لو! پھر آگیا سیلاب بے مقصد جلسوں کا

لو! پھر آگیا سیلاب بے مقصد جلسوں کا

تحریر: محمد ازہر قادری ثقافی مدھوپور

             ایک بار پھر لاک ڈاون کے بعد بے مقصد جلسوں کا باڑھ ہندوستان کے کونے کونے میں آ چکا ہے۔ اور یہ نہ رکنے والا ایک ایسا سیلاب ہے۔ جو ہمارے تعلیمی، تنظیمی، اقتصادی، سیاسی، اور سماجی نظام اور اس کے حصول کو   تباہ و برباد تو نہیں مگر متاثر ضرور  کر دے گا ۔
         خدمت دین کے نام پر جلسہ کی شکل میں ہم اپنے فکر کو اتنا پامال کر چکے ہیں کہ اب اس کے آگے نہ ہمیں مدارس و مساجد کے قیام کا خیال ہے نہ کسی تنظیم و تحریک کے بناء کا ارادہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تصنیف و تالیف، دعوت و تبلیغ، تحفظ مسلک و مذہب، تحریک تجوید و قرات، سماجی اور قومی تعمیر و ترقی، سیاسی جدوجہد اور ذہن و فکر کی بلندی سب اس سیلاب کے زد میں ہے۔ اور ہمیں اس کا احساس بھی نہیں کہ ہمارا مستقبل کس راہ پر گامزن ہے ۔
           ہمارے خلاف کام کرنے والی قوم کا منصوبہ آنے والا سو سال کا ہے اور ہمارے پاس کل کا بھی کوئی منصوبہ نہیں ہم بغیر ٹارگیٹ اور بے مقصد زندگی گزار کر اس خوش فہمی میں مبتلا ہیں کہ دنیا میں ہمارا کوئی مد مقابل نہیں۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ ہمارے خلاف پوری دنیا ایک ہوچکی ہے اور ہم حاشیہ پر بھی نہیں 
          سر سید احمد خان کی مسلم علیگڈھ یونیورسٹی، حضور حافظ ملت کی الجامعۃ الاشرفیہ عربک یونیورسٹی، علامہ ارشد القادری کی دعوت اسلامی جیسی ایک عالمگیر تحریک اور شیخ ابو بکر مسلیاری کیرالہ کی مرکز الثقافۃ السنیہ عربک یونیورسٹی کا قیام ایک ایسا کارنامہ ہے جس پر ہمیں اور آنے والی نسلوں کو ہمیشہ فخر رہیگا ۔مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا اس نہج کا کام اب ہمارے تصور سے باہر ہے یا بے مقصد جلسوں میں گم ہو کر اپنے ذہن و فکر کو دفن کر چکے ہیں ۔
            آج جہاں پر اسلامک اسکول اور کالج، مسلم ہاسپیٹل، فلاحی اور ملی اداروں کی سخت ضرورت ہے ۔وہیں پر بے شمار *مسلم مسائل* کے انبار ہیں ۔اور ہمیں بے مقصد جلسوں کے علاوہ کچھ بھی نہیں دیکھائی دے رہا ہے ۔ آخر ایسا کیوں ہے ؟؟کب تک قوم کی موٹی رقم کو بے سود جلسوں کے سیلاب میں بہاتے رہیں گے؟  میں یہ نہیں کہتا کہ مطلق جلسہ بند کر دینا چاہئے۔ بلکہ بامقصد جلسہ ایک ضروری امر ہے اسے ہر حال میں باقی رکھنے کی ضرورت ہے ۔مگر بے مقصد جلسوں کا انعقاد میری سمجھ سے بالاتر ہے۔
           اسلامک تعمیر اور تعلیم دو چیزیں ایسی ہیں جس میں اپنا قیمتی وقت اور سرمایہ لگا دیں تو یقینا ایک انقلابی دھمک محسوس کی جا سکتی ہے۔ اور اس میدان میں ہی جدوجہد کر کامیابی حاصل کی جا سکتی ہے۔ اور اگر اس خوش فہمی میں مبتلا ہیں کہ دین کی خدمت فقط بے سود جلسہ ہے تو پھر ہمارے خانقاہ، مدارس و مساجد، تنظیم و تحریک، دعوت و تبلیغ اور اسکول و کالج کو ارتقاء کے منازل کی طرف کیسے اور کیونکر لے جا سکتے ہیں؟ یاد رکھیں عوامی طریقہ کار کو لیکر کبھی منزل حاصل نہیں کی جا سکتی۔ منزل پانا ہے تو طریقہ اکابرین کو فروغ دینا ہوگا۔
            یہ تلخ حقیقت ہے کہ ہم چاپلوسی کی اس حد تک چلے گئے ہیں کہ ہم میں حق بولنے کی سکت نہیں۔ ہم ناراضگی اور مخالفت کے  خوف سے حق بولنے اور لکھنے کے قابل بھی نہیں رہے۔ اور یہی قوم مسلم کی تباہی و بربادی کا سب سے بڑا سبب ہے ۔
مقصود ہے اس بزم میں اصلاح مفاسد 
نشتر جو لگاتا ہے وہ دشمن نہیں ہوتا 

نوٹ: بے مقصد جلسوں کے خلاف شوسل میڈیا پر یہ میرا چوتھا مضمون ہے۔ اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ کسی کا ٹارگیٹ مقصد ہے۔ بلکہ با مقصد جلسہ قوم کے مفاد میں نہایت ضروری ہے۔ اور ہماری تحریر کا یہی مقصد ہے۔

محمد ازہر قادری ثقافی مدھوپور

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے