حضرت خواجہ ابراہیم بن ادھم رحمۃ اللّٰه علیہ

« مختصــر ســوانح حیــات » 
---------------------------------
حضرت خواجہ ابراہیم بن ادھم رحمۃ اللّٰه علیہ
➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖

*نام و نسب:* 
*اسمِ گرامی:* ابراہیم۔
*کنیت:* ابواسحق ۔
*القاب:* مفتاح العلوم، سلطان التارکین، سیدالمتوکلین، امام الاولیاء۔
*سلسلہ نسب اسطرح ہے:* سلطان ابراہیم بن ادہم بن سلیمان بن منصور بن یزید بن جابر۔ (علیہم الرحمہ)

*ولادت با سعادت:* آپ کی ولادت باسعادت بلخ (افغانستان) میں ہوئی۔

*تحصیل علم:* شاہی خاندان سے تعلق تھا، شہزادے تھے، ابتدائی تعلیم شاہی محل میں ہوئی، جب خدا طلبی میں بادشاہت کو ترک کر کے مکۃ المکرمہ پہنچے، وہاں کے مشائخ سے تحصیل ِعلم کیا۔ وہاں سے بغداد، بصرہ، کوفہ، بلادِ شام کا سفر کیا۔ آپ نےجلیل القدر مشائخ خواجہ فضیل بن عیاض، امام باقر،سفیان ثوری ،خواجہ عمران بن موسیٰ ، شیخ منصورسلمی،خواجہ اویس قرنی ،حضرت امام اعظم ابو حنیفہ،حضرت جنید بغدادی (رضوان اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین) سےعلم حاصل کیا اور انکی صحبت سے فیض یاب ہوئے۔
جنید بغدادی آپ کو "مفاتیح العلوم" فرماتے۔ حضرت امام اعظم آپ کو "سیدنا و سندنا "کہہ کر پکارتے تھے۔ آپ کا شمار اپنے وقت کے بڑے محدثین، مفسرین، اور فقہاء میں ہوتا تھا۔

*بیعت و خلافت:* آپ حضرت خواجہ فضیل بن عیاض علیہ الرحمہ کے دست ِحق پرست پر بیعت ہوئے اور انہی سے خرقہ خلافت پایا۔ انکے ساتھ ساتھ حضرت امام باقر،حضرت خواجہ عمران بن موسٰی،شیخ منصور سلمی، اورخواجہ اویس قرنی سے بھی خرقہ خلافت پایا۔

*سیرت و خصائص:* سیدالاصفیاء، سلطان التارکین، سلطان السالکین، مقرب حضرت رب العالمین ،مملکت دنیا کے تارک ،سلطنت عقبیٰ کے صاحب، ظل الٰہی، آں جالسِ سیر اولیائی، آں متلبس بہ لباس پارسائی، مصدق و متوکل علی اللہ، واصل بہ نہایات فنا فی اللہ حضرت خواجہ ابراہیم بن ادہم قدس سرہ کا شمارحضرت خواجہ فضیل بن عیاض کے اکابر خلفاء میں ہوتا ہے۔ آپ پیران ِکبار،اولیاء نامدار، مشائخ عظام اور مقتدایان ذوالاحترام میں سےشمار ہوتے ہیں۔ دولتِ علم سے مالا مال، معرفت و طریقت میں باکمال، آسمانِ ولایت کے گوہرِ تابدار تھے۔ آپ رحمۃ اللہ علیہ بلخ کے بادشاہ تھے مگر انھوں نےتمام عیش و عشرت کو چھوڑ کر خدا طلبی کی راہ اپنا لی اور تارک الدنیا ہوگئے اور صحرا نوردی کرتے ہوئے مکۃ المکرمہ پہنچ گئے۔ آپ کیا سفر اور کیا حضر ہر وقت روزے سے رہتے اور راتوں کو قیام و نماز میں بسر کیا کرتے تھے۔ ہمیشہ فکر و غم میں مستغرق نظر آتے تھے ۔

*ترک ِسلطنت:* ایک رات آپ اپنے شاہی محل میں سوئے ہوئے تھے کہ چھت پر کسی کے دوڑنے کی آواز سنائی دی، بیدار ہوئے تو آواز دی تم کون ہو؟ جواب آیا کہ میں ایک مسافر ہوں میرا اونٹ گم ہوگیا تھا۔ اسے تلاش کر رہا ہوں ۔آپ نے کہا ارے بیوقوف گھروں کی چھتوں پر اونٹ بھی ملتے ہیں۔ یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ اونٹ گھر کی چھت پر آجائے اُس شخص نے جواب دیا تم تو مجھ سے بھی زیادہ بیوقوف ہو کبھی خدا بھی شاہی محلات میں ملتا ہے۔تم ریشمی بستر پر آرام کررہے ہو اور یہ بھی چاہتے ہو کہ تمہیں خدا مل جائے۔ یہ کیسے ہوسکتا ہے؟

؏: ہم خدا خواہی دہم دنیائے دوں
این خیال ست و محال است و جنون

اس بات سے سلطان ابراہیم رحمۃ اللہ علیہ کی دل کی دنیا بدل گئی صبح اُٹھے اپنے بیٹے کو تخت نشین کر دیا۔ امورِ سلطنت اُس کے حوالے کیے، شہر چھوڑ کر جنگل کی راہ لی، جنگل میں پہنچے تو شاہی لباس اُتار کر ایک گدڑیے کو بخش دیا۔ اور اس کے پھٹے پرانے کپڑے خود پہن لیے۔ بلخ کو چھوڑ کر نیشاپور آئے اور پہاڑ کی ایک غار میں عبادت کرنے لگے۔ جمعرات کی رات غار کی چھت پر آتے، لکڑیوں کا گٹھا جمع کرتےسر پر اُٹھا کر شہر میں پہنچتے اور لکڑیاں بیچ کر جو کچھ حاصل ہوتا اس کا نصف اللہ کی راہ میں دے دیتے اور نصف سے اپنی ضرورت کی چیزیں خرید کرلے آتے۔ ایک عرصہ تک یہی کام رہا ۔پھر غیبی اشارہ سے مکہ معظمہ پہنچے اور خواجہ فضیل بن عیاض رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت میں حاضر ہو کر مرید ہوگئے اور ظاہری و باطنی کمالات حاصل کیے۔

*خدائی سلطنت:* جن دنوں سلطان ابراہیم رحمۃ اللہ علیہ لکڑیوں کا گٹھا اٹھائے بازار میں آیا کرتے تھے تو بلخ کا ایک امیر آدمی بھی وہیں رہتا تھا۔ اُس نے سلطان ابراہیم کو پہچان لیا اور بادشاہی چھوڑ کر لکڑیاں بیچنے پر بڑی ملامت شروع کردی۔ حضرت سلطان ابراہیم کو اُس کی باتوں پر بڑا غصہ آیا۔ بیٹھے بیٹھے لکڑیوں کے گٹھے پر ہاتھ مارا تو وہ ساری سونے کی بن گئیں۔ سلطان ابراہیم نے یہ سارا سونا اُس کو بخش دیا، اور کہا کہ آج بلخ کی سلطنت کی یاد کی نحوست کی وجہ سے میری حلال کی روزی ضائع ہوگئی۔

اسی طرح جن دنوں سلطان ابراہیم بلخ کی بادشاہت چھوڑ کر بیابان میں چلے گئے تو چند دن دریا کے کنارے پر قیام کیا وہاں امراء اور وزراء حاضر ہوئے اور درخواست کی کہ آپ دوبارہ تخت نشین ہوجائیں سلطان ابراہیم اس وقت اپنی گدڑی سی رہے تھے آپ نے سوئی دریا میں پھینک دی اور فرمایا کہ تم بڑے طاقتور حاکم ہو۔ دنیا کے سارے اسباب تمہارے پاس موجود ہیں دریا سے میری سوئی نکال دو کوئی بھی سوئی نہ نکال سکا۔ آپ نے بلند آواز سے کہا کہ اے دریا کی مچھلیو میری سوئی نکال کر لاؤ۔ اُسی وقت ہزاروں مچھلیاں اپنے منہ میں سونے اور چاندی کی سوئیاں اٹھائے پانی کی سطح پر تیرنے لگیں۔ ایک مچھلی کے منہ میں حضرت خواجہ کی سوئی بھی تھی، آپ نے ہاتھ بڑھا کر اس سے سوئی لی اور تمام مچھلیوں کو رخصت کر دیا۔ امراء کو مخاطب کرکے فرمایا کہ ہماری سلطنت تمام جہاں پر ہے اب ہمیں بلخ کے سلطنت کی ضرورت نہیں ہے۔
منقول ہے کہ ایک دفعہ خواجہ ابراہیم بن ادھم قدس سرہ جعفر بن منصور کے پاس آئے جو عباسیوں میں دوسرا خلیفہ اور وارث ِتخت و تاج تھا۔ خلیفہ نے بڑے جوش کے ساتھ استقبال کیا اور سلام کے بعد کہا۔ اے ابو اسحٰق تمہارا کیا حال ہے خواجہ ابراہیم ادھم رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا اے امیر المومنین:"نرفع دنیانا بتمزیق دیننا۔فلا دیننا بقی ولا ما نرفع"۔
یعنی ہم نے اپنا دین پست کر کے دنیا کو بلند کیا لیکن اب نہ تو دین باقی رہا اور نہ ہی وہ چیز ہی رہی جسے ہم نے بلند کیا تھا ۔
(بعینہ آج مسلمانوں کے وہی حالات ہیں دین سے منہ موڑ کر دنیا کی طرف بھاگے تھے، دین کو تو پہلے ہی خیرآبادںکہ دیا تھا، لیکن دنیا بھی ہاتھ میں نہ رہی۔ یہی وجہ ہےکہ آج پوری دنیامیں مسلمان کے خون سے سستی کوئی چیز نہیں ہے۔ ایک حدیث میں ہے کہ جب تم دنیا کے پیچھے بھاگو گے، تو دنیا تم سے بھاگے گی، اور جب تم دنیا سے نفرت کرو گے تو دنیا تمھارے پیچھے بھاگے گی۔ حضرت ابراہیم بن ادھم کے واقعات ہمارے لئے درس عبرت ہیں، بڑےبڑے دنیاداروں کے نام و نشاں مٹ گئے اور آپ کا نام انشاءاللہ قیامت تک زندہ رہےگا۔)

حضرت ابراہیم بن ادھم رحمۃ اللہ علیہ کا مشہور قول ہے:
کہ جب تم گناہ کا ارادہ کرو تو خدا کی بادشاہت سے باہر نکل جاؤ۔

*وصال:* آپ رحمۃ اللّٰه علیہ کے سالِ وفات اور مزار کے بارے میں اختلاف ہے۔ اصح قول کے مطابق 26 جمادی الاول 161ھ (بحوالہ اردو دائرہ معارف اسلامیہ جلد1، ص،354 جامعہ پنجاب لاہور) کو آپ کا وصال ہوا۔ آپ کا مزار مبارک شام میں حضرت لوط علیہ السلام کے مزار پرانوار کے قریب زیارت گاہِ خاص عام ہے۔

*ماخذ و مراجع:* خزینۃ الاصفیاء۔ نفحات الانس۔سیرالاولیاء۔ اردو دائرہ معارف اسلامیہ پنجاب یونیورسٹی لاہور۔

➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖
*المرتب⬅ محـمد یـوسـف رضـا رضـوی امجـدی نائب مدیر "فیضـانِ دارالعـلوم امجـدیہ ناگپور گروپ" 9604397443*
➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے