل:- اپنی تعلیمی سلسلۂ آغاز کے متعلق حضرت سید صاحب قبلہ خود فرماتے ہیں " حسب روایات خاندانی اپنی امی جان اور دیگر افراد خانہ سے بسم اللہ خوانی اور ابتدائی مراحل تعلیم سے گزرتا ہوا زمیندارانہ نظام کے تحت خانہ زاد اتالیق محترم حضرت مولانا الحاج حافظ جمیل احمد قادری عزیزی علیہ الرحمۃ والرضوان ( بانی و مہتمم اول مدرسہ مدینۃ العلوم، شہر گیا ) سے فارسی کی ابتدائی تعلیم گلزار دبستاں تک مدرسہ مدینۃ العلوم، کوئیلی پوکھر، گیوال بیگھہ، شہر گیا بہار میں حاصل کرتا رہا۔"
         آپ نے مدینۃ العلوم کے بعد اعلی تعلیم کی حصول یابی کےلیے ۱۹٦٩ء میں محض گیارہ سال کی عمر میں شہر علم ونور مبارک پور کا قصد فرمایا۔ اور باغ فردوس الجامعۃ الاشرفیۃ، مبارک پور ،اعظم گڑھ، یوپی میں از ثانیہ(۱۹٦٩ء) تا سابعہ(۱۹٧٤ء ) نمایاں کامیابی کے ساتھ تعلیم حاصل فرمائی۔ لیکن چند عصبیاتی اسباب کی بناپر ماحول میں کشیدگی پیدا ہوگئی، جن کی وجہ سے حضرت سید صاحب قبلہ اور ان کے دیگر رفقائے درس نے دور اندیشی کا ثبوت پیش کرتے ہوئے جامعہ اشرفیہ کو خیرآباد کہا اور بنارس تشریف لے گئے ۔
  یہاں جامعہ فاروقیہ، ریوڑی تالاب بنارس میں اپنی بقیہ درسی سفر کی تکمیل فرماکر اس وقت کے نابغۂ روزگار شخصیات استاذ العلماء جلالۃ العلم حضور حافظ ملت الشاہ علامہ عبدالعزیز مرادآبادی ثم مبارک پوری، و خطیب مشرق علامہ مشتاق احمد نظامی عليهما الرحمة والرضوان کے مقدس ہاتھوں سے محض اٹھارہ سال کی عمر میں ۲۰/اگست ١٩٧٥ء بمطابق ۱۱/ شعبان المعظم ۱۳۹۵ھ میں دستار فضیلت و سند فراغت حاصل کی۔

تجارت سفر :- بعد فراغت سات برسوں یعنی ۱۹۷۵ء سے ۱۹۸۲ء تک رانچی دارالخلافہ، جھارکھنڈ میں بہ غرض حصول معاش تجارت فرماتے رہے۔
        دوران طالب علم ہی میں الہ آباد، یوپی بورڈ سے ۱۹٧٤ء میں مولوی اور ۱۹۷۵ء میں عالم کا امتحان دے چکے تھے ۔ آپ کے فرزند ارجمند حضرت مولانا سید عفان جامی نے بتایا کہ حضرت علیہ الرحمۃ والرضوان جامعہ علی گڑھ سے اردو میں ۱۹۷۷ء میں ادیب ماہر اور ۱۹۷۸ء میں ادیب کامل کی ڈگری حاصل فرمائی ۔

خدمات اور کارنامے:- ۱۹۸۲ء میں حضرت سید صاحب قبلہ جب تجارت میں مصروف عمل تھے تو سرزمین بہار کی ایک عبقری شخصیت، جوہر شناس، استاذ الاساتذہ، وقار العلما حضرت علامہ و مولانا جمال احمد قادری علیہ الرحمۃ والرضوان سے آپ کی ملاقات ہوئی ۔ سلام و کلام کے بعد اس جوہر شناس شخصیت نے " أ لهذا خلقت و لهذا أمرت " کے استفسار کے بعد اپنے سر زمین بہار کے لہلہاتے چمن و گلستاں ( دارالعلوم فیض الباری نوادہ ) لاکر اس کی باغبانی کی ذمہ داری سپرد فرمائی۔ آپ نے دارالعلوم فیض الباری نوادہ بہار میں منصب صدارت کی نیابت قبول فرمائی اور متوسطات درس نظامی کے طالبان علوم نبویہ کے تشنگئ علم کو سیراب فرمائی۔ 
   نیز اسی اثنا میں مگدھ یونیورسٹی گیا سے ۱۹۸۲ء و ۱۹۸۳ء میں بی اے اور ۱۹۹۸٤ء و ۱۹۹۸۵ء میں ایم اے، اردو آنرس سے ڈگری مکمل کی ۔ نیز آپ نے ۱۹۸۸ء میں مگدھ یونیورسٹی گیا سے عربی آنرس میں ایم اے کی ڈگری گولڈ میڈ لسٹ کے ساتھ حاصل کی ۔
   دارالعلوم فیض الباری سے ۱۹٨٤ء میں استعفی دے کر شہر گیا کو اپنی ضیابار کرنوں سے فیض یاب کرنے کےلیے " مسجد پیر منصور " میں امام و خطیب جمعہ کی حیثیت سے تشریف لائے، جس کی ذمہ داری تا وقت وفات بڑی خوش اسلوبی کے ساتھ انجام دیتے رہے ۔
اس ذمہ داری کے ساتھ ۱۹۹٤ء تا ۱۹۹۵ء گیا کے قدیم ترین اور مشہور زمانہ ادارہ " دارالعلوم اھل سنت عین العلوم، گیوال بیگھہ، شہر گیا میں منصب صدارت پر فائز رہے ۔ لیکن ذہنی ناموافقت کی بناپر مستعفی ہوکر مدرسہ غوثیہ رضویہ ، کھنڈیل، چیرکی روڈ گیا کا منصب اھتمام قبول فرمایا ۔ لیکن جاہلوں کی نامناسب رویوں کی وجہ سے اکتوبر ۱۹۹٦ء میں استعفی دے کر شہر گیا تشریف لے آئے۔
           پھر یہیں سے حضرت کی شخصیت نے انگڑائی لی اور انقلابی ذہنیت نے ایک نیا رخ اختیار کیا اور مکمل طورپر اپنی زندگی اسلام و سنیت کے نام کرتےہوئے خود ہی اپنا ایک پلیٹ فارم تیار کیا ۔ ۱۹۹۷ء میں " جامعہ برکات منصور " کی شکل میں آپ نے قوم کو اپنی کدوکاوش کا ایک حسین گلدستہ پیش کیا ۔ جہاں سے مذھبی، مسلکی، مشربی، اصلاحی، فلاحی سماجی، تنظیمی اور تحریکی خدمات اب تک دیے جارہے ہیں ۔
۱۹۸۲ء سے تا وقت وفات مذھبی اجلاس و مسلکی خطابات کا سلسلہ پورے ہندوستان میں چلتارہا، نیز مسلکی قیادت کا باب ڈور سنبھالنے کے ساتھ مذھبی و سماجی اداروں کی سربراہی و صدارت بھی کرتے رہے ہیں ۔ ادارۂ شرعیہ مگدھ کمشنری کی صدارت، گیا کی طیران گاہ پر حجاج کرام کی پروازوں کے موقع پر مسلکی قیادت اور نماز پنج گانہ و جمعہ کی ادائیگی کا انتظام ( بمطابق مسلک سنی حنفی ) ، ادارۂ شرعیہ کے بینر تلے حج تربیتی مرکز کیمپ کا قیام اور حاجیوں کی تربیت کےلیے بہار ریاستی حج کمیٹی کے ذریعے بحیثیت ٹرینر انتخاب وغیرہ بھی آپ کے اھم کارناموں میں سے ہیں ۔
       ماضی قریب میں حضرت کے اھم کارناموں میں سے ایک اھم اور سنہری حروف سے لکھا جانے والا کارنامہ، جشن صد سالہ عرس اعلی حضرت کے موقع پر گیا شہر میں ایک عظیم الشان سمینار کا انعقاد ہے۔ ہمارے علم میں گیا کی تاریخ میں یہ پہلی بار امام اھل سنت امام احمد رضا خان علیہ الرحمۃ والرضوان کا تعارف اس انداز میں کرایا گیا اور ان کی شخصیت و کارناموں پر سمینار کیا گیا، جس میں نامور علما و مشائخ اور پروفیسران مدعو کیے گئے تھے ۔ اس سمینار کے متعلق حضرت سید صاحب قبلہ بقلم خود اپنے ایک مضمون میں تحریر فرماتے ہیں " مسلک اعلی حضرت کا گیا کی سنی تاریخ میں امام اھل سنت کی صد سالہ تقریبات کے موقع پر پہلی مرتبہ علمی و فکری سطح پر تعارف کرانے کی کامیاب ترین کوشش بھی میری تحریک اور مفتی مظفر حسین رضوی مصباحی صاحب( بانی و سربراہ اعلی دارالعلوم غریب نواز ،روپن ،فتح پور، گیا) کی حمایتی، عملی و علمی اشتراک سے کامیاب رہی اور ۲۸/ اکتوبر ۲۰۱۸ء کو شہر گیا کے مشہور اقلیتی کالج " مرزا غالب کالج، گیا " میں عظیم الشان " اعلی حضرت صدی سمینار کا کامیاب انعقاد ہوا، جس میں بریلی شریف، براؤں شریف، الہ آباد ، بستی، پٹنہ عظیم آباد ، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی، جامعہ ملیہ اسلامیہ نئی دہلی اور سہسرام کی علمی و ادبی شخصیات ( پروفیسران ) اور علما و مشائخ نے شرکت کی۔ اس طرح کا تعارفی سمینار مگدھ کمشنری بہار میں تاریخ کا اولین سمینار ثابت ہوا، جو تنہا سیکڑون جلسوں پر بھاری رہا" ۔
        نیز حالات حاضرہ کے پیش نظر ملی، سماجی، معاشی، سیاسی اور مذھبی و مسلکی مسائل کا بہترین حل فرمایا۔ این آر سی، این پی آر اور سی اے اے کے خلاف اھم قلمی وعملی مورچہ تیار فرمایا۔ لاؤک ڈان میں جہاں سب اپنی اپنی ضروریات میں مصروف تھے ، وہیں حضرت سید صاحب قبلہ علیہ الرحمہ نے اپنی انتھک محنت و کوشش سے لوگوں کی ضروریات مہیا فرمائی ۔ اور اس لاؤک ڈان میں پیدا ہونے والے مسائل کا احسن انداز میں حل پیش فرماکر عوام و خواص کی بہترین رہنمائی فرمائی۔

رشحات قلم:- آپ صاحب زبان و قلم تھے، آپ کے مضمون میں جامعیت اور دلکش پیرایہ ہوتا تھا، آپ کی تحریر بہت عمدہ اور معلوماتی مواد مشتمل ہوا کرتی اور انداز و اسلوب ادیبانہ ہوتا۔ آپ کے مضامین، مقالات، تحریرات، تاثرات، تبصرات اور مکتوبات پڑھنے کے بعد اندازہ ہوتا کہ آپ بعض الفاظ کے موجد ہیں ، کیوں کہ آپ کی تحریروں میں چیدہ چیدہ الفاظ ملتے تھے۔ آپ کے بہت سارے مضامین، مقالات، مکتوبات اور تبصرات ماہنامہ اشرفیہ مبارک پور، معارف تاج الشریعہ، ماہنامہ رفاقت پٹنہ، دوماہی رضائے مدینہ رانچی، فیضان مخدوم اشرف، جمال حرم ( فیض الباری نوادہ بہار ) اور روزنامہ قومی تنظیم پٹنہ کے علاوہ ادبی جریدہ " دسترس " میں شائع ہو چکے ہیں ۔ 
         حضرت علامہ مولانا سید اقبال احمد حسنی صاحب علیہ الرحمہ سے راقم السطور کی جب پہلی ملاقات ہوئی تھی تو آپ نے مجھے اپنی ایک تحریر دیکھائی تھی، جو شیر بہار علامہ مفتی اسلم صاحب علیہ الرحمہ کی تاریخ ساز شخصیت پر مشتمل تھی، جسے راقم الملفوظ پڑھنے کے بعد متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکا۔ نیز " اعلی حضرت صدی مجلہ " واٹس ایپ گروپ میں جب علمی و فکری مباحثہ ہوتا تو آپ کی جانب سے اردو، فارسی اور عربی کے نادر و نایاب جملے اور عمدہ سے عمدہ تعبیرات دیکھنے کو ملتے۔ ایسا اندازہ ہوتاکہ آپ بیک وقت کئی زبانوں پر قدرت کاملہ و مہارت تامہ رکھتے ہیں ۔ جیساکہ حضرت کی تحریرات سے ادنی ممارست اور شغف رکھنے والے پر یہ بات مخفی نہیں ہے۔

خطابت :- یوں تو ہندوستان میں اپنی خطابت کی بنیاد پہچانے جانے والے بہت سے علماے کرام ہیں ۔ لیکن اگر حضرت علامہ مولانا سید اقبال حسنی برکاتی صاحب علیہ الرحمۃ والرضوان کی بات کریں تو آپ میدان خطابت میں اپنی ایک الگ شناخت رکھتے تھے ۔ جس طرح ان کی تحریر میں ادیبانہ جھلک تھی تو تقریر میں بھی فصاحت و بلاغت کی چمک دمک تھی۔ جس عنوان کو موضوع سخن بناتے اس پر سیر حاصل گفتگو کرتے اور اپنے موضوع سے بالکل انحراف نہیں کرتے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی خطابت عوام سے زیادہ علما اور تعلیم یافتہ طبقہ شوق و ذوق سے سنتا اور پسند کرتا ہے ۔ 
    ایک جید اور مایۂ ناز عالم دین ہونے کے باوجود بغیر مطالعہ اور کتب بینی کے تقریر کرنا پسند نہ فرماتے ۔ اسٹیج اور عوام کی سطح علم کو دیکھتے ہوئے تقریر فرماتے۔ غرض یہ کہ ان کی تقریر میں جہاں عوام کے لیے رشدوہدایت کے جواہر ہوتے تو وہیں علما و خواص کےلیے طرز حیات اور رموزواوقاف پنہاں ہوتے۔


علمی مقام :- حضرت علامہ مولانا سید اقبال احمد حسنی برکاتی صاحب علیہ الرحمۃ والرضوان ایک بلند پایہ عالم تھے۔ مگدھ کمشنری بہار کے مستندو ممتاز اور معیاری علما میں شمار کیے جاتے تھے۔ حضرت علامہ مولانا مفتی مظفر حسین صاحب رضوی مصباحی گیاوی (بانی و سربراہ اعلی دارالعلوم غریب نواز روپن فتح پور گیا و قاضی ادارۂ شرعیہ مگدھ کمشنری گیا )، حضرت علامہ مولانا اظہر خان صاحب مصباحی ( قاضی ادارۂ شرعیہ مگدھ کمشنری جہاں آباد بہار) ، حضرت علامہ مولانا نعمان اختر فائق جمالی صاحب مصباحی( سربراہ اعلی دارالعلوم فیض الباری نوادہ بہار و قاضی ادارۂ شرعیہ مگدھ کمشنری نوادہ ) اور حضرت علامہ مولانا تبارک حسین صاحب رضوی( سربراہ اعلی جامعہ برکات منصور، گیا) جیسے معتبر و مستند علما آپ کے شاگردوں کے زمرے میں آتے ہیں۔ 
    آپ کو کتب بینی سے خاص شغف تھا ۔ ایک تہائی رات مطالعۂ کتب میں مصروف رہتے تھے ۔ ایک بہترین ادیب شمار کیے جاتے تھے۔ آپ کی تحریرات و مکتوبات کا جائزہ لینے کے بعد معلوم ہوتا ہے کہ آپ بیک وقت اردو، عربی، فارسی اور انگلش میں کافی دسترس رکھتے تھے ۔ 
آپ نے مگدھ یونیورسٹی گیا سے ڈبل ایم اے کیا ہے ۔ ایک ایم اے (اردو آنرس) اور دوسرا ایم اے ( عربی آنرس، گولڈ میڈ لسٹ ) ۔  
     یونیورسٹی ریسرچ اسکالر شپ (URS) سے بھی سرفراز ہوچکے ہیں۔ URS کے دوسالہ دورانیہ میں حضرت نے مگدھ یونیورسٹی گیا کے پوسٹ گریجویٹ کے شعبۂ اردو میں لکچر دینے اور ایم اے کے طلبا کو فارسی پڑھانے کی خدمات بھی پیش کی ہے۔
          غالبا فتوی نویسی کے بھی فرائض انجام دیا کرتے تھے ۔ کیوں کہ ایک بار راقم الحروف کا جب پیر منصور میں قیام ہوا تو اس فقیر کی نظر ایک پوسٹ کارڈ پر پڑی اسے دیکھا تو معلوم ہوا کہ یہ اڑیسہ سے آیا ہے اور ایک استفتا ہے جو زمین و جائداد کے وقف کے متعلق ہے ۔ ماسٹر بشیر صاحب (دفتر انچارج جامعہ برکات منصور) سے پوچھنے پر معلوم ہوا کہ حضرت کے پاس استفتا آتا رہتا تھا اور آپ ان سب استفتا کا جواب عنایت فرمایا کرتے تھے ۔ پیر منصور میں دوران قیام حضرت سے میری اکثر و بیشتر علمی گفتگو ہوتی تھی دوران گفتگو میں نے اندازہ لگایا کہ آپ فقہی جزئیات پر کافی دسترس رکھتے ہیں ۔ اور فقہہ حنفی کی مستند کتابیں مثلا ھدایہ، فتح القدیر، فتاوی عالم گیری، شامی وغیرہ آپ کے زیر مطالعہ رہ چکیں ہیں ۔

اخلاق و کردار:- آپ کا اخلاق و کردار بہت عمدہ تھا۔ آپ ملنسار و ہنس مکھ تھے۔ سب کے ساتھ کشادہ قلبی سے پیش آتے۔ ہر کوئی آپ کے اخلاق سے متاثر ہوتا۔ عاجزی و انکساری کے خوگر اور عجز و تواضح کے پیکر مجسم تھے۔ طلبا پر شفقت فرماتے اور نو فارغین علما سے خندہ پیشانی سے پیش آتے اور انہیں عملی میدان میں دعوت وتبلیغ کے رموزواوقاف سے روشناس کراتے ۔ علم دوست اور علما نواز تھے۔ ہم جیسے لوگوں کی حوصلہ افزائی فرماتے اور ہماری پیش قدمی کو اپنے کلمات تحسین سے نوازتے اور دعائے خیر فرماتے۔ پہلی بار جب ہم نے اپنی تنظیم " رہنمائے ملت ایجوکیشنل ویلفیئر سوسائٹی " کی جانب سے " وقار ملت کوچنگ سینٹر " کا افتتاح کیا تو آپ نے بہت ہی مسرت و شادمانی کا اظہار فرمایا اور چھ ہزار ڈونیشن عطا فرما کر ہماری اور ہمارے رفقا کی پشت پناہی فرمائی۔
  حضرت علیہ الرحمۃ والرضوان اور مولانا تبارک حسین صاحب کی دیرینہ خواہش تھی کہ کم از کم ایک بار پیر منصور میں بھی یہ تنظیم اپنی خدمات پیش کرے۔ مگر کسی عرض عارض کی وجہ سے یہ خواب شرمندۂ تعبیر نہ ہو سکا۔ 

وفات :- بالآخر ان تمام اوصاف و کمالات اور خوبیوں کی متحمل ہستی ۱٤/ جولائی ۲۰۲۰ء بمطابق ۲۲/ ذی قعدہ ١٤٤١ھ بوقت تین بجے شب داعی اجل کو لبیک کہتے ہوئے ان کی روح قفس عنصری سے پرواز کرگئی ۔

از
محمد نوید سرور قادری مصباحی گیاوی 
مقام دوبھل، پوسٹ ملہاری، تھانہ امام گنج، ضلع گیا بہار۔ 
رابطہ نمبر:- 7781075063

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے