کیا علماء کرام کے لیے رحمۃ اللہ علیہ کا استعمال ہوسکتا ہے؟

کیا علماء کرام کے لیے رحمۃ اللہ علیہ کا استعمال ہوسکتا ہے؟


 الســـلام علیکم و رحمۃ اللہ وبرکاتہ
 سوال۔۔ حضور ایک عالم دین کے انتقال کے بعد ان کے نام کے بعد رحمۃ اللہ علیہ یا علیہ الرحمہ لکھ سکتے ہیں اور سرہانے میں جو پتھر لگاتے ہیں اس میں مزار شریف لکھ سکتے عالم دین کے لئے؟ جواب عنایت فرمائیں گے بہت نوازش ہو گی۔۔۔ سائل۔ محمد ماہر القادری کرناٹک انڈیا


الجواب بعون الملک العزیز الوھاب 

عالم باعمل کے لیے رحمۃ اللہ تعالی علیہ یا علیہ الرحمۃ لکھنا یا بولنا نہ صرف جائز بلکہ مستحب بھی ہے۔

الدرالمختار میں ہے: 
ویستحب الترضی للصحابہ۔۔۔۔۔ والترحم للتابعین ومن بعدھم من العلماء و العباد وسائرالاخیار (الدرالمختار مع ردالمحتار، کتاب الخنثی،مسائل شتی)

ترجمہ: 
صحابہ کرام کے لیے رضی اللہ تعالی عنہ اور تابعین اور ان کے بعد کے علماء ومشائخ کے لیے رحمۃ اللہ تعالی علیہ کہنا مستحب ہے۔ 

اور صرف رحمۃ اللہ تعالی علیہ ہی نہیں بلکہ علماء کرام کے لیے رضی اللہ تعالی عنہ بھی کہنا اور لکھنا جائز ہے۔

  فرماتے ہیں : 
وکذا یجوز عکسہ الترحم للصحابہ والترضی للتابعین ومن بعدھم (حوالہ سابق)

ترجمہ:
اور اسی طرح اس کا الٹا بھی جائز ہے یعنی صحابہ کے لیے رحمۃ اللہ تعالی علیہ اور تابعین و علماء، مشائخ کے لیے رضی اللہ تعالی عنہ۔ 

ایسے ہی کسی عالم باعمل کی قبر کو مزار شریف لکھنا یا بولنا بھی درست ہے۔ 

 *المیہ* 
 یہ ہمارے زمانے کا بہت بڑا المیہ ہے کہ لوگ جاہل پیر، فاسق مجاور اور گمراہ باباؤں کے لیے تو عارف باللہ، واصل الی اللہ وغیرہ جیسے عظیم القابات بے دھڑک استعمال کرتے ہیں لیکن اگر کسی عالم کی بات آئے خواہ وہ دین کا کتنا بڑا ہی خادم کیوں نہ ہو، نہ تو ان کے لیے ترضی وترحم استعمال ہوتے ہیں اور نہ ان کی تربت کو باعث برکت سمجھا جاتا ہے جبکہ آیات قرآنیہ وآحادیث نبویہ ان کے فضائل ومناقب پر شاہد ہیں۔ 

 *تنبیہ* 
اوپر کی پوری گفتگو دین کے سچے خادموں کی شان میں ہے لھذا اسے انہیں نفوس قدسیہ تک محدود رکھا جائے۔ اس میں نہ تو جاہل و بدعمل پیشہ ور خطیباء شامل ہیں اور نہ اسٹیجوں پر گانے والے گویّے۔ 

واللہ تعالی اعلم بالصواب 

کتبہ فداءالمصطفی قادری مصباحی
خادم الافتاء شرعی عدالت سنکیشور کرناٹک۔

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے