کراماتِ حضرت مفتی اعظم ہند مولانا مصطفی رضا خان قادری برکاتی علیہ الرحمہ

*"کراماتِ حضرت مفتی اعظم ہند مولانا مصطفی رضا خان قادری برکاتی علیہ الرحمہ"*

حضرت مفتی اعظم ہند مولانا مصطفی رضا خان قادری برکاتی علیہ الرحمہ نے اعلی حضرت امام اہل سنت امام احمد رضا خان قادری محدث بریلی علیہ الرحمہ کے آغوشِ ولایت میں پرورش پائی۔۔۔ اعلی حضرت علیہ الرحمہ کی نگاہِ فیض نے آپ کو روحانیت کے اعلیٰ مدارج تک رسائی عطا کی۔۔۔ بلاشبہ آپ اپنے معاصرین پر روحانی اعتبار سے فائق تھے اور تصوف و ولایت کی اعلٰی منازل پر فائز تھے۔ آپ سے بے شمار کرامات کا صدور ہوا۔ آپ کے حلقۂ ارادت میں آنے والا تقریباً ہر شخص ہی آپ سے متعلق کشف و کرامت کا ذکر کرتا نظر آتا ہے۔ 
یہاں ہم آپ کی کثیر کرامات میں سے صرف دو کرامات بیان کر رہے ہیں جن سے آپ کی روحانیت اور روحانی مقام کے علو کا اندازہ ہوتا ہے۔ حکایات ملاحظہ فرمائیں:

۱: شارح بخاری حضرت علامہ مفتی محمد شریف الحق امجدی رحمۃ اللہ تعالی علیہ لکھتے ہیں:

"ایک سال بریلی شریف کے ایک حاجی صاحب حج سے واپس آئے تو لوگوں سے دریافت کیا:

 "حضرت مفتی اعظم کب حج کے لیے گئے تھے اور واپس ہوئے یا نہیں؟

 لوگوں نے انہیں بتایا کہ:

"حضرت مفتی اعظم امسال حج کے لیے نہیں گئے تھے انہوں نے عید گاہ میں عید الاضحیٰ کی نماز پڑھی ہے۔ میں نے خود پڑھی سب حاضرین نے متفق اللفظ ہو کر یہی بتایا۔

 انھوں نے حیرت سے کہا آپ لوگ کیسی باتیں کر رہے ہیں میں نے ان کو طواف کرتے دیکھا ہے۔ مسجد حرام میں، منی میں، عرفات میں ان سے ملاقات کی ہے۔ مدینہ منورہ مسجد نبوی میں نماز پڑھتے ہوئے دیکھا ہے۔مواجھہ اقدس میں سلام عرض کرتے ہوئے دیکھا ہے۔ یہ سن کر حاضرین دم بخود رہ گئے لیکن سب نے پھر یہی کہا کہ تمہیں دھوکا ہوا ہوگا حضرت مفتی اعظم دولت کدہ ہی پر رہے۔ حج کے لیے نہیں گئے تھے۔ مگر انہوں نے بتاکید کہا: دھوکا کیسا؟
 میں قسم کھا کر کہہ سکتا ہوں کہ میں نے ان سے وہاں ملاقات کی ہے۔ ان کی دست بوسی کی، بات چیت کی اور بلا کسی شبہ کے مسجد نبوی اور مواجھہ اقدس میں دیکھا ہے۔

 اس کا عام چرچا ہوا۔ سب نے ان حاجی صاحب کو یہ ہی بتایا کہ تم جو کہتے ہو، سچ ہے مگر حضرت امسال حج کے لیے نہیں گئے تھے۔ حاجی صاحب نے خود یہ واقعہ مجھ سے بیان کیا اور بھی بہت سے لوگوں سے بیان کیا۔ 

یہ حاجی صاحب حضرت کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ حضرت نے انہیں بہت پیار سے دیکھا، جاں نواز انداز میں مسکرائے اور حسب عادت ان کے قدم اور آنکھوں کو بوسے دیے۔ حاجی صاحب دم بخود بیٹھے، ٹکٹکی باندھے، حضرت کو دیکھتے رہے۔ کچھ دیر کے بعد حضرت ان سے مخاطب ہوئے اور حرمین طیبین کے حالات پوچھتے رہے اور ایک بار بڑے محبت آمیز لہجے میں فرمایا:

*"حاجی صاحب ہر بات بیان کرنے کی نہیں ہوتی، اس کا خیال رکھیے گا۔"*

 اسی سے متاثر ہو کر یہ حاجی صاحب مرید ہوگئے۔ 

(جہان مفتی اعظم ہند، صفحہ 324، مطبوعہ شبیر برادرز اردو بازار لاہور)

۲: حضرت مولانا محمد حنیف صاحب چترویدی، حضور مفتی اعظم ہند رحمتہ اللہ تعالیٰ علیہ کے سفر "گورکھپور" کے حوالے سے سے لکھتے ہیں:

"آج حضور کی (گورکھپور میں) آمد کی تاریخ تھی۔ مسلمانوں نے ان تمام راستوں اور مقامات کو سجا دیا تھا۔ جدھر سے حضرت کی سواری گزرنے والی تھی۔ ٹرین دوپہر کے وقت گورکھپور آنے والی تھی۔ مگر یہاں ریلوے اسٹیشن پر صبح سے ہی عاشقوں کا جمگھٹا پھول اور مالا لیے حضرت کے استقبال میں قطار لگائے کھڑا تھا اور بڑی بے صبری سے ٹرین کی آمد کا انتظار کر رہا تھا۔ ہر ایک کے دل میں یہی تمنا تھی کہ سب سے پہلے میں حضرت کا استقبال کروں۔ سب سے پہلے میں اپنا ہار حضور کو پہناؤں۔

 اس موقع سے ایک عجیب واقعہ یہ پیش آیا: شہر کا ایک سنار تھا اس کو بھی معلوم ہوا کہ بریلی شریف سے کوئی اللہ والا آرہا ہے۔ نہ جانے اس کو کیا ہوگیا تھا کہ صبح سے کئی بار اپنی دوکان چھوڑ کر میرے پاس آ چکا تھا اور ہر بار یہی کہتا کہ مولانا صاحب! جو حضرت بریلی شریف سے آ رہے ہیں میری دلی تمنا یہ ہے کہ سب سے پہلے میرا ہار ان کے گلے میں پڑے۔ سب سے پہلے میں ان سے ملاقات کروں، وہ اپنی بات پر مصر اور بے حد بےتاب نظر آتا۔

 میں اس کی بات سنتا اور سوچنے لگتا کہ اس کی خواہش کیسے پوری کی جائے کیونکہ وہاں تو ہزاروں کی بھیڑ لگی تھی۔ یہ میرے اختیار سے باہر تھا، چونکہ یہ لوگوں کو علم ہو چکا تھا کہ حضرت کس ڈبے میں تشریف فرما ہیں اس لئے جہاں وہ ڈبہ رکنے والا تھا، وہاں تو کسی اور کا پہنچ پانا بے حد مشکل تھا۔ بھلا ایک سنار اپنی آرزو کیوں کر پوری کر پاتا مگر وہ بھی ہمت ہارنے والا نہیں تھا۔ وہ بھی ہار اور پھولوں کا گلدستہ لیے انہیں لوگوں میں شامل ہوگیا۔ حضرت بریلی سے لکھنؤ تک "کاشی وشوناتھ" سے تشریف لائے اور لکھنؤ سے پسنجر ٹرین سے گورکھپور تک(اس وقت لکھنؤ سے گورکھپور تک چھوٹی لائن تھی) اسٹیشن کا وہ پلیٹ فارم جس پر وہ پسنجر ٹرین آنے والی تھی عاشقوں سے بھر چکا تھا۔ سب کی نگاہیں ٹرین پر لگی ہوئی تھیں۔ جیسے ہی ٹرین نظر آئی، لوگ نعرہ تکبیر و رسالت کی صدائیں بلند کرنے لگے۔ ہر ایک آگے بڑھنے کی کوشش کرتا ہے، یہ سنار بھی لگا رہا کافی قوت آزمائی کی لیکن عاشقوں کے ریلے نے اس کو دو ڈبے پیچھے پھینک دیا۔ ٹرین رکتے ہی لوگوں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی اور سب کے سب اس متعین ڈبے کی طرف دوڑے۔ سب سے پہلے حضرت ریحان ملت رحمتہ اللہ علیہ نے پلیٹ فارم پر قدم رکھا، لوگوں نے آپ کا استقبال کیا، مولانا عبدالحمید افریقی اترے، اور اب بابو میاں بھی باہر آگئے، اب لوگوں کی نگاہیں حضرت کے رخ انور کو تلاش کر رہی تھیں۔ اور ادھر یہ سنار بڑی حسرت سے اپنے ہاتھ کے گلدستے کو دیکھ کر اپنی ناکامی پر کف افسوس مل رہا تھا کہ اس کے چہرے پر مسرت و شادمانی کی بہاریں رقص کرنے لگیں۔ اس کی خوشیوں کی کوئی انتہا نہ رہی، دیکھتا کیا ہے کہ جس ڈبے کے مقابل کھڑا وہ اپنی قسمت کو کوس رہا تھا اسی ڈبے سے حضرت مسکراتے ہوئے حاجی برکت اللہ کے ہمراہ باہر تشریف لاتے ہیں۔ پروانوں کی طرح جھپٹ کر آگے بڑھا اور سب سے پہلے زیارت کے بعد ہار اور پھولوں سے حضرت کا استقبال کیا۔ سبحان اللہ۔

*بابو میاں کا بیان ہے کہ نہ جانے کیوں گورکھپور سے ایک اسٹیشن پہلے ہی حضرت نے فرمایا آپ لوگ اسی ڈبے میں رہیں میں حاجی صاحب کے ساتھ پیچھے والے ڈبے میں جاتا ہوں۔ اس وقت بظاہر حضرت کے اس عمل کی کوئی حکمت سمجھ میں نہ آئی اب معلوم ہوا کہ حضرت نے ایسا کیوں کیا تھا۔*

ماخوذ: جہان مفتی اعظم ہند مطبوعہ رضا اکیڈمی ممبئ ہند

اللہ کریم حضرت کے درجات بلند فرمائے اور ہمیں حضرت کے فیوض و کرم کے سائے میں رکھے۔ 
اٰمین بجاہ النبی الامین ﷺ

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے