Header Ads

گمراہ اور مر تد جماعتوں میں مختلف قسم کے افراد

مبسملاوحامدا::ومصلیا ومسلما

گمراہ اور مر تد جماعتوں میں مختلف قسم کے افراد

گمراہ اور مرتد جماعت کا ہر  فرد گمراہ ضرور شمار کیا جائے گا،خواہ وہ اس جماعت کی ضلالت وکفریات سے واقف ہو،یاناواقف۔یہ بالکل ظاہر سی بات ہے کہ جوجس جماعت کا فر د ہوگا،وہ اس جماعت کے شعار کو ضرور اپنائے گا۔کسی گمراہ اور مرتد جماعت کے شعارکو اپنانے والا گمراہ قرار پاتا ہے، گر چہ محض شعار کے سبب اس کو کافر ومرتدقرارنہیں دیا جا سکتا ہے۔

کسی فرد پر شخصی حکم عائد کر نے کے لیے لازم ہے کہ خاص اس شخص کے عقائد کی مکمل تفتیش کی جائے۔اس کے شخصی عقائد کی تحقیق کے بغیر خاص اس شخص کو شخصی طور پر کافرنہیں قرار دیا جائے گا,لیکن گمراہ یا مرتد جماعت کا فرد ہے تو گمراہ ضرور کہا جائے گا۔

ایک فتویٰ مندرجہ ذیل ہے جس سے واضح ہوجائے گا کہ ہر گمراہ جماعت یا کافر جماعت میں مختلف قسم کے افراد ہوسکتے ہیں۔بعض گمراہ،بعض کافر فقہی اور بعض کافر کلامی۔ سب کے شخصی احکام بھی جدا گانہ ہوں گے۔


سوال:کیا شیعوں کے سب فرقے اورغیر مقلدین سب کے سب کافر ہیں؟

الجواب:ان میں ضروریات دین سے کسی شئ کا جومنکر ہے،یقینا کافر ہے،اور جو قطعیات کے منکر ہیں،ان پر بحکم فقہا لزوم کفر ہے،اور اگر کوئی غیر مقلد ایسا پایا جائے کہ صرف انھیں فرعی اعمال میں مخالف ہو،اورتمام عقائد قطعیہ میں اہل سنت کا موافق،یا وہ شیعی کہ صرف تفضیلی ہے توایسوں پر حکم تکفیر ناممکن ہے:واللہ تعالیٰ اعلم 
(فتاویٰ رضویہ جلد 14 ص281-جامعہ نظامیہ لاہور)

توضیح: مذکورہ بالا عبارت میں قطعیات سے ضروریات اہل سنت مرادہیں،جو ضروریا ت دین کی قسم دوم ہیں۔ ضروریات اہل سنت کے انکار کوکفر لزومی کہا جاتا ہے۔

اسی طرح ضروریا ت دین کے غیر مفسر انکار کوبھی کفر لزومی کہا جاتا ہے۔جب کسی ضروری دینی کا مفسر انکار ہوتومتکلمین اس کو کفر التزامی کہتے ہیں اوریہی کفر کلامی ہے۔
 
فرقہ تفضیلیہ کے بنیادی عقائد میں کفر کلامی یا کفر فقہی نہیں پایا جاتا،بلکہ محض ضلالت وگمرہی پائی جاتی ہے۔

 تفضیلیوں میں صرف وہی کافر ہوگا جو کسی ضروری دینی کا منکر ہو۔

غیر مقلد وہابیہ کے بنیادی عقائد میں کفر فقہی پایا جاتا ہے،اور بعد کے بعض بھارتی غیر مقلد وہابیہ نے ختم نبوت کابھی انکار کیااور دیوبندیوں پر کفر کلامی کا حکم عائد ہواتو اسے بھی تسلیم نہیں کیا۔اس طرح غیر مقلد وہابیوں کے عقائد میں کفر کلامی بھی داخل ہوگیا۔

اب کوئی ایسا غیر مقلد ہو جو محض عدم تقلید کا قائل ہو،اور تمام عقائد قطعیہ میں اہل سنت کے موافق ہوتو وہ شخص محض گمراہ ہے،کافرکلامی یا فقہی نہیں۔

فرقہ دیوبندیہ کافر کلامی ہے۔ اب اس فرقے کا جوفرد اس جماعت کے کفریات کلامیہ کونہیں مانتاہو، اور کفر یات کلامیہ کے مرتکبین کوکافر کلامی مانتا ہوتو وہ کافرکلامی نہیں۔وہ صرف کافر فقہی ہوگا،کیوں کہ دیوبندی فرقہ میں کفریات کلامیہ کے علاوہ بہت سے کفریات فقہیہ بھی ہیں۔

ہاں، جو دیوبندی کفریات کلامیہ وکفریات فقہیہ کونہ مانے،اور کافر کلامی کو کافر کلامی اورکافر فقہی کوکافر فقہی مانے تووہ صرف گمراہ ہوگا،لیکن ایسے فرد کا وجود مشکل ہے۔ 


یہ محض امکان عقلی کا بیان ہے،ورنہ ہر جماعت کے لوگ اپنے مذہب کے اکابر ین کو مومن اور صالح مانتے ہیں۔خود کو اسی مذہب کی طرف منسوب کرتے ہیں۔اگر وہ اپنے مذہب کے کفریات کلامیہ وکفریات فقہیہ سے ناواقف ہوں تو بھی ان پرکفر فقہی کا حکم ثابت ہو گا۔

اس کا تفصیلی بیان ہمارے مضمون:بعنوان”نمازوتبلیغ کے نام پر دیوبندیوں کے ساتھ“ (قسط دوم) میں مرقوم ہوا۔
دوسرے مضمون:بعنوان ”غیرمقلدین اوردیوبندیوں کے چار طبقات“میں بھی ایسے لوگوں کا حکم امام احمد رضا کے رسالہ:ازالۃ العار کے حوالہ سے مرقوم ہوا۔

یہ شہادت گہ الفت میں قدم رکھنا ہے 

لوگ آسان سمجھتے ہیں مسلماں ہونا  


کافرکلامی جماعت میں غیر کافرکلامی کا وجود ممکن:

کافر کلامی جماعت مثلاً روافض میں کوئی ایسا فردہوجو نہ روافض کے کفریہ عقائد(کفر یات کلامیہ وکفریات فقہیہ) کو مانتا ہو،نہ ہی کفریہ عقائدماننے والے کو مومن مانتا ہو،بلکہ کافر کلامی کوکافر کلامی اور کافر فقہی کوکافر فقہی مانتا ہو،لیکن وہ کافر کلامی جماعت ہی میں اپنا شمار کرتا ہو، اور اس کے شعار پر کار بند ہوتو ایسا شخص محض گمراہ ہے، کافر فقہی یاکافر کلامی نہیں،بشرطے کہ کوئی شعار ایسا نہ ہو جوبجائے خود کفر وارتداد ہو۔

اگرکوئی شعارہی کفرہوتو اس شعار کو اپنانے پر حکم کفر ہوگا۔


فرقہ روافض یا مرتد فرقوں کی جو تکفیر کی جاتی ہے۔یہ جماعتی تکفیر ہے،جسے تکفیر عمومی کہا جاتا ہے۔ اس جماعت کے کسی خاص فرد کی تکفیر شخصی کے لیے خاص اس شخص کے عقائد کودیکھنا ہوگا۔ عمومی تکفیر اورشخصی تکفیر کے شرائط الگ ہیں۔

بدمذہب اور مرتد فرقوں میں کسی مسلمان کا وجود ممکن ہے۔مسلمان سے مراد یہ ہے کہ وہ کافر فقہی یا کافر کلامی نہ ہو۔ ایسی صورت میں وہ گمراہ ہوگا،لیکن کافرنہیں ہوگا،مثلاً وہ شخص اس مذہب کے کفریات(کفریات کلامیہ وکفریات فقہیہ)کا صریح انکار کرتا ہو، اورایسا عقیدہ رکھنے والوں کوکافر (کافر کلامی وکافر فقہی)مانتا ہو تو یہ محض گمراہ ہوگا،کافر نہیں۔

فتاویٰ رضویہ سے ایک سوال وجواب منقولہ ذیل ہے۔

مسئلہ: کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ زید سنی المذہب ہے اور ہندہ زوجہ شیعی مذہب رکھتی ہے اور باہم کسی طریقہ پر عقد بھی ہوگیاہے، ایسی حالت میں شرعًا ہمبستری یعنی مجامعت جائز ہے،اور ایسی حالت میں جو اولاد ہوگی،وہ نطفہ صحیح ہوگایا نہیں؟ بینوا توجروا

الجواب:آج کل کے روافض تبرائی علی العموم کافر مرتد ہیں۔شاید شاذو نادر ان میں کوئی مسلمان نکل سکے،جیسے کووں میں سپید رنگ کا کوا۔ایسی عورت سے نکاح محض باطل ہے اور قربت صریح زنا اور اولاد یقینا ولد الزنا:واللہ تعالیٰ اعلم 
(فتاویٰ رضویہ جلد پنجم ص 273-نوری دالاشاعت بریلی شریف)

توضیح:عہد حاضر کے روافض کافر کلامی ہیں،لیکن ممکن ہے کہ ان کے درمیان کوئی ایسا رافضی ہوجو کافر فقہی یا کافر کلامی نہ ہو۔یہ محض امکان عقلی کا بیان ہے۔ کسی خاص فرد کی شخصی حیثیت کا تعین اسی وقت کیا جا سکتا ہے،جب خاص اس شخص کے عقائد کی تحقیق کی جائے۔

واضح رہے کہ مرتدہ عورت سے نکاح باطل ہے اور قربت زنائے خالص۔اگر عورت مرتدہ نہ ہو،بلکہ صرف بد مذہب وگمراہ ہوتو بھی نکاح ناجائز اورسخت گناہ ہے،گرچہ اس دوسری صورت میں نکاح بالکل باطل اور قربت زنائے خالص نہیں ہے،لیکن ناجائز اور گناہ ضرور ہے، پس بدمذہب عورتوں سے ہر گز نکاح نہ کیا جائے۔ اگر کسی سبب سے ایسا ہوگیا ہوتو عورت کی صالح تربیت کی جائے،تاکہ وہ سنی صحیح العقیدہ بن جائے۔


کسی جماعت کا عام حکم کس طرح بیان کیا جاتا ہے؟

کسی جماعت کا عام حکم اس جماعت کے بنیادی عقائد کے اعتبار سے بیان کیا جاتا ہے،مثلاً فرقہ دیوبندیہ ایک مرتدجماعت ہے،یعنی کافر کلامی جماعت ہے تو اس جماعت کے جب عمومی احکام بیان ہوں گے تو کافر کلامی کے جواحکام ہیں،وہی احکام بیان کیے جائیں گے،گرچہ اس جماعت کے تمام افراد کافر کلامی نہ ہوں۔

فرقہ تفضیلیہ محض گمراہ جماعت ہے،نہ کافر کلامی ہے،نہ کافرفقہی۔اس کے بنیادی عقائد میں کفریات کلامیہ وکفریات فقہیہ نہیں تو جب ا س جماعت کے احکام بیان ہوں گے تو وہی احکام بیان کیے جائیں گے جو گمراہ کے احکام ہیں، حالاں کہ یہ ممکن ہے کہ اس جماعت میں شمار ہونے والا کوئی فرد ایسا ہوجوکسی ضروری دینی کا منکر ہو،یعنی کافر کلامی ہو۔ اسی طرح یہ بھی ممکن ہے کہ فرقہ تفضیلیہ میں شمار ہونے والاکوئی فردکافر فقہی ہو۔

غیر مقلد وہابیہ(اہل حدیث) کے بنیادی عقائد میں کفر یات فقہیہ کثرت کے ساتھ ہیں، لیکن کفریات کلامیہ نہیں تھے۔ بھارت کے غیر مقلد وہابیہ ایک مدت بعدانکار ختم نبوت کے سبب کفر کلامی میں مبتلا ہوئے،اور انہیں لوگوں کی بحث ومناظرہ کے سبب قاسم نانوتوی سے سوال ہوا تو اس نے ”تحذیر الناس“ لکھ دی اور اس میں ختم نبوت کا صریح انکار کردیا۔

اس کے بعددیوبندیوں نے متعدد کفر یات کلامیہ کا ارتکاب کیا،جن کے سبب ان پر کفر کلامی کا حکم عائد ہوا۔

دیوبندیوں نے توبہ نہ کی،بلکہ اپنے کفر پرقائم رہے۔ غیر مقلد وہابیہ اپنے برادر حقیقی یعنی فرقہ دیوبندیہ کو مومن ماننے کے سبب کافر کلامی قرار پائے۔
دیوبندیوں نے توبہ کی بجائے تاویل کی راہ اختیار کی۔سال 1906 میں دیوبندیوں کے لیے حرمین طیبین سے حکم کفر آیا۔سوا سو سال ہونے کو ہیں،لیکن دیابنہ آج تک تاویل ہی کرتے رہ گئے۔توبہ ورجوع کی طرف مائل نہ ہوسکے۔

جب اپنے سرسے کفر اٹھ نہ سکا تو مختلف الزامات عائدکرکے اہل سنت وجماعت کو بدعتی کہنے لگے،اور خود کو اہل سنت کہنے لگے۔


گمراہ جماعت کا عمومی حکم:

مسئلہ::محرم الحرام ۹۳۳۱؁ھ-اہل سنت وجماعت کا متفق علیہ عقیدہ ہے کہ سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ بعد انبیا علیہم الصلوٰۃ والسلام افضل البشر ہیں۔زید وخالد دونوں اہل سادات ہیں۔زید کہتا ہے کہ جو شخص حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کوحضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ پر فضیلت دیتا ہے، اُس کے پیچھے نماز مکروہ ہوتی ہے۔

خالد کہتا ہے کہ میں علی الاعلان کہتا ہوں کہ حضرت ابا بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ پر حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو فضیلت ہے اور ہر سید تفضیلیہ ہے اور تفضیلیہ کے پیچھے نماز مکروہ نہیں ہوتی،بلکہ جو تفضیلیہ کے پیچھے نماز مکروہ بتائے، خود اس کے پیچھے مکروہ ہوتی ہے۔


الجواب:تمام اہل سنت کا عقیدہ اجماعیہ ہے کہ صدیق اکبروفاروقِ اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہما مولیٰ علی کرم اللہ تعالیٰ وجہہ الکریم سے افضل ہیں۔ائمہ دین کی تصریح ہے جو مولیٰ علی کو اُن پر فضیلت دے،مبتدع بدمذہب ہے، اس کے پیچھے نماز مکروہ ہے۔فتاویٰ خلاصہ وفتح القدیرو بحرالرائق وفتاویٰ عالمگیریہ وغیرہا کتب کثیرہ میں ہے:ان فضل علیا علیھما فمبتدع۔اگر مولیٰ علی کوصدیق وفاروق پرفضیلت دیتے تو بدعتی ہے۔

غنیہ وردالمحتارمیں ہے:الصلٰوۃ خلف المبتدع تکرہ بکل حال۔بدمذہب کے پیچھے ہر حال میں نمازمکروہ ہے۔ارکانِ اربعہ میں ہے:الصلوۃ خلفھم تکرہ کراھۃ شدیدۃ۔تفضیلیوں کے پیچھے نماز سخت مکروہ یعنی مکروہ تحریمی ہے کہ پڑھنی گناہ اور پھیرنی واجب:واللہ تعالیٰ اعلم۔(فتاویٰ رضویہ جلد سوم: ص266-رضا اکیڈمی ممبئ)

توضیح:فرقہ تفضیلیہ گمراہ جماعت ہے۔ کافر فقہی یا کافر کلامی نہیں۔منقولہ بالافتویٰ میں فرقہ تفضیلیہ کا عام حکم بیان کیا گیا کہ اس کی اقتدا میں نماز مکروہ تحریمی ہے۔

اگر فرقہ تفضیلیہ کا کوئی فردکسی ضروری دینی کا منکر اورکافر کلامی ہوتو اس کی اقتدا میں نماز باطل محض ہوگی۔ کافر کلامی کی اقتدا میں نماز مکروہ تحریمی نہیں،بلکہ باطل ہوتی ہے۔


کافر فقہی جماعت کا عمومی حکم:

کافر فقہی کی اقتدا میں نمازسے متعلق دوقول ہیں۔ ایک قول یہ ہے کہ اس کی اقتدا میں نماز مکروہ تحریمی اور واجب الاعادہ ہے۔ دوسرا قول یہ ہے کہ کافر فقہی کی اقتدا میں بھی نمازباطل ہے۔ یہی قو ل صحیح ہے،کیوں کہ نماز جب بعض اعتبارسے صحیح ہو،اور بعض اعتبار سے فاسد ہوتو وہ فاسد قرارپااتی ہے۔

چوں کہ کافر فقہی بھی فقہا کے یہاں کافر ہے تو ان کی اقتدا میں نماز باطل ہونی چاہئے،لیکن چوں کہ وہ کافر کلامی کی طرح اسلام سے بالکل خارج نہیں،اس لیے گمرہوں کی طرح ان کی اقتدا میں نماز مکر وہ تحریمی ہونی چاہئے۔

بھارت کے غیر مقلد وہابیہ اپنے بنیادی عقائدکے اعتبار سے گرچہ کافر کلامی نہیں، لیکن ایک مدت بعد انکار ختم نبوت اور دیوبندیوں کی تکفیر نہ کرنے کے سبب وہ بھی کافر کلامی قرار پائے،پس ان کی اقتدا میں نماز باطل ہوگی۔ 

ہمارے لیے عوام کوبس اتنا بتادینا مناسب ہے کہ غیر مقلدوہابیہ کی اقتدامیں نما ز باطل ہے، کیوں کہ اگر وہ غیر مقلد کافر کلامی ہوتو بھی اس کی اقتدا میں نماز باطل ہے اور کافر فقہی ہو تو بھی صحیح قول کے مطابق اس کی اقتدا میں نماز باطل ہے۔ 

امام احمد رضا قادری نے رقم فرمایا:”مبتدع کی بدعت اگر حد کفر کوپہنچی ہو،اگر چہ عند الفقہا یعنی منکر قطعیات ہو، گر چہ منکر ضروریات نہ ہو، توصحیح یہ ہے کہ اس کے پیچھے نماز باطل ہے: کما فی فتح القدیر ومفتاح السعادۃ والغیاثیۃ وغیرہا:کہ وہی احتیاط جو متکلمین کو اس کی تکفیر سے باز رکھے گی،اس کے پیچھے نماز کے فساد کا حکم دے گی:فان الصلاۃ اذا صحت من وجوہ وفسدت من وجہ حکم بفسادہا:ورنہ مکروہ تحریمی“۔
(فتاویٰ رضویہ جلد سوم:ص273-رضا اکیڈمی ممبئ)

توضیح:منقولہ بالا عبارت میں بتایا گیا کہ صحیح قول کے مطابق کافر فقہی کی اقتدا میں نماز بھی باطل ہے،جیسے کافر کلامی کی اقتدا میں نماز باطل ہے۔ قوم کو جب حکم بتایا جائے تو صحیح قول بیان کیاجائے،تاکہ ان کی نماز برباد نہ ہو۔تحقیق وتدقیق کے وقت مختلف دلائل کی روشنی میں مختلف اقوال کا بیان ہوتا ہے۔ 



کافر کلامی جماعت کا عمومی حکم:

کافر کلامی کی اقتدا میں نماز باطل محض ہے۔ چوں کہ دیوبندی فرقہ کافر کلامی ہے۔ اس کے بنیادی عقائد میں کفریات کلامیہ ہیں،اس لیے اس فرقہ کا عام حکم یہی ہے کہ اس کی اقتدا میں نماز باطل ہے۔

 دیوبندی جماعت کا کوئی فردشخصی طورپرکافر کلامی نہ ہوتو اس کا حکم بدل جائے گا،لیکن عمومی طورپر کسی جماعت کا عام حکم بیان کیا جاتا ہے۔

امام احمدرضا قادری نے مقلد اور غیرمقلدوہابیہ کو کفر میں برابر قراردیا،بلکہ غیر مقلد وہابیہ کو ترک تقلید کے سبب دیوبندیوں سے بدتر قراردیا۔وجہ کفر بیان فرمایا کہ وہ مقلد وہابیہ کی تکفیر نہیں کرتے۔سوال وجواب مندرجہ ذیل ہیں۔


سوال دو م:دیوبندی مدعی تقلید وغیرمقلد مدعی اہل حدیث میں زیادہ کون ضلالت پر ہے،اور دونوں فرقوں کے پیچھے نماز درست ہے یا نہیں؟اور ان دونوں گروہوں پر علمائے حرمین شریفین کا کیا فتویٰ ہے؟(فتاویٰ رضویہ جلد یازدہم ص 73-رضا اکیڈمی ممبئ)

امام احمد رضاقادری نے جواب میں رقم فرمایا:”دونوں میدانِ کفر میں کفرسی رہان ہیں۔ دونوں کے پیچھے نماز باطل محض،جیسے مسیح چرن یا گنگا دین کے پیچھے:کما حققناہ فی النھی الاکید عن الصلٰوۃ وراء عدی التقلید وغیرہ من کتبناوفتاوٰنا۔ 

فتح القدیر شرح ہدایہ میں ہے:روی محمد عن ابی حنیفۃ و ابی یوسف رضی اللّٰہ تعالی عنہم ان الصلٰوۃ خلف اھل الہواء لایجوز۔

بظاہر غیر مقلد دیوبندیہ سے بدتر ہیں کہ عقائد کفر و ضلال میں دونوں متحد، اور ان میں انکار تقلید و بدگوئی ائمہ زائد۔

خود امام الدیابنہ رشید گنگوہی کے فتاوٰی حصہ دوم صفحہ 21میں 4 گروہ غیر مقلد میں نذیر حسین دہلوی کی نسبت ہے۔

ان کو مردود اور خارج اہل سنت سے کہنا بھی سخت بے جا ہے۔

عقائد میں سب متحد مقلداور غیر مقلد ہیں،اور مفتی سے اگر غیر مقلدین اور دیوبندیہ کے بارے میں سوال ہوگا تو دیوبندیوں پر حکم سخت تردے گا کہ اس کا مطمعِ نظر وصف عنوانی ہے۔ 

ترک تقلید و بدگوئی ائمہ کو دیوبندیہ کے ان اقوال سے کیا نسبت ہے جو سرگروہانِ دیابنہ گنگوہی،نانوتوی و تھانوی کے ہیں کہ ابلِیس کو علم غیب ہے،اور رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے لیے مانے تو صریح مشرک:الخ“۔
(فتاویٰ رضویہ جلدیازدہم:ص 73-رضا اکیڈمی ممبئ)

توضیح:دیوبندیوں اورغیر مقلدین میں بعض ایسے ہوں گے جو کافر کلامی نہ ہوں، لیکن جب عام حکم بیان کیا جاتا ہے تو اس جماعت کے بنیادی عقائد کے پیش نظر کوئی حکم بیان کیا جاتا ہے۔دیوبندی فرقہ کے بنیادی عقائد میں کفر یات کلامیہ ہیں اور ایک مدت بعد غیر مقلد وہابیہ نے انکارختم نبوت میں دیوبندیوں کی تائید کی اور دیابنہ کے کفریات کلامیہ کے باوجودان کو مومن شمار کرتے رہے تو ان کے عقائد میں بھی کفریات کلامیہ داخل ہوگئے۔

منقولہ عبارت میں ”کفر سی رہان“کا مفہوم یہ ہے کہ دونوں میدان کفر میں ریس کے گھوڑوں کی مانند ہیں جو ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کی کوشش کرتے ہیں۔
 

 باطل فرقوں کی حیثیت کا تعین کیسے کیاجائے گا؟

 باطل فرقوں کی حیثیت کا تعین اس فرقہ کے بنیادی عقائد کے اعتبار سے ہوگا، گرچہ اس فرقہ کے تمام افراد ان باطل عقائد پر نہ ہوں۔

امام احمد رضا قادری نے رقم فرمایا:”روافض زمانہ علی العموم مرتد ہیں:کما بیناہ فی رد الرفضہ۔ان سے کوئی معاملہ اہل اسلام کا سا کر نا حلال نہیں۔ان سے میل جول،نشست وبرخاست،سلام کلام سب حرام ہے“۔(فتاویٰ رضویہ جلد ششم ص 94-رضا اکیڈمی ممبئ)

توضیح:عہد حاضر کے روافض کے بنیادی عقائدمیں کفریات کلامیہ ہیں تو ان کومر تد یعنی کافر کلامی کہا گیا۔یہ ممکن ہے کہ اس فرقہ کاکوئی فردکافر کلامی نہ ہو۔وہ اس فرقہ کے کفریات کلامیہ کونہ مانتا ہو،اور کفریات کلامیہ والے کوکافرکلامی بھی مانتا ہو،یاکوئی فرد اس جماعت کے کفریات فقہیہ کونہیں مانتا ہو، اور کافرفقہی کوکافر فقہی مانتا ہو۔

عام طورپرہر مذہب سے نسبت رکھنے والے لوگ اپنی جماعت کے باطل عقائد پر ہی ہوتے ہیں،گر چہ یہ امکان عقلی موجود ہے کہ کوئی فرد ان باطل عقائدکو نہ مانتا ہو۔

نیز ایسا بہت کم ہوتا ہے کہ کوئی فرد اپنی جماعت کے عقائد سے واقف نہ ہو، یا اپنی جماعت کے کسی غلط عقیدہ سے واقف ہونے کے بعد اس کو غلط کہے،بلکہ اس کی تاویل کرتا ہے، اور اس کو صحیح بتاتا ہے۔

لوگوں کے سامنے تقیہ بازی کے طورپر شیعہ،دیوبندی اوروہابی لوگ اپنے عقائد کو چھپاتے ہیں۔

عقائد کو چھپانے کے سبب حکم شرعی ان سے اٹھ نہیں سکتا۔

کیا دیوبندی مدارس کے فارغین بھی دیابنہ کے کفریات کلامیہ سے نا آشنا ہیں؟ہرگز نہیں،وہ دیوبندی دھرم کے کفریات کلامیہ کی باطل تاویلات اپنی کتابوں میں لکھتے ہیں۔ ان عبارتوں پرسنیوں سے مناظرے کرتے ہیں۔وہ یقینا مرتد ہیں۔

عوام میں سے بھی بے شمار لو گ ان کفریات کلامیہ سے واقف ہیں اور باطل تاویلات کرتے ہیں۔وہ سب مرتد ہیں۔

درحقیقت ہر صالح محقق تحقیق کامل اور تدقیق تام کے بعد اسی منزل تک پہنچے گا، جہاں امام احمدرضا پہنچے۔

  جولوگ توفیق الہی سے محروم ہوتے ہیں،ان کی فہم کی راہیں مسدود ہوجاتی ہیں اوروہ وادی ضلالت میں بھٹکتے پھر تے ہیں۔

اصول وضوابط اسی حکم کو ثابت کرتے ہیں جو امام احمد رضا نے بتایا۔ہم نے ان مضامین میں عام طورپر امام احمد رضا کے بیان کردہ مسائل کونقل کیا ہے۔ان کے فتاویٰ اور دیگر تحریروں میں بے شمارعلوم وفنون پائے جاتے ہیں۔اہل علم کو اس کا مکمل اعتراف ہے۔

میں عام طورپرامام ممدوح کے رقم کردہ کلامی مسائل سے زیادہ استفادہ کرتاہوں۔ تمام مسائل علم کلام کے اصول وقوانین کی روشنی میں انتہائی مستحکم اور کافی منظم نظر آتے ہیں۔ 

بشر غیر معصوم سے لغزش وخطا یقینا ممکن ہے،لیکن اللہ تعالیٰ کی قدرت سے کون سا بعید ہے کہ اپنے خاص بندوں کو لغزش وخطا سے محفوظ فرمادے۔ بندوں کونہ دیکھیں۔

قدرت خداوندی اور اللہ تعالیٰ کی وسیع رحمتوں پر نظر رکھیں۔مجددموصوف بھی لغزش وخطا سے محفوظ نظر آتے ہیں۔علم کلام میں ان کی تحقیقات وتدقیقات کودیکھ کر ہر انصاف پسند پکار اٹھے گا کہ امام احمد رضا اپنے عہد کے امام اشعری وامام ماترید ی ہیں:جزاہ اللہ تعالیٰ خیر الجزا (آمین) 
 
  طارق انورمصباحی

جاری کردہ:14:فروری 2021
٭٭٭٭٭

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے