➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖
ہر صاحبِ ذوق شخص اس بات سے بخوبی واقف ہے کہ امیری ہو یا فقیری ہر حال میں صفائی، ستھرائی انسان کے وقار و شرف کی آئینہ دار ہے جبکہ گندگی انسان کی عزت و عظمت کی بد ترین دشمن ہے۔
دینِ اسلام نے جہاں انسان کو کفر و شرک کی نجاستوں سے پاک کر کے عزت و رفعت عطا کی وہیں ظاہری طہارت، صفائی ستھرائی اور پاکیزگی کی اعلیٰ تعلیمات کے ذریعے انسانیت کا وقار بلند کیا، بدن کی پاکیزگی ہو یا لباس کی ستھرائی، ظاہری ہَیئت کی عمدگی ہو یا طور طریقے کی اچھائی، مکان اور ساز و سامان کی بہتری ہو یا سواری کی دھلائی الغرض ہر ہر چیز کو صاف ستھرا اور جاذبِ نظر رکھنے کی دینِ اسلام میں تعلیم اور ترغیب دی گئی ہے۔
چنانچہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے "اِنَّ اللّٰهَ یُحِبُّ التَّوَّابِیْنَ وَ یُحِبُّ الْمُتَطَهِّرِیْنَ" (البقرہ: ۲۲۲)
*ترجمہ:* بیشک اللّٰه بہت توبہ کرنے والوں سے محبت فرماتا ہے اور خوب صاف ستھرے رہنے والوں کو پسند فرماتا ہے۔
حضرت ابو مالک اشعری رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’پاکیزگی نصف ایمان ہے"۔
*(مسلم، کتاب الطہارۃ، باب فضل الوضوئ، ص ۱۴۰ ، الحدیث: ۱(۲۲۳)*
حضرت عائشہ صدیقہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْھا سے روایت ہے، سرور ِعالَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا:
’’بے شک اسلام صاف ستھرا (دین) ہے تو تم بھی نظافت حاصل کیا کرو کیونکہ جنت میں صاف ستھرا رہنے والا ہی داخل ہو گا۔
*(کنز العمال، حرف الطاء، کتاب الطہارۃ، قسم الاقوال، الباب الاول فی فضل الطہارۃ مطلقاً، ۵ /۱۲۳ ، الحدیث: ۲۵۹۹۶، الجزء التاسع )*
ایک روایت میں ہے کہ جو چیز تمہیں مُیَسّر ہو اس سے نظافت حاصل کرو، اللہ تعالیٰ نے اسلام کی بنیاد صفائی پر رکھی ہے اور جنت میں صاف ستھرے رہنے والے ہی داخل ہوں گے۔
*(جمع الجوامع، حرف التائ، التاء مع النون، ۴ / ۱۱۵، الحدیث: ۱۰۶۲۴)*
حضرت سہل بن حنظلہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا جو لباس تم پہنتے ہو اسے صاف ستھرا رکھو اور اپنی سواریوں کی دیکھ بھال کیا کرو اور تمہاری ظاہری ہیئت ایسی صاف ستھری ہو کہ جب لوگوں میں جاؤ تو وہ تمہاری عزت کریں۔
*(جامع صغیر، حرف الہمزۃ،ص۲۲، الحدیث: ۲۵۷)*
حضرت علامہ عبد الرؤف مناوی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں:
’’اس حدیث میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ ہر وہ چیز جس سے انسان نفرت و حقارت محسوس کرے اس سے بچا جائے خصوصاً حُکّام اور علماء کو ان چیزوں سے بچنا چاہئے۔
*(فیض القدیر، حرف الہمزۃ، ۱/ ۲۴۹، تحت الحدیث: ۲۵۷)*
حضرت جابر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، فرماتے ہیں کہ’’ رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ہمارے یہاں تشریف لائے، ایک شخص کو پَراگندہ سر دیکھا، جس کے بال بکھرے ہوئے ہیں، فرمایا:
’’کیا اس کو ایسی چیز نہیں ملتی جس سے بالوں کو اکٹھا کرلے اور دوسرے شخص کو میلے کپڑے پہنے ہوئے دیکھا تو فرمایا:
کیا اسے ایسی چیز نہیں ملتی، جس سے کپڑے دھولے۔
*(ابوداؤد، کتاب اللباس، باب فی غسل الثوب وفی الخلقان، ۴/ ۷۲ ، الحدیث: ۴۰۶۲)*
حضرت عطاء بن یسار رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں کہ رسولِ اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ مسجد میں تشریف فرما تھے۔ ایک شخص آیا جس کے سر اور داڑھی کے بال بکھرے ہوئے تھے، حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اس کی طرف اشارہ کیا، گویا بالوں کے درست کرنے کا حکم دیتے ہیں۔ وہ شخص درست کرکے واپس آیا تو نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا:
’’کیا یہ اس سے بہتر نہیں ہے کہ کوئی شخص بالوں کو اس طرح بکھیر کر آتا ہے گویا وہ شیطان ہے۔
*(مؤطا امام مالک، کتاب الشعر، باب اصلاح الشعر، ۲/ ۴۳۵، الحدیث: ۱۸۱۹)*
حضرت سعید بن مسیب رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ طیِّب ہے۔ طِیْب یعنی خوشبو کو دوست رکھتا ہے، ستھرا ہے ستھرائی کو دوست رکھتا ہے، کریم ہے کرم کو دوست رکھتا ہے، جواد ہے جود و سخاوت کو دوست رکھتا ہے۔ لہٰذا اپنے صحن کو ستھرا رکھو، یہودیوں کے ساتھ مشابہت نہ کرو۔
*(ترمذی، کتاب الادب، باب ما جاء فی النظافۃ، ۴/ ۳۶۵، الحدیث: ۲۸۰۸ )*
اسلام میں صفائی کی اہمیت کے حوالے سے سرِ دست یہ چند روایتیں ذکر کی ہیں۔ اللّٰه تعالیٰ عمل کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین بجاہ النبی الامینﷺ
➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖
*المرتب⬅ ارشـد رضـا خـان رضـوی امجـدی، ممبر "فیضـانِ دارالعـلوم امجـدیہ ناگپور گروپ" 7620132158*
➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖
0 تبصرے
اپنا کمینٹ یہاں لکھیں