انبیاء، شہداء اور اولیاء اپنے اَجسام اور کفنوں کے ساتھ زندہ ہیں

انبیاء، شہداء اور اولیاء اپنے اَجسام اور کفنوں کے ساتھ زندہ ہیں
➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖

 بعض عام مومنین اور دیگر انتقال کر جانے والوں کے اَجسام قبر میں اگرچہ سلامت نہیں رہتے البتہ انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام، شہداء اور اولیاءِ عظام رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِمْ کے مبارک جسم قبروں میں سلامت رہتے ہیں۔ 
چنانچہ اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں: اہلِسنَّت کے نزدیک انبیاء وشہداء عَلَیْہِمُ التَّحِیَّۃُ وَ الثَّنَاء اپنے اَبدانِ شریفہ سے زندہ ہیں بلکہ انبیاء عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے ابدانِ لطیفہ زمین پر حرام کئے گئے ہیں کہ وہ ان کو کھائے، اسی طرح شہداء و اولیاء عَلَیْہِمُ الرَّحْمَۃُ وَ الثَّنَاء کے اَبدان و کفن بھی قبور میں صحیح و سلامت رہتے ہیں وہ حضرات روزی و رزق دئیے جاتے ہیں۔
علامہ سبکی شفاء السقام میں لکھتے ہیں : 
شہداء کی زندگی بہت اعلیٰ ہے، زندگی اور رزق کی یہ قسم ان لوگوں کو حاصل نہیں ہوتی جو ان کے ہم مرتبہ نہیں اور انبیاء کی زندگی سب سے اعلیٰ ہے اس لیے کہ وہ جسم و روح دونوں کے ساتھ ہے جیسی کہ دنیا میں تھی اور ہمیشہ رہے گی۔ 
*( شفاء السقام، الباب التاسع فی حیاۃ الانبیاء علیہم الصلاۃ والسلام، الفصل الرابع، ص۴۳۱)* 

اور قاضی ثناءُاللّٰه صاحب پانی پتی تذکرۃُ الموتٰی میں لکھتے ہیں : 
اَولِیاء اللّٰه کا فرمان ہے کہ ہماری روحیں ہمارے جسم ہیں ۔ یعنی ان کی اَرواح جسموں کا کام دیا کرتی ہیں اور کبھی اَجسام انتہائی لطافت کی وجہ سے ارواح کی طرح ظاہر ہوتے ہیں کہتے ہیں کہ رسولُ اللّٰه صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کا سایہ نہ تھا۔ ان کی ارواح زمین آسمان اور جنت میں جہاں بھی چاہیں آتی جاتی ہیں، اس لیے قبروں کی مٹی ان کے جسموں کو نہیں کھاتی ہے بلکہ کفن بھی سلامت رہتا ہے۔ 

ابنِ ابی الدنیا نے مالک سے روایت کی ہے کہ مومنین کی ارواح جہاں چاہتی ہیں سیر کرتی ہیں۔ مومنین سے مراد کاملین ہیں، حق تعالیٰ ان کے جسموں کو روحوں کی قوت عطا فرماتا ہے تو وہ قبروں میں نماز ادا کرتے اور ذکر کرتے ہیں اور قرآنِ کریم پڑھتے ہیں۔
*( تذکرۃ الموتیٰ والقبور اردو، ص۷۵)* 

اور شیخُ الہند محدّثِ دہلوی عَلَیْہِ الرَّحْمَۃ شرح مشکوٰۃ میں فرماتے ہیں:
اللّٰه تعالیٰ کے اولیاء اس دارِفانی سے دارِ بقا کی طرف ُکوچ کرگئے ہیں اور اپنے پروردگار کے پاس زندہ ہیں، انھیں رزق دیا جاتا ہے، وہ خوش حال ہیں، اور لوگوں کو اس کا شعور نہیں۔
*( اشعۃ اللمعات، کتاب الجہاد، باب حکم الاسرائ، ۳ / ۴۲۳-۴۲۴)* 

اور علامہ علی قاری شرح مشکوٰۃ میں لکھتے ہیں : 
اَولِیائُ اللہ کی دونوں حالتوں (حیات و مَمات) میں اصلاً فرق نہیں ، اسی لیے کہا گیا ہے کہ وہ مرتے نہیں بلکہ ایک گھر سے دوسرے گھر میں تشریف لے جاتے ہیں۔
*(مرقاۃ المفاتیح، کتاب الصلاۃ، باب الجمعۃ، الفصل الثالث، ۳ / ۴۵۹-۴۶۰، تحت الحدیث: ۱۳۶۶)* 
*۔( فتاوی رضویہ، ۹ / ۴۳۱-۴۳۳)* 


 *انتقال کے بعد اولیاءِکرام کی زندگی کے 5 واقعات:-* 
علامہ جلا ل الدین سیوطی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے شرح الصُّدُور میں انتقال کے بعد اولیائے کرام رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِمْ کے بارے میں چند مُستَنَد رِوایات لکھی ہیں اور اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے انہیں فتاویٰ رضویہ میں بھی نقل فرمایا ہے، ان میں سے 5 روایات درج ذیل ہیں :

(1) مشہور ولی حضرت ابو سعید خراز رَحْمَۃُ اللّٰه تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں:
میں مکہ مُعَظَّمَہ میں تھا، بابِ بنی شیبہ پر ایک جوان مردہ پڑا پایا، جب میں نے اس کی طرف نظر کی تو مجھے دیکھ مسکرایا اور کہا: اے ابو سعید!کیاتم نہیں جانتے کہ اللّٰه تعالیٰ کے پیارے زندہ ہیں اگر چہ مرجائیں، وہ تو یہی ایک گھر سے دوسرے گھر میں منتقل کئے جاتے ہیں۔
*( شرح الصدور، باب زیارۃ القبور وعلم الموتی بزوارہم الخ، تنبیہ، ص۲۰۷)* 

(2) حضرت سیدی ابو علی رَحْمَۃُ اللّٰه تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں: 
میں نے ایک فقیر کو قبر میں اتارا، جب کفن کھولا توان کا سرخاک پر رکھ دیا کہ اللّٰه تعالیٰ ان کی غُربَت پر رحم کرے۔ فقیر نے آنکھیں کھول دیں اور مجھ سے فرمایا: اے ابو علی!تم مجھے اس کے سامنے ذلیل کرتے ہو جو میرے ناز اٹھا تا ہے۔میں نے عرض کی: اے میرے سردار!کیا موت کے بعد زندگی ہے؟ آپ نے فرمایا: میں زندہ ہوں ، اور خدا کا ہر پیارا زندہ ہے، بیشک وہ وجاہت وعزت جو مجھے قیامت کے دن ملے گی اس سے میں تیری مدد کروں گا۔ 
*( شرح الصدور، باب زیارۃ القبور وعلم الموتی بزوارہم... الخ، تنبیہ، ص۲۰۸، ملتقطاً)* 

(3) حضرت ابراہیم بن شیبان رَحْمَۃُ اللّٰه تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں:
میرا ایک جوان مرید فوت ہوگیا تو مجھے سخت صدمہ ہوا، جب میں اسے غسل دینے کے لئے بیٹھا تو گھبراہٹ میں بائیں طرف سے ابتداء کی، اس جوان مرید نے وہ کروٹ ہٹا کر اپنی دائیں کروٹ میری طرف کر دی۔ میں نے کہا: اے بیٹے! تو سچا ہے، مجھ سے غلطی ہوئی۔ 
*(شرح الصدور، باب زیارۃ القبور وعلم الموتی بزوارہم. الخ، تنبیہ، ص۲۰۸)* 

(4) حضرت ابو یعقو ب سوسی رَحْمَۃُ اللّٰه تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں:
میں نے ایک مرید کو نہلانے کے لیے تختے پر لِٹایا تو اس نے میرا انگوٹھا پکڑلیا۔ میں نے اس سے کہا: اے بیٹے! میرا ہاتھ چھوڑ دے، بے شک میں جانتا ہوں کہ تو مردہ نہیں، یہ تو صرف مکان بدلنا ہے، اس لئے میرا ہاتھ چھوڑدے۔ 
*(شرح الصدور، باب زیارۃ القبور وعلم الموتی بزوارہم... الخ، تنبیہ، ص۲۰۸)* 

(5) حضرت ابو یعقوب سوسی رَحْمَۃُ اللّٰه تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں:
مکہ مُعَظَّمَہ میں ایک مرید نے مجھ سے کہا: اے میرے پیر و مرشد! میں کل ظہر کے وقت مرجاؤں گا، حضرت، ایک اشرفی لیں، آدھی میں میرا دفن اور آدھی میں میرا کفن کریں۔ جب دوسرا دن ہوا اور ظہر کا وقت آیا تو ، مذکورہ مرید نے آ کر طواف کیا، پھر کعبے سے ہٹ کر لیٹا اور انتقال کر گیا، جب میں نے اسے قبر میں اتارا تو اس نے آنکھیں کھول دیں۔ میں نے کہا: کیا موت کے بعد زندگی ہے ؟ اس نے کہا: میں زندہ ہوں اور اللّٰه تعالیٰ کا ہر دوست زندہ ہے۔
*( شرح الصدور، باب زیارۃ القبور وعلم الموتی بزوارہم. الخ، تنبیہ، ص۲۰۸، ملتقطاً)*

➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖
*المرتب⬅ قاضـی شعیب رضـا تحسینی امجـدی، ممبر "فیضـانِ دارالعـلوم امجـدیہ ناگپور گروپ" 7798520672*
➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے