Header Ads

افضلیت حضرت صدیق اکبر رضی اللہ تعالی عنہ اور عقیدۂ اہل سنت

افضلیت حضرت صدیق اکبر رضی اللہ تعالی عنہ اور عقیدۂ اہل سنت
_________________________
محمد شاہد رضا مصباحی۔ہزاری باغ۔مرکزی دارالقراءت۔جمشیدپور
_________________________

اصل موضوع پر گفتگو سے پہلے چند ضروری اصطلاحات ذہن نشیں کر لیں۔

*عقیدہ:* عقد سے ماخوذ ہے۔اور لغوی اعتبار سے عقیدہ *"ایقان لزوم،استحکام،وثوق" وغیرہ* معانی میں مستعمل ہوتا ہے۔

عقیدہ کی جمع عقائد ہے۔

اور *اصطلاح* میں عقیدہ "اس اعتقاد جازم کا نام ہے ،جس پر انسان کا دل اس مضبوطی سے بیٹھ جائے جو کسی بھی قسم کے شک اور گمان سے متزلزل نہ ہو۔"

اور *خاص اصطلاح شرع* میں عقیدہ اس اعتقاد(قلبی یقین)کو کہیں گے جو ارکان اسلام ( اللہ کی وحدانیت ،انبیا ورسل کی نبوت ورسالت،فرشتے ،کتاب ،روز قیامت ، تقدیر خیروشر اور بعث بعد الموت) پر مشتمل ہو۔

المعجم الوسیط میں ہے:
*العَقِيدَةُ: الحُكْمُ الذي لا يقْبلُ الشكُّ فيه لدى معتقِدِه.*

*وفي الدِّين: ما يقصد به الاعتقاد دون العَمل، كعقيدة وجود اللهِ وبَعْثة الرُّسُل.*

مسلمانوں کے لیے یوں تو تمام عقائد اہم ہیں، مگر دو قسم کے عقائد زیادہ اہم ہیں :
*(1) ضروریاتِ دین*
*(2) ضروریاتِ مذہب اہل سنت*

*ضروریات دین:*
  دین کے وہ احکام و مسائل جو قرآن کریم یا حدیث متواتر یا اجماع سے اس طرح ثابت ہوں کہ ان میں نہ کسی شبہ کی گنجائش ہو، نہ تاویل کی کوئی راہ۔ اور ان کا دین سے ہونا خواص و عوام سب جانتے ہوں۔ جیسے اللہ عزوجل کی وحدانیت، انبیا مرسلین علیہم الصلاۃ والسلام کی نبوت ورسالت اور ان کی شان عظمت کا اعتقاد، حضور اقدسﷺ کا آخری نبی ہونا، وغیرہ۔

*ضروریات دین کا حکم:*
ضروریات دین میں سے کسی ایک کا بھی انکار، بلکہ ان میں ادنٰی سا شک کرنا بھی کفر قطعی ہے۔ اور اس کا منکر کافر ہے۔اور ایسا کافر کہ اس کے کفر پر مطلع ہوکر اس کے کافر ہونے میں جو ادنٰی سا شک کرے وہ بھی کافر ہے۔

*ضروریات اہل سنت:*
 وہ مسائل ہیں جن کا مذہب اہل سنت وجماعت سے ہونا خواص و عوام سب کو معلوم ہو، ساتھ ہی ان کا ثبوت دلیل قطعی سے ہو ،مگر ان کے قطعی الثبوت ہونے میں ایک نوع شبہ اور احتمال تاویل ہو۔ جیسے عذاب قبر، وزن اعمال، قیامت کے دن رویت باری تعالیٰ کے ثبوت کا اعتقاد۔وغیرہ

*ضروریات اہل سنت کا حکم:*
ضروریات مذہب اہل سنت میں سے کسی بھی امر کا انکار کفر نہیں،البتہ ضلالت وگمراہی ضرور ہے ، اس کا منکر گمراہ ،بد مذہب، سخت فاسق و فاجر ہے۔
(ماہنامہ اشرفیہ،فروری 2015،مجلس شرعی کے فیصلے)

ان تمہیدی باتوں کے بعد اب اصل موضوع کی طرف آتے ہیں۔

مسلمانوں کا متفقہ اور اجماعی عقیدہ ہے کہ 
*انبیاء و مرسلین کے بعد سب سے افضل حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ ہیں۔*
اور یہی عقیدۂ اجماعی صحابہ کرام،تابعین عظام اور امت کے اسلاف فخام کا ہے۔

*اس مسئلہ اجماعی کی چند تصریحات ہدیہ قارئین ہیں:*

صحیح البخاری میں ہے:
*عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ : كُنَّا نُخَيِّرُ بَيْنَ النَّاسِ فِي زَمَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَنُخَيِّرُ أَبَا بَكْرٍ، ثُمَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ، ثُمَّ عُثْمَانَ بْنَ عَفَّانَ، رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ.*
(صحیح البخاری،ج:5،ص:4،كِتَابٌ : فَضَائِلُ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ، بَابُ فَضْلِ أَبِي بَكْرٍ بَعْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ)

سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں:
"ہم گروہ صحابہ زمانۂ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں ابوبکر ،پھر عمر ،پھر عثمان کے برابر کسی کو نہ گنتے۔

مسند الحارث میں ہے:
*عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: كُنَّا مَعْشَرَ أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَنَحْنُ مُتَوَافِرُونَ نَقُولُ: «أَفْضَلُ هَذِهِ الْأُمَّةِ بَعْدَ نَبِيِّهَا أَبُو بَكْرٍ ثُمَّ عُمَرُ ثُمَّ عُثْمَانُ ثُمَّ نَسْكُتُ»*
(مسندالحارث،ج:2،ص:888،
رقم:959،مرکزخدمۃالسنۃ
والسیرۃ،المدینۃالمنورۃ)

سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں:
 ہم اصحاب رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم اکثر و بیشتر کہا کرتے: 
"افضل امت بعد رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم ابو بکر صدیق ہیں ،پھرعمر فاروق"۔

السنۃ لابی بکر بن الخلال میں ہے:
*قَالَ: قُلْتُ لِمَيْمُونِ بْنِ مِهْرَانَ: أَبُو بَكْرٍ وَعُمَرُ عِنْدَكَ أَفْضَلُ أَوْ عَلِيٌّ؟ قَالَ: فَارْتَعَدَ حَتَّى سَقَطَتْ عَصَاهُ مِنْ يَدِهِ، ثُمَّ قَالَ: «مَا كُنْتُ أَظُنُّ أَنِّي أَبْقَى إِلَى زَمَانٍ يَعْدِلُ بَيْنَهُمَا، إِنَّهُمَا كَانَا رَأْسَ الْإِسْلَامِ، وَرَأْسَ الْجَمَاعَةِ»*
(السنۃ لابی بکر بن الخلال،ج:2،ص:379،رقم:529،دارالریۃ،ریاض)

حضرت میمون بن مہران سے سوال ہوا:
شیخین افضل یا علی؟ 
اس کلمہ کے سنتے ہی ان کے بدن پر لرزہ پڑا ، یہاں تک کہ عصا دست مبارک سے گر گیا،اور فرمایا:
مجھے گمان نہ تھا کہ اس زمانے تک زندہ رہوں گا ،جس میں لوگ لوگ ابو بکر و عمر کے برابر  کسی کو بتائیں گے۔

*ان احادیث و روایات سے ظاہر ہوا کہ:*
زمانہ صحابہ و تابعین میں تفضیلِ شیخین پر اجماع تھا،اور اور اس کے خلاف سے ان کے کان بھی آشنا نہ تھے۔

بلکہ امام شافعی وغیرہ اکابر ائمہ نے اس عقیدہ پرصحابہ کرام وتابعین عظام کا اجماع نقل کیا ہے۔

امام شافعی رحمۃ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ :
*ما اختلف أحد من الصحابة والتابعين في تفضيل أبي بكر وعمر و تقديمها على جميع الصحابة.*
(الاعتقاد والھدایۃ الی سبیل الرشاد،ص:369،دارالافاق الجدیدۃ،بیروت)

صحابہ کرام اور تابعین میں سے کسی نے بھی حضرت ابوبکر اور حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہم کے افضل ہونے اور باقی تمام صحابہ رضوان اللہ تعالی علیہم اجمعین سے مقدم ہونے کے لحاظ سے اختلاف نہیں کیا۔

اسی طرح عامہ کتب اصول میں اس مسئلہ پر صراحتاً اجماع  منقول ہے ، یا کم از کم  بلا ذکرِ خلاف اسے مذہب اہل سنت قرار دیا گیا ہے۔

امام نووی شرح صحیح مسلم میں فرماتے ہیں:
*اتفق اهل السنة على أن افضلهم ابو بكر، ثم عمر.*
(شرح صحیح مسلم للنووی،ج:15،ص:148،کتاب فضائل الصحابہ)

اہل سنت کا اتفاق ہے کہ افضل صحابہ ابوبکر ہیں پھر عمر۔

ابو منصور بغدادی "اصول الدین" میں فرماتے ہیں:
*أصحابنا مجمعون على أن أفضلهم، الخلفاء الاربعة على الترتيب المذكور.*
(اصول الدین لابی منصور،ص:304)

ہمارے اصحاب اجماع کیے ہوئے ہیں کہ افضل صحابہ خلفائے اربعہ ہیں ترتیب مذکور پر۔

تہذیب الاسماء واللغات للنووی میں ہے: 
*أجمع أهل السنة على أن أفضلهم على الاطلاق أبو بكر، ثم عمر.*
(تہذیب الاسماء واللغات للنووی،ج 1،ص 28،فصل فی حقیقۃ الصحابی)

اہل سنت نے اجماع کیا کہ مطلقاً سب صحابہ سے افضل ابوبکر ہیں، پھر عمر۔

امام قسطلانی ارشاد الساری شرح صحیح بخاری میں فرماتے ہیں:
*الأفضل بعد الانبياء عليهم الصلاة والسلام أبو بكر رضي الله تعالى عنه وقد اطبق السلف على أنه أفضل الأمة. حكى الشافعي وغيره إجماع الصحابة والتابعين على ذلك.*
(ارشاد الساری،ج 6،ص 430، رقم 3655،فضل أبی بکر بعد النبی)

انبیاء علیہم الصلوۃ والسلام کے بعد افضل البشر ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ ہیں اور تحقیق سلف صالح  نے ان کے افضل امت ہونے پر اتفاق کیا ۔
اور امام شافعی وغیرہ اس امر پر اجماع صحابہ وتابعین نقل کرتے ہیں۔

مواہب اللدنیہ میں ہے:
*أفضلهم عند أهل السنة إجماعا أبو بكر، ثم عمر.*
(المواہب اللدنیۃ،ج 2،ص 545،
الفصل الثالث،ذکر محبۃ أصحابہ)

اہل سنت کے نزدیک بالاجماع افضل الصحابہ ابو بکر ہیں ،پھر عمر۔

الصواعق المحرقہ میں ہے:
*أن مالكا رحمه الله سئل أي الناس أفضل بعد نبيهم؟*
*فقال: ابو بكر،ثم عمر. ثم قال: أو في ذلك شك؟*
(الصواعق المحرقۃ،ص 86)
 
امام مالک سے سوال ہوا کہ نبی کریم علیہ الصلوۃ والتسلیم کے بعد سب سے افضل کون ہیں، تو آپ نے جواب دیا کہ ابوبکر صدیق اور ان کے بعد عمر فاروق۔
پھر ارشاد فرمایا:کیا اس بارے میں کوئی شک ہے؟

اور شرح عقائد نسفی میں ہے:
*أفضل البشر بعد نبينا، أبو بكر الصديق، ثم عمر الفاروق.*
(شرح العقائد للنسفی،ص 321,322،مبحث أفضل البشر بعد نبینا ابو بکر،مکتبۃ المدینۃ،دعوت اسلامی)

ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور دوسرے انبیاء کے بعد  افضل بشر حضرت ابوبکر صدیق،پھر  عمر فاروق ہیں۔

سیدی شیخ محقق علامہ عبد الحق محدث دہلوی فرماتے ہیں:
 *جمہور ائمہ دریں باب اجماع نقل کنند۔*
(تکمیل الایمان،ص 104،باب فضل الصحابہ)

جمہور ائمہ اس باب (افضلیت صدیق)میں اجماع نقل کرتے ہیں۔ 

*فتاوی رضویہ میں ہے:*
’’اہل سنت وجماعت نصرہم اللہ تعالی کا اجماع ہے کہ مرسلین ملائکۃ ورسل وانبیائے بشر صلوات اللہ تعالی وتسلیماتہ علیہم کے بعد حضرات خلفائے اربعہ رضوان اللہ تعالی علیہم تمام مخلوق ِالہٰی سے افضل ہیں ، تمام امم اولین وآخرین میں  کوئی شخص ان کی بزرگی وعظمت وعزت ووجاہت وقبول وکرامت وقرب وولایت کو نہیں  پہنچتا۔ 
*{  وَ اَنَّ الْفَضْلَ بِیَدِ اللّٰهِ یُؤْتِیْهِ مَنْ یَّشَآءُؕ-وَ اللّٰهُ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِیْمِ }*
 فضل اللہ تعالی کے ہاتھ میں  ہے جسے چاہے عطا فرمائے ، اور اللہ بڑے فضل والا ہے ۔
 
پھر ان میں  باہم ترتیب یوں  ہے کہ سب سے افضل صدیق اکبر ، پھر فاروق اعظم ،پھر عثمان غنی ، پھر مولی علی صلی اللہ تعالی علی سیدھم، ومولا ھم وآلہ وعلیھم وبارک وسلم۔
(الفتاوی الرضویۃ ‘‘ ، ج 28، ص 478 ،رضا فاؤنڈیشن،لاہور)

*بہار شریعت میں ہے:*
بعد انبیا و مرسلین، تمام مخلوقاتِ الٰہی انس و جن و مَلک سے افضل صدیق اکبر ہیں  ، پھر عمر فاروقِ اعظم، پھر  عثمٰن  غنی، پھر مولیٰ علی رضی ﷲ تعالیٰ عنہم۔
(بہار شریعت،ج 1،ص 241،امامت کا بیان،مکتبۃ المدینہ،)

*ان تمام تصریحات سے معلوم ہوا کہ حضرت ابوبکر صدیق اکبر رضی اللہ تعالی عنہ کی افضلیت پر صحابہ کرام،تابعین عظام اور اکابر علما کا اجماع ہے۔*

اب اس اجماعی عقیدہ کا جو انکار کرے وہ ضرور گمراہ و بد مذہب ہوگا، بلکہ قریب ہے کہ اس کے ایمان میں خطرہ ہو۔

شرح قصیدہ بدء الامالی میں ہے:
*من أنکر یوشک أن فی ایمانہ خطرا۔*
(شرح بدء الامالی، تحت شعر:34)


*✍️محمد شاہد رضا مصباحی۔ہزاری باغ*
20/جمادی الآخرۃ 1442

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے