شعبان کو نفلی عبادت اور قبرستان جانےکاشرعی حکم
السلام علیکم ورحمتہ اللہ تعالی وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ کے بارے میں کہ شب برات 15پندرھویں شعبان کی شب عبادت کرکے کے جو قبرستان جاتے ہیں کیا یہ درست ہے اور اسی رات میں نماز نوافل پڑھی جاتی فضیلت اور طریقہ ہے بتائیں۔کرم ہوگا
*سائل اسلام رضا جھارکھنڈ*
*🍂ــــــــــــــــــــــــــــــ❣️ـــــــــــــــــــــــــــ🍂*
*_وعليكم السلام ورحمه الله وبركاته_*
*_الجواب بعون الملک الوھاب_*
امیر المومنین حضرت سیدنا عمر بن عبدالعزیز رضی اللہ تعالی عنہ ایک مرتبہ شعبان المعظم کی پندرھویں رات یعنی شب برات رات عبادت میں مصروف تھے سر اٹھایا تو ایک سبز پرچہ ملا جس کا نور آسمان تک پھیلا ہوا تھا اس پر لکھا تھا۔ *هذه براء ۃ من النار من الملک العزیزلعبدہ عمربن بن عبدالعزیز* یعنی خدائے مالک و غالب کی طرف سے یہ جہنم کی آگ سے آزادی کا پروانہ ہے جو اس کے بندے عمر بن عبدالعزیز کو عطا ہوا۔ *تفسیر روح البیان حوالہ رسالہ آقا کا مہینہ صفحہ10📘*
اسی میں ہے معمولات اولیااکرام رحم اللہ السلام سے ہے کہ مغرب کے فرض و سنت وغیرہ کے بعد چھ رکعت نفل دو دو رکعت کر کے ادا کیے جائیں پہلی دو رکعتوں سے پہلے یہ نیت کیجئے یا اللہ عزوجل ان دو رکعتوں کی برکت سے مجھے درازئ عمر بالخیر عطا فرما ماں دو سری رکعتوں میں بنیت فرمائے یااللہ اجزل ان دو رکعتوں کی برکت سے بلاؤ سے میری حفاظت فرما تیسری دو رکعتوں کے لیے یہ نیت کیجئے یا اللہ عزوجل ان دو رکعتوں کی برکت سے مجھے اپنے سوا کسی کا محتاج نہ کر انشاء رکعتوں میں سورہ فاتحہ کے بعد جو چاہیں وہ سورتیں پڑھ سکتے ہیں بہتر یہ ہے کہ ہر رکعت میں سورہ فاتحہ کے بعد تین بار سورۃ اخلاص پڑھ لیجئے ہر دو رکعت کے بعد اکیس بار قل ھو اللہ احد پوری سورت کیا ایک بار سورہ یٰسین شریف پڑھیے بلکہ ہوسکے تو دونوں ہی پڑھ لیجئے یہ بھی ہوسکتا ہے کہ کوئی ایک اسلامی بھائی بلندآوازسے یسن شریف پڑھیں اور دوسرے خاموش سے خوب کان لگا کر سنیں اس میں یہ خیال رہے کہ دوسرا اس دوران زبان سے یسن شریف بلکہ کچھ بھی نہ پڑھے اور یہ مسئلہ خوب یاد رکھئے جب قرآن کریم بلند آواز سے پڑھا جائے تو جو لوگ سننے کے لیے حاضر ہیں ان پر فرض عین ہے چپ چاپ خوب کان لگا کر سنیں انشاء اللہ عزو جل رات شروع ہوتے ہی ثواب کا انبار لگ جائے گا
*آقاکامہینہ صفحہ 17📔*
اصبہانی معاذ بن جبل رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے راوی، کہ فرماتے ہیں : ’’جو پانچ راتوں میں شب بیداری کرے اس کے لیے جنت واجب ہے، ذی الحجہ کی آٹھویں ، نویں ، دسویں راتیں اور عیدالفطر کی رات اور شعبان کی پندرھویں رات یعنی شب براء ت۔ *بہار شریعت حصہ چہارم صفحہ781📓*
بیہقی نے ام المومنین صدیقہ رضی ﷲ تعالیٰ عنہا سے روایت کی، کہ حضور اقدس صلی ﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا: ﷲ عزوجل شعبان کی پندرھویں شب میں تجلّی فرماتا ہے، استغفار کرنے والوں کو بخش دیتا ہے اور طالبِ رحمت پر رحم فرماتا ہے اور عداوت والوں کو جس حال پر ہیں ، اسی پر چھوڑ دیتا ہے۔
مولیٰ علی کرم ﷲ تعالیٰ وجہہ الکریم سے راوی، نبی صلی ﷲ تعالیٰ علیہ وسلم فرماتے ہیں جب شعبان کی پندرھویں رات آجائے تو اُس رات کو قیام کرو اور دن میں روزہ رکھو کہ رب تبارک و تعالیٰ غروبِ آفتاب سے آسمان دنیا پر خاص تجلّی فرماتا ہے اور فرماتا ہے: کہ ہے کوئی بخشش چاہنے والا کہ اسے بخش دوں ، ہے کوئی روزی طلب کرنے والا کہ اُسے روزی *بہار شریعت حصہ پنجم صفحہ 1014📓*
اللہ تبارک و تعالی اس مہینے کو کس قدر شرافت و بزرگی عطا فرمائی ہے بالخصوص 15 شعبان المعظم کی نور برساتی رات یعنی شب برات تو اس قدر عظیم الشان ہے کہ بارگاہ خدا وندی عزوجل سے مغفرت کے پروانے تقسیم کیے جاتے ہیں جب یہ مبارک رات تشریف لاتی ہے تو دریائے رحمت اس قدر جوش میں آتا ہے کے رب کائنات عزوجل اپنے بندوں کے لئے رحمت کے 300 دروازے کھول دیتا ہے اور اللہ عزوجل کے معصوم فرشتے اس رات رکوع و سجود اور نفل عبادت کرنے دعاؤں میں مشغول رہنے اور گریہ وزاری کرنے والوں کو خوشخبریاں سناتے ہیں اس عظیم رات کی عظمت کی وجہ سے نبی رحمت شفیع امت صلی اللہ تعالی علیہ وسلم 15 شعبان المعظم کی رات کبھی جنت البقیع کے قبرستان تشریف لے جاتے اور وہاں بارگاہ خداوندی عزوجل میں سجدے کی حالت میں گریہ و زاری فرماتے اورکبھی دولت خانے ہی میں نوافل و دعا وغیرہ میں مشغول رہا کرتے جیساکہ۔ام المومنین حضرت سیدنا عائشہ صدیقہ طیبہ طاہرہ رضی اللہ تعالی عنہا بیان فرماتی ہیں کان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ید عووھوساجدلیلۃ النصف من شعبان یعنی نصف شعبان کی رات میرے سردار صاحب معراج صلی اللہ تعالی علیہ سجدے کی حالت میں دعائیں مانگا کرتے
*لیلۃ النصف من شعبان کان التابعون من اھل الشام کخالد بن معدان و مکحول ولقمان بن عامر
وغیرھم یعظمونھا ویجتھدون فیھا فی العبادۃ وعنھم اخذالناس فضلھا وتعظیمھا، وقدقیل انہ بلغھم فی ذلك اٰثار اسرائیلیۃ، فلما اشتھر ذلك عنھم فی البلدان اختلف الناس فی ذلک، فمنھم من قبلہ ووافقھم علی تعظیمھا منھم طائفۃ من عباد اھل البصرۃ وغیرھم، وانکرذلك اکثرالعلماء من اھل الحجاز منھم عطاء وابن ابی ملیکۃ وعبد الرحمٰن بن زید بن اسلم عن فقھاء المدینۃ، وھو قول اصحاب مالك وغیرھم وذلك کلہ بدعۃ، واختلف علماء اھل الشام فی صفۃ احیائھا علی قولین احدھما انہ یستحب احیاؤھا جماعۃ فی المساجد کان خالد بن معدان ولقمان بن عامر وغیرھما یلبسون فیھا احسن ثیابھم ویتبخرون و یکتحلون و یقومون فی المساجد لیلتھم ذلك و وافقھم اسحق بن راھویۃ علی ذلک وقد ذکر بعدہ القول الاخر وھو کراھۃ الجماعۃ دون الانفراد وان علیہ امام الشام الاوزاعی لکن فیہ سقطا فی نسختی*
یعنی اہل شام میں ائمہ تابعین مثل خالد بن معدان و امام مکحول و لقمان بن عامروغیرہم شب برات کی تعظیم اور اس رات عبادت میں کوشش عظیم کرتے اور انہیں سے لوگوں نے اس کا فضل ماننا اور اس کی تعظیم کرنا اخذکیاہے، کوئی کہتاہے انہیں اسباب میں کچھ آثار اسرائیلی پہنچے تھے، خیرجب ان سے یہ امر شہروں میں پھیلا علماء اس میں مختلف ہوگئے ایك جماعت نے اسے قبول کیا اور تعظیم شب برات کے موافق ہوئے ان میں سے ایك گروہ عابدین اہل بصرہ وغیرہم ہیں، اور اکثرعلماء نے اس کا انکارکیا اُن میں سے ہیں امام عطاء و ابن ابی ملیکہ و عبدالرحمن بن زیدبن اسلم فقہائے مدینہ سے ہیں اور یہ قول مالکیہ وغیرہم کاہے کہ یہ سب نوپیداہے، علمائے اہل شام اس رات کی شب بیداری میں کہ کس طرح کی جائے دو قول پرمختلف ہوئے، ایك قول یہ ہے کہ مسجدوں میں جماعت کے ساتھ مستحب ہے، خالد بن معدان و لقمان بن عامر وغیرہما اکابرتابعین اس رات اچھے سے اچھے کپڑے پہنتے، بخورکااستعمال کرتے، سرمہ لگاتے اور شب کومسجدوں میں قیام فرماتے، امام مجتہد اسحق بن راہویہ نے بھی اس بارے میں ان کی موافقت فرمائی الخ، دوسراقول یہ کہ مساجد میں اس کی جماعت مکروہ ہے اور یہ قول شام کے امام وفقیہ وعالم امام اوزاعی کا ہے۔ لیکن میرے پاس موجود نسخہ سے
*فتاوی رضویہ جلد 7ص443📕*
شب برات میں عبادات کرنا،قبرستان جانا سنت ہے۔خیال رہے کہ اس رات کو بھی شبِ قدر کہتے ہیں یعنی تمام سال کے انتظامی امور کے فیصلے کی رات۔ *مرقاۃ المناجیح جلد 2ص 534📘*
روایت ہے حضرت ابو موسیٰ اشعری سے وہ رسول ﷲ صلی اللہ علیہ وسلم سے راوی کہ آپ نے فرمایا ﷲ تعالٰی پندرھویں شعبان کی شب میں توجہ کرم فرماتا ہے تو کافر یا کینہ والے کے سوا اپنی سب مخلوق کو بخش دیتا ہے۔(ابن ماجہ)اور احمد نے عبدﷲ ابن عمرو ابن عاص سے روایت کی اور ان کی روایت میں ہے دو کے سوا کینہ پرور اور قاتل نفس ۱؎
شرح
۱؎ کینہ سے مراد دنیوی کینے اور عداوتیں ہیں اور قتل سے مراد ظلمًا قتل ہے،ورنہ کفار سے کینہ رکھنا اور جہاد میں کفار کا قتل،ڈاکو،زانی اور قاتلِ نفس کا قتل عبادت ہے۔بعض جگہ شب برات کے دن ایک دوسرے کو حلوے وغیرہ کے تحفے بھیجتے ہیں اپنے قصوروں کی آپس میں معافی چاہ لیتے ہیں،ان سب کی اصل یہ حدیث ہے کہ عداوت و کینہ والا اس رات کی رحمتوں سے محروم ہے اور یہ تحفہ کینے دفع کرنے کا ذریعہ ہے،نیز یہ رات عبادتوں کی اور خیرات ہدایا وغیرہ بھی عبادت ہیں،ان خیراتوں کو روکنا اور شرک کہنا بڑی جہالت *مرقاۃ المناجیح جلد2ص541📓*
*واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب*
*🍂ــــــــــــــــــــــــــــــ❣️ـــــــــــــــــــــــــــ🍂*
*✍️کتبہ*
*مولانا محمد امتیاز قمررضوی مدنگنڈی بلیابرنی خطیب وامام رضانگرگینروبینگابادگریڈیہ جھارکھنڈ رابطہ👈9113471871📲*
*مورخہ 26/03/2020۔جمعرات*
*✅الجواب صحیح والمجیب نجیح فقط حضرت علامہ مولانا مفتی محمد اسماعیل خان امجدی مدظلہ والعالی والنورانی دولھا پور پہاڑی پوسٹ انٹیا تھوک بازار گونڈہ یوپی رابطہ۔9918562794 📲
0 تبصرے
اپنا کمینٹ یہاں لکھیں