Header Ads

افضلیت حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ قرآن کریم کی روشنی میں

افضلیت حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ قرآن کریم کی روشنی میں
_________________________
*تحریر:* محمد شاہد رضا مصباحی،ہزاری باغ۔مرکزی دارالقراءت۔جمشید پور
_________________________

مسلمانوں کا متفقہ اور اجماعی عقیدہ ہے کہ:
*"انبیا و مرسلین کے بعد جو ہستی سب سے افضل ہے ، وہ سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ کی ذات ہے۔*

امام اہل سنت، اعلی حضرت علیہ الرحمۃ والرضوان فتاوی رضویہ میں تحریر فرماتے ہیں:

اہل سنت وجماعت نصر ہم اللہ تعالی کا اجماع ہے کہ مرسلین ملائکہ، ورسل ،وانبیائے بشر صلوات اللہ تعالی وتسلیماتہ علیھم کے بعد حضرات خلفائے اربعہ رضوان تعالی علیھم تمام مخلوق الہٰی سے افضل ہیں۔
پھر ان میں باہم ترتیب یوں ہے کہ سب سے افضل صدیق اکبر ، پھر فاروق اعظم ،پھر عثمان غنی ، پھر مولی علی صلی اللہ تعالی علی سید ہم ومولا ہم وآلہ وعلیہم وبارک وسلم ۔
 اس مذہب مہذب پر آیات قرآن عظیم واحادیث کثیرہ حضور پرنور نبی کریم علیہ وعلی آلہ وصحبہ الصلوۃ والتسلیم وارشادات جلیہ واضحہ امیر المؤمنین مولی علی مرتضی ودیگر ائمۂ اہل بیت طہارت وارتضاواجماع صحابۂ کرام وتابعین عظام وتصریحات اولیائے امت وعلمائے امت رضی اللہ تعالی عنہم اجمعین سے وہ دلائل باہرہ وحجج قاہرہ ہیں، جن کا استیعاب نہیں ہوسکتا ۔
(فتاوی رضویہ،ج 28،ص 478،رضا فاؤنڈیشن، لاہور)

ان دلائل باہرہ میں سے ایک قرآنی دلیل ہدیۂ قارئین ہے۔

اللہ تعالی نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا:
*سَیُجَنَّبُهَا الْاَتْقَىۙ•الَّذِیْ یُؤْتِیْ مَالَهٗ یَتَزَكّٰىۚ•وَ مَا لِاَحَدٍ عِنْدَهٗ مِنْ نِّعْمَةٍ تُجْزٰۤىۙ•اِلَّا ابْتِغَآءَ وَجْهِ رَبِّهِ الْاَعْلٰىۚ•وَ لَسَوْفَ یَرْضٰى۠•*
*ترجمہ:* اورعن قریب سب سے بڑے پرہیزگارکو اس آگ سے دور رکھا جائے گا۔ جو اپنا مال دیتا ہے تاکہ اسے پاکیزگی ملے۔
اور کسی کا اس پر کچھ احسان نہیں جس کا بدلہ دیا جانا ہو ۔ صرف اپنے سب سے بلند شان والے رب کی رضا تلاش کرنے کے لیے ۔ اور بےشک قریب ہے کہ وہ خوش ہوجائے گا۔

ان آیات مقدسہ میں غور کریں،اللہ تبارک و تعالیٰ نے جس ذات کو *"اتقی"* فرمایا،اس کے چار اوصاف ذکر فرمائے۔

*پہلا وصف* یہ کہ"وہ نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم پر اپنا مال لٹاتا ہے۔"

*دوسرا وصف* یہ بیان فرمایا کہ
 "اس پرکسی کا ایسا احسان نہیں،جس کا بدلہ دیا جائے۔"

اوراس ذات کی *تیسری صفت* یہ بیان ہوئی کہ 
"اسے اس سے صرف رضائے الہی مطلوب ہے۔"

اور *آخری آیت* میں اللہ تبارک و تعالیٰ نے یہ خوش خبری  سنائی کہ
 "اسے رب کی رضا حاصل ہوگی۔"

*یہ سارے اوصاف جس ذات پر صادق آتے ہیں،باجماع مفسرین وہ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ ہیں۔*

امام رازی رحمۃاللہ علیہ تفسیر رازی میں فرماتے ہیں:
*أجمع المفسرون منا على أن المراد منه ابوبكر رضي الله عنه.*
اہل سنت کے مفسرین کا اجماع ہے کہ *"اتقی"* سے مراد حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ ہیں۔
(التفسیر الکبیر،ج:31،ص:205،
دارالفکر،بیروت)

معالم التنزیل میں ہے:
*الاتقى يعنى ابابكر الصديق في قول الجميع.*
اتقی سے بالاتفاق حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ مراد ہیں۔
(تفسیر معالم التنزیل،ج:8،
ص:70،دار طیبہ،ریاض)

الصواعق المحرقہ میں علامہ ابن جوزی کے حوالے سے ہے:
*قال ابن الجوزي: أجمعوا أنها نزلت في أبي بكر،ففيها التصريح بأنه أتقى من سائر الأمة.*
 امام ابن جوزی فرماتے ہیں :اہل سنت کا اجماع ہے کہ یہ آیت حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔اور اس میں صراحت ہے کہ حضرت ابوبکر صدیق امت میں سب سے اتقی ہیں۔
(الصواعق المحرقہ،ص:98،الباب الثالث،الفصل الثانی فی ذکر فضائل أبی بکر،مکتبہ فیاض)

ان تفسیرات کی روشنی میں معلوم ہوا کہ اہل سنت کا اجماع ہے کہ *"اتقی"* سے مراد حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ ہیں۔

*اب دلیل کا اگلا حصہ ملاحظہ کریں:*
 
اللہ تعالی نے سورہ حجرات میں ارشاد فرمایا:
*اِنَّ اَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللّٰهِ اَتْقٰىكُمْؕ•اِنَّ اللّٰهَ عَلِیْمٌ خَبِیْرٌ.*
بےشک اللہ کے یہاں تم میں زیادہ عزت والا وہ ہے ،جو تم میں زیادہ پرہیزگارہے ۔بےشک اللہ جاننے والا خبردار ہے۔
 
اس آیت سے معلوم ہوا کہ *"اکرم"* یعنی سب سے زیادہ عزت والا،سب سے زیادہ فضیلت والا وہ ہے جو *"اتقی"* ہے ۔اور *"اتقی"* سے بالاتفاق حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ مراد ہیں۔جیسا کہ اوپر مذکور ہوا۔

لہذا پتا چلا کہ اللہ تعالی کے نزدیک سب سے زیادہ فضیلت والے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ ہی ہیں۔

*شرح المواقف للجرجانی میں ہے:*
أفضل الناس بعد رسول الله صلى الله عليه وسلم هو عندنا و اكثر قدماء المعتزله، ابو بكر رضي الله تعالى عنه.
 
لنا وجوه: الاول،قوله تعالى:
*سَیُجَنَّبُهَا الْاَتْقَىۙ•الَّذِیْ یُؤْتِیْ مَالَهٗ یَتَزَكّٰىۚ•*
قال اكثر المفسرين وقد اعتمد عليه العلماء،أنها نزلت في أبي بكر فهو "اتقى"، و من هو "اتقى"  فهو "اكرم" عند الله؛ لقوله تعالى:
*اِنَّ اَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللّٰهِ اَتْقٰىكُمْؕ•*
وهو أي:الاكرم عند الله هو الأفضل.فأبوبكر أفضل ممن عداه من الأمة.
(شرح المواقف للجرجانی،ج:8،
ص:397دارالکتب العلمیہ،بیروت)

ہمارے اور اکثر معتزلہ کے نزدیک نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کے بعد افضل الناس  ابوبکر صدیق ہیں۔
اس کی کئی دلیلیں ہیں۔ان میں سے ایک  دلیل یہ ہے کہ قرآن کریم میں ہے :
*سَیُجَنَّبُهَا الْاَتْقَىۙ•الَّذِیْ یُؤْتِیْ مَالَهٗ یَتَزَكّٰىۚ•*

اکثر مفسرین نے کہا اور علماء نے اسی پر اعتماد کیا ہے  کہ یہ آیت حضرت ابوبکر صدیق کے بارے میں اتری ہے۔ 
تو ابوبکر صدیق "اتقی" ہوئےاور جو "اتقی"ہے،وہ اکرم ہے۔ جیسا کہ قرآن کریم میں ہے:
*اِنَّ اَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللّٰهِ اَتْقٰىكُمْؕ•*

اور جو اللہ کے نزدیک اکرم ہے ، وہی افضل ہے۔لہذا  ابو بکر افضل امت ہوئے۔

*امام اہل سنت،اعلی حضرت علیہ الرحمہ فرماتے ہیں:*
وہ صدیق جس کی افضلیت مطلقہ پر قرآنِ کریم کی شہادت ناطقہ ہے کہ فرمایا :
 *اِنَّ اَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللّٰهِ اَتْقٰىكُمْؕ•*

تم میں سب سے زیادہ عزت والا ﷲ کے حضور وہ ہے، جو تم سب میں "اتقی" ہے۔

اور دوسری آیت کریمہ میں صاف فرمادیا:
*سَیُجَنَّبُهَا الْاَتْقَىۙ•*
قریب ہے کہ جہنم سے بچایا جائے گا وہ اتقٰی۔

بہ شہادت آیت اُولی ان آیات کریمہ سے وہی مراد ہے، جو افضل و اکرم امتِ مرحومہ ہے، اور وہ نہیں، مگر اہل سنت کے نزدیک صدیق اکبر۔ اور تفضیلیہ و روافض کے نزدیک یہاں امیر المومنین مولٰی علی رضی اللہ تعالٰی عنہ۔
مگر ﷲ عزوجل کے لیے حمد کہ اس نے کسی کی تلبیس و تدلیس اور حق و باطل میں آمیزش و آویزش کو جگہ نہ چھوڑی، آیت کریمہ نے ایسے وصفِ خاص سے "اتقٰی" کی تعیین فرمادی، جو حضرت صدیق اکبر کے سوا کسی پر صادق آہی نہیں سکتا۔
فرماتا ہے:
*وَ مَا لِاَحَدٍ عِنْدَهٗ مِنْ نِّعْمَةٍ تُجْزٰۤىۙ•*
اس پر کسی کا ایسا احسان نہیں جس کا بدلہ دیا جائے۔

اور دنیا جانتی مانتی ہے کہ وہ صرف صدیقِ اکبر ہی ہیں،جن کی طرف سے ہمیشہ بندگی و غلامی و خدمت و نیاز مندی اور مصطفٰی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی طرف سے براہِ بندہ نوازی قبول و پذیرائی کا برتاؤ رہا۔یہاں تک کہ خودارشاد فرمایا کہ :
 *"بے شک تمام آدمیوں میں اپنی جان و مال سے کسی نے ایسا سلوک نہیں کیا،جیسا ابوبکر نے کیا۔"*
( جامع الترمذی ابواب المناقب باب مناقب ابی بکر الصدیق رضی اللہ عنہ)

جب کہ مولٰی علی نے مولائے کل ، سیّد الرسل صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے کنارِ اقدس میں پرورش پائی، حضور کی گود میں ہوش سنبھالا، اور جو کچھ پایا ،بظاہر حالات یہیں سے پایا، تو آیت کریمہ:
 *وَ مَا لِاَحَدٍ عِنْدَهٗ مِنْ نِّعْمَةٍ تُجْزٰۤىۙ•*
(اس پر کسی کا ایسا احسان نہیں جس کا بدلہ دیا جائے) سے مولا علی قطعاً مراد نہیں
ہوسکتے ،بلکہ بالیقین صدیقِ اکبر ہی مقصود ہیں، اور اسی پر اجماعِ مفسرین موجود۔
(فتاوی رضویہ،ج: 18، ص:248,249،امام احمد رضا اکیڈمی،بریل شریف)

*✍️ محمد شاہد رضا مصباحی*
21/جمادی الآخرہ1442ھ

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے