Header Ads

سلطان المشائخ حضرت خواجہ نظام الدین محمد اولیاء محبوبِ الٰہی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ

*📚 « مختصــر ســوانح حیــات » 📚*
-----------------------------------------------------------
*🕯سلطان المشائخ حضرت خواجہ نظام الدین محمد اولیاء محبوبِ الٰہی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ🕯*
➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖
آپ شیخ فرید الدین گنج شکر کے خلفاء میں سے تھے، آپ کا نام محمد بن احمد بن علی بخاری اور آپ کا لقب سلطان المشائخ نظام الدین اولیاء تھا، اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں محبوب اور مقرب تھے آپ کی برکات کے اثرات سے ہندوستان لبریز ہے، آپ کے دادا علی بخاری اور نانا خواجہ عرب دونوں اکٹھے بخارا سے لاہور تشریف لائے، یہاں ایک طویل عرصہ رہنے کے بعد بدایوں چلے گئے اور وہاں مستقل سکونت اختیار کی، آپ بہت کم عمر کے تھے۔ کہ آپ کے والد ماجد انتقال فرما گئے، جن کا مدفن بدایوں ہی میں ہے۔ شیخ نظام الدین اولیاء جب کچھ بڑے ہوئے تو آپ کی والدہ محترمہ نے آپ کو ایک مدرسہ میں برائے حصول تعلیم داخل کردیا، جہاں آپ نے قرآن کریم اور اس کے علاوہ دوسری کتابیں پڑھنی شروع کیں، آپ کی عمر تقریباً بارہ برس کی ہوگی اس وقت آپ لغت علم ادب پڑھتے تھے، ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ملتان سے ایک غزل خواں بنام ابوبکر آپ کے استاد کے پاس آیا اس نے کہا کہ میں نے شیخ بہاء الدین زکریا کے سامنے مجلس سماع میں یہ شعر پڑھا تھا لقد لسعت حیتہ الھوی کبدی ترجمہ: (محبت کے سانپ نے میرے دل کو ڈس لیا ہے) اور کہنے لگا کہ مجھے اس شعر کا دوسرا مصرعہ یاد نہیں رہا شیخ نظام الدین اولیاء نے فوراً دوسرا مصرعہ پڑھ کر سنایا، لا طبیب لھا ولا مراتی ترجمہ: (اس کے لیے نہ کوئی طبیب ہے، جو علاج و معالجہ کرکے اسے دور کردے اور نہ کوئی منتری ہے جو جھاڑ پھونک کرکے اس کے اثرات کو دل سے دور کردے) اس کے بعد اس غزل خواں نے شیخ بہاء الدین زکریا کی تعریفوں کے پُل باندھ دیے اور کہنے لگا کہ ان کے ہاں ذکر و شغل کی یہ حالت ہے کہ آپ کے ہاں چکی پیسنے والے مرد اور عورتیں بھی ذکر میں مشغول رہتے ہیں اور اسی قسم کی بہت سی باتیں بیان کرتا رہا لیکن ان میں سے کسی بات نے بھی نظام الدین اولیاء کے دل پر اثر نہ کیا پھر اس غزل خواں نے کہا کہ میں وہاں سے اجودھن (موجودہ پال پتن) پہنچا، وہاں میں نے طریقت کا ایک بادشاہ دیکھا جو ایسا اچھا اور ایسا بہترین ہے (یعنی بابا گنج شکر کے مختلف قسم کے فضائل بیان کیے) غزل خواں کی یہ باتیں سنتے ہی خواجہ نظام الدین اولیاء کے دل میں شاہ اجودھن کی محبت و اردات نے جگہ کرلی اور ان کی طبیعت پر ایک کیف و خود رفتگی سی طاری ہوگئی اور اسی وقت سے خواجہ نظام الدین اولیاء کے دل میں شیخ فرید کی محبت پیوست ہوگئی اور ان کے دیدار کی پیاس روز بروز بڑھتی رہی، چنانچہ اٹھتے بیٹھتے کھاتے پیتے شیخ فرید کی ملاقات کا تصور ان کے ذہن میں رہنے لگا، پھر بدایوں سے آپ بغرض حصول تعلیم دہلی تشریف لائے اور صدر ولایت شمس الملک کے تلامذہ اور شاگردوں کے زمرہ میں داخل ہوکر مقامات حریری پڑھی، اسی طرح علم حدیث بھی آپ ہی سے حاصل کیا۔ (آپ چونکہ علم منطق میں بڑے ماہر تھے اس لیے) دوسرے طالب علم آپ کو نظام الدین منطقی کہا کرتے تھے، یہاں سے فراغت تعلیم کے بعد شیخ فریدالدین کے شوق ارادت میں آپ پاک پتن تشریف لے گئے اس وقت آپ کی عمر بیس سال کی تھی، پاک پتن پہنچ کر آپ نے شیخ فرید سے قرآن کریم کے چھ پارے تجوید کے ساتھ پڑھے، عوارف کے چھ باب کا درس لیا، تمہید ابوشکور سلمی اوربعض دیگر کتب بھی شیخ فریدالدین سے پڑھنے کا شرف حاصل کیا۔

نظام الدین اولیاء فرمایا کرتے تھے کہ شیخ فرید الدین سے جب مجھے شرف پابوسی حاصل ہوا اس وقت اول ملاقات میں شیخ نے یہ شعر پڑھا تھا۔

اے آتش فراقت دلہا کباب کردہ
 سیلاب اشتیاقت جانہا خراب کردہ

ترجمہ: (تیری فرقت اور جدائی کی آگ نے کئی دلوں کو کباب کردیا اور تیرے شوق کی آگ نے کئی جانیں خراب کردیں) اس کے بعد میں نے چاہا کہ آپ کی خدمت میں حاضری کے شوق کو ظاہر کروں لیکن آپ کا خوف مجھ پر اس طرح غالب آیا کہ صرف اتنا ہی کہہ سکا کہ ملاقات کا شوق بے انتہا غالب تھا، پھر مجھ پر خوف کے آثار دیکھ کر فرمایا ہر نئے آنے والے کو دہشت ہوتی ہے، اسی دن میں نے آپ سے بیعت کی اور پھر پوچھا کہ اب کیا ارشاد ہے؟ کیا پڑھنے کا سلسلہ ختم کرکے اب ورد و ظائف میں مشغول ہوجاؤں؟ فرمایا: ہم کسی کو حصول تعلیم سے منع نہیں کرتے وہ بھی کرو اور یہ بھی کرو، پھر دیکھو کون غالب آتا ہے، نیز فقیرا ور درویش کے لیے کچھ علم بھی ضروری ہے، اس کے بعد شیخ نظام الدین اولیاء نعمت خلافت حاصل کرکے دہلی واپس آگئے، پیر و مرشد شیخ فریدالدین گنج شکر کے پاس آپ دہلی سے پاکپتن تمام عمر میں تین مرتبہ ہو گئے، شیخ فریدالدین کے انتقال کے وقت خواجہ نظام الدین اولیاء اتفاقاً اسی طرح موجود نہ تھے جس طرح کہ شیخ فریدالدین کے انتقال کے وقت خواجہ نظام الدین بختیار کاکی کے وصال کے وقت ان کے پاس موجود نہ تھے اور اسی طرح خواجہ قطب الدین اپنے شیخ حضرت معین الدین چشتی کے انتقال کے وقت ان کے پاس موجود نہ تھے اس واقعہ کے بعد باشارۂ غیبی خواجہ نظام الدین اولیاء دہلی چھوڑ کر اس کے قریب بستی غیاث میں قیام پذیر ہوگئے جہاں آپ کی خانقاہ بھی ہے۔

نظام الدین اولیاء نے ایک بار فرمایا کہ جب معز الدین کیقباد نے وہاں ایک نیا شہر آباد کرنا چاہا تو اس وقت لوگ بڑی کثرت سے میرے پاس آنے لگے، یہاں تک بادشاہ، رئیس و امیر سبھی لوگ میری طرف رجوع کرنے لگے تو میرے دل میں خیال آیا کہ اب یہاں سے بھی چلانا جانا چاہیے میں اسی خیال میں تھا کہ ظہر کی نماز پڑھنے کے بعد میرے پاس ایک نازک اندام خوبصورت آدمی آیا اور اس نے یہ شعر پڑھا

آں روز کہ مہ شدی نمی دانستی
 کانگشت نمائے عالمے خواہی شد

ترجمہ: (یعنی جب آپ ماہتاب بنے تھے اس وقت یہ کیوں نہ سمجھا کہ تم دنیا کے انگشت نما بنو گے) پھر اس جوان نے کہا کہ طریقہ یہ ہے کہ اول تو مشہور ہی نہ ہونا چاہیے، اور اگر شہرت عام ہوجائے تو پھر اس طرح رہنا چاہیے کہ کل کو محشر کے میدان میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے شرمندگی نہ اٹھانی پڑے، پھر فرمایا کہ یہ قوت اور حوصلہ کی بات نہیں کی مخلوق اللہ سے پوشیدہ ہوکر خدا کی یاد کی جائے، بلکہ قوت اور حوصلہ تو یہ ہے کہ مخلوق اللہ میں رہ کر خدا کی یاد کی جائے، جب اس سیم تن نے اپنی تمام باتیں کہہ لیں تو میں اس کے لیے کچھ کھانا لایا لیکن اس نے کچھ نہ کھایا، اس وقت میں نے اپنے دل سے عہد لیا کہ اب یہاں سے کسی اور جگہ نہ جاؤں گا، پھر اس نے تھوڑا سا پانی پیا اور چلا گیا، اس روز کے بعد آج تک پھر میں نے اس کو کبھی نہیں دیکھا، غرض یہ کہ نظام الدین اولیا نے جب وہاں رہنے کا پختہ ارادہ کرلیا تو اللہ تعالیٰ نے انہیں کافی مقبولیت دی، عام و خاص سب لوگ آپ کی طرف رجوع کرنے لگے، اس کے بعد دست غیب اور فتوحات کے دروازے آپ پر کھلے گئے اور ایک جہاں اللہ تعالیٰ کے احسان و انعام کی مدد سے آپ کے ذریعہ سے فائدہ حاصل کرنے لگا، آپ کا اپنا حال یہ تھا کہ تمام اوقات ریاضت اور مجاہدۂ میں گزارتے، ہمیشہ روزہ رکھتے اور افطار کے وقت تھوڑا سا پانی پی لیتے، بوقت سحری عام طور پر کچھ نہ کھاتے، خادم جب کہتے کہ آپ نے افطار کے وقت بھی تھوڑا سا چکھا تھا اگر سحری میں بھی نہ کھائیں گے تو کیا حال ہوگا، ضعف اور کمزوری میں روز بروز اضافہ ہوتا جائے گا، خادموں کی یہ باتیں سننے کے بعد رو کر فرماتے، بہت سے مسکین اور درویش مسجدوں اور بازاروں میں بھوکے پڑے فاقے کر رہے ہیں، اب بتاؤ ان کی حالت دیکھ کر یہ کھانا میرے حلق سے نیچے کیسے اُترے گا، تب خادم مجبوراً آپ کے سامنے سے سحری کا کھانا اٹھالیتے تھے۔

منقول ہے کہ شیخ نظام الدین اولیاء نے فرمایا کہ ایک مرتبہ میں اپنے شیخ کے ساتھ کشتی میں سوار تھا، شیخ نے مجھے بلایا اور فرمایا کہ میرے سامنے آؤ مجھے تم سے کچھ کہنا ہے، سنو، جب دہلی پہنچو، مجاہدہ کرتے رہنا بےکار رہنےمیں کوئی فائدہ نہیں، روزہ رکھنا آدھی منزل ہے، اور بقیہ اعمال مثلاً نماز، حج، یہ دوسری آدھی منزل ہیں، پھر ایک مرتبہ شیخ فرید نے فرمایا کہ میں نے اللہ سے دعا کی ہے کہ آپ اللہ سے جو مانگیں گے وہ مل جائے گا، ایک مرتبہ یہ بھی فرمایا کہ اے نظام الدین ہم نے تمہارے لیے اللہ سے دنیاوی قوت بھی مانگ لی ہے۔ خلیفہ بناتے وقت شیخ فریدالدین گنج شکر اپنے کمرے میں ننگے سر بیٹھے ہوئے تھے چہرۂ مبارک کا رنگ متغیر تھا اور یہ شعر پڑھ رہے تھے۔

رباعی

خوا ہم کہ ہمیشہ در رضائے تو زیم
خاکی شوم و بزیر پائے تو زیم
مقصود من خستہ زکونین توی
 از بہرِ تو میرم و برائے تو زیم

 

ترجمہ: (میری تمنا یہ ہے کہ ہمیشہ تیری رضا میں رہوں اور خاک ہوکر تیرے پاؤں میں زندگی گزاروں دونوں جہانوں میں مجھ خستہ حال کا مطلوب تو ہی ہے، میرا مرنا بھی تیرے لیے اور جینا بھی تیرے لیے ہے) شیخ فریدالدین ان اشعار کو پڑھنے کے بعد اللہ کے حُضور سجدہ ریز ہوئے، جب متعدد بار آپ نے اسی طرح کیا تو میں آپ کے حجرے میں داخل ہوا اور آپ کے قدموں میں اپنا سر رکھا آپ نے فرمایا کیا چاہتے ہو، میں نے کچھ دینی اور مذہبی امور طلب کیے، سو آپ نے وہ امور مجھے عطا فرمادیے، اس کے بعد مجھے افسوس ہوا کہ میں نے محفل سماع میں مرنے کی خواہش کیوں نہ کی۔

شیخ فریدالدین ہمیشہ اپنے کمرے میں اکیلے رہا کرتے تھے، کمرے کا دروازہ اندر سے بند فرماکر تمام شب راز و نیاز میں مشغول رہتے صبح کو آپ کے درخشندہ چہرے کو جو کوئی دیکھتا تو یہی کہتا کہ شب بیداری کی وجہ سے آپ کی آنکھیں سرخ ہیں، لوگوں کا بیان ہے کہ میر خسر و دہلوی نے اپنے پیر و مرشد خواجہ نظام الدین اولیاء محبوب الٰہی کی تعریف میں یہ شعر کہا ہے

تو شبانہ می نمائی ببر کہ بودے اشب
 کہ ہنوز چشم مستت اثرے خما ر دارد

 

ترجمہ: (آپ ہمیشہ رات کو دیدار کرتے ہیں، مگر آج رات کوئی خاص بات ہوئی ہے جس کی وجہ سے اب تک آپ کی آنکھوں میں خمار کے اثرات موجود ہیں)

ایک مرتبہ محبوب سبحانی خواجہ نظام الدین اولیاء نے فرمایا کہ ایک واقعہ میں مجھے ایک خط دیا گیا جس میں لکھا تھا کہ جب تک اور جتنا ممکن ہو لوگوں کے دلوں کو آرام پہنچاؤ کیونکہ مسلمان کا دل حقیقت میں خدا کے ظہور کا مقام ہے، قیمت کے بازار میں کوئی سامان اتنا مقبول نہ ہوگا جتنا دلوں کو آرام پہنچانا مقبول ہے۔

ایک روز خواجہ نظام الدین اولیاء دوپہر کو آرام فرما رہے تھے، اسی دوران ایک درویش آیا جس کو آپ کے ایک خادم نے واپس کردیا، محبوبِ سبحانی نے اسی قیلولہ کی حالت میں اپنے شیخ فریدالدین گنج شکر کو خواب میں دیکھا جو فرما رہے تھے کہ اگر آپ کے گھر میں کوئی چیز نہیں ہے تو کم از کم آنے والے کے ساتھ حُسنِ سلوک کی تو رعایت کیا کریں، یہ کہاں کا قاعدہ ہے کہ ایک خستہ دل، مجبور اور معذو رکو یو ں ہی لوٹا دیا جائے چنانچہ محبوبِ سبحانی نے بیدار ہوکر اس واقعہ کی تحقیق کی اور جس خادم نے آنے والے درویش کو لَوٹادیا تھا اس پر ناراض ہوئے اور فرمایا کہ میرے مرشد شیخ فریدالدین اس واقعہ سے مجھ پر بہت ناراض ہوئے ہیں اور مجھ پر خفگی کا اظہار فرمایا ہے، اس کے بعد محبوبِ سبحانی نے یہ دستور بنالیا تھا کہ قیلولہ کے بعد جب بیدار ہوتے تو پوچھتے کہ کوئی آیا تھا یا نہیں؟

کچھ لوگوں نے محبوبِ سبحانی سے ملاقات کرنے کا ارادہ کیا اور آتے وقت انہوں نے شیخ کو بطور تحفہ پیش کرنے کے لیے کچھ چیزیں خرید لیں، ان لوگوں میں ایک طالب علم بھی تھا اس نے کہا ان تمام تحفوں کو ایک ساتھ ہی پیش کردیں گے تاکہ خادم کو گھر لے جانے میں آسانی رہے ، اس طالب علم نے یہ حرکت کی کہ تھوڑی سی مٹی اٹھاکر ایک کاغذ میں باندھ دی، سب نے محبوبِ سبحانی کی خدمت میں حاضری دی اور ہر ایک نے شیخ کی خدمت میں اپنا اپنا تحفہ پیش کیا اور اس طالب علم نے وہ مٹی کی پڑیا پیش کی، شیخ کے خادم نے وہ تمام اٹھانے شروع کردیے اور جب وہ پڑیا اٹھانے لگا تو شیخ نے فرمایا اس کو یہیں رہنے دو اس کے اندر ہماری آنکھوں میں ڈالنے کا سرمہ ہے جب طالب علم نے یہ بات سنی تو اس نے اپنی حرکت سے توبہ کی، پھر شیخ نے اس طالب علم سے فرمایا کہ تمہیں کھانے وغیرہ کی جب ضرورت ہو تو میرے پاس آجایا کرو۔

ہر جمعہ کی شب خانہ کعبہ میں:

 ایک آدمی اپنے گاؤں سے محبوبِ سبحانی کی ملاقات کے ارادہ سے اپنے گھر سے روانہ ہوا، اثنائے سفر میں جب وہ قصبہ بوندی پہنچا تو وہاں ایک بزرگ رہتے تھے اور لوگ ان بزرگ کو شیخ مومن کہتے تھے، یہ آدمی ان بزرگ سے بھی ملنے چلا گیا، (جب یہ ان کے پاس پہنچا) تو انہوں نے فرمایا، کہاں جانے کاارادہ ہے؟ اس نے کہا شیخ نظام الدین کے پاس جانے کا، شیخ مومن نے فرمایا کہ محبوبِ سبحانی کو میرا سلام کہنا اور یہ بھی کہنا کہ جمعہ کی ہر شب کو میں آپ سے خانہ کعبہ میں ملا کرتا ہوں ، اس آدمی نے محبوبِ سبحانی کی خدمت میں حاضری دی اور کہا کہ قصبہ بوندی کے درویش نے آپ کو سلام کہا ہے اور یہ باتیں کہی ہیں، محبوبِ سبحانی کچھ بے چین ہوئے اور فرمایا کہ وہ بہت بلند درجہ بزرگ ہے مگر اپنے قول پر قائم نہیں رہتا۔

ایک دفعہ سلطان علاؤ الدین خلیجی نے بطور امتحان امور مملکت کے انتظام کے لیے محبوب سبحانی کی خدمت میں چند فصلیں لکھ بھیجیں جن میں ایک فصل کا مضمون تھا۔ ’’حضرت شیخ کونین کے مخدوم ہیں لوگوں کی دینی اور دنیاوی اکثر حاجتیں آپ کے دربار سے پوری ہوتی ہیں اور اللہ نے دنیا کی مملکت کی باگ ڈور ہمارے ہاتھ میں دی ہے، اس لیے ضرورت اس بات کی ہے کہ مملکت کے مسئلے آپ کے سپرد کردیے جائیں تاکہ جس امر میں مملکت کی بھلائی اور ہماری بہتری ہوآپ اس سے ہم لوگوں کو آگاہ فرمادیا کریں۔ا سی کے متعلق چند متعلقہ مرتبہ فصلیں جناب والا کی خدمت میں پیش ہیں، جس امر میں بھلائی اور خیر ہو اس کے نیچے تحریر فرمادیں تاکہ ہم اس پرعمل کراسکیں‘‘۔

سلطان علاؤالدین خلجی نے یہ فرمان اپنے محبوب فرزند خضر جاں کے ذریعہ جو خواجہ نظام الدین کا مرید بھی تھا ارسال خدمت کیا۔ خضر خاں نے جب یہ فرمان سر بمہر شیخ محبوب سبحانی کے دستِ اقدس میں دیا تو آپ نے اسے کھولے بغیر حاضرین مجلس سے فرمایا آؤ فاتحہ پڑھیں اس کے بعد فرمایا شاہی معاملات اور امور سے فقیروں کا کیا واسطہ، میں ایک فقیر، شہر کے ایک کونے میں پڑا ہوا بادشاہ اور دیگر مسلمانوں کے لیے دعا کر رہا ہوں، اگر مجھے اس شہر میں رہنے کی وجہ سے پھر کچھ کہا گیا تو اس شہر کو چھوڑ کر کسی اور جگہ چلا جاؤں گا، کیونکہ اللہ کی زمین بہت وسیع ہے، سلطان علاؤ الدین خلجی کو جب یہ خبر پہنچی تو بہت خوش ہوا اور اس کے بعد آپ کا عقیدت مند ہوگیا اور کہلا بھیجا کہ اگر جناب والا اجازت دیں تو حاضر ہوں جس کے جواب میں محبوبِ سبحانی نے کہلا بھیجا کہ آنے کی کوئی ضرورت نہیں میں آپ کی غیوبت میں آپ کے لیے دعا کرتا ہوں کیونکہ عدم موجودگی میں جو دعا کی جاتی ہے وہ پر تاثر ہوتی ہے۔ سلطان نے اس کے بعد پھر ملنے کے لیے من و سماجت کی تو آپ نے کہلا بھیجا کہ فقیر کے گھر کے دو دروازے ہیں اگر بادشاہ سلامت ایک دروازے سے آئیں گے تو میں دوسرے دروازے سے نکل کر باہر چلا جاؤں گا۔

محبوب سبحانی فرمایا کرتے تھے کہ میں نے سماع کے جتنے اوصاف سنے ہیں، ان تمام اوصاف سے زائد اخلاق حمیدہ کے اعتبار سے شیخ کبیر کو محمول کرتا ہوں، ایک دن میں نے اپنے شیخ کی زندگی میں بھری مجلس میں ایک کہنے والے سے یہ شعر سنا تھا

مخرام بدین صفت مبادا
 کز چشم بدت رسد گزندے

ترجمہ: (دنیا کی زندگی میں اس طرح نہ رہو کہ کہیں خدانخواستہ تمہیں نظر بد لگ کر تکلیف پہنچے) آج مجھے شیخ کے اخلاق حمیدہ اور بزرگی اور مہربانی یاد آتی ہیں جس کے وہ مجسمہ اور پیکر تھے اتنا کچھ فرمانے کے بعد محبوب سبحانی کی آنکھوں میں آنسو آگئے پھر فرمایا کہ تھوڑے ہی دنوں کے بعد میرے شیخ نے جان جانِ آفریں کے حوالے کی۔

ایک آدمی نے حضرت محبوبِ سبحانی کی مجلس میں کہا کہ فلاں جگہ پر آپ کے دوست جمع ہیں اور مختلف قسم کے باجے بجا رہے ہیں، آپ نے ارشاد فرمایا کہ میں نے تو ان کو گانے باجے اور محرمات سے دور رہنے کا حکم دیا تھا انہوں نے اچھا نہیں کیا اور پھر ان کے اس طرز عمل کی بڑی شد و مد سے تردید کی کہ ان لوگوں نے غلو سے کام لیا ہے، شریعت میں قوالی وغیرہ اور مزامیر کی کوئی اجازت نہیں، اس کے بعد فرمایا کہ شیخ اوحد الدین کرمانی ایک مرتبہ شیخ شہاب الدین کے پاس آئے، چنانچہ شیخ شہاب الدین نے اپنی جا نماز اکٹھی کرکے اپنے زانو کے نیچے رکھ لی اس سے مطلب آنے والے کی تعظیم کرنا ہوتی ہے جب رات ہوئی تو شیخ اوحدالدین نے سماع سننے کی خواہش ظاہر کی، شیخ شہاب الدین نے محفل سماع کے لیے ایک جگہ منتخب کی اور اسے خوب صاف و ستھرا کرایا اور اس کے بعد غزل خواں کو بلوایا اور خود گھر کے ایک کونے میں جاکر عبادت الٰہی میں مشغول ہوگئے۔

شیخ عبدالحق رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ یہ حکایت اس تحریر کے خلاف ہے جو نفحات الانس میں ہے جس میں لکھا ہے کہ مولانا شہاب الدین کے پاس اگر کوئی شیخ اوحدالدین کا ذکر کرتا تو مولانا فرمایا کرتے کہ ہمارے سامنے اس بدعتی کا ذکر نہ کیا کرو، ساتھ ہی شیخ رکن الدین علاؤ الدین کا بیان ہے کہ یہ قصہ صحیح ہے اور مختلف اوقات پر محمول ہے باقی اللہ ہی زیادہ بہتر جاننے والا ہے۔

ایک شخص نے ایک مرتبہ ایک خط لکھا جس میں تحریر کیا کہ مجھ سے خطا ہوئی اور ایک نامعقول کام کا مرتکب ہوا ہوں اور یہ رقعہ محبوبِ سبحانی کو دیدیا، خط پڑھنے میں محبوب سبحانی کو قدرے دیر ہوگئی، آپ نے خط کو پڑھا نہیں اور فرمایا کہ مولانا یہ خط آپ کا ہے؟ مولانا معذرت خواہی کے ساتھ آگے بڑھے اور کہا جی ہاں یہ خط بندۂ طبعی کا ہے آپ نے مسکراکر فرمایا خوب طبیعت خوب۔

محبوبِ سبحانی نے وصال سے چالیس دن پہلے کھانا ترک فرمادیا تھا اور آخری وقت جب اس دنیا سے جا رہے تھے تو پوچھنے لگے کہ نماز کا وقت ہوگیا اور کیا میں نے نماز پڑھ لی ہے؟ اس پر لوگ جواب دیتے کہ جی ہاں آپ نماز ادا فرما چکے ہیں تو ارشاد فرماتے کہ میں دوبارہ پھر پڑھتا ہوں، غرض یہ کہ ہر نماز کو تکرار سے پڑھتے اور فرماتے کہ ہم جا رہے ہیں ہم جا رہے ہیں، ہم جا رہے ہیں، پھر خادم کی طرف متوجہ ہوکر فرمایا کہ اگر گھر میں کسی قسم کا کوئی سامان رہا تو کل قیامت کے روز اس کے متعلق جواب دینا پڑے گا چنانچہ خادم نے سب کچھ لوگوں میں تقسیم کردیا، البتہ وہ غلہ رہنے دیا جو درویشوں کے کھانے کے لیے تھا (آپ نے خادم سے) پھر فرمایا کہ مُردہ مال کیوں رکھ چھوڑا ہےا س کو بھی نکال پھینکو اور گھر میں جھاڑو دیدو، تب خادم نے غلہ خانے کے دروازے کھول دیے اور لینے والے لوگوں کا ایک ہجوم جمع ہوگیا ور تمام غلہ لے گئے، اس کے بعد دوسرے خادموں نے عرض کیا کہ آپ کے بعد ہم غریبوں کا کیا حال ہوگا، آپ نے فرمایا (کہ گھبرانے کی ضرورت نہیں) ہمارے روضہ سے تمہیں اتنا مل جایا کرے گا جو تمہاری ضروریات کے لیے کافی ہوگا۔ ان خادموں نے پھر عرض کیا کہ ہم میں سے آمدنی کو کون تقسیم کیا کرے گا؟ آپ نے فرمایا، تقسیم کرنے کا حقدار وہ ہے جو اپنے حصہ سے دستبردار ہوجایا کرے گا، بعد طلوع آفتاب بروز چہار شنبہ، 18؍ربیع الاول 725ھ میں آپ نے وفات پائی، حضرت محبوب سبحانی کا ارشاد ہے کہ چلنے والا کمال کی طرف متوجہ رہتا ہے، یعنی سالک جب تک سلوک کے مراحل طے کرتا رہتا ہے تو کمال کا اُمید وار رہتا ہے۔

امیدوار کی تین قسمیں ہیں؟ سالک، واقف، راجع، سالک وہ ہے جو راہ سلوک میں مسلسل چلتا رہے۔ واقف وہ ہے جس کی راہ سلوک میں کوئی وقفہ پیش آئے، اس مقام پر لوگوں نے عرض کیا کہ کیا سالک کو بھی اس راہ میں وقفہ پیش آجاتا ہے؟ فرمایا ہاں! اس وقت جب سالک کو عبادت کرنے میں کوئی کمی اور لغزش ہوجائے جس سے عبادت کا ذوق و لطف ختم ہوجائے تو اس وقت سالک کے لیے بھی وقفہ پیدا ہوجاتا ہے، اس حالت میں اگر سالک فوراً کوئی تدبیر کرکے اللہ کے حضور توبہ کرلے تو اپنی اصلی حالت پر رہ سکتا ہے اور اگر خدانخواستہ وہ اپنی موجودہ حالت پر ہی رہے تو پھر اس بات کا سخت خطرہ ہے کہ کہیں راجع نہ بن جائے اس کے بعد سالک سے جو سلوک کے راستہ پر چلتے ہوئے لغزشیں ہوجاتی ہیں ان کو بیان کیا کہ وہ کل سات ہیں۔ اعراض، حجاب، تفاصل، سلب مزید، سلب قدیم، تسلی، عداوت، پھر فرمایا کہ عاشق و معشوق دو دوست ہیں جو باہم دیگر ایک دوسرے کی محبت میں رہتے ہیں جیسا کہ کسی نے کہا ہے۔

الفت کا جب مزا ہے کہ دونوں ہوں بے قرار
 دونوں طرف ہو آگ برابر لگی ہوئی

اسی حالت میں اگر عاشق سے کوئی ایسی چیزسر زد ہوجائے جو معشوق کو ناپسند ہو تو معشوق اپنے اس عاشوق سے اعراض کرتا ہے، یعنی اپنی توجہ اس کی طرف نہیں کرتا، اس لیے عاشق کے لیے ضروری ہے کہ وہ فوراً ہی توبہ کرکے عذر خواہی کرے جس کے نتیجہ میں اس پر معشوق لازماً خوش ہوجائے گا اور عاشق اگر اپنی غلطی پر مصر رہے اور معذرت نہ کرے تو یہ اعراض اس وقت حجاب بن جاتا ہے، یعنی معشوق اپنے اور عاشق کے مابین پردہ ڈال لیتا ہے، اس صورت میں عاشق پر ضروری ہے کہ گریہ و زاری، آہ و بکا کے ساتھ توبہ کرے، اگر اس مرحلہ میں ذرا سی کوتاہی سے کام لیا گیا تو یہ حجاب، تفاصل یعنی جدائی سے تبدیل ہوجائے گا، یعنی یوں ہوتا ہے کہ معشوق اپنے عاشق سے جدا ہوجاتا ہے، اگر اس حالت پر بھی کوئی عذر خواہی نہ کرے تو پھر تفاصل، سلب مزید سے تبدیل ہوجاتا ہے، یعنی عاشق سے درود، وظیفہ، عبادت وغیرہ کا ذوق اور لطف ختم کردیا جاتا ہے، اب بھی اگر عاشق اپنی ہٹ دھرمی پر ڈٹا رہے اور کوئی عذر وغیرہ نہ کرے تو سلب مزید، سلب قدیم کی صورت اختیار کرلیتی ہے، یعنی عبادت ا طاعت کی راحت و ثواب جو پہلے سے حاصل تھا وہ چھین لیا جاتا ہے، اس حالت میں بھی اگر توبہ و استغفار میں کوتاہی سے کام لیا گیا تو سلب قدیم، تسلی بخش میں متشکل ہوجاتا ہے یعنی معشوق دل سے اپنے اس عاشق کی جدائی کا متمنی اور خواہش مند ہوجاتا ہے اس وقت بھی اگر توبہ و استغفار میں غفلت سے کام لیا گیا تو تسلی، عداوت سے متبدل ہوجاتی ہے اللہ تعالیٰ ہم سب کو غلطیوں اور لغزشوں سے محفوظ رکھے، ایک مرتبہ فرمایا کہ سماع نہ مطلقاً جائز ہے نہ مطلقاً ناجائز و حرام ہے، لوگوں نے دریافت کیا، حضرت سماع کا کیا حکم ہے؟ فرمایا: جیسے سننے والے ہوں (پھر ذرا تفصیل سے فرمایا) کہ سماع تو ایک خوش اور بہترین آواز کے سننے کا نام ہے اس لیے اسے ناجائز نہیں کہا جاسکتا البتہ وہ سماع جس میں مزامیر اور باجے وغیرہ ہوں وہ سب کے نزدیک مطلقاً حرام و ناجائز ہے۔

ایک در پکڑ اور مضبوطی سے پکڑ: ایک مرتبہ فرمایا کہ بعض مرید ایسے ہوتے ہیں جو اپنے پیر و مرشد پر اکتفا نہیں کرتے اور دوسرے پیر کے ہاتھ پر بیعت کرکے اس سے خرقہ حاصل کرلیتے ہیں، میرے نزدیک یہ حرکت کوئی قابل قبول نہیں، دراصل بیعت تو وہی ہے جو پہلی مرتبہ کسی کے ہاتھ پر کی جائے، اگرچہ وہ پیر و مرشد ایک عام ہی کیوں نہ ہو۔

خواجہ نظام الدین اولیاء سے کسی نے ایک مرتبہ شیخ منصور حلاج کے متعلق دریافت کیا، تو آپ نے فرمایا کہ مردہ دراصل خیر نساج کا مرید تھا جن کی ارادت و عقیدت سے منہ موڑ کر شیخ جنید بغدادی سے بیعت کرنا چاہی تو شیخ جنید نے فرمایا کہ تم دراصل خیر نساج کے مرید ہو، میں تمہیں دوبارہ بیعت نہیں کرتا، چنانچہ شیخ جنید جو اپنے وقت کے مقتدا اور کامل تھے انہوں نے حلاج کو واپس کردیا، چونکہ شیخ منصور حلاج کو آپ نے واپس لَوٹا دیا تھا اس لیے دوسرے تمام مشائخ نے بھی ان سے بیعت نہ لی۔

مولف کتاب (شیخ عبدالحق دہلوی) فرماتے ہیں کہ منصور حلاج کے متعلق مختلف حکایتیں مشہور ہیں۔ حقیقت حال تو صرف اللہ تعالیٰ ہی کو معلوم ہے لیکن محبوب سبحانی حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی سے منقول ہے، آپ نے فرمایا کہ منصور حلاج دراصل ولی اور اللہ تعالیٰ کا مقرب بندہ تھا، مگر وہ پھسل گیا اس زمانہ میں کوئی ایسا نہ تھا جو اس کی دستگیری کرتا اگر وہ میرے زمانے میں ہوتا تو میں اس کا ہاتھ تھام لیتا (یعنی اس کی رہنمائی کرتا)۔

قطعہ

گرچہ ایزد دہد ہدایت دیں
بندہ را اجتہاد باید کرد
نامہ کاں بحشر خواہی خواند
 ہم از ینجا سواد باید کرد

ترجمہ: (دین کی ہدایت اگرچہ اللہ تعالیٰ ہی فرماتا ہے مگر انسان کو بھی آخر کوشش کرنا چاہیے، لوگ حشر میں اپنے نامہائے اعمال پڑھیں گے، اس لیے اس دنیا میں سواد اعظم حاصل کرلینا ضروری ہے)

محبوبِ سبحانی نے ایک مرتبہ فرمایا کہ اگر کوئی مرید اپنے شیخ سے عرض کرے کہ میں آپ کا مرید ہوں اور پیر صاحب فرمائیں کہ تو میرا مرید نہیں ہے تو اس حالت میں اس کو مرید ہی تصور کیا جائے گا، لیکن اگر کوئی شیخ اپنے کسی مرید سے کہے تو میرا مرید ہے اور مرید کہے کہ میں آپ کا مرید نہیں تو ایسے شخص کو مرید نہیں سمجھا جائے گا، اس لیے کہ ارادت دراصل مرید کا فعل ہے جو پیر کا کام نہیں۔

ایک مرتبہ آپ نے فرمایا کہ سچے لوگوں کی صبح صبح کے وقت ہوتی ہے اور عاشقوں کی صبح شام سے شروع ہوتی ہے جو عشاء سے فجر کی نماز تک شب بیدار رہ کر زندہ و تابندہ رہتے ہیں انہیں لوگوں کو مشائخ کہا جاتا ہے۔

ایک مرتبہ آپ نے فرمایا کہ پیر و مرشد کی صحبت سے جو خرقہ حاصل کیا جائے وہ کسی دوسرے کو نہ دیا جائے اسے دھونا ناجائز نہیں مگر بہتر یہی ہے کہ اسے دھویا نہ جائے۔

ایک مرتبہ فرمایا کہ انوار الٰہی سے فیض یافتہ پیرا گر وصیت کرے کہ قبر میں اس کے برابر فلاں عمدہ چیز رکھ دی جائے تو اس چیز کو اس کے پہلو میں رکھنا جائز ہے یا یہ وصیت کرے کہ فلاں صالح فرزند کو یہ چیز دیدی جائے تو لازمی طور پر وہ چیز موصی لہ کو دیدی جائے۔

سیرالاولیاء میں لکھا ہے کہ محبوبِ سبحان خواجہ نظام الدین کو جب قبر میں اتارا گیا تو وہ خرقہ جو آپ کو شیخ فریدالدین گنج شکر نے عنایت فرمایا تھا وہ آپ کے جسم پر اوڑھا دیا گیا اور شیخ کی جائے نماز آپ کے سر مبارک کے نیچے رکھ دی گئی۔

ایک مرتبہ فرمایا کہ کل قیامت کے دن کچھ لوگوں کو چوروں کی جماعت کے ساتھ کھڑا کیا جائے گا یہ لوگ کہیں گے کہ (اے رب ذوالجلال) ہم نے تو (دنیا میں) کوئی چوری نہیں کی تھی (پھر ہمیں چوروں کے ساتھ کیوں کھڑا کیا گیا ہے) تو آواز آئے گی کہ تم نے جوان مردی کا لباس تو پہنا مگر عمل کوئی نہ کیا۔ آخرکار یہ لوگ بھی نیک لوگوں کی شفاعت سے نجات پائیں گے۔

ایک دفعہ ارشاد فرمایا کہ اس ضعیف نے جتنے خرقے پہنائے ہیں ان میں سے چار کو خرقہ ارادت پہنایا ہے اور باقی دیگر لوگوں کو محض برکۃ خرقہ دیا ہے، ایک دفعہ فرمایا کہ تصوف کی کتب میں لکھا ہے کہ سلوک کے سو درجے ہیں جن میں سے سترہواں درجہ کشف و کرامت ہے، اگر سالک اسی میں رہ جائے تو باقی تراسی درجوں کا حصول کب کرے گا اس لیے فقیر درویش کو اپنی نظر کشف و کرامت تک محدود نہیں رکھنا چاہیے۔

ایک مرتبہ فرمایا کہ جب میرے مخدوم نے مجھے خلافت سے نوازا تو ارشاد فرمایا کہ اللہ نے تمہیں علم، عقل اور عشق کی دولت سے سرفراز فرمایا ہے جس میں یہ تینوں چیزیں موجود ہوں وہ خلافت شیخ اور مشائخ کا مستحق ہے اور حقیقت یہ ہے کہ انہیں تین چیزوں سے کام محسن و خوبی پایہ تکمیل تک پہنچنا ہے۔ حضرت محبوب سبحانی اور تمام مشائخ اور بزرگوں پر اللہ تعالیٰ اپنی رحمتیں نازل فرمائے۔

(اخبار الاخیار)

مردانِ دین کے اوصاف سے موصوف تقوی و یقین کے ساتھ مشہور و معروف خواجہ نظام الملۃ والدّین ہیں۔ سلطان المشائخ فرماتے ہیں کہ خواجہ نظام الدین کو جو خواجہ یعقوب سے بڑے تھے اور شیخ شیوخ العالم کے باقی فرزندوں سے چھوٹے تھے شیخ شیوخ العالم اپنے تمام فرزندوں سے زیادہ دوست رکھتے تھے۔ خواجہ نظام الدین لشکری اور سپاہی آدمی تھے اور شیخ شیوخ العالم سے بہت گستاخ تھے آپ جو کچھ کہتے شیخ شیوخ العالم اس وجہ سے کہ انہیں انتہا درجہ کا دوست رکھتے تھے رغبت کے کانوں سے سنتے اور خوش آئندہ تبسم فرماتے اور جو کچھ وہ کہتے اس سے کبھی رنجیدہ نہیں ہوتے تھے۔ منقول ہے کہ خواجہ نظام الدین جوانمردی اور شجاعت میں حیدر ثانی تھے۔ آپ فراست صادق رکھتے تھے اور گیا ست ظاہر۔ چنانچہ شیخ شیوخ العالم کی وفات کے ضمن میں آپ کی فراست و کرامت کا بیان گزر چکا ہے۔ شیخ شیوخ العالم کے انتقال کے بعد جب دیار اجودھن میں کفار پہنچے تو خواجہ نظام الدین نے اپنی بے دہڑک شجاعت اور بے خوف جوانمردی سے کفار کے ساتھ جنگ کی اور بے حد جدال و قتال کے بعد شہادت کا چھلکتا ہوا ساغر منہ سے لگایا۔ جب لوگوں نے مقتولوں کے درمیان آپ کی نعش کی تلاش کی تو اس بزرگ زادہ عالم کی نعش کا کہیں سراغ نہیں ملا۔

(سِیَرالاولیاء)

سلسلۂ نسب

حضرت اقدس کا شجرۂ نسب پدری ومادری تمام مؤرخین کے نزدیک امیر المومنین حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے جا ملتا ہے روایت ہے کہ حضرت سلطان المشائخ دونوں کی طرف سے سید حسینی ہیں۔ آپ کی نسبت پدری حسب ذیل ہے۔

سلطان المشائخ حضرت شیخ نظام الدین محمد اولیاء بن خواجہ احمد بن خواجہ علی البخاری بن سید عبداللہ بن سید حسین بن سید علی بن سید احمد بن سید ابی عبداللہ بن سید علی اصغر بن سید جعفر بن امام علی الہادی بن امام محمد جواد بن امام علی الرضا، بن امام موسیٰ کاظم، بن امام جعفر صادق بن امام محمد باقر بن امام زین العابدین، بن امام حسین بن امام اوّل امیر المومنین حضرت علی رضی اللہ عنہم ۔

آپ کا سلسلۂ نسب مادری یہ ہے کہ حضرت خواجہ غرب البخاری جو حضرت سلطان المشائخ کے نانا ہیں۔ خواجہ عرب نجاری کے والد سید ابو المفاخر ابن سید محمد طاہر ہیں۔ جو حضرت ابو محمد سیدنا عبدالقادر جیلانی قدس سرہٗ کے خلیفہ ہیں اور سید محمد طاہر کے والد وہ سید حسین بن سید علی ہیں جن کا ذکر آپ کے سلسلۂ نسب پدری میں ہوچکا ہے۔

چنانچہ اسن اسناد کی بنا پر حضرت سلطان المشائخ دونوں طرفوں سے سید حسینی ہیں اور یہ جو مولانا جامی رحمۃ اللّٰہ علیہ نے کتاب اپنی نفحات الانس میں آپکو خالدی لکھا ہے اسکی تحقیق کسی دوسری کتاب سے نہیں ہوسکی۔ ظاہر ہے کہ حضرت سلطان المشائخ کے حالات نسب مولانا جامی رحمۃ اللہ علیہ تک صحیح طور پر بوجہ بُعد مکانی وزمانی نہیں پہنچے ہوں گے۔ مراۃ الاسرار میں لکھا ہے کہ حضرت سلطان المشائخ کے آباواجداد شہر بخارا کے رہنے والے تھے جو گنجینۂ علم اور کان حلم ہے آپ کے دادا خواجہ علی اور آپ کے نانا عرب بخاری دونوں بخارا سے لاہور آئے۔ اور وہاں سے بد ایوں جاکر سکونت اختیار کی۔ اب دونوں حضرات میں رشتہ داری شروع ہوگئی۔ چنانچہ خواجہ عرب نے اپنی بیٹی بی بی زلیخا جو رابعہ عصر تھیں کا عقد نکاح حضرت سلطان المشائخ کے والد ماجد حضرت خواجہ احمد بن علی رحمہ اللہ سے کردیا۔ حضرت بی بی زلیخا کا مزار دہلی میں ہے اور زیارت گاہ اور حاجت رد اخلاق ہے۔ خواجہ احمد کو جمال دیانت وصلاح سے آراستہ پیراستہ تھے۔ بادشاہ وقت نے شہر بد ایوں کی قضاتفویض کی۔ چنانچہ آپ کا مرقد مبارک بھی اُسی شہر میں زیارت گاہِ خلائق ہے۔ حق سبحانہٗ وتعالیٰ ان دو بزرگ ہستوں کے ذریعے دُرّکانِ کرامت و سرمایۂ عشق و محبت حضرت سلطان المشائخ قدس سرہٗ کو بروش چہار شنبہ بعد طلوع آفتاب بتاریخ ستائیس صفر ۶۲۶؁ھ قصبہ بد ایون ہی میں وجود میں لائے۔ یہی وجہہے کہ ہر سال ماہ صفر کے آخری چہار شنبہ کے روز آپکے مزار مبارک پر آپکی سالگرہ کی رسم جو آپ کے حین حیات سے چلی آرہی ہے اب بھی منائی جاتی ہے۔ مزار کو غسل دیا جاتا ہے غسل کےپانی سے مریضوں کا علاج کیا جاتا ہے اور وہ شفایاب ہوجاتے ہیں۔

اس کتاب میں یہ بھی لکھا ہے کہ حضرت سلطان المشائخ رحمۃ اللہ علیہ تمام مقاماتِ غوثی، قطبی اور فردانیت سے گذر کر مرتبۂ محبوبیت پر پہنچ چکے تھے اور آپ کے اقوال وافعال تمام مشائخ کے لیے حجت قاطع ہیں (یعنی قطعی حکم رکھتے ہیں)

اسرار السالکین میں روایت ہے کہ حضرت سلطان المشائخ مکان کی اوپر والی منزل پر رہتےتھے۔ آپ صبح کے وقت نیچے آکر صبح کی نماز ادا کرتےتھے اور پھر اوپر چلےجاتےتھے۔ مکان کی چھت میں سوراخ تھا۔ تمام اصحاب ہر وقت اس سوراخ کی طرف دیکھتے رہتے تھے جب وہ بادشاہِ حُسن اپنا چاند جیسا چہرہ اس سوراخ کےسامنے کرتا تو اصحاب اوپر جاکر آپ کو وضو کراتے تھے اور پوشاک پہنا کر عطر وغیرہ لگاتے تھے اور پھر نیچے آجاتے تھے۔ اسکے بعد وہ پھر اوپر کی جانب دیکھتے رہتےتھے۔ جب آپ سوراخ سے جھانکتےتو اصحاب اوپر جاکر آپ کو غسل دیتےتھے اور عمدہ لباس زیب تن کراتے تھے اور آنکھوں میں سرمہ لگاکر پلنگ بستر لگاتے تھے اور جب آپ بستر پر بیٹھ جاتےتھے تو اصحاب پھر نیچے آجاتےتھے۔ اور پر اوپر کی جانب انکی نگاہیں لگی رہتی تھیں۔ بغیر اجازت اوپر جانےکی کسی کی مجال نہ تھی۔ ایک دن آپ کا کلاہ مبارک اس سوراخ سے نیچےگر گیا۔ اصحاب نے اوپر جاکر دیکھا کہ حضرت اقدس کےتمام اعضاء موم کی طرح نرم ہوچکےہیں۔ انہوں نے آپ کو اٹھایا، غسل دیا اور سفید کپڑےپہنائے۔ جب حضرت اقدس کی حالت میں افاقہ ہوا تو سب سے پہلے دریافت کیا کہ مجھ سے کتنی نمازیں قضا ہوگئیں ہیں۔ قضا شدہ نمازیں ادا کر کے پھر اسی طرح بیٹھ جاتے تھے۔ ایک دن اسی حالت میں بیٹھے ہوئے تھے کہ حضرت شیخ رکن الدین ابو الفتح ملتانی رحمۃ اللّٰه علیہ جو حضرت شیخ بہاؤ الدین زکریا ملتانی قدس سرہٗ کے پوتے تھے ملتان سے حضرت اقدس سے ملاقات کی خاطر تشریف لائے انہوں نے حضرت سلطان المشائخ کے اصحاب سے کہا کہ حضرت محبوب الٰہی کومیری اطلاع کردو۔ انہوں نے عرض کیا کہ حضور آج اوپر جانا ہماری طاقت سےباہر ہے۔ یہ سُنکر انہوں نے فرمایا کہ اچھاتم اوپر نہیں جاتے تو میں خود جاتا ہوں۔ اصحاب نے عرض کیا کہ بہتر یہی ہے کہ آپ خود اوپر تشریف نہ لے جایئے۔ لیکن انہوں نےاس بات کی پروا نہ کی اور اوپر چلے گئے اوپر جاکر کیا دیکھتےہیں کہ حضرت سلطان المشائخ حالت تحیر میں بیٹھے ہیں انہوں نے اسلام علیکم کہا لیکن آپ نے کوئی جواب نہ دیا اور جواب بھی کیسے دے سکتے تھے۔ اس وقت انکو اپنی خبر نہیں تھی۔ حضرت شیخ رکن الدین نے جب یہ حالت دیکھی تو واپس آگئے اور چلے گئے۔ 
جب حضرت سلطان المشائخ کی حالت میں افاقہ ہوا تو آپ نے اصحاب سے کہا کہ آج مجھے ولایت کی بو آرہی ہے۔ یہاں کسی ولی اللہ کا گذر ہوا ہے۔ انہوں نے عرض کیا کہ جی ہاں حضرت شیخ رکن الدین تشریف لائےتھے لیکن ہمارے اندر منع کرنے کی طاقت نہیں تھی۔ اسکے بعد جب ایک دفعہ حضرت شیخ رکن الدین کی حضرت سلطان المشائخ سے ملاقات ہوئی تو انہوں نے دریافت کیا کہ اس روز آپ کس حالت میں تھے۔ آپ نے جواب دیا کہ اللہ تعالیٰ سے دریافت کریں۔ چنانچہ ایک دن مناجات میں شیخ رکن الدین نے عرض کیا کہ خدا وند! اس روز شیخ نظام الدین کس حالت میں تھے فرمان ہوا کہ نظام الدین کی مثل اس نلیگوں آسمان کےنیچے کوئی صوفی نہں ہے۔ انہوں نے د وبارہ عرض کیا کہ ملکا، بادشاہا اس بات سے میری تسکین نہیں ہوئی۔ جواب ملا کہ وہ مقام محبوبی میں ہے۔ راقمالحروف کہتا ہےکہ یہ بات سوائےاسرار السالکین کے کسی اور کتاب میں درج نہیں ہے اور یہ تفصیل غرابت اور ضعف سے بھی خالی نہیں ہے جیسا کہ اصحاب فہم سے مخفی نہیں۔ البتہ اس بات پر سب کا اتفاق ہےکہ حضرت سلطان المشائخ قدس سرہٗ محبوب بارگاہِربانی تھے۔ جیسا کہ حضرت شیخ نصیر الدین اودھی قدس سرہٗ کے خلیفہ حضرت میر سید محمد جعفر مکی اپنی کتاب بحر المعانی میں لکھتے ہیں کہ ایک دن یہ فقیر دریائےنیل مصر میں کشتی پر حضرت خواجہ خضر علیہ السلام کے ساتھ سوار تھا کہ حضرت خضر نے فرمایا حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللّٰه علیہ اور حضرت شیخ نظام الدین بدایونی مقام محبوبی میں تھے یعنی دونوں حضرات روح احمد ﷺ کے مشرب پر تھے۔

مرتبہ محبوبیت کی خوشبو:
صاحب سیر الاولیاء لکھتے ہیں کہ جب ولئ کامل مراتب قطب قطبیّت و فردانیّت[1] طے کر کے مرتبۂ محبوبیت یعنی مرتبۂ معشوقی پر پہنچ جاتے ہیں تو انکی ذات پاک اسرار الٰہی کا مظہر بن جاتی ہے اور انکار ارادہ حق سبحانہٗ تعالیٰ کا ارادہ ہوجاتا ہے اور انکا جسم مبارک سراپا عطریات غیبی سےمعطر ہوجاتاہے اور جو شخص انکے قریب جاتا ہے وہ بھی اس خوشبو سے معتبر ہوجاتا ہے۔ بلکہ انکا پورا گھر عنبر و مشک بن جاتا ہے۔

اور جب وہ قبر میںجاتےہیں تو قبر بھی معطر ہوجاتی ہے۔ چنانچہ مرتبہ محبوبیت کی یہ علامت آج بھ ی حضرت سلطان المشائخ قدس سرہٗ کے مزار مبارک پر ظاہر ہے۔ طالب اس کا مشاہدہ کر سکتا ہے۔

اس کتاب میں یہ بھی لکھا ہے کہ ایک دفعہ مولانا ظہیر الدین کو توال دہلی حضرت سلطان المشائخ کی خدمت میں حاضر ہوا تو اسے عود کی خوشبو آنےلگی۔ اس نے خیالکیا کہ شاید حجرے کے اندر عود جل رہا ہے۔ جب خادم نے حجرہ کا دروازہ کھولا تو اندر کچھ بھی نہیں تھا۔ یہ دیکھ کر اُسے حیرت ہوئی تو حضرت اقدس نے اسکی طرف متوجہ ہوکر فرمایا کہ مولانا یہ عود کی خوشب نہیں ہے یہ اور چیز کی خوشبو ہے؎

عطار رابگو کہ بہ بندو دکاں راکہ من زدوست بوئے کشیدہ ام کہ زمشک وعنبر نیست

 (عطار سے کہو کہ اپنی دکان بند کرے کیونکہ مجھے اسکی خوشب کی ضرورت نہیں ہے میں نے دوست سے خوشبو حاصل کی ہے)

اس کتاب میں یہ بھی لکھا ہے کہ ایک دفعہ حضرت سلطان المشائخ نے اپنی استعمال شدہ گلیم قاضی محی الدین کاشانی رحمۃ اللّٰه علیہ کو عنایت فرمائی۔ اس گلیم سے عطر کی خوشبو آتی تھی۔ انہوں نے اُسے سر اور آنکھوں پر رکھا اور گھر لے گئے اور جان کی طرح عزیز رکھا۔ اس سے سارا گھر معطر ہوگیا۔ قاضی صاحب نے خیال کیا کہ شاید یہ خوشبو عارضی ہے۔ جب مدت گزرگئی اور خوشبو میں ذرہ برابر فرق نہ آیا تو ایک دن آزمائش کے طور پر اسے دھوڈلا۔ لیکن خوشبو پھر بھی نہگ ئی اس سے وہ حٰرت زدہ ہوئے اور حضرت اقدس کی خدمت میں جاکر کیفیت بیان کی۔ آپن ے آبدیدہ ہوکر فرمایا کہ قاضی صاحب یہ محبت الٰہی کی خوشبو ہے جو محبان خدا کے اندر سرایت کیے ہوئے ہے۔
ایں بوئے نہ بوئے بوستاں

 

ایں بوئے زکوئے دوستانست

(یہ خوشبو بوستان (باغ) کی نہیں ہے دوستان (دوستوں) کی ہے)

حضرت محبوب الٰہی کے متعلق ایک درویش کا شاندار کشف

راقم الحروف کہتا ہے کہ میرے شیخ حضرت شیخ سوندہا قدس سرہٗ کے اصحاب میں سے ایک فقیر تھا جسے عالم ارواح سے کمال نسبت تھی (یعنی کشف قبور بہت ہوتا تھا) ایک دن وہ حضرت سلطان المشائخ کے مزار مقدس کے پاس بیٹھے شغل برزخ البرازخ کر رہے تھے کہ ناگاہ اُسے عالم غیب سے ایک لا محدود اور بے کنار دریا نظر آیا اس دریا میں بیشمار نوری فوارے موجیں مار رہے تھے اور پانی کے فوارے کی طرح ہر فوارے سےنور کےشعلے اوپر اٹھ رہے تھے اور جو شعلہ نکلتا تھا و ہ کبھی مرد صاحب جمال کی صورت کی صورت مشتمل ہوجاتا تھا (یعنی شکل اختیار کرلیتا تھا) اس دریا کے اندر ایک نورانی کشتی تھی جس میں ایک جواہرات سے مرصع تخت رکھا تھا اس تخت پر ایک نہایت ہی خوبصورت بے ریش نو جوان نورانی شکل میں بیٹھا تھا اس شخص کے سر پر آفتاب کی طرح چمکتا ہوا تاج تھا اور وہ تجلیات الٰہی جو مختلف صورتیں بنکر فواروں سے نکل رہی تھیں اس تخت نشین محبوب کے گرد جاکر جلوہ گر ہوتی تھیں اور اس فقیر کے حق میں سفارش کرتی تھ یں جو مراقبے میں یہ کشف دیکھ کر رہا تھا۔ حتیٰ کہ وہ فقیر تخت کے قریب پہ۰نچ گیا اور اسکی خوشبو سے مست ہوگیا۔ کچھ دیر کے بعد جب افاقہ ہوا تو اس تخت نشین محبوب سے دریافت کیا کہ حضور کا اسم گرامی کیاہے جواب ملا کہ میرا نام نظام الدین بد ایونی ہے اور میں حق تعالیٰ کا محبوب ہوں۔

اس کے بعد اس درویش کو ایک دستار عنایت کی گئی اور حکم ہوا کہ جاؤ تجھے بھی اس ولایت سے بہرہ ور کیا گیا ہے۔ جب وہ درویش مراقبے سے فارغ ہوا تو اسکے لباس اور جسم سے اس قدر اچھی خوشبو آرہی تھی کہ ساری دنیا کی خوشبوئیں اسکے سامنےذرہ برابر نہیں ہیں۔ بلکہ اس درویش کا پورا جسم خوشبو بن چکا تھا۔ اور یہ خوشبو ہمیشہ اسکے جسم میں درحیات و ممات رہی اور اہل دل حضرات اس کا مشاہدہ کرتے رہے۔

حضرت محبوب رحمۃ اللّٰه علیہ الٰہی کا سماع شیخ رکن الدین کے ساتھ:
کتاب بحر المعانی میں آیا ہے غیاث الدین تغلق بادشاہ کو حضرت سلطان المشائخ کے ساتھ سماع کی وجہ سے عناد ہوا اور ایزا رسانی کے در پے ہوا تو یہ بات ایک سیاح کے ذریعے حضرت شیخ رکن الدین ابو الفتح ملتانی قدس سرہٗ تک پہنچ گئی چونکہ آپ کو حضرت سلطان المشائخ کو اس کام سے منع کریں تاکہ آپ کو کوئی نقصان نہ ہو۔ جب مسافت طے کر کے دہلی پہنچے تو پہلا کام یہی کیا کہ حضرت سلطان المشائخ قدس سرہٗ کے پاس تشریف لے گئے اور ماجرا دریافت کیا اس اثنا میں صیامت نامی قوال آ نکلا اور قوالی شروع کردی۔ سماع میں حضرت سلطان المشائخ پر وجد طاری ہوا اور رقص کرنے لگے شیخ رکن الدین نے آپ کا آستین مبارک پکڑ کربٹھادیا۔ جب دوسری بار کھڑے ہو کر رقص کرنے لگے تو انہوں نے آپکا دامن پکڑ کر بٹھادیا۔ جب تیسری بار آپ نے رقص کیا تو حضرت شیخ رکن الدین قدس سرہٗ نے نوافل شروع کردیں۔ سماع کے بعد جب مولانا محمد شاہ امام نےشیخ رکن الدین رحمہ اللہ سے سوال کیا آستین پکڑنے، دامن پکڑنےاور نماز پڑھنےمیں کیا راز تھا۔ تو انہوں نےجواب دیا کہ اے مولانا پہلی بار جب شیخ نظام الدین وجد کی حالت میں کھڑے ہوئے تو آپکا قدم ساتویں آسمان پر تھا۔ چنانچہ میں نے آپکا آستین پکڑ کر بٹھادیا۔ دوسری بار جب آپ اٹھے تو آپکا پاؤں عرش معلیٰ کی چھت پر تھا میرا ہاتھ آپ کی آستین تک نہ پہنچا اس لیے میں نے انکا دامن پکڑ کر بٹھادیا۔ تیسری بار جب مجھے معلوم نہیں کہاں پہنچ گئے اس لیے ناامید ہوکر عالم ناسوت میں مشغول ہوگیا۔

وصال پر سماع کی وصیت:
اسرار السالکین میں لکھا ہے کہ حضرت سلطان المشائخ قدس سرہٗ کے وصال کے وقت حضرت شیخ رکن الدین ابو الفتح دہلی میں تھے۔ ایک دن آپکی عیادت کے لیے تشریف لےگئے آپ نے چاہا کہ نیچے بیٹھ جائیں لیکن حضرت سلطان المشائخ نے فرمایا کہ چار پائی پر تشریف رکھیں۔ انہوں نے کہا کہ قطب کی چارپائی پر کون بیٹھ سکتا ہے چنانچہ آپ نے اصحاب سے فرمایا کہ کرسی لاؤ۔ کرسی لائی گئی اور حضرت شیخ رکن الدین قدس سرہٗ اس پر بیٹھ گئے۔ خیریت دریافت کرنے بعد انہوں نے کہا انبیاء اور اولیاء اللہ کو حیات و ممات میں اختیار ہوتا ہے اگر آپ چند روز مزید اس دنیا میں رُک جائیں تو خلق خدا کو بہت فائدہ ہوگا اور جن لوگوں کا سلوک اب تک نا تمام ہے وہ درجہ کمال تک پہنچ جائیں گے۔ آپ نے جواب دیا کہ دوست سے ملنے کا شوق اس قدر غالب ہے کہ ایک گھنتہ باقی ہے وہ بھی بہت مشکل سے گذر رہا ہے۔ نیز فرمایا کہ میں رسول اللہﷺ کی ہر رات عالم معاملہ میں زیارت کرتا ہوں اور آپ فرماتے ہیں کہ اے نظام تمہارے ملنے کا بے حد اشتیاق ہےجلدی آؤ اور ہمارے ہاں آرام کرو۔ یہ سنکر حضرت شیخ رکن الدین اور دیگر حاضرین پر گریہ طاری ہوگیا اور زار زار روئے اس کے بعد شیخ رکن الدین نے کہا کہ کوئی وصیّت فرمائیں۔ آپ نے فرمایا کہ مشائخ چشت میں سے ایک بزرگ نےوصیت کی تھی کہ میری موت کے بعد میرےجنازہ پر سماع کرانا اور پھر دفن کردینا۔ جب انکا وصال ہوا تو ان کےاصحاب نے قوالوں کو بلاکر سماع شروع کرادیا۔ سماع سنتےہی وہ بزرگ اٹھ بیٹھے سات دن تک سماع سنتے رہے۔ سات دن کے بعد انہوں نے سماع سننا بند کیا اور مریدین نے انکو دفن کیا۔ سلطان المشائخ نےفرمایا کہ میں ان مشائخ کا متبع ہوں۔ میری موت کے بعد بھی قوالوں کو بُلاکر جنازے کے قریب سماع کرانا اور بعد میں مجھے دفن کردینا۔ جب حضرت اقدس کا وصال ہوا تو جنازے کی امامت حضرت شیخ رکن الدین قدس سرہٗ نے کی اور نماز کے بعد فرمایا کہ آج مجھے معلوم ہوا کہ مجھے چار سال تک دہلی میں اسی کام کے لیے رکھا گیا تھا کہ حضرت شیخ کی نماز جنازہ کی امامت کا شرف حاصل کروں اسکے بعد اصحاب نے درخواست کی کہ قوالوں کو بلایا جائے لیکن شیخ رکن الدین رحمہ اللہ نے منع فرماتے ہوئے کہا کہ اگر تم نے قوال بلائے اور قوالی شروع ہوئی تو بزرگ تو سات روز کے بعد باز آگئے لیکن حضرت سلطان المشائخ قوالی سنتے ہی رقص کرنے لگیں گے اور قیامت تک باز نہیں آئیں گے۔ جس سے جہاں میں فتنہ برپا ہوگا۔ غرضیکہ نماز جنازہ پڑھ کر جنازہ لیے جارہے تھےکہ راستے میں ایک عورت اپنےگھر بیٹھی گارہی تھی[2]۔ اسکی آواس سنتے ہی حضرت اقدس کا ہاتھ کفن سے باہر آگیا یہ دیکھ کر حضرت شیخ رکن الدین دورے اور عورت کو منع کیا اور جب دفن کرنے لگے تو ہاتھ اسی طرح نکلا ہوا تھا۔ یہ دیکھ کر حضرت شیخ نصیر الدین چراغ دہلی قدس سرہٗ نے عرض کیا کہ حضور آپ کی عظمت کی علامتیں اس سے کہیںزیادہ ظاہر ہیں۔ بہتر ہےکہ حضور ہاتھ ہٹالیں۔ یہ سنتے ہی آپ نے ہاتھ اندر کرلیا۔ اسکے بعد حضرت شیخ رکن الدین رحمہ اللہ نے آپکو قبر میں اُتارا۔ جب آپ قبر سے باہر آئے تو بے ہوش ہوگئے۔ بعد میں جب آپ سے دریافت کیا گیا کہ بے ہوشی کی وجہ کیا تھی تو آپ نے جواب دیا کہ جب میں نے سلطان المشائخ کو قبر میں اتارا تو آنحضرتﷺ کی روحانیت موجود تھی اور قبر میں جاتے ہی حضرت رسالت مآب نے ان کو اپنے آغوش میں لے لیا اور مجھےنورِ نبوت کے مشاہدی کی طاقت نہ رہی جس سے بیہوش ہوگیا۔

تاریخ ولادت، خلافت و وصال:
کتاب سیر الاولیاء میں لکھا ہے کہ حضرت سلطان المشائخ قدس سرہٗ کی ولادت طلوع آفتاب کے بعد ماہ صفر کے آخری چہار شنبہ بتاریخ ستائیس صفر ۶۳۶؁ھ ہوئی، پندرہ ماہ رجب بروز چہار شنبہ ۶۵۵؁ھ کو حضرت شیخ فرید الدین گنجشکر قدس سرہٗ سے اجودھن میں شرف بیعت حاصل کیا۔ بروز چہار شنبہ دو ماہِ ربیع الاوّل ۶۵۶؁ھ حضرت شیخ نے آپکو مشائخ چشت کا خرقۂ خلافت عطا فرمایا اورجب آپکی عمر چرانوے سال آٹھ ماہ کو پہنچی تو بیمار ہوئے اور چالیس روز مرض میں مبتلا رہ کر بروز چہار شنبہ بعد طلوع آفتاب بتاریخ اٹھارہ ماہ ربیع الآخر ۷۲۵؁ھ جان عزیزی مشاہدۂ حق میں تسلیم کردی اور موضع غیاث پورہ میں جو دہلی کے نواح میں ہے ظہر کی نماز کے بعد دفن ہوئے۔ تاریخ وصال یہ ہے؎

نظام دوگیتی شہ ماوطین

سراج دو عالم شدہ بالیقین

چو تاریخ فوتش بہ جستم زغیب

ندا داد ہاتف شہنشاہ ۷۲۵ دین

اس کتاب میں یہ بھی لکھا ہے کہ جب حضرت سلطان المشائخ کو دفن کیا گیا تو آپ کی وصیت کے مطابق خرقۂ خلافت جو آپکو حضرت شیخ فرید الدین گنجشکر رحمہ اللہ سے ملا تھا بھی آپ کے جسم مبارک پر رکھا گیا اور خواجہ گنجشکر رحمہ اللہ سے جو مصلّی آپ کو ملا تھا اُسے مشائخ کے دستور کے مطابق حضرت اقدس کے سر کے نیچے رکھا گیا۔ اکثر مشائخ عظام کا یہی دستور رہا ہے کہ خرۂ خلافت یا تو اپنے فرزند صالح کو عطاکرتےہیں یا اپنے ساتھ قبر میں لےجاتے ہیں۔

صاحب مراۃ الاسرار لکھتےہیں کہ حضرت سلطان المشائخ ان مشائخ میں سے ہیں جو قبر میں بیٹھ کر تصرف کر رہےہیں۔ چنانچہ آپ کا روضۃ المتبرکہ خلائق کے لیے قبلۂ حاجات ہے۔ یہ ذرّہ بے مقدار ۱۰۵۲؁ھ میں جب اس شاہِ کونین کے آستانہ پر حاضر ہوا تو آنحضرت کی روحانیت کےفیض سے اس قدر نعمتیں اور نوازشیں عطا ہوئیں کہ تحریر سے باہر ہیں۔ سبحان اللہ! آج تک آپکی ولایت کے تصرفات ظاہر ہیں اور قیام قیامت تک جاری رہیں گے اگر چہ شہر دہلی میں کوئی ہزار اولیاء کبار آرام فرماہیں لیکن جب اس فقیر نے عالم معنوی م یںن گاہ کی تو سوائے ولایت کے دو خیموں کےنظر کہیں نہ پڑی یعنی ایک حضرت خواجہ قطب الدین بختیار قدس سرہٗ کا مزار مقدس اور دوسرا حضرت سلطان المشائخ قدس سرہٗ کا۔

[1] ۔ فرد اُسے کہتے ہیں جو زات حق میں لی طور پر فنا ہوکر ذات حق کے ساتھ ایک ہوجاتا ہے یہ مقام عام طور پر مشائخ اس وقت اختیار کرتے ہیں۔ جب خلفاء تیار کر کے ان کو ہدایت حق کے منصب پر لگاکر خود فارغ ہوجاتے ہیں اور مکمل طور پر ذات حق کے ساتھ ایک ہوجاتےہیں اور خود نہیں رہتے یعنی فنا کے بعد بقا میں آتے ہی مناصب ہدایت ادا کرتے ہیں اور پھر فارغ ہوکر ذات میں گم ہوجاتے ہیں۔

[2] ۔ ایک روایت ہے کہ جب اس عورت نے حضرت محبوب الٰہی کا جنازہ دیکھا تو یہ شعر گانے لگی

اے تماشا گاہ عالم روئے تو

تو کجا بہر تماشامے روی

(سارے جہان کیلئے تو تیرا رخ انور زیارت گاہ ہے تو کس کی زیارت کو جارہا ہے)

(اقتباس الانوار)

شیخ نظام الدین اولیاء بداؤنی دہلوی: آپ کا نامی محی محمد بن احمد بن علی بخاری اور لقب سلطان المشائخ و سلطان الاولیاء سلطان السلاطین اور خطاب محبوب الٰہی اور نظام الملتہ والدین تھا آپ جیسے اسرار طریقت و حقیقت میں اولیاء کامل و مکمل تھے ویسے ہی علوم فقہ و حدیث و تفسیر و صرف و نحو،منطق،معانی،ادب میں فاضل اجل عالم اکمل تھے۔آپ کے دادا شیخ علی اور ناناخواجہ عرب بخارا سے پنجاب میں آکر لاہور میں سکونت پذیر ہوئےپھر بدایوں میں مع آپ کے والد ماجد شیخ احمد کے جاکر قیام کیا جہاں آپ ۶۳۴ھ میں جب پانچ سال کا سن شریف ہوا تو آپ کے والد فوت ہوئے۔آپ کی والدہ ماجدہ نے آپ کو مکتب میں بٹھایا اور آپ نے کلام مجید کو ختم کر کے کتابیں پڑھنی شروع کیں۔
ابھی سن شریف بارہ سال کو نہ پہنچا تھا کہ آپ لغت کی کتاب پڑھتے تھے اور قدوری کو مولانا علاء الدین اصولی بدا ؤنی سے ختم کیا،پھر بہ اردۂ تعلیم دہلی میں آئے اور شمس الملک سے مقامات حریری کو پڑھا اور حدیث کو یاد کیا اور مولانا تھے۔پھر آپ بیس سال کی عمر میں اجود ھن میں جاکر شیخ فرید الدین علیہ الرحمہ کی خدمت میں مشرف ہوئے اور ان سے قرآن شریف تجوید کیا اور چھ باب عوارف کے سند کیے اور تمہید ابو شکور سلمی وغیرہ کتابیں پڑھیں بعد ازاں چند سال کی محنت و ریاضت و عبادت میں تکمیل کو پہنچ کر خرقۂ خلافت حاصل کیا اور دہلی میں تشریف لاکر غیاث پور میں جہاں آپ کا مزار ہے اور اب بستی نظام الدین اولیاء کے نام سے مشہور ہے،سکونت پذیر ہوئے اور ہدایت خلق اور افادہ وافاضہ میں وہ فروغ حاصل کیا کہ کسی کو اس وقت کے اولیاء میں سے نصیب نہیں ہوا۔

فیض باطنی کا یہ حال تھا کہ جو شخص صدق اعتقاد سے آپ کی خدمت میں حاضر ہوتا نظر کیمیا اثر کی تاثیر سے ولی کامل ہوجاتا۔ آپ کی کرامات و خوارق و عادات سے کتب بھری پڑی ہیں۔ اکیانوے سال کی عمر میں چار شنبہ کے روز ۱۸ ربیع الآخر ۷۲۵ھ میں وفات پائی۔ ’’ کعبہ تحقیقی‘‘ تاریخ وفات ہے۔

*(حدائق الحنفیہ)*
➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖
*المرتب⬅ محـمد یـوسـف رضـا رضـوی امجـدی نائب مدیر "فیضـانِ دارالعـلوم امجـدیہ ناگپور گروپ" 9604397443*
➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے