مسئلہ تکفیر کس کے لیے تحقیقی ہے؟قسط ہفدہم ‏/ ‏از ‏قلم ‏طارق ‏انور ‏مصباحی

مبسملا وحامدا::ومصلیا ومسلما

مسئلہ تکفیر کس کے لیے تحقیقی ہے؟

قسط ہفدہم

 اعتقادی مسائل تصدیقی ہیں یاتحقیقی؟  

 عقائد میں یقین کا حصول ضروری ہے،خواہ یہ یقین استدلال سے حاصل ہو،یاکسی اور طریقہ سے حاصل ہو۔خاص کر استدلال کے ذریعہ یقین کا حصول ضروری نہیں۔یہ بات عقل کے بھی موافق نہیں۔

جب اعتقادیات میں یقین ضروری ہے تویہ یقین کسی طرح بھی حاصل ہوجائے،اصل مقصود کاحصول ہوجائے گا۔ حصول یقین کا کوئی خاص ذریعہ اوروسیلہ کیوں کرضروری ہوگا؟

 ایمان مقلد کا غیر صحیح ہونا معتزلہ کا مذہب ہے اور یہ قول ضعیف و مرجوح ہے,کیوں کہ جب تقلیدسے بھی حصول یقین ہو جائے تواصل مقصود کا حصول ہو گیا۔

اعتقاد کے لیے صرف یقین کی ضرورت ہے،نہ کہ حصول یقین کے کسی مخصوص ذریعہ کا پایا جانا ضروری ہے۔

 معتزلہ کا مذہب:عقلی استدلال کے ساتھ عقائد کا علم:

معتزلہ کا مذہب یہ ہے کہ تمام ضروری عقائد کاعلم عقلی استدلال کے ساتھ حاصل ہو۔اس طرح کہ مخالفین ومنکرین کے شبہات کاجواب دے سکے۔

اگر کسی عقیدہ کا ایسا علم نہ ہو تو اسے مومن نہیں سمجھا جائے گا۔

قال القاری:(وعند المعتزلۃ ما لم یعرف کل مسألۃ بدلالۃ العقل علی وجہ یمکنہ دفع الشبہۃ،لا یکون مؤمنًا-قال القونوی: عند المعتزلۃ انما یحکم بایمانہ اذا عرف ما یجب اعتقادہ بالدلیل العقلی علی وجہ یمکنہ مجادلۃ الخصوم-وحل جمیع ما یوردونہ علیہ من الشبہۃ-حتی اذا عجز عن شیئ من ذلک،لم یحکم باسلامہ)
(منح الروض الازہر فی شرح الفقہ الاکبر:ص 403-دارالسلامہ بیروت)

کلمہ خوانوں کے تین طبقات:

قال الہیتمی ناقلا عن السبکی:(وکثیر من الناس یغلطون ویعتقدون ان ایمان المقلد لایصح-وَقَد بَیَّنتُ ہذا فی فتوی-وقلت:ان الناس ثلاث طبقات(1)عُلیَا-وہم اہل المعرفۃ والاستدلال التفصیلی وہم العلماء-واہل الاستدلال الاجمالی وہم کثیرون من العوام-فَلَا خِلَافَ فی صحۃ ایمانہم(2)وَوُسطٰی-وہم اہل العقیدۃ المُصَمَّمُونَ عَلٰی غَیرِ ذٰلِکَ-وَلَم یَقُل بِتَکفِیرِہِم اِلَّا ابوھاشم(3)دُنیَا-وَہُمُ المُقَلِّدُونَ مِن غَیرِ تَصمِیمٍ-وَلَم یَقُل بِصِحَّۃِ اِیمَانہم الا شُذُوذًا)(الفتاوی الحدیثیہ:ص143-فتاوی السبکی جلددوم:ص605)

 توضیح:فتاویٰ حدیثیہ میں ((المصممون علی غیرذلک))ہے،اور فتاوی السبکی میں ((المصممون من غیرذلک))ہے۔مفہوم یہ ہے کہ استدلال کے علاوہ کسی اور طریقہ سے وہ لوگ اسلامی عقیدہ پر پختہ ہوں تو وہ مومن ہیں۔خاص کراستدلال کی ضرورت نہیں،بلکہ اسلامی عقیدہ پرپختہ ہونا ایمان کے لیے کافی ہے۔ تیسرے طبقہ کو یقین حاصل نہیں،اس لیے وہ مومن نہیں۔اسی لیے ان کا ایمان معتبر نہیں،کیوں کہ ایمان تصدیق کا نام ہے اور تصدیق سے مراد یقین کا حاصل ہونا ہے۔جب طبقہ سوم کو یقین ہی حاصل نہیں تووہ مومن نہیں۔

مقلدکی دوقسموں کابیان:

باب ایمان میں مقلد کی دوقسمیں ہیں۔ایک کا ایمان مقبول ہے اور ایک کا ایمان مقبول نہیں۔جس کا ایمان صحیح نہیں ہے،وہ ایسا مقلد ہے جس نے محض کسی کی تقلید میں اسلام کوقبول کر لیا،لیکن اس کویقین واعتقاد حاصل نہیں۔چوں کہ ایمان کے لیے یقین واعتقادلازم ہے توبلا یقین واعتقادایمان صحیح متصور نہیں ہوگا۔

قال القاری:(اما اذا اعتقد وجعل ذلک قلادۃً فی عنق الداعی لہ الیہ،علٰی معنی انہ ان کان حقا فحق-وان کان باطلا فباطل فوبالہ علیہ-فہذا المقلد الذی لیس بمؤمن بلا خلاف -لانہ شاک فی ایمانہ)
(منح الروض الازہر فی شرح الفقہ الاکبر:ص 407-دارالسلامہ بیروت)

توضیح:جس نے اس طرح ایمان قبول کیا ہوکہ اسلام کے مبلغ وداعی نے جوکچھ ہمیں بتایا،اگروہ حق ہے تو میری نظر میں بھی وہ حق ہے۔اگر وہ غلط ہے تو میری نظر میں بھی غلط ہے اور اس کا وبال اس مبلغ وداعی پر ہے تو یہ مقلد ہے۔اس کو اسلام کی حقانیت کا یقین نہیں۔محض مبلغ وداعی کی تقلید کے طورپراسلام کو قبول کر لیا ہے۔یہ اسلام کی حقانیت میں شک کرنے والا ہے اور مقلد محض ہے۔ اس کا ایمان قبول نہیں اور یہ مومن نہیں۔

قال الامام احمد رضا:(وبالجملۃ من صدق بان اللّٰہ تعالی واحد-لان اباہ مثلًا کان یصدق بذلک-لا تصدیقًا موقنًا بہ من قبل قلبہ-فہذا لیس من الایمان فی شیء-وہذا ہو معنی نفاۃ ایمان التقلید-فلیکن التوفیق)
(المعتمد المستند:ص200 -المجمع الاسلامی مبارک پور) 

توضیح:کوئی اس لیے اللہ کوایک مانتا ہے اور دین اسلام کو اپنا مذہب مانتا ہے کہ اس کے والد یا اس کا کوئی استاد وغیرہ اللہ تعالیٰ کو ایک مانتا تھا،لیکن اس کے دل میں اللہ تعالیٰ کی وحدانیت اور اسلام کی حقانیت کا یقین نہیں تو یہ ایمان تقلیدی ہے۔ایسا ایمان تقلیدی مقبول نہیں۔مقلد کو جب یقین کے ساتھ اعتقاد ہو،تب وہ مومن ہے۔


مقلدکی قسم اول کا ایمان صحیح:
 
امام سبکی شافعی کی عبارت میں مقلد کے دوطبقات کا بیان ہے۔ ایک طبقے کا ایمان صحیح ہے اور ایک کا ایمان صحیح نہیں۔ جس کو اسلامی عقائد کا یقین واعتقادحاصل ہے،وہ مومن ہے اور جس کو اسلامی عقائدکا یقین حاصل نہیں،بلکہ وہ شک میں مبتلا ہے،یا اسے اسلامی عقائد کے غلط ہونے کا وہم ہے اور محض کسی کی تقلید میں خود کو مسلمان کہتا ہے تو وہ مومن نہیں۔مندرجہ ذیل عبارتوں میں اس مقلد کے ایمان کو صحیح قرار دیا گیا ہے جو اسلامی عقائد کے حق ہونے کا یقین واعتقادرکھتا ہے،گر چہ اس کے پاس عقلی استدلال کی قوت نہیں۔

(1)قال السبکی ونقلہ الہیتمی:}ایمان المقلد صحیح عند جمہور العلماء خلافا لابی ہاشم من المعتزلۃ{(فتاوی السبکی جلددوم:ص605-الفتاوی الحدیثیہ: ص144)

 (2)قال التفتازانی:(ذہب کثیر من العلماء وجمیع الفقہاء الٰی صحۃ ایمان المقلد-وَتَرَتُّبِ الاَحکَامِ عَلَیہِ فِی الدُّنیَا وَالاٰخِرَۃِ)
(شرح مقاصد ص264-مطبع نول کشور لکھنو)

(3)قال العلامۃ البدایونی:(واعلم ان الاستدلال لَیسَ شَرطًا لِصِحَّۃِ الاِیمَانِ عَلَی المُختَار-حَتّٰی صَحَّحُوا اِیمَانَ المُقَلِّدِ-وَقَالَ الاُستَاذُ ابوالقاسم القشیری:اِنَّ نَقلَ المَنعِ عَنِ الاَشعَرِیِّ اِفتِرَاءٌ عَلَیہِ)
(المعتقعد المنتقد: ص200-المجمع الاسلامی مبارک پور)

توضیح:امام ابوالحسن اشعری کی جانب ایک قول منسوب ہے کہ آپ نے عقلی استدلال کولازم قرار دیا ہے تو یہ آ پ پر افترا ہے۔ان شاء اللہ تعالیٰ اس کی تفصیل کسی قسط میں آئے گی۔

(4)قال الکمال ابن ابی الشریف:((واعلم ان الاستدلال)الذی بہ یکتسب التصدیق القلبی(لیس شرطا لصحۃ الایمان علی المذہب المختار)الذی علیہ الفقہاء وکثیر من العلما(حتی صححوا ایمان المقلد ومنعہ کثیر)وہم المعتزلۃ،کذا فی العمدۃ والبدایۃ وغیرہما-ونقل المنع عن الشیخ ابی الحسن الاشعری فقال الاستاذ ابوالقاسم القشیری انہ افتراء علیہ))
(المسامرۃ شرح المسایرۃ لابن الہمام جلددوم:ص191-190-مطبعۃ السعادۃ:مصر)

توضیح:مذکورہ بالا اقتباسات میں بیان کیا گیا کہ ایمان مقلد صحیح ہے اور استدلال شرط نہیں ہے۔

دراصل باب ایمانیات میں یقین واعتقاد کا مطالبہ ہوتا ہے,لیکن استدلال کا مطالبہ نہیں ہوتا۔

استدلال سے مقصود حصول یقین ہوتا ہے۔جب بلا استدلال کسی طرح بھی یقین حاصل ہو جائے تو مقصود حاصل ہو گیا۔

نہ یہاں استدلال اصل مقصود تھا,نہ ہی اس کے فقدان کے سبب کوئی اعتراض ہو گا۔

جب کسی مقصود کے حصول کا ایک ہی ذریعہ ہو تو اس ذریعہ کو اختیار کرنا لازم ہو گا۔

جب حصول مقصود کے متعدد ذرائع ہوں تو کسی ایک ذریعہ کو لازم قرار دینا دراصل وسیلہ کو اصل مقصود قرار دینا ہے اور وسیلہ کو اصل مقصود بنانا یقینا غلط ہے۔
  

طارق انور مصباحی

جاری کردہ:18:دسمبر2020

مسئلہ تکفیر کس کے لیے تحقیقی ہے؟ 

از:طارق انور مصباحی

تمام قسطوں کے لئے یہاں کلک کریں 👇 
قسط اول 👇
https://www.myislamicinfo.in/2020/11/blog-post_7.html

قسط دوم 👇
https://www.myislamicinfo.in/2020/11/blog-post_8.html

قسط سوم 👇
https://www.myislamicinfo.in/2020/11/blog-post_49.html

قسط چہارم 👇
https://www.myislamicinfo.in/2020/11/blog-post_47.html

قسط پنجم 👇
https://www.myislamicinfo.in/2020/11/blog-post_667.html

قسط ششم 👇
http://www.myislamicinfo.in/2020/11/blog-post_541.html

قسط ہفتم 👇 
https://www.myislamicinfo.in/2020/11/blog-post_742.html

قسط ہشتم 👇 
http://www.myislamicinfo.in/2020/11/blog-post_503.html

قسط نہم 👇 
http://www.myislamicinfo.in/2020/11/blog-post_700.html

قسط دہم 👇
https://www.myislamicinfo.in/2020/11/blog-post_149.html

قسط یازدہم 👇
http://www.myislamicinfo.in/2020/12/blog-post_9.html

قسط دوازدہم 👇
https://www.myislamicinfo.in/2020/12/blog-post_70.html

قسط سیزدہم👇

http://www.myislamicinfo.in/2020/12/blog-post_66.html

قسط چہاردہم 👇
https://www.myislamicinfo.in/2020/12/blog-post_60.html

قسط پانزدہم 👇
http://www.myislamicinfo.in/2020/12/15.html

 قسط شانزدہم 👇

http://www.myislamicinfo.in/2020/12/blog-post_33.html

قسط ہفدہم 👇

http://www.myislamicinfo.in/2020/12/blog-post_71.html

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے