میدان خطابت اور فرزندان اشرفیہ
از قلم
محمد نوید سرور قادری مصباحی گیاوی ۔
مبارک پور اعظم گڑھ یوپی کی سرزمین پر استاذ العلماء جلالۃ العلم حضور حافظ ملت الشاہ علامہ عبدالعزیز مرادآبادی ثم مبارک پوری علیہ الرحمۃ والرضوان نے باغ فردوس کی بنیاد رکھی اور اسے جامعہ اشرفیہ کی شکل میں ایک عظیم علمی قلعہ امت محمدیہ کو تحفہ دیا۔ سینکڑوں علما نے مے خانۂ اشرفیہ سے جام نوش فرما کر جہاں اپنے مستقبل کو تابناک بنایا وہیں عوام اہل سنت کےلیے مشعل راہ بن کر اپنی ضیابار کرنوں سے متلاشیان حق کی رہنمائی کی اور کر رہے ہیں ۔
آج بحمدہ تعالی جامعہ اشرفیہ کے فارغین کی کثیر تعداد ہے، جو میدان عمل میں اتر کر اپنے مادر علمی سے حاصل کیے ہوئے درس کو عملی جامہ دے رہے ہیں اور اپنے فرائض منصبی کو بخوبی نبھا رہے ہیں ۔ صرف ہندوستان ہی نہیں بلکہ بیرون ہند پر بھی طائرانہ نظر ڈالیں تو یہ حقیقت منکشف ہوگی کہ فرزندان اشرفیہ ہر میدان میں امت مسلمہ کی رہنمائی کرتے ہوئے نظر آرہےہیں ۔ تصنیف و تالیف، درس و تدریس، تحریر و تقریر، دعوت وتبلیغ اور میدان مناظرہ میں فرزندان اشرفیہ کی ایک لمبی فہرست ہے جو احقاق حق اور ابطال باطل پر مامور ہیں ۔
مناظرہ، تصنیف، تدریس ، تحریر اور تقریر یہ دعوت وتبلیغ کا وہ پلیٹ فارم ہے ، جہاں سے اعلائے کلمۃ الحق اور ناموس رسالت کی حفاظت ہوتی ہے۔ یہ سب کے سب اپنے آپ میں ایک الگ فن کی حیثیت اور خاص اہمیت کا متحمل ہے۔ نیز خطابت ، دعوت وتبلیغ اور اصلاح معاشرہ کا اہم ذریعہ بھی ہے۔
*خطابت کی اہمیت و افادیت*
تقریر و خطابت ایک عظیم فن ہے۔ اس دنیا میں ایک سے بڑھ کر ایک فن خطابت کے شہسوار اور فنکار گزرے ہیں ۔خطبات و تقاریر کی تاثیر سے انسانی تاریخ بھری پڑی ہے۔ تقریر کے ذریعے حکومتوں کی تعمیر اور ملتوں کے عروج و ارتقا میں نمایاں کردار ادا کیا گیا ہے ۔ یہ وہ صنف سخن ہے جسے انبیائے کرام ورسولان عظام کو سرفراز فرمایا گیا۔
تقریر کی اہمیت و افادیت ہر دور میں مسلم رہی ہے ۔ بالخصوص عصر حاضر میں انسانوں کی خدمت اور دنیا کی تعمیر و ترقی میں جس طرح دیگر جماعتوں اور گروپوں نے غیر معمولی کارنامے انجام دیے ہیں۔ اسی طرح خطیبوں نے بھی آدمی کی آدمیت اور انسان کی انسانیت کی تحفظ میں زبردست کردار ادا کیا ہے ۔چنانچہ کتب تواریخ کی ورق گردانی سے معلوم ہوتا ہے کہ جب بھی کوئی قوم جنگ و حرب جیسی آفات ناگہانی میں مبتلا ہوئی ہے اور ان کے دلوں کو گرمانے اور دفاع کےلیے مقابلے کی ہمت و حوصلہ پیدا کرنے کی ضرورت پڑی ہے، تو مقرروں نے اپنی شعلہ بیانی اور طوفانی تقریر سے ان کے دلوں کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے ، پھر وہ قوم بے خطر میدان کارزار میں کود پڑی ہے۔ اسی طرح جب کوئی قوم گناہوں اور برائیوں کے سمندر میں غرق آب ہوئی ہے اور فسق و فجور کے قعر مذلت میں افتادہ ہوئی ہے ، تو ایک خطیب ہی نے اپنی قوت گویائی کے برقی کرشمے اور اپنی جادو بیانی سے برائیوں کو اچھائیوں میں، گناہوں کو نیکیوں میں، خطاؤں کو ثوابوں میں اور فسق و فجور کو زہد و تقوی میں تبدیل کردیا ہے ۔ اسی طرح جب بھی کسی سادہ لوح بنی نوع انسان کو راہ اعتدال سے ہٹانے، ان کے عقائد و معمولات پر شب خون مارنے اور مذھب اسلام کی شبیہہ مسخ کرنے کی ناپاک سعی کی گئی تو یہ خطبا ہی ہیں ، جنہوں نے اپنے زور بیانی اور قوت استدلال کے ذریعے عقائد میں پختگی اور معمولات میں استقامت کا جذبہ لوگوں کے دلوں میں موجزن کیا۔ نیز مذھبی، مسلکی، معاشی، سماجی، معاشرتی اور سیاسی معاملات میں اصلاحی فریضہ خطابت ہی کے ذریعے بخوبی انجام پذیر ہوتا ہے ۔
غرض یہ کہ دنیا کے اندر جتنے بھی بڑے بڑے انقلابات آئے ہیں، ان میں تقریر و خطابت کا بہت اھم رول رہاہے ۔ اسی لیے ایک کامیاب مبلغ، داعی اور قائد بننے کےلیے ایک بہترین مقرر اور عمدہ خطیب بننا لازمی عنصر ہے۔ یہی وجہ ہے کہ خطیب اپنے جس فکر و خیال کو پیش کرتا ہے تو اس کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ دلائل و براہین، زور بیانی اور قوت لسانی سے اپنی بات سامعین کے دلوں میں اتار دے اور ان کے احساسات و جذبات کو اپنی جانب کھینچ لے۔ یہیں سے ایک مدرس ، ایک فلسفی اور ایک خطیب کے درمیان امتیاز پیدا ہوتا ہے کہ ایک مدرس یا فلسفی استدلال کا سہارا لیتا ہے اور عقل کو مخاطب بناتا ہے۔ جب کہ ایک خطیب سامعین کے جذبات میں تلاطم و تموج کی لہریں پیدا کرتا ہے ۔ اور جو خطیب انسانی جذبات کو چھیڑ کر عمل پہ آمادہ نہ کرسکے وہ کوئی مدرس یا فلسفی تو ہوسکتا ہے لیکن خطیب نہیں ہو سکتا۔
*خطبائے فرزندان اشرفیہ*
جب خطابت کے میدان کی جانب نظر اٹھاتے ہیں تو فرزندان اشرفیہ کی ایک کثیر تعداد نظر آتی ہے، جو خطابت کے لوازمات سے مرصع و مزین ہوکر اپنے زور بیانی، طاقت لسانی، قوت گویائی اور دلائل وبراہین کے شہسوار بن کر میدان خطابت میں رواں دواں ہیں ۔ تقریری میدان میں اپنے الفاظ وبیان اور قوت استدلال سے لوگوں کو مسحور کرنے والوں میں سے چند مصباحی خطبا مندرجہ ذیل ہیں ۔
(1) پیر طریقت، رہبر راہ شریعت، حضور سراج ملت علامہ الحاج الشاہ سراج الہدی قادری مصباحی گیاوی علیہ الرحمۃ والرضوان۔ خانقاہ بیت الانوار گیوال بیگھہ شہر گیا ۔
(2) رئیس المتکلمین، عمدۃ المناظرین، قائد اھل سنت حضرت علامہ ارشد القادری علیہ الرحمۃ والرضوان، سربراہ اعلی فیض العلوم جمشید پور جھارکھنڈ ۔
(3) استاذ العلما، بحرالعلوم حضرت علامہ و مولانا مفتی عبدالمنان اعظمی علیہ الرحمۃ والرضوان، سابق شیخ الحدیث جامعہ اشرفیہ مبارک پور ۔
(4) خطیب البراھین، صوفی باصفا حضرت علامہ مولانا محمد نظام الدین مصباحی علیہ الرحمۃ والرضوان ۔
(5) شہزادۂ صدرالشریعہ، محدث کبیر حضرت علامہ و مولانا مفتی ضیاء المصطفی مصباحی صاحب قبلہ، سربراہ اعلی جامعہ امجدیہ گھوسی۔
(6) شیخ الاسلام، شہزادۂ محدث اعظم ھند حضرت علامہ مولانا مفتی محمد مدنی میاں اشرف اشرفی الجیلانی مد ظلہ العالی۔
(7) جامع معقولات و منقولات، پیر طریقت حضور نصیر ملت علامہ الحاج الشاہ نصیر الدین صاحب قبلہ حفظہ اللہ تعالی ۔
(8) مصلح قوم و ملت ، ہمدرد سنیت، منبع علم و حکمت، واقف اسرار روحانیت، پیر طریقت، رہبر راہ شریعت حضرت علامہ مولانا مفتی عبدالمبین نعمانی قادری دام ظلہ علینا، چریا کوٹ یوپی۔
(9) پیر طریقت حضرت علامہ مولانا نعیم الہدی قادری مصباحی صاحب قبلہ، خانقاہ بیت الانوار گیوال بیگھہ شہر گیا ۔
(10) محقق مسائل جدیدہ، استاذ العلما، سراج الفقہا حضرت علامہ مولانا مفتی محمد نظام الدین مصباحی برکاتی صاحب قبلہ دام ظلہ علینا، صدر شعبۂ افتا و صدر المدرسین جامعہ اشرفیہ مبارک پور ۔
(11) عمدۃ الفقہا، ماہر فقہ وافتا حضرت علامہ مولانا مفتی عبدالحق مصباحی صاحب قبلہ ۔
(12) استاذ الاساتذہ، عمدۃ العلماء حضرت علامہ مولانا مفتی شمس الہدی مصباحی صاحب قبلہ ۔
(13) استاذ الاساتذہ، ماہر فقہ وافتا حضرت علامہ مولانا مفتی معراج القادری علیہ الرحمۃ والرضوان ۔
(14) رئیس القلم حضرت علامہ مولانا یاسین اختر مصباحی صاحب قبلہ، بانی دارالقلم نئی دہلی
(15) پیر طریقت حضرت علامہ مولانا سید رکن الدین اصدق مصباحی صاحب قبلہ ۔
(16) حضرت علامہ احمد القادری صاحب قبلہ، ہالینڈ ۔
(17) خطیب نکتہ داں، غازی ملت حضرت علامہ مولانا محمد ہاشمی میاں صاحب قبلہ ۔
(18) پیر طریقت، رہبر راہ شریعت حضرت علامہ مولانا سید جلال الدین اشرف اشرفی الجیلانی صاحب قبلہ ۔
(19) خطیب نکتہ داں، ماہر علم و بیاں، فصیح اللساں حضرت علامہ قمرالزماں صاحب قبلہ
(20) خطیب ہندوستان حضرت علامہ مولانا عبیداللہ خان اعظمی صاحب قبلہ ۔
(21) حضرت علامہ مولانا مفتی بدر عالم مصباحی صاحب قبلہ استاذجامعہ اشرفیہ
(22) پیر طریقت حضرت علامہ مولانا سید اصغر امام قادری صاحب قبلہ ۔ امجھر شریف
(23) حضرت علامہ مولانا مفتی جیش محمد برکاتی علیہ الرحمۃ والرضوان، نیپال
(24) حضرت علامہ مولانا مسعود احمد برکاتی صاحب قبلہ ، استاذ جامعہ اشرفیہ
(25) فخر صحافت حضرت علامہ مولانا مبارک حسین مصباحی صاحب قبلہ ۔ ایڈیٹر ماہنامہ اشرفیہ
(26) حضرت علامہ مولانا جلال الدین نوری صاحب قبلہ، سابق استاذ جامعہ اشرفیہ مبارک پور
(27) حضرت علامہ مولانا محمد مقبول احمد سالک مصباحی صاحب قبلہ۔
(28) مفکر ملت حضرت علامہ مولانا سید اقبال احمد حسنی حسینی برکاتی علیہ الرحمۃ والرضوان، ناظم اعلی جامعہ برکات منصور و صدر ادارہ شرعیہ گیا۔( از ثانیہ تا سابعہ انہوں نے جامعہ اشرفیہ میں تعلیم حاصل کی تھی۔پھر جامعہ سے درجہ سابعہ میں نکل کر بنارس جامعہ فاروقیہ سے فارغ التحصیل ہوئے)
(29) حضرت علامہ مولانا عمر نورانی صاحب قبلہ خانقاہ بیت الانوار گیوال بیگھہ شہر گیا ۔
(30) پیر طریقت حضرت علامہ مولانا امین الہدی قادری مصباحی صاحب قبلہ ۔ خانقاہ بیت الانوار گیوال بیگھہ شہر گیا ۔
(31) حضرت علامہ مولانا سید سیف الدین اصدق مصباحی صاحب قبلہ، نالندہ
(32) حضرت علامہ مولانا سید نور الدین اصدق مصباحی صاحب قبلہ ۔
(33) حافظ احادیث کثیرہ ابو الحقانی حضرت علامہ مولانا محمد حسین صاحب علیہ الرحمۃ والرضوان ۔
(34) حضرت علامہ مولانا عبد المالک مصباحی صاحب قبلہ ۔
جمشید پور جھارکھنڈ
(35) حضرت علامہ مولانا حافظ ہاشم قادری مصباحی صاحب قبلہ
(36) حضرت علامہ مولانا مفتی محمد مبین احمد قادری مصباحی صاحب قبلہ، خلیفۂ حضور سمنانی میاں بریلی شریف و سید امجد ربانی خانقاہ ربانیہ جبل پور ،استاذ و مفتی گلشن بغداد ہزاریباغ جھارکھنڈ ۔
(37) حضرت علامہ مولانا مفتی مظفر حسین رضوی مصباحی گیاوی صاحب قبلہ خلیفۂ حضور سید امجد ربانی آستانۂ ربانیہ جبل پور ، قاضی شہر گیا و بانی دارالعلوم غریب نواز روپن فتح پور گیا۔
(38) حضرت علامہ مولانا محمد اظہر خان حبیبی مصباحی صاحب قبلہ، قاضی شہر جہاں آباد۔
(39) حضرت علامہ مولانا نعمان اختر فائق جمالی صاحب قبلہ۔ سربراہ اعلی دارالعلوم فیض الباری نوادہ بہار و قاضی شہر نوادہ
( 40) حضرت علامہ مولانا محمد بلال انور رضوی صاحب قبلہ، کلیر ارول ۔
(41) حضرت علامہ مولانا محمد جمال انور رضوی صاحب قبلہ، کلیر ارول۔
(42) حضرت علامہ مولانا مفتی شمشاد احمد قادری مصباحی صاحب قبلہ، استاذ جامعہ امجدیہ گھوسی
(43) حضرت علامہ مولانا مفتی ضیاء المصطفی مصباحی صاحب قبلہ نیپال ثم جمشید پور
(44) حضرت علامہ مولانا منور حسین مصباحی عزیزی علیہ الرحمۃ والرضوان، گورکھپور
(45) حضرت علامہ مولانا مفتی مجیب الرحمان مصباحی گڈا، امام و خطیب جامع مسجد سنجے نگر، رائے پور۔
(46) حضرت علامہ مولانا محمد شاہنواز ازہری صاحب قبلہ، پڑتاب گڑھ۔
(47) حضرت علامہ مولانا محمد توصیف رضا مصباحی، سنبھل
(48) حضرت علامہ مولانا محمد شکیل احمد مصباحی، رامپور استاذ جامعۃ الرضا بریلی شریف ۔
(49) حضرت علامہ مولانا شہزاد عالم مصباحی، رامپور استاذ جامعۃ الرضا بریلی شریف ۔
(50) حضرت علامہ مولانا مفتی رجب علی مصباحی صاحب قبلہ ۔
(51) حضرت مولانا مفتی شمس الدین مصباحی چترویدی، گریڈیہہ ۔
(52) حضرت مولانا محمد اعظم مصباحی صاحب قبلہ، استاذ مدرسہ گلشن بغداد ہزاریباغ جھارکھنڈ
(53) حضرت علامہ مولانا محمد ندیم سرور مصباحی گیاوی ، ناظم اعلی مدرسہ غوثیہ قادریہ، دوبہل، امام گنج، گیا بہار۔
(54) حضرت مولانا اقبال احمد مصباحی، رام گڑھ ۔
لہذا معلوم ہوا کہ تقریر وخطابت کی اہمیت و افادیت ہر دور میں اور ہر زمانے میں تسلیم کی جاتی رہی ہے، خواہ گلشن علم و ادب ہو یا چمن تعلیم و تعلم، انجمن کا اسٹیج ہو یا کانفرنس کی ڈائز، جلسے کا مسند ہو یا مساجد کے منبر و محراب ، دنیائے سیاست ہو یا میدان دعوت، راہ تبلیغ ہو یا وعظ و نصیحت ۔ تقریر و خطابت کی حاجت اور ضرورت ہر جگہ محسوس کی جاتی ہے اور فن خطابت کے ماہرین ہر مقام پر جلوہ بکھیرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔
تقریر وخطابت کا فن خدا داد ہوتا ہے ۔ ایک اچھا مقرر زمانہ طالب علمی ہی میں اپنا رنگ دکھانا شروع کردیتا ہے ۔مذکورہ خطبائے فرزندان اشرفیہ میں سے بعض خطبا ایسے ہیں جو دوران طالب علمی ہی سے تحریر و تقریر اور فن خطابت میں اپنی نمائندگی حاصل کرتے آرہےہیں ۔
لیکن جب اس دور کی بات کریں تو اندازہ ہوگا کہ اس زمانہ میں فن خطابت کے لوازمات مفقود ہوتے جارہے ہیں ۔۔۔۔نہیں بلکہ ہوچکے ہیں ۔ آج کل تو خطیبوں کا یہ معیار بن گیا کہ واقعات اور احادیث کو درایت و روایت کی کسوٹی پر پرکھنا تو دور کی بات ، اسناد و واقعات کی صحت و ضعف کا لحاظ کیے بغیر اپنے شعلہ بیانی انداز میں غیر مستند باتیں بھی سامعین کے گوش گزار کردیتے ہیں ۔ صرف یہی نہیں بلکہ موضوع روایت بیان کرنے سے بھی دریغ نہیں کرتے ۔ اور سب سے بڑا المیہ یہ کہ عوام کو احکام شرعیہ بتانے، انذار و تنذیر، عقائد اور اسلام کی بنیادی احکام سے روشناس کرانے کے بجائے شفاعت و کرامت بیان کر کے جانے انجانے میں یاد خدا سے غفلت کے اسباب فراہم کردیتے ہیں ۔
اس زمانے میں تقریر و خطابت کا یہ معیار اس لیے بن گیا ہے کہ میدان خطابت کو دعوت وتبلیغ کے ذرائع سمجھنے کے بجائے صرف ذریعۂ معاش تصور کرلیا گیا ہے، نیز سامعین کی ذوق سماعت بھی بدل چکی ہے ۔ پہلے یہ ہوتا تھا کہ خطبا اھل محافل و مجالس کے حسب ضرورت گفتگو کیا کرتے تھے، لیکن اب یہ دیکھا جاتاہے کہ عوام کن باتوں سے زیادہ خوش ہوتے ہیں، انہیں کن باتوں سے زیادہ دلچسپی ہے اور کن چیزوں کو سن کر داد و تحسین سے نوازتے ہیں، اگرچہ پیش کردہ باتیں درایت و روایت دونوں اعتبار سے درست نہ ہو ۔ یہی وجہ ہے کہ آج کے خطبا میں وہ زور بیانی ، طاقت لسانی و گویائی اور قوت استدلال نہیں رہ گئے جو ایک خطیب کے اندر ہونا چاہیے ۔ لہذا اس بات کی ضرورت محسوس کی جارہی تھی کہ نسل نو کےلیے مخلتف عناوین پر مشتمل تقریر کی کتابیں تالیف و ترتیب دیے جائیں، تاکہ نو آموز طلبا انہیں پڑھ کر اور فن خطابت سے آشنا ہو کر اپنے اندر خطابت کے جواہر پیدا کرلیں ۔ انداز گفتگو، تقریری اسلوب کو صحیح طور پر سمجھ کر اور تقریری لوازمات سے لیس ہوکر میدان خطابت میں اتریں۔
اس جہت سے بھی بحمدہ تعالی و بعونہ فرزندان اشرفیہ نے نمایاں کردار ادا کیا ہے ۔ اور کتب تقریر، تالیف و ترتیب دے کر نو آموز طلبا و نو فارغ علما و ائمہ کی رہنمائی فرمائی ہے ۔
*مصباحی خطبا کی تالیفات*
(1) *خطبات رئیس القلم*
حضرت علامہ ارشد القادری علیہ الرحمۃ والرضوان
(2) *خطبات بحر العلوم*
حضرت مفتی عبدالمنان اعظمی علیہ الرحمۃ والرضوان
(3) *خطبات براھین*
خطیب البراھین حضرت صوفی محمد نظام الدین مصباحی علیہ الرحمۃ والرضوان
(4) *خطبات برطانیہ*
شیخ الاسلام علامہ مدنی میاں صاحب قبلہ
(5) *خطبات محدث کبیر*
حضرت علامہ ضیاء المصطفی مصباحی قادری صاحب قبلہ
(6) *خطبات اعظمی*
حضرت علامہ قمرالزماں اعظمی و علامہ عبیداللہ خان اعظمی صاحبان
(7) *خطبات اسلام*
حضرت علامہ مولانا عبد المالک مصباحی صاحب قبلہ
(8) *دلکش تقریریں*
حضرت علامہ عبدالمالک مصباحی صاحب قبلہ
(9) *خطبات نور*
حضرت مولانا آصف مصباحی صاحب
(10) *خطبات حافظ ملت و عزیز ملت*
حضرت مولانا اعظم مصباحی صاحب ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
از قلم
محمد نوید سرور قادری مصباحی گیاوی ۔ دوبہل، امام گنج، گیا بہار
0 تبصرے
اپنا کمینٹ یہاں لکھیں