لڑکی پیدا ہونے پر رنج کرنا کافروں کا طریقہ ہے

« امجــــدی مضــــامین » 
-------------------------------------
لڑکی پیدا ہونے پر رنج کرنا کافروں کا طریقہ ہے
➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖

 لڑکی پیدا ہونے پر رنج کرنا کافروں کا طریقہ ہے، فی زمانہ مسلمانوں میں بھی بیٹی پیدا ہونے پر غمزدہ ہو جانے، چہرے سے خوشی کا اظہار نہ ہونے، مبارک باد ملنے پر جھینپ جانے، مبارک باد دینے والے کو باتیں سنا دینے، بیٹی کی ولادت کی خوشی میں مٹھائی بانٹنے میں عار محسوس کرنے، صرف بیٹیاں پیدا ہونے کی وجہ سے ماؤں پر ظلم و ستم کرنے اور انہیں طلاقیں دے دینے تک کی وبا عام ہے۔
حالانکہ بیٹی پیدا ہونے اور اس کی پرورش کرنے کی بہت فضیلت ہے، رسولِ کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: 
’’جب کسی شخص کے ہاں بیٹی پیدا ہوتی ہے تو اللّٰہ تعالیٰ اس کے ہاں فرشتوں کو بھیجتا ہے، وہ آ کر کہتے ہیں: اے گھر والو! تم پر سلامتی نازل ہو، پھر اس بیٹی کا اپنے پروں سے اِحاطہ کر لیتے ہیں اور اس کے سر پر اپنے ہاتھ پھیرتے ہوئے کہتے ہیں:
’’ایک کمزور لڑکی ایک کمزور عورت سے پیدا ہوئی ہے، جو اس کی کفالت کرے گا توقیامت کے دن اس کی مدد کی جائے گی۔ 
*(معجم الصغیر، باب الالف، من اسمہ: احمد، ص۳۰، الجزء الاول)*

حضرت عبداللّٰہ بن عباس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَاسے روایت ہے، تاجدارِ رسالت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا:
’’جس شخص کے ہاں بیٹی پیدا ہو اور وہ اسے زندہ درگور نہ کرے، اُسے ذلیل نہ سمجھے اور اپنے بیٹے کو اس پر ترجیح نہ دے تو اللّٰہ تعالیٰ اسے جنت میں داخل کرے گا۔ 
*(ابوداؤد، کتاب الادب، باب فی فضل من عال یتیماً، ۴ / ۴۳۵، الحدیث: ۵۱۴۶)*

اللّٰہ تعالیٰ مسلمانوں کو عقلِ سلیم عطا کرے اور جس طرح وہ بیٹا پیدا ہونے پر خوشی سے پھولے نہیں سماتے اسی طرح بیٹی پیدا ہونے پر بھی خوشی کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔

زمانۂ جاہلیت میں دستور یہ تھا کہ جب کسی شخص کی بیوی کے ہاں زچگی کے آثار ظاہر ہوتے تو وہ شخص بچہ پیدا ہو جانے تک اپنی قوم سے چھپا رہتا، پھر اگر اسے معلوم ہوتا کہ بیٹا پیدا ہوا ہے تو وہ خوش ہوجاتا اور اپنی قوم کے سامنے آ جاتا اور جب اسے پتا چلتا کہ اس کے ہاں بیٹی پیدا ہوئی ہے تو وہ غمزدہ ہو جاتا اور شرم کے مارے کئی دنوں تک لوگوں کے سامنے نہ آتا اور اس دوران غور کرتا رہتا کہ اس بیٹی کے ساتھ وہ کیا کرے؟ آیا ذلت برداشت کر کے اس بیٹی کو اپنے پاس رکھے یا اسے زندہ درگور کر دے جیسا کہ مُضَر، خُزَاعہ اور تمیم قبیلے کے کئی لوگ اپنی لڑکیوں کو زندہ گاڑ دیتے تھے۔
*(خازن، النحل، تحت الآیۃ: ۵۹، ۳ / ۱۲۷-۱۲۸، ملخصاً)*


*زمانۂ جاہلیت میں بیٹیوں سے متعلق کفار کا دستور اور اسلام کا کارنامہ:*
امام فخر الدین رازی رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں:
’’زمانۂ جاہلیت میں کفار مختلف طریقوں سے اپنی بیٹیوں کو قتل کر دیتے تھے، ان میں سے بعض گڑھا کھودتے اور بیٹی کو اس میں ڈال کر گڑھا بند کر دیتے حتّٰی کہ وہ مر جاتی، اور بعض اسے پہاڑ کی چوٹی سے پھینک دیتے، بعض اسے غرق کر دیتے اور بعض اسے ذبح کر دیتے تھے، ان کا بیٹیوں کو قتل کرنا بعض اوقات غیرت اور حَمِیَّت کی وجہ سے ہوتا تھا اور بعض اوقات فقر و فاقہ اور نان نفقہ لازم ہونے کے خوف سے وہ ایسا کرتے تھے۔
*( تفسیرکبیر، النحل، تحت الآیۃ: ۵۹،۷ / ۲۲۶، ملخصاً)*

یہ اسلام ہی کا کارنامہ ہے جس نے دنیا میں سب سے پہلے عورت کو حقوق عطا فرمائے اور اسے عزت و وقار سے نوازا۔ زندہ درگور ہونے والی کو جینے کا حق دیا اور اس کی پوری زندگی کے حقوق کی ایک فہرست بیان فرما دی، اس کے باوجود اگر کوئی جاہل اسلام کی تعلیمات کو عورتوں کے حقوق کے مخالف سمجھتا ہے تو اسے اپنی جہالت اور دماغ کی خرابی کا علاج کرنے کی طرف بھرپور توجہ دینی چاہئے۔

➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖
*المرتب⬅ قاضـی شعیب رضـا تحسینی امجـدی، ممبر "فیضـانِ دارالعـلوم امجـدیہ ناگپور گروپ" 7798520672*
➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے