قربانی کرنے کا طریقہ اور دعا
بہار شریعت
حصہ پانزدہم
قربانی سے پہلے اوسے (جانور کو) چارہ پانی دے دیں یعنی بھوکا پیاسا ذبح نہ کریں ۔ اور ایک کے سامنے دوسرے کو نہ ذبح کریں اور پہلے سے چھری تیز کر لیں ایسا نہ ہو کہ جانور گرانے کے بعد اوس کے سامنے چھری تیز کی جائے۔ جانور کو بائیں پہلو پر اس طرح لٹائیں کہ قبلہ کو اوس کا مونھ ہو اور اپنا داہنا پاؤں اوس کے پہلو پر رکھ کر تیز چھری سے جلد ذبح کر دیا جائے اور ذبح سے پہلے یہ دُعا پڑھی جائے۔
اِنِّیْ وَجَّهْتُ وَجْهِیَ لِلَّذِیْ فَطَرَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ حَنِیْفًا وَّ مَاۤ اَنَا مِنَ الْمُشْرِكِیْنَ وَ نُسُكِیْ وَ مَحْیَایَ وَ مَمَاتِیْ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ لَا شَرِیْكَ لَهٗۚ-وَ بِذٰلِكَ اُمِرْتُ وَ اَنَا اَوَّلُ الْمُسْلِمِیْنَ اَللّٰھُمَّ لَکَ وَمِنْکَ بِسْمِ اللّٰہِ اَللّٰہُ اَکْبَرُ ۔(4)
اسے پڑھ کر ذبح کر دے۔ قربانی اپنی طرف سے ہو تو ذبح کے بعد یہ دُعا پڑھے۔
اَللّٰھُمَّ تَقَبَّلَ مِنِّی کَمَا تَقَبَّلْتَ مِنْ خَلِیْلِکَ اِبْرَاھِیْمَ عَلَیْہِ السَّلَامُ وَحَبِیْبِکَ مُحَمَّدٍ (5) صلَّی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلَّم ـ
ترجمہ 👇
4 …میں نے اپنا منہ اس کی طرف کیا جس نے آسمان اور زمین بنائے ، ایک اسی کا ہو کر، اور میں مشرکوں میں نہیں ۔بے شک میری نمازاور میری قربانیاں اورمیرا جینا اور میر امرنا سب اﷲ کے لئے ہے جورب سارے جہان کا،اس کا کوئی شریک نہیں ،مجھے یہی حکم ہے اور میں مسلمانوں میں ہوں ،اے اللّٰہ ( عَزَّوَجَلَّ )تیرے ہی لیے اورتیری دی ہوئی توفیق سے ، اﷲ کے نام سے شروع اﷲ سب سے بڑاہے، بسم اﷲ اﷲ اکبر ۔
5…اے اﷲ (عزوجل)تومجھ سے ( اس قربانی کو) قبول فرماجیسے تونے اپنے خلیل ابراہیم علیہ السلام اور اپنے حبیب محمد صلَّی اللّٰہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے قبول فرمائی۔
——————————————————————
اس طرح ذبح کرے کہ چاروں رگیں کٹ جائیں یا کم سے کم تین رگیں کٹ جائیں ۔ اس سے زیادہ نہ کاٹیں کہ چھری گردن کے مہرہ تک پہنچ جائے کہ یہ بے وجہ کی تکلیف ہے پھر جب تک جانور ٹھنڈا نہ ہو جائے یعنی جب تک اوس کی روح بالکل نہ نکل جائے اوس کے نہ پاؤں وغیرہ کاٹیں نہ کھال اوتاریں اور اگر دوسرے کی طرف سے ذبح کرتا ہے تو مِنِّی کی جگہ مِنْ کے بعد اوس کا نام لے۔ اور اگر وہ مشترک جانور ہے جیسے گائے اونٹ تو وزن سے گوشت تقسیم کیا جائے محض تخمینہ سے (1)تقسیم نہ کریں ۔ پھر اس گوشت کے تین حصے کر کے ایک حصہ فقرا پر تصدّق کرے (2)اور ایک حصہ دوست و احباب کے یہاں بھیجے اور ایک اپنے گھر والوں کے لیے رکھے اور اس میں سے خود بھی کچھ کھالے اور اگر اہل و عیال زیادہ ہوں تو تہائی سے زیادہ بلکہ کل گوشت بھی گھر کے صرف میں (3) لاسکتا ہے۔ اور قربانی کا چمڑا اپنے کام میں بھی لاسکتا ہے اور ہوسکتا ہے کہ کسی نیک کام کے لیے دیدے مثلاً مسجد یادینی مدرسہ کو دیدے یا کسی فقیر کو دیدے۔ بعض جگہ یہ چمڑا امام مسجد کو دیا جاتا ہے اگر امام کی تنخواہ میں نہ دیا جاتا ہو بلکہ اعانت کے طور پرہو توحرج نہیں ۔ بحرالرائق میں مذکور ہے کہ قربانی کرنے والا بقرعید کے دن سب سے پہلے قربانی کا گوشت کھائے اس سے پہلے کوئی دوسری چیز نہ کھائے یہ مستحب ہے اس کے خلاف کرے جب بھی حرج نہیں ۔ (4)
1…اندازہ سے۔ 2…صدقہ کردے۔ 3…استعمال میں ۔
4…’’ البحرالرائق ‘‘ ،کتاب الصلاۃ،باب مایفسد الصلاۃ ۔۔۔ إلخ،ج ۲ ،ص ۵۷۔
فائدہ: احادیث سے ثابت ہے کہ سید عالم حضرت محمد رسول اﷲ صلَّی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلَّم نے اس امت مرحومہ کی طرف سے قربانی کی یہ حضور( صلَّی اللّٰہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم ) کے بے شمار الطاف میں سے ایک خاص کرم ہے کہ اس موقع پر بھی امت کا خیال فرمایا اور جو لوگ قربانی نہ کرسکے اون کی طرف سے خود ہی قربانی ادا فرمائی۔ یہ شبہہ کہ ایک مینڈھا ان سب کی طرف سے کیونکر ہوسکتا ہے یا جو لوگ ابھی پیدا ہی نہ ہوئے اون کی قربانی کیونکر ہوئی اس کا جواب یہ ہے کہ یہ حضور اقدس صلَّی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلَّم کے خصائص سے ہے۔ جس طرح حضور( صلَّی اللّٰہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم ) نے چھ مہینے کے بکری کے بچہ کی قربانی ابوبردہ رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ کے لیے جائز فرما دی اوروں کے لیے اس کی ممانعت کر دی۔ اسی طرح اس میں خود حضور ( صلَّی اللّٰہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم ) کی خصوصیت ہے۔ کہنا یہ ہے کہ جب حضور ( صلَّی اللّٰہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم ) نے اُمت کی طرف سے قربانی کی تو جو مسلمان صاحب استطاعت ہو اگر حضور اقدس صلَّی اللّٰہ تعالٰی علیہٖ وسلَّم کے نام کی ایک قربانی کرے تو زہے نصیب اور بہتر سینگ والا مینڈھا ہے جس کی سیاہی میں سفیدی کی بھی آمیزش ہو جیسے مینڈھے کی خود حضور اکرم ( صلَّی اللّٰہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم )نے قربانی فرمائی۔
0 تبصرے
اپنا کمینٹ یہاں لکھیں