--------------------------------------------
حضرت نجم الدین کبریٰ رحمۃ اللّٰه علیہ
➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖
*نام و نسب:*
*اسم ِ گرامی:* مبارک احمد۔
*کنیت:* ابو الجناب۔
*لقب:* نجم الدین کبٰری۔
*سلسلہ نسب:* احمدبن عمر بن محمد۔ (علیہم الرحمہ)
*تاریخ ولادت:* 540 ھ کو "خیوق" خوارزم، موجودہ (ازبکستان) میں پیدا ہوئے۔
*تحصیلِ علم:* ابتدائی تعلیم اپنے گھر میں حاصل کی اور محی السنہ اور حضرت شیخ روز بہاں بقلی سے بھی استفادہ کیا ،اور بعد میں مختلف شیوخ ِ تصوف اور اپنے وقت کے جید علماء کرام سے مختلف علوم وفنون میں مہارت حاصل کی اور زمانہ طالب علمی میں جس سے مناظرہ کرتے غالب آجاتے اسی وجہ سے طامۃ الکبری اور الشیخ الکبری ٰ کے خطاب سے مشہور ہوگئے۔
آپ نے تحصیل علم کیلئے عراق، شام ، خراسان، مکۃ المکرمہ اور مدینۃ المنورہ کے سفر کیے۔
*بیعت و خلافت:* آپ شیخ المشائخ حضرت عمار یاسر سہروردی علیہ الرحمہ سے بیعت ہوئے، اور ریاضت کے بعد خلافت سے مشرف ہوئے۔
*سیرت و خصائص:* شیخ المشائخ، امام الاولیاء، قدوۃ الصلحاء، سندالعرفاء، مجاہدِ اسلام، شہیدِ اسلام حضرت شیخ نجم الدین کبٰری رحمۃ اللہ علیہ۔
آپ رحمۃاللہ علیہ اپنے وقت کے سب سے بڑے شیخِ طریقت و شریعت تھے۔ بڑے اولیاء کرام آپ کی بارگا میں حاضر ہوتے تھے۔ آپ کی کرامات اور خوارق سارے عالم اسلام میں مشہور تھیں۔ اہل اسلام آپ کو "ولی تراش " کے لقب سے پکارتے تھے۔ آپ عالم وجد میں جس کسی پر نگاہ ڈالتے اسے مرتبہ ولایت تک پہنچا دیتے۔ ایک دن ایک سوداگر آپ کی خانقاہ پر حاضر ہوا آپ اس وقت خوش تھے۔ ایک نگاہ کیمیا اثر ڈالی تو سوداگر کو رتبہ ٔولایت عطا فرما دیا۔ ایک مرتبہ حضرت شیخ نجم الدین نے ایک شخص سے پوچھا کہ کس ملک کے رہنے والے ہو۔ اس نے بتایا کہ فلاں ملک سے آیا ہوں آپ نے اسے اجازت نامہ لکھ کر دیدیا، اور اسے اس کے ملک کا قطب الارشاد مقرر کردیا۔ ایک دن ایک چڑی باز ایک کمزور سی چڑیا کا پیچھا کر رہا تھا۔ حضرت نجم الدین کبٰری کی ایک نگاہ چڑیا پر پڑی، تو چڑیا میں اتنی قوت پیدا ہوگئی کہ وہ پیچھے پلٹی اور باز کا شکار کرکے شیخ نجم الدین کبرٰی کے قدموں میں حاضر کردیا۔
*(نفحات الانس،ص،369)*
مولانا جامی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں:
ایک دن اصحاب ِکہف کے بارے میں تقریر ہو رہی تھی کہ شیخ سعد الدین حموی رحمتہ اللہ علیہ جو کہ شیخ کے مریدوں میں سے تھے۔ دل میں خیال کرنے لگے کہ آیا اس امت میں بھی کوئی ایسا شخص ہے کہ جس کی صحبت کتے میں اثر کردے۔ حضرت شیخ نے ولایت کے نور سے یہ بات معلوم کر لی ۔آپ اٹھے اور خانقاہ کے دروازہ پر کھڑے ہو گئے۔ اتفاقاً ایک کتا وہاں پر آگیا اور کھڑا ہوگیا۔ اپنی دم ہلاتا تھا۔ شیخ کی نظریں اس پر پڑگئی۔ اس وقت اس پر مہربانی ہوئی۔ وہ متحیر و بے خود ہوگیا۔ شہر سے منہ پھیر کر قبرستان چلا گیا۔ زمین پر سر ملتا تھا۔ یہاں تک کہ جدھر وہ جاتا تھا پچاس ساٹھ کتے اکھٹے ہوجاتے اور اس کے گرد حلقہ لگا لیتے۔ ہاتھ پر ہاتھ رکھ لیا کرتے اور آواز سے نہ بولتے ،اور نہ کچھ کھاتے بلکہ عزت کے ساتھ کھڑے رہتے۔ آخر تھوڑے دنوں میں وہ کتا مر گیا ۔(ایضاً)
*پاسباں مل گئے کعبے کو صنم خانے سے:* جب تاتاریوں کا فتنہ شروع ہوا۔ اس وقت حضرت اپنی خانقاہ میں موجود تھے۔ آپ نے اپنے مریدین سے فرمایا مشرق سے ایسا فتنہ آ رہا ہے، کہ اس سے پہلے امت کےلئے کبھی ایسا فتنہ ظاہر نہیں ہوا۔ مریدین نے عرض کیا آپ دعاء فرمائیں کہ وہ فتنہ ٹل جائے۔ آپ نے فرمایا یہ ایک قضاء مبرم (قطعی) ہے۔ دعا اس کو دفع نہیں کر سکتی۔ پھر فرمایا تم میں سے جو اپنے علاقوں کی طرف جانا چاہے چلا جائے، مریدین نے عرض کیا قیمتی گھوڑے موجود ہیں، آپ بھی محفوظ علاقے کی طرف تشریف لے جائیں۔
آپ نے فرمایا: ہمارے لئے ایک ہی راستہ ہے، اور وہ ہے جہاد فی سبیل اللہ، اور شہادت۔
جب تاتاری کفار شہر میں داخل ہوئے۔ شیخ نے مریدوں کو بلایا اور کہا :
قو موا باِسم اللہ، نقاتل فی سبیل اللہ۔
آپ گھر میں آئے اور اپنا خرقہ پہنا، کمر کو مضبوط باندھ لیا ،اس خرقہ کا اگلا حصہ کھلا تھا۔ تاتاریوں سے مقابلہ کرتے ہوئے شہید ہوگئے۔
آپ نے اپنے خلفاء کی ایسی تربیت فرمائی کہ وہ منگول قوم جو اسلام دشمنی میں پیش پیش تھی ،اور اسلام کو مٹانے نکلی تھی۔ تاتاریوں کے فتنے کو کون نہیں جانتا۔ جنہوں نے لاکھوں مسلمانوں کو بڑی بےدردی سے شہید کیا، مسجدوں، مدرسوں، اور لائبریریوں کو آگ لگادی۔ لیکن آپ کے خلفاء نے انہی منگولوں میں تبلیغِ دین کا ایسا کام کیا کہ وہ گروہ در گروہ مسلمان ہوتے چلے گئے، اور اسلام کو دنیا سے ختم کرنیوالے اسلام کے محافظ بن گئے۔
اللہ اکبر۔ تبھی تو شاعرِ مشرق کا قلم پکارتا ہے۔
؏: ہےعیاں فتنۂِ تاتار کے افسانے سے
پاسباں مل گئے کعبے کو صنم خانے سے
*تاریخِ وصال:* آپ 10/جمادی الاوّل 618ھ میں تاتاری لشکروں سے مقابلہ کرتے ہوئے شہید ہوئے۔ اس وقت حضرت شیخ کی عمر ساٹھ سال سے زیادہ تھی۔ شہادت کے وقت آپ کے ہاتھ میں ایک تاتاری سپاہی کے بال آگئے تھے۔ آپ نے انہیں اتنے زور سے پکڑا ہوا تھا کہ شہادت کے بعد بھی دس کافر آپ کے ہاتھ سے بال نہ چھڑا سکے، بالآخر وہ بال کاٹنے پڑے۔
*ماخذ و مراجع:* نفحات الانس۔ خزینۃ الاصفیاء۔
➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖
*المرتب⬅ محـمد یـوسـف رضـا رضـوی امجـدی نائب مدیر "فیضـانِ دارالعـلوم امجـدیہ ناگپور گروپ" 9604397443*
➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖
0 تبصرے
اپنا کمینٹ یہاں لکھیں