راہِ خدا میں خرچ کرنے کی ترغیب

راہِ خدا میں خرچ کرنے کی ترغیب

➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖

قرآن و حدیث میں بکثرت مقامات پر راہِ خدا میں خرچ کرنے کی ترغیب دی گئی ہے۔
چنانچہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ’’وَ مَا تُنْفِقُوْا مِنْ خَیْرٍ فَلِاَنْفُسِكُمْؕ-وَ مَا تُنْفِقُوْنَ اِلَّا ابْتِغَآءَ وَجْهِ اللّٰهِؕ-وَ مَا تُنْفِقُوْا مِنْ خَیْرٍ یُّوَفَّ اِلَیْكُمْ وَ اَنْتُمْ لَا تُظْلَمُوْنَ‘‘(بقرہ:۲۷۲)
*ترجمہ:* اور تم جو اچھی چیز خرچ کرو تو وہ تمہارے لئے ہی فائدہ مند ہے اور تم اللہ کی خوشنودی چاہنے کیلئے ہی خرچ کرو اور جو مال تم خرچ کرو گے وہ تمہیں پورا پورا دیا جائے گا اور تم پر کوئی زیادتی نہیں کی جائے گی۔
 اور ارشاد فرمایا: ’’اِنَّ الَّذِیْنَ یَتْلُوْنَ كِتٰبَ اللّٰهِ وَ اَقَامُوا الصَّلٰوةَ وَ اَنْفَقُوْا مِمَّا رَزَقْنٰهُمْ سِرًّا وَّ عَلَانِیَةً یَّرْجُوْنَ تِجَارَةً لَّنْ تَبُوْرَۙ(۲۹) لِیُوَفِّیَهُمْ اُجُوْرَهُمْ وَ یَزِیْدَهُمْ مِّنْ فَضْلِهٖؕ-اِنَّهٗ غَفُوْرٌ شَكُوْرٌ ‘‘(فاطر:۲۹،۳۰)
*ترجمہ:* بیشک وہ لوگ جو اللہ کی کتاب کی تلاوت کرتے ہیں اور نماز قائم رکھتے ہیں اور ہمارے دئیے ہوئے رزق میں سے پوشیدہ اور اعلانیہ کچھ ہماری راہ میں خرچ کرتے ہیں وہ ایسی تجارت کے امیدوار ہیں جو ہرگز تباہ نہیں ہوگی ۔تاکہ اللہ انہیں ان کے ثواب بھر پور دے اور اپنے فضل سے اور زیادہ عطا کرے بیشک وہ بخشنے والا، قدر فرمانے والا ہے۔ 

حضرت ابو امامہ رَضِیَ اللّٰه تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسولِ کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: 
’’ اے ابنِ آدم ! اگر تم اپنا ضرورت سے زائد مال خرچ کر دو تو یہ تمہارے لیے بہتر ہے اور اگر تم اسے رو کے رکھو گے تو یہ تمہارے حق میں برا ہے اور تمہیں اتنے مال پر ملامت نہ کی جائے گی جو تمہیں قناعت کی صورت میں لوگوں کی محتاجی سے محفو ظ رکھے اور اپنے خرچ کی ابتدا اپنے زیرِ کفالت لوگوں سے کرو اور اوپر والا ہاتھ نیچے والے ہاتھ سے بہتر ہے۔
*(مسلم، کتاب الزکاۃ، باب بیان ان الید العلیا خیر من الید السفلی... الخ، ص۵۱۵، الحدیث: ۹۷(۱۰۳۶)*

اور حضرت ابو ذر رَضِیَ اللّٰه تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں کہ میں نبی اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی بارگاہ میں حاضر ہوا۔ آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اس وقت کعبہ کے سائے میں تشریف فرما تھے۔ جب آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے مجھے دیکھا تو فرمایا:
’’ربِ کعبہ کی قسم! وہی لوگ خسارے میں ہیں۔ میں آپ کی خدمت میں حاضر ہوکر بیٹھ گیا لیکن ابھی ٹھیک سے بیٹھ نہ پایا تھا کہ اٹھ کھڑا ہوا اور عرض کی: ’’ یا رسولَ اللہ! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، میرے ماں باپ آپ پر قربان! کون سے لوگ خسارے میں ہیں؟ 
ارشاد فرمایا: ’’وہ لوگ جو بڑے سرمایہ دار ہیں البتہ ان میں سے جو اِدھر اُدھر، آگے پیچھے، دائیں بائیں (راہِ خدا میں ) خرچ کرتے ہیں (وہ خسارے میں نہیں ) لیکن ایسے لوگ بہت ہی کم ہیں۔
*(مسلم ، کتاب الزکاۃ، باب تغلیظ عقوبۃ من لا یؤدی الزکاۃ، ص۴۹۵، الحدیث: ۳۰(۹۹۰)*

➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖
*المرتب⬅ قاضـی شعیب رضـا تحسینی امجـدی، ممبر "فیضـانِ دارالعـلوم امجـدیہ ناگپور گروپ" 7798520672*
➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے