کیا ستائیس رجب کی عبادات بدعت اور گمراہی ہیں؟

کیا ستائیس رجب کی عبادات بدعت اور گمراہی ہیں؟

            ذی احتشام استاذ صاحب!

  السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

            گزارش ہے کہ آج بروز اتوار ۲۶ رجب المرجب ۱۴۳۳ھ ہجری کوبعض حضرات بازاروں کے اندر ایک پمفلٹ بانٹ رہے تھے۔مضمون کاخلاصہ یہ تھاکہ ستائیس رجب کی رات یادن کوکسی دوسرے دن یارات پہ کوئی فضیلت حاصل نہیں اورنہ ہی اس دن یارات میں کسی طرح کی عبادت کاکوئی ایساثواب ہے کہ جس کی ترغیب دی جاسکے۔بلکہ اس رات کاقیام اوردن کاروزہ بدعت ہونے کی وجہ سے گمراہی ہے……اورواضح سی بات ہے کہ گمراہی جہنم میں لے جانے والاکام ہے تونتیجہ یہ نکلاکہ اس رات اوردن کے قیام وصیام کا اہتمام کرنے والاشخص اس اہتمام کے باعث مستحقِ نار ہے……!!!

            آپ سے سوال یہ ہے کہ کیا ستائیس رجب کی ان عبادتوں کی شریعتِ مطہرہ میں کوئی اصل نہیں، کیااس دن اوررات کی شریعتِ اسلامیہ میں کوئی فضیلت وارد نہیں ہوئی، کیاواقعی ایساہے کہ اس دن اوررات کوعبادتوں کی کثرت کرنے والے لوگ بدعت کے ارتکاب کے باعث مستحق جہنم ٹھہرتے ہیں، ایسے حالات میں عوام بیچاروں کوکیاکرناچاہیئے اورکس کی ماننی چاہیئے؟؟؟

السائل

محمد سلیمان جعفری

متعلم جامعہ غوثیہ رضویہ سکھر

 

بسم اللہ الرحمن الرحیم

الجوابـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

            سبحان من قال:المنافقون بعضھم من بعض یأمرون بالمنکر وینھون عن المعروف۔ وقال:وھم ینھون عنہ وینأون عنہ وان یھلکون الاانفسھم ومایشعرون۔

            اللہ کریم جل مجدہ فرماتاہے:

            وماخلقت الجن والانس الالیعبدون۔

            یعنی میں نے جنوں اورانسانوں کوصرف میری عبادت کے لیے بنایا۔

            اورحیرت کی بات ہے کہ خداکے بندے خداکی عبادت سے روکنے میں مصروف عمل ہیں!!!

            نیکی کرنے والوں پرگمراہی کافتوی دیاجارہاہے اورنیکی سے روکنے والے خود کومتبع سنت شمار کررہے ہیں ……یہ الٹی چال، اُن علامات سے ہے جن کے بارے میں اللہ کریم جل مجدہ کے حبیب اکرم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے فرمایا:

            من اشراط الساعۃ اخراب العامر واعمار الخراب وان یکون المنکر معروفا والمعروف منکرا۔

            قیامت کی نشانیوں میں سے ہے: آباد کاویران کردیاجانااورویران کاآباد کردیاجانا، اوریہ کہ برائی کوبھلائی سمجھاجائے اوربھلائی کوبرائی۔

            (معجم الصحابۃ لابی القاسم البغوی حدیث۹۶۹۱)

            حضور سید عالم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم، اللہ سبحانہ وتعالی کی عبادت کرتے، جب دشمنِ خدا ابوجہل کوخبر ہوئی تواسے گوارانہ ہواوراس نے کہا:

            واللات والعزی لئن رأیتہ یفعل ذلک لأطأن علی رقبتہ أو لأعفرن وجھہ فی التراب۔

            قسم لات اورعزی کی، اگر میں نے محمد صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کوعبادت کرتادیکھاتوان کی گردن پرپاؤں رکھ دوں گایاان کاچہرہ مٹی سے لتھڑ دوں گا۔

            تواللہ سبحانہ وتعالی نے اس ملعون کی مذمت میں نازل فرمایا:

         أرأیت الذی ینھی عبدااذاصلی۔

            کیاتونے اس شخص کودیکھاجوبندے کونماز سے روکتاہے!!!

            (صحیح مسلم حدیث۳۴۲۷، مسند احمد حدیث۷۱۸۸، مسند البزار ج۷۱ص۰۶۱، مسند ابی یعلی حدیث۷۰۲۶، تفسیر طبری ج۴۲ص۳۲۵)

            پھر فرمایا:

            ألم یعلم بأن اللہ یری کلالئن لم ینتہ لنسفعن بالناصیۃ ناصیۃ کاذبۃ خاطءۃ فلیدع نادیہ سندع الزبانیۃ کلالاتطعہ واسجد واقترب۔

            کیامیرے بندے کونماز سے روکنے والانہیں جانتاکہ اللہ سبحانہ وتعالی دیکھ رہاہے، ہاں ہاں اگر باز نہ آیاتوضرور ہم پیشانی کے بال پکڑ کرکھینچیں گے، جھوٹی خطاکار پیشانی، پھر وہ اپنی مجلس کوبلائے، ہم سپاہیوں کوبلائیں گے، خبردار!اس کی مت مان اورسجدہ کر اورہماراقرب حاصل کرلے۔

            (العلق ۴۱، ۵۱، ۶۱، ۷۱، ۸۱، ۹۱)

            عبادتِ الہیہ سے روکنے والے کے لیے اس وعید کے خوف سے ہمارے اکابر کی یہ کوشش رہتی کہ جس قدر ہوسکے نماز سے منع نہ کیاجائے۔حتی کہ اگر کوئی شخص ایسے وقت میں نماز اداء کررہاہے کہ حضرت شارع علیہ السلام سے اس وقت میں کوئی نماز مأثور نہیں ……تب بھی اکابر ملتِ اسلامیہ اس شخص کونماز سے منع کرنے سے اجتناب کوترجیح دیاکرتے۔

            حضرت علی المرتضی کرم اللہ تعالی وجھہ الکریم نمازِ عید کے لیے نکلے اورکچھ لوگوں کودیکھاکہ وہ نماز میں مصروف ہیں۔آپ رضی اللہ تعالی عنہ نے تعجب سے فرمایا:

            الاترون ھؤلاء یصلون؟

            کیاتم انہیں نماز پڑھتادیکھ رہے ہو؟

            عرض کی گئی:

            الاتنھاھم؟

            کیاآپ انہیں منع نہیں کریں گے؟

            آپ نے فرمایا:اکرہ ان اکون کالذی ینھی عبدااذاصلی۔

            میں اس شخص کی طرح نہیں ہونا چاہتاجوبندے کونماز پڑھنے سے روکے۔

            (مصنف عبد الرزاق حدیث۶۲۶۵)

            اس سے ملتی جلتی روایات مسند البزار اورمسند اسحاق ابن راہویہ میں بھی موجود ہیں۔

            (مسند البزار ج۱ص۳۰۱، اتحاف الخیرۃ المھرۃ ج۲ص۱۰۱)

            اورعوام کے بارے میں توہمارے فقہاء نے لکھاکہ انہیں نماز اورذکر اذکار سے ہرگز نہ روکاجائے۔البحر الرائق میں نمازِ عید سے قبل وبعد تنفل کے جواز وعدمِ جواز سے متعلق گفتگو کرتے ہوئے فرمایا:

            وھذاکلہ انماھو بحسب حال الانسان واماالعوام فلایمنعون من تکبیر قبلھا، قال ابوجعفر:لاینبغی ان یمنع العامۃ من ذلک لقلۃ رغبتھم فی الخیرات اھ  وکذافی التنفل قبلھا، قال فی التجنیس:سئل شمس الائمۃ الحلوانی ان کسالی العوام یصلون الفجر عند طلوع الشمس افنزجرھم عن ذلک قال لا، لانھم اذامنعوا عن ذلک ترکوھااصلاواداؤھامع تجویز اہل الحدیث لھااولی من ترکھااصلا۔

            یہ سب کاسب انسان کے حال کے حساب سے ہے۔عوام کوتوکسی حال میں بھی عید سے پہلے تکبیر سے نہ روکاجائے……امام ابوجعفر رحمہ اللہ تعالی نے فرمایا:عوام کی نیکیوں میں رغبت کی کمی کے باعث انہیں اس تکبیر سے نہیں روکناچاہیئے۔اوریوں ہی نمازِ عید سے پہلے نفلی اداء کرنے سے بھی نہ روکاجائے۔تجنیس میں فرمایا:شمس الائمہ حلوانی رحمہ اللہ تعالی سے پوچھاگیا:سست عوام فجر کوسورج طلوع ہونے کے وقت آکر پڑھتے ہیں توکیاہم انہیں اس فعل پہ ڈانٹیں؟، آپ رحمہ اللہ تعالی نے فرمایا:نہیں، کیونکہ جب انہیں روک دوگے تووہ نماز کوسرے سے چھوڑ دیں گے اور(اگرچہ ہمارے نزدیک اس وقت میں نماز اداء ہی نہیں ہوتی لیکن)محدثین کے ہاں اجازت کے ہوتے ہوئے اس نماز کواداء کرنابالکل چھوڑ دینے سے بہتر ہے۔

            (البحر الرائق ج۲ص۳۷۱)

            مذکور قولِ ابی جعفر، امام ابن الھمام رحمہ اللہ تعالی نے فتح القدیر میں، امام زیلعی رحمہ اللہ تعالی نے تبیین میں، پھر ان سے صاحبِ درر وصاحبِ مجمع الانھر نے بھی نقل فرمایا۔

            (فتح القدیر ج۲ص۲۷، تبیین الحقائق ج۳ص۷۹، درر الحکام شرح غرر الاحکام ج۲ص۰۵۱، مجمع الانھر ج۱ص۶۵۲)

            البحر الرائق میں ایک اورمقام پہ ہے:

            وفی القنیۃ:کسالی العوام اذا صلواالفجر وقت الطلوع لاینکر علیھم لانھم لامنعوا یترکونھااصلاظاہراولوصلوھا تجوز عند اصحاب الحدیث والاداء الجائز عند البعض اولی من الترک اصلا۔

            قنیہ میں ہے:سست عوام جب فجر آفتاب کے طلوع کے وقت پڑھیں توان پر انکار نہیں چاہیئے، کیونکہ جب انہیں روکاجائے گاتووہ اس نماز کوسرے سے ہی چھوڑ دیں گے بظاہر بھی اوربباطن بھی۔اوراگر وہ پڑھ لیں تومحدثین کے ہاں جائزہے، اورجواداء بعض علماء کے نزدیک جائزہو، بالکل چھوڑ دینے سے افضل ہے۔

            (البحر الرائق ج۲ص۸۸۴)

            مراقی الفلاح میں ہے:

            ولاننھی کسالی العوام عن صلاۃ الفجر وقت الطلوع لانھم قدیترکونھابالمرۃ والصحۃ علی قول مجتھد اولی من الترک۔

            ہم سست عوام کوطلوعِ آفتاب کے وقت نمازِ فجر پڑھنے سے نہ روکیں گے، کیونکہ وہ اسے سرے سے ہی چھوڑ دیں گے اورکسی مجتہد کے قول کے مطابق درست ہونا، سرے سے چھوڑ دینے سے بہتر ہے۔

            (مراقی الفلاح ص۱۲۱)

            درمختار میں کلامِ بحر سابق کوبالمعنی نقل کرنے کے بعد فرمایا:

            وفی ھامشہ بخط ثقۃ وکذاصلاۃ رغائب وبراء ۃ وقدر لان علیا رضی اللہ تعالی عنہ رأی یصلی بعد العید فقیل اماتمنعہ یاامیر المؤمنین فقال اخاف ان ادخل تحت الوعید قال اللہ تعالی:اریت الذی ینھی عبدااذاصلی۔

            البحر الرائق کے حاشیہ میں قابلِ اعتماد شخص کے خط سے ہے:ایسے ہی نمازِ رغائب، نمازِ براء ت، نمازِ قدر(سے بھی نہ روکاجائے)کیونکہ حضرت علی المرتضی کرم اللہ تعالی وجھہ الکریم نے عید کے بعد کسی کونماز پڑھتے دیکھاتوآپ سے عرض کی گئی:امیر المؤمنین!آپ اسے روکیں گے نہیں؟، آپ نے فرمایا:مجھے خوف ہے کہ میں اس وعید کے زمرے میں نہ آجاؤں، جیساکہ اللہ سبحانہ وتعالی نے فرمایا:

            کیاتواس شخص کودیکھتاہے جوبندے کونماز سے روکتاہے۔

            (درمختار ج۲ص۰۷۱، ۱۷۱)

            فقہاء کے یہ کلمات ان نمازوں سے متعلق ہیں کہ جن کی شریعت میں کوئی اصل ہی نہیں۔اورطلوعِ آفتاب کے وقت فجر کودیکھیئے……امام اعظم ابوحنیفہ رحمہ اللہ تعالی کے نزدیک اگر فجر پڑھ رہاہے اورسورج طلوع ہوگیاتواس کی نماز باطل ہوگئی……لیکن پھر بھی عوام کی دین سے دوری اورعبادات سے متعلق بے رغبتی کے باعث فرمایاجارہاہے کہ انہیں ایسے وقت میں بھی نماز سے نہ روکاجائے۔

            پھر وہ نمازیں اورروزے کہ جن کے لیے شریعتِ مطہرہ میں اصل موجود ہے……ان سے متعلق فرامینِ مصطفی صلی اللہ تعالی علیہ وسلم موجود ہیں ……ان کی فضیلت میں لبہائے مصطفی سے پھول جھڑے ہیں ……ایسی نماز اورروزے سے روکنا، اورایسی نمازیں پڑھنے والوں پہ گمراہی کے فتوے داغنا، خدا ترس لوگوں کاکام کیسے ہوسکتاہے؟؟؟

            سلف سے بھی اس قسم کی بہت سی احادیث پہ حکمِ ضعف یاوضع منقول ہے……لیکن ان حضرات کایہ فعل علمی تحقیق کے باب سے ہواکرتاتھا۔مگر جوانداز ہمارے معاصرین نے اختیار کیاہواہے……خداکی پناہ……یوں لگتاہے کہ نہ فکرِ آخرت ہے اورنہ خوفِ رب العالمین۔کسی کام کے بارے میں ایک بار بول دیاکہ درست نہیں تواب اسے غلط ثابت کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کازور لگادیتے ہیں، اگر کچھ اورہاتھ نہ آئے توفتوائے بدعت کی پوٹلیاں بھر بھر کے برآمد ہونے لگتی ہیں۔اگر جواز کی کوئی صورت نکلتی بھی ہوتب بھی ”فمااستطاعوامضیاولایرجعون“ کے مصداق اپنی جگہ چھوڑنے کے نہیں۔

            افسوس!

                        دن رات میں ہزاروں بدعات کے مرتکب یہ حضرات امت کواللہ کریم جل مجدہ کی عبادت اورتعظیمِ مصطفی سے روکنے کے لیے بدعت سے بچنے کادرس دے رہے ہیں!!!

            ؎شرمِ نبی، خوفِ خدا، یہ بھی نہیں وہ بھی نہیں!!!

            ذیل میں میں چند وہ احادیث طیبہ ذکر کرتاہوں کہ جن کے اندر ستائیس رجب کی فضیلت وارد ہوئی ہے……عام ازیں دن کی یارات کی، نماز کی یاروزہ کی……لیکن سب کی سب اس امر میں متفق ہیں کہ ستائیس رجب کوباقی ایام کی نسبت خصوصیت حاصل ہے اوراس میں عبادات کاثواب عام دنوں کی نسبت بڑھ جاتاہے۔

            (۱):امام بیہقی رحمہ اللہ تعالی ……جوجانتے ہوئے اپنی تصانیف کے اندر موضوع حدیث نہیں لاتے۔ذکرہ السیوطی فی التعقبات……نے حضرت سیدناسلمان فارسی رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت کی کہ سیدعالم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے فرمایا:

            فی رجب یوم ولیلۃ من صام ذلک الیوم وقام تلک اللیلۃ کان کمن صام من الدہر ماءۃ سنۃ وقام ماءۃ سنۃ وھولثلاث بقین من رجب وفیہ بعث اللہ محمدا۔

            رجب میں ایک دن اوررات ایسے ہیں کہ جوشخص اس دن کاروزہ رکھے اوراس رات کاقیام کرے تووہ اس شخص کی طرح ہوگاجس نے سوسال کے روزے رکھے اورسوسال کیاقیام کیا۔اوروہ رجب کی ستائیس ہے اوراسی دن اللہ سبحانہ وتعالی نے جنابِ محمد صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کومبعوث فرمایا۔

 

            (شعب الایمان للبیہقی حدیث ۰۵۶۳، فضائل الاوقات للبیہقی حدیث۱۱، فضل رجب لابن عساکر حدیث۰۱، ۱۱)

            (۲):حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ حضور سید عالم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے فرمایا:

            فی رجب لیلۃ یکتب للعامل فیھا حسنات ماءۃ سنۃ وذلک لثلاث بقین من رجب، فمن صلی فیھا اثنتی عشرۃ رکعۃ یقرأ فی کل رکعۃ فاتحۃ الکتاب وسوۃ من القرآن یتشھد فی کل رکعتین ویسلم فی آخرھن ثم یقول:سبحان اللہ والحمد للہ ولاالہ الااللہ واللہ اکبر ماءۃ مرۃ ویستغفر اللہ ماءۃ مرۃ ویصلی علی النبی صلی اللہ تعالی علیہ وسلم ماءۃ مرۃ ویدعولنفسہ ماشاء من امر دنیاہ وآخرتہ ویصبح صائما فان اللہ یستجیب دعاء ہ کلہ الاان یدعوفی معصیۃ۔

            رجب میں ایک رات ایسی ہے کہ اس میں نیکی کرنے والے کے لیے ایک سوسال کی نیکیاں لکھی جاتی ہیں اوریہ ستائیس رجب ہے۔پس جوشخص اس میں بارہ رکعت یوں پڑھے کہ ہررکعت کے اندر سورہئ فاتحہ اورقرآنِ عظیم کی کوئی دوسری سورت پڑھے، ہردورکعت پہ بیٹھے اوران کے آخر میں سلام پھیرے، پھر کہے:سبحان اللہ والحمد للہ ولاالہ الااللہ واللہ اکبر سوبار، اوراللہ سبحانہ وتعالی سے سوبار استغفار کرے اورایک سوبار نبی صلی اللہ تعالی علیہ وسلم پہ درود بھیجے اوراپنے لیے اپنے دنیوی اوراخروی معاملات میں سے جوچاہے دعاکرے اورصبح کوروزہ رکھے، توبے شک اللہ سبحانہ وتعالی اس کی ہردعاقبول فرماتاہے سوائے اس کے کہ اس نے گناہ کی دعاکی ہو۔

            (شعب الایمان للبیہقی حدیث۱۵۶۳، فضائل الاوقات للبیہقی حدیث۲۱، فضل رجب لابن عساکر حدیث۲۱)

            امام بیہقی رحمہ اللہ تعالی نے ان دونوں حدیثوں کاضعیف قرار دیا اورپہلی حدیث کودوسری سے بہتر قرار دیا۔اورقاعدہ مقررہ ہے کہ بابِ فضائل میں احادیث ضعیفہ مقبول ہیں لہذاستائیس رجب کی فضیلت اوراس میں عبادات کے ثواب کی زیادتی پردلالت کے لیے بلاشبہ یہ احادیث معتبر ہیں۔

            (۳):ابوسلمۃ حضرت ابوہریرہ اورحضرت سلمان فارسی رضی اللہ تعالی عنہماسے راوی کہ سید عالم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے فرمایا:

            ان فی رجب یوماولیلۃ من صام ذلک الیوم وقام تلک اللیلۃ کان لہ من الاجر کمن صام ماءۃ سنۃ وقام لیالیھا۔وھی لثلاثۃ بقین من رجب، وھو الیوم الذی بعث فیہ نبیناصلی اللہ تعالی علیہ وسلم۔

            رجب میں ایک دن اوررات ایسے ہیں کہ جوشخص اس دن کاروزہ رکھے اوراس رات کاقیام کرے، اس کے لیے اس شخص کے ثواب کی طرح جس نے سوسال کے روزے رکھے اوران کی راتوں کاقیام کرے……اوروہ رات ستائیس رجب کی رات ہے اوروہ وہی روز ہے جس میں ہمارے نبی صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کومبعوث کیاگیا۔

            (الغنیۃ لطالبی طریق الحق ص۰۴۲)

            (۴):حافظ ابن حجر نے اپنی سند سے حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالی عنھماسے روایت کیا، فرمایا:

            من صلی لیلۃ سبع وعشرین من رجب اثنتی عشرۃ رکعۃ یقرأ فی کل رکعۃ منھا بفاتحۃ الکتاب وسورۃ فاذافرغ من صلاتہ قرأ فاتحۃ الکتاب سبع مرات وھو جالس ثم قال: سبحان اللہ والحمد للہ ولاالہ الااللہ واللہ اکبر ولاحول ولاقوۃ الاباللہ العلی العظیم اربع مرات ثم اصبح صائما حط اللہ عنہ ذنوبہ ستین سنۃ وھی اللیلۃ التی بعث فیہ محمد صلی اللہ تعالی علیہ وسلم۔

            جس شخص نے ستائیس رجب کی رات بارہ رکعت اس طرح پڑھیں کہ ہررکعت میں سورہئ فاتحہ اورایک اورسورت پڑھے، پھر جب نماز سے فارغ ہوجائے توبیٹھے بیٹھے سورہئ فاتحہ سات بار پڑھے، پھر چار بار کہے:سبحان اللہ والحمد للہ ولاالہ الااللہ واللہ اکبر ولاحول ولاقوۃ الاباللہ العلی العظیم۔ پھر صبح کوروزہ رکھے تواللہ سبحانہ وتعالی اس کے ساٹھ سال کے گناہ مٹادیتاہے اوریہ وہی رات ہے جس میں سیدعالم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کومبعوث کیاگیا۔

            (تبیین العجب بماورد فی شھر رجب ص۴۱)

            قال نجم القادری:پھر میں نے حدیث مذکور کوطریق مذکور سے تاریخ دمشق میں دیکھا لیکن ”لیلۃ سبع وعشرین“ کے بجائے ”لیلۃ تسع وعشرین“ مذکور ہے اورمختصر تاریخ دمشق میں بھی ”لیلۃ تسع وعشرین“ ہی مذکور ہے۔اوراس میں شک نہیں کہ یہ تصحیفات سے ہے اوردرست ”لیلۃ سبع وعشرین“ہی ہے۔

            (تاریخ دمشق ج۷۲ص۹۰۳، مختصر تاریخ دمشق ج۴ص۴۵۱)

            (۵):جنابِ حسن بصری فرماتے ہیں:

            کان عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالی عنھما اذاکان یوم السابع والعشرین من رجب اصبح معتکفا وظل مصلیا الی وقت الظہر فاذاصلی الظہر تنقل ھنیھۃ ثم صلی اربع رکعات یقرأ فی کل رکعۃ الحمد للہ مرۃ، واناانزلناہ فی لیلۃ القدر ثلاثا، وقل ھواللہ احد خمسین مرۃ ثم یخلد الی الدعاء الی وقت العصر ویقول ھکذاکان یصنع رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم فی ھذاالیوم۔

            حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالی عنھمارجب کی ستائیسویں کوصبح سے اعتکاف کرتے اورظہر تک نماز میں مصروف رہتے، پھر جب ظہر پڑھ لیتے توتھوڑی سی جگہ تبدیل کرتے، پھرچار رکعت پڑھتے اورہررکعت میں سورہئ فاتحہ ایک بار، سورہئ قدر تین بار، سورہئ اخلاس پچاس بار پڑھتے۔پھر عصر کے وقت تک دعامیں مصروف رہتے اورفرماتے:اس دن رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم بھی ایساہی کیاکرتے تھے۔

            (الغنیۃ لطالبی طریق الحق ص۰۴۲)

            (۶):زہری حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالی عنہ سے راوی کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے فرمایا:

            بعثت نبیا فی السابع والعشرین من رجب فمن صام ذلک الیوم کان کفارۃ ستین شہرا۔

            میں ستائیس رجب کومبعوث کیاگیا، توجوشخص اس روز کاروزہ رکھے تواس کے لیے ساٹھ ماہ کاکفارہ بنے گا۔

            (تبیین العجب بماورد فی فضل رجب ص۲۳)

            (۷):حضرت علی المرتضی کرم اللہ تعالی وجھہ الکریم سے بھی ایسے ہی مروی ہے اوراس میں فرمایا:

            فمن صام ذلک الیوم ودعاعند افطارہ کانت کفارۃ عشر سنین۔

            پس جوشخص اس دن کارزوہ رکھے اورروزہ کھولنے کے وقت دعاکرے تویہ روزہ دس سال کے گناہوں کاکفارہ بنتاہے۔

            (تبیین العجب بماورد فی فضل رجب ص۲۳)

            (۸):حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے، فرمایا:

            من صام ثمانیۃ عشر من ذی الحجۃ کتب اللہ عزوجل لہ صیام ستین شھرا۔

            جس شخص نے اٹھارہ ذوالحجہ کاروزہ رکھا، اللہ سبحانہ وتعالی اس کے لیے ساٹھ مہینے کے روزے کااجر لکھتاہے۔

            پھر فرمایا:

            وھویوم غدیرخم لمااخذ رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم بید علی بن ابی طالب فقال:الست مولی المؤمنین؟

            وہ روزِ غدیرِ خم تھا جبکہ رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ تعالی عنہ کے ہاتھ کوپکڑ کرفرمایا:

            کیامیں مؤمنوں کامولی نہیں ہوں؟

            صحابہ نے عرض کی:

            نعم یارسول اللہ!

            آپ ہیں یارسول اللہ!

            فاخذ بید علی بن ابی طالب فقال:من کنت مولاہ فعلی مولاہ۔

            پھر رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ تعالی عنہ کے ہاتھ کوپکڑ کرفرمایا:

            جس کامیں مولاہوں، علی بھی اس کامولاہے۔

            یہ بات سنی توحضرت عمرِ فاروق رضی اللہ تعالی عنہ نے حضرت علی المرتضی کرم اللہ تعالی وجھہ الکریم سے فرمایا:

            بخ بخ یاابن ابی طالب اصبحت مولای ومولی کل مسلم۔

            علی! کتنی بڑی بات ہے، آپ تومیرے اورہرمؤمن کے مولابن گئے ہو!

            حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا:

            فانزل اللہ تبارک وتعالی:الیوم اکملت لکم دینکم۔

            پھر اللہ سبحانہ وتعالی نے نازل فرمایا:آج میں نے تمہارے لیے تمہارادین پوراکردیا۔

            اورحضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ نے یہ بھی فرمایا:

            من صام یوم سبع وعشرین من رجب کتب اللہ لہ صیام ستین شہرا وھوالیوم الذی ھبط فیہ جبریل علیہ السلام علی النبی صلی اللہ تعالی علیہ وسلم بالرسالۃ اول یوم ھبط فیہ۔

            جوشخص ستائیس رجب کاروزہ رکھے، اللہ سبحانہ وتعالی اس کے لیے ساٹھ مہینوں کے روزے کاثواب لکھ دیتاہے، اوروہ وہی دن ہے جس میں حضرت جبریل، رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم پہ رسالت لے کراترے، پہلاوہ روز جس میں اترے۔

            (تاریخ بغداد ج۸ص۹۸۲، فضائل شہر رجب للخلال حدیث۸۱، فوائد ابن اخی میمی الدقاق ص۹۰۱، العلل المتناھیۃ لابن الجوزی ج۱ص۶۲۲)

            ابن الجوزی رحمہ اللہ تعالی نے حدیث ذکرکرنے کے بعد فرمایا:

            قال ابوبکر بن ثابت:اشتھر ھذاالحدیث بروایۃ حبشون وکان یقال:انہ انفرد بہ وقد تابعہ علیہ احمد بن عبد اللہ بن عباس بن سالم المعروف بابن النبری قال:اخبرنا علی بن سعید الشامی قال:اخبرنا ضمرۃ فذکرہ مثل ماتقدم اونحوہ۔

            پھرفرمایا:

            وقال المؤلف:وھذاحدیث لایجوز الاحتجاج بہ ومن فوقہ الی ابی ہریرۃ ضعفاء۔

            (العلل المتناھیۃ لابن الجوزی ج۱ص۶۲۲، ۷۲۲)

            قال نجم القادری:ابن الجوزی رحمہ اللہ کاکہنا کہ علی بن سعید رملی  سے اوپر حضرت ابوہریرہ تک رجال ضعیف ہیں لہذاحتجاج درست نہیں، یہ کلمات بلاشبہ امام ابن جوزی رحمہ اللہ تعالی کے باب تنقید میں معروف بے اعتنائیوں سے ایک ہیں ……ہم رجال سند سے ایک ایک کر کے کلام کرتے ہیں، جس سے امام ابن الجوزی رحمہ اللہ تعالی کے قول کی حقیقت بھی کھل جائے گی اورسند کی حالت بھی واضح ہوجائے گی:

            فوائد ابن اخی میمی میں ہے:

            حدثنا احمد بن عبد اللہ بن احمد بن العباس بن سالم بن مہران المعروف بابن النیری البزاز املاء لثلاث بقین من جمادی الآخرۃ سنۃ ثمان عشرۃ وثلاثماءۃ قال:حدثنا علی بن سعید الشامی قال:حدثنا ضمرۃ بن ربیعۃ عن ابن شوذب عن مطرالوراق عن شہر بن حوشب عن ابی ہریرۃ قال:الحدیث

            رجال حدیث:

            احمد بن عبد اللہ بن احمد ابوجعفر البزاز:

            تاریخ بغداد میں ہے:

            حدثنی الحسن بن ابی طالب ان یوسف القواس ذکرہ فی جملۃ شیوخہ الثقات۔

            (تاریخ بغداد ج۴ص۶۲۲)

            تاریخ اسلام میں ہے:

            احمد بن عبد اللہ بن احمد ابوجعفر ابن النیری البزاز بغدادی صدوق۔

            (تاریخ الاسلام للذھبی ج۳۲ص۶۹۵)

            سہمی کہتے ہیں:

            سألت الدارقطنی عن ابی جعفر بن عبد اللہ بن احمد بن العباس البزاز فقال:ثقۃ۔

            (موسوعۃ اقوال الدارقطنی ج۵ص۰۵۲)

            علی بن سعید رملی:

            میزان الاعتدال میں ہے:

            علی بن سعید الرملی عن ضمرۃ بن ربیعۃ، یثبت فی امرہ کانہ صدوق۔

            (میزان الاعتدال ج۳ص۱۳۱)

            لسان المیزان میں کلامِ مذکور ذکر کرنے کے بعد فرمایا:

            وھو ابن ابی حملۃ الذی تقدم۔

            (لسان المیزان ج۲ص۴۰۲)

            اورماقبل میں ہے:

            ماعلمت بہ بأسا ولارأیت احدا الی الآن تکلم فیہ وھوصالح الامر ولم یخرج لہ احد من اصحاب الکتب الستۃ مع ثقتہ۔

            (لسان المیزان ج۲ص۲۰۲)

            ضمرۃ بن ربیعہ:

            میزان الاعتدال میں ہے:

            وثقہ احمد ویحیی بن معین وقال الحاتم صالح الحدیث۔

            (میزان الاعتدال ج۲ص۰۳۳)

            عبد اللہ بن شوذب:

            تھذیب التھذیب میں ہے:

            قال سفیان:کان ابن شوذب من ثقات مشائخنا، وقال ابوزرعۃ الدمشقی عن احمد:لااعلم بہ بأسا، وقال مرۃ:لااعلم الاخیرا، وقال ابن معین وابن عمار والنسائی:ثقۃ، وقال ابوحاتم:لابأس بہ، وذکرہ ابن حبان فی الثقات، وقال کثیر بن الولید کنت اذانظرت الی ابن شوذب ذکرت الملائکۃ۔

            (تھذیب التھذیب ج۵ص۵۲۲)

            مطر الوراق:

            امام بخاری رحمہ اللہ تعالی نے ”التجارۃ فی البحر“میں بھی انہیں ذکر کیااور کتاب التوحید میں بھی۔اورامام مسلم نے ان کی متعدد روایات لی ہیں۔سیر اعلام النبلاء میں ہے:

            لاینحط حدیثہ عن رتبۃ الحسن وقد احتج بہ مسلم، قال یحیی بن معین:صالح۔

            (سیر اعلام النبلاء ج۰۱ص۹۵)

            شہر بن حوشب:

            امام بخاری نے الادب المفرد میں ان کی حدیث کولیاہے، امام مسلم نے اپنی صحیح میں ان کی حدیث کولیا۔سنن ابی داود، جامع ترمذی، سنن نسائی اورسنن ابن ماجہ سب کتب میں ان سے مروی احادیث موجود ہیں۔اورامام ترمذی رحمہ اللہ تعالی نے شہر بن حوشب کے طریق سے مروی متعدد احادیث میں سے بعض کوحسن قرار دیا اوربعض کے بارے میں فرمایا:حسن صحیح۔بطورِ مثال ملاحظہ ہوں:

            حدیث رقم:۷۸۶۱، ۲۶۸۱، ۴۹۹۱، ۹۱۴۲، ۲۶۴۲، ۸۶۴۲

            اورحدیث ۳۴۰۲، ۷۴۰۲ وغیرھما سے متعلق ”حسن صحیح“ فرمایا۔

            بلکہ حدیث نمبر۱۲۶۲ کی تحسین کے بعد فرمایا:

            قال محمد بن اسماعیل:شہر حسن الحدیث وقوی امرہ۔

            علاوہ ازیں میزان الاعتدال میں ہے:

            روی ابن ابی خیثمۃ ومعاویۃ بن صالح عن ابن معین: ثقۃ۔

            پھر فرمایا:

            وقال ابوزرعۃ لابأس بہ۔

            (میزان الاعتدال ج۲ص۳۸۲)

            ہماری اس کلام سے روزِ روشن کی طرح واضح ہورہاہے کہ اس حدیث کے سب کے سب رجال موثقین ہیں ……ان کی حدیث اصولِ صناعۃ کے مطابق حسن ہے……اوربالخصوص اس وقت جبکہ تعدد طرق اس کے درجہئ مقبولیت کومزید بلند کررہاہے۔

            اس حدیث کے مقبول ہونے کی تائید اس سے بھی ہوتی ہے کہ خود امام ابن الجوزی اس پہ اعتراض کررہے ہیں لیکن ”التبصرۃ“ کے اندر فرمایا:

            واعلموا ان الیوم السابع والعشرین منہ یوم معظم۔

            یعنی جان لوکہ رجب کاستائیسوا ں دن عظمت والادن ہے۔

            پھر تائید کے لیے اپنی اسناد کے ساتھ اسی حدیث کوذکر کیا۔

            (التبصرۃ لابن الجوزی ج۲ص۲۳، ۳۳)

            اور امام ابن حجر رحمہ اللہ تعالی نے اس حدیث سے متعلق فرمایا:

            ھوامثل ماورد فی ھذاالمعنی۔

            اس معنی میں وارد ہونے والی روایات میں سے سب سے بہتر ہے۔

            (تبیین العجب ص۲۲)

            لیکن چونکہ ”ہمارے احباب“ نے ٹھان لی ہے کہ خلقِ خدا کوبندگیئ خدا سے روک کے دم لیں گے……لہذاان کے لیے یہ ساری بحث غیر مفید اوربے سود ہے……انہیں توان کے اساتذہ نے کلمہ کی تین قسمیں یوں پڑھائیں:بدعت، ضعیف، شرک۔اوروہ بھی اسی سبق کواتناپکاکیے ہیں کہ کسی دوسری طرف دھیان قریب بارتداد شمار کرتے ہیں۔لاحول ولاقوۃ الاباللہ۔

            طرق کے تعدد اورحضرت ابوہریرہ سے مروی آخر الذکر حدیث کے رجال کے موثقین ہونے کے علاوہ ان احادیث کوتلقی امت بالقبول بھی حاصل ہے اورتلقی امت بالقبول وہ جلیل شیئ ہے کہ اس کے ہوتے ہوئے ملاحظہئ سند کی کچھ حاجت نہیں رہتی اورحدیث ضعیف بھی قابلِ عمل ہوجاتی ہے چہ جائیکہ ایک حدیث خود ہی حسن ہواورتعدد طرق سے مؤید ہو۔

            امت کاتلقی بالقبول دیکھیئے……ابن الجوزی جسیے محدث انہیں احادیث یاان میں سے بعض کی بنیاد پرستائیس رجب کو”یومِ عظیم“کہتے ہیں۔

            امام غزالی احیاء العلوم میں، شیخ ابوطالب مکی قوت القلوب میں، ابن قدامۃ مقدسی مختصر منھاج القاصدین میں لکھتے ہیں:

            واماالایام الفاضلۃ فتسعۃ عشر یستحب مواصلۃ الاوراد فیھا:یوم عرفۃ ویوم عاشوراء ویوم سبعۃ وعشرین من رجب لہ شرف عظیم ویوم سبعۃ عشر من رمضان وہویوم وقعۃ بدرویوم النصف من شعبان ویوم الجمعۃ ویوماالعیدین والایام المعلومات وھی عشر من ذی الحجۃ والایام المعدودات وھی ایام التشریق۔

            فضیلت والے دن انیس ہیں ان کے اندر اوراد ہی کرتے رہنامستحب ہے:عرفہ کادن، عاشوراء کادن، ستائیس رجب …… اس کے لیے بڑاشرف ہے اورسترہ رمضان اوروہ جنگ بدر کاروز ہے اورشعبان کی پندرہ، جمعہ کاروز، دونوں عیدوں کے روز اورمعلوم دن یعنی ذو الحجہ کے دس دن، گنتی کے دن اوروہ تشریق کے روز ہیں۔

            (احیاء علوم الدین للغزالی واللفظ لہ ج۲ص۹۰۲، قوت القلوب فی معاملۃ المحبوب ج۱ص۴۱۱، مختصر منھاج القاصدین ج۱ص۴۶)

            اگر تلقی امت بالقبول پردال نصوص کے استیعاب کی کوشش کی جائے تو یہ مختصر کلام اس کی ہرگزمتحمل نہ ہوگی……میں حضرات مانعین کے نزدیک مسلمہ شخصیت علامہ عبد الحی لکھنوی صاحب کے قول پہ اکتفاء کرتاہوں۔آپ لکھتے ہیں:

            یستحب احیاء لیلۃ السابع والعشرین من رجب وکذاسائر اللیالی التی قیل انھالیلۃ المعراج بالاکثار فی العبادۃ شکرالمامن اللہ علینافی تلک اللیلۃ من فرضیۃ الصلوات الخمس وجعلھافی الثواب خمسین ولماافاض اللہ علی نبینا فیھا من اصناف الفضیلۃ والرحمۃ وشرفہ بالمواجھۃ والمکالمۃ والرؤیۃ ولذاقیل:ان لیلۃ الاسراء افضل من لیلۃ القدر فی حق نبینا صلی اللہ تعالی علیہ وسلم لافی حق الامۃ۔

            رجب کی ستائیسویں رات کوعبادت کی کثرت میں گزارنامستحب ہے اورایسے ہی ہروہ رات جن کے بارے میں کہاگیاہے کہ وہ معراج کی رات ہیں۔اس نعمت کے شکرانے میں جواللہ کریم جل مجدہ نے اس رات ہم پہ فرمائی کہ پانچ نمازیں فرض فرمائیں اورثواب میں انہیں پچاس قراردیا، اوراس نعمت کے شکرانے میں جواللہ کریم جل مجدہ نے ہمارے نبی صلی اللہ تعالی علیہ وسلم پر اس رات فضیلت اوررحمت کی مختلف انواع کے قبیل سے فرمائیں، اپناسامنا،بات چیت اوردیدارسے مشرف فرمایا، اوراسی لیے کہاگیاہے کہ شبِ اسراء ہمارے نبی صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کے حق میں شبِ قدر سے زیادہ فضیلت والی ہے نہ کہ امت کے حق میں۔

            پھر فرمایا:

            وکذایستحب ان یصوم صباح تلک اللیلۃ۔

            اورایسے ہی اس رات کی صبح کاروزہ بھی مستحب ہے۔

            (الآثار المرفوعۃ فی الاخبار الموضوعۃ ص۷۷)

            اس سب سے ہٹ کر اگر ہم اصولِ شرع کودیکھیں کہ کیاشریعتِ مطہرہ ہمیں ستائیس رجب المرجب کوعبادات کے خصوصی اہتمام کی ترغیب یااجازت دیتی ہے یانہیں تومنصِف مزاج صاحبِ علم ہاں میں جواب دئیے بغیر نہیں رہ سکتا۔

            اس باب میں تطویل توشاید مملِّ احباب ہولہذامیں صرف ایک ہی امر کی طرف اشارہ کرتاہوں:

            حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالی عنہماسے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم جب مدینہئ طیبہ جلوہ فرماہوئے تویہودکویوم عاشوراء کاروزہ رکھتے پایا۔رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وعلی ابویہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

            ماھذاالیوم الذی تصومونہ؟

            یہ کیسادن ہے جس کاتم روزہ رکھتے ہو؟؟؟

            تویہودنے جواب دیا:

            ھذایوم عظیم انجی اللہ فیہ موسی وقومہ وغرق فرعون وقومہ فصامہ موسی شکرافنحن نصومہ

            یہ بڑاعظمت والادن ہے……اس دن اللہ سبحانہ وتعالی نے موسی علیہ الصلوۃوالسلام اوران کی قوم کونجات عطافرمائی……اورفرعون اوراس کی قوم کوغرق فرمایا……توموسی علیہ السلام نے شکرانے کے طورپراس دن کاروزہ رکھا……پس ہم بھی اس دن کاروزہ رکھتے ہیں۔

            رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وعلی ابویہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

            فنحن احق واولی بموسی منکم۔

            ہم تو تم سے زیادہ موسی علیہ السلام کے حق داراورقریبی ہیں ……!!!

            تورسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وعلی ابویہ وآلہ وسلم نے خودبھی اس دن کاروزہ رکھااوراس دن کاروزہ رکھنے کاحکم دیا۔

            (صحیح البخاری رقم الحدیث۵۶۸۱،۸۶۳۴،صحیح مسلم رقم الحدیث۰۱۹۱،۱۱۹۱)

            رزینۃرضی اللہ تعالی عنہاسے مروی ہے ……فرمایا:

            کان رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم یعظم یوم عاشوراء۔

            (المعجم الاوسط رقم الحدیث ۷۶۶۲)

            رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم یوم عاشوراء کی تعظیم فرمایاکرتے تھے۔

            حضرت ابوسعیدخدری رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے فرمایا:

            من وسع علی اھلہ فی یوم عاشوراء اوسع اللہ علیہ سنتہ کلھا۔

            جوشخص یوم عاشوراء میں اپنے گھروالوں پرکشادگی کرے ……اللہ سبحانہ وتعالی ساراسال اس کے لیے کشادگی فرمادیتاہے۔

            یونہی حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ اورحضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ سے بھی اسی کی ہم معنی حدیث مروی ہے۔

            (المعجم الاوسط للطبرانی رقم الحدیث۸۵۳۱۱،شعب الایمان للبیہقی رقم الحدیث۱۳۶۳،۲۳۶۳،۳۳۶۳، ۴۳۶۳، اخباراصبھان رقم الحدیث ۷۰۷،الضعفاء الکبیرللعقیلی رقم الحدیث۹۶۷۱،۸۰۴۱،فوائدحدیث ابی ذرالھروی رقم الحدیث۱۱،معجم ابن الاعرابی رقم الحدیث۲۲۲)

            حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے فرمایا……

            من اکتحل بالاثمد یوم عاشوراء لم یرمدابدا۔

            (شعب الایمان رقم الحدیث۶۳۶۳،فضائل الاوقات للبیہقی رقم الحدیث۷۴۲)

            جوشخص یوم عاشوراء کو”اثمد“سے سرمہ لگائے ……کبھی اس کی آنکھ نہ دکھے گی۔

            اصحابِ عقل ودانش دیکھیں کہ اللہ عزوجل کے حبیب صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے جس دن حضرت موسی علیہ السلام کوایک خاص نعمت سے نوازاگیااس روز کوکس قدر اہمیت دی……روزہ رکھا، روزہ رکھنے کاحکم فرمایا، اس دن کی تعظیم فرمائی،اس دن اپنے اہلِ خانہ پرتوسیع کی ترغیب دی، اثمد لگانے کی رغبت دلائی……!!!

            آخر کیوں؟؟؟

            اوراس کیوں کاجواب سمجھناشاید کم فہم صبیان کے لیے بھی دشوار نہ ہو……حضرت موسی علیہ السلام پر انعام کے شکرانے میں جنابِ محمد رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم اس دن کی تعظیم بھی فرمارہے ہیں اوراس درجہ اہمیت بھی دے رہے ہیں اورامت کوبھی اس دن کواہمیت کادرس دے رہے ہیں ……!!!

            ان احادیث صحیحہ کے ہوتے ہوئے کیاکوئی شخص یہ کہہ سکتاہے کہ حضرت سیدناموسی علیہ السلام پہ انعام کاشکرانہ توجائزہے اورحضور سیدعالم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم پر انعام کاشکرانہ جائزنہیں؟؟؟

            حضرت موسی علیہ السلام کوفرعون سے نجات ملی اوراللہ سبحانہ وتعالی نے اس رات اپنے حبیب صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کوکیاعطاکیا؟؟؟

            مسجدِ حرام سے مسجدِ اقصی کی سیر، انبیاء ورسل علی نبیناوعلیہم الصلوۃ والسلام کی امامت، مسجدِ اقصی سے عالمِ بالاکی سیر،انبیاء ورسل علیہم الصلوۃ والسلام سے ملاقاتیں،جنت ودوزخ کے احوال پہ اطلاع، اورسب سے بڑھ کروہ جوحضرت موسی علیہ السلام کو التجاء پربھی نہ ملا……یعنی دیدارِ رب کریم جل مجدہ……!!!

            توکیایہ نِعَم حضرت موسی علیہ السلام پر ہونے والی نعمت سے بڑی نہیں؟؟؟

            دیدارِ رب العالمین ہی کولے لیجیئے……!!!

            حضرت موسی علیہ السلام نے جب اس کی خواہش کی توفرشتوں نے کہا:

            یاموسی بن عمران لقد سألت امراعظیما، لقد ارتعدت السماوات السبع ومن فیھن والارضون السبع ومن فیھن وزالت الجبال واضطربت البحار لعظم ماسألت یابن عمران۔

            اے موسی بن عمران! آپ نے بہت بڑی چیزکاسوال کر لیاہے۔اے ابنِ عمران!آپ کے سوال کے بڑے پن کی وجہ سے ساتوں آسمان اورآسمانوں والے، ساتوں زمینیں اوران میں رہنے والے کانپ گئے ہیں ……پہاڑ ہل گئے ہیں اورسمندروں میں اضطراب آگیاہے……!!!

            (الدر المنثور ج۶ص۷۵۵)

            لیکن محمد رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم فرماتے ہیں:

            رأیت ربی عزوجل۔

            (مسند احمد بن حنبل  حدیث۹۴۴۲، ۲۰۵۲)

            پھر کیاحضرت موسی علی نبیناوعلیہ الصلوۃ والسلام پر ہونے والی نعمت کے شکرانہ میں حضور سید عالم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم اس روز کااہتمام کریں تواس سے بڑی نعمت رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم پہ ہوتوامت کواس کی اہمیت نہیں جاننی چاہیئے؟؟؟

            یہ کیساانصاف ہے کہ موسی علیہ السلام پہ ہونے والے انعام کے شکرانے میں امتِ محمدیہ آج بھی دس محرم الحرام کاروزہ رکھ رہی ہے،لیکن سیدعالم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم پہ ہونے والی کروڑوں درجے بڑی نعمت کے شکرانے میں شبِ معراج کے قیام اورپھر دن کے روزے کوبدعت اورگمراہی کے القاب دئیے جارہے ہیں ……مالکم کیف تحکمون؟؟؟

            خلاصہئ کلام یہ ہے کہ:

            ستائیس رجب المرجب عظیم دن ہے۔اس دن اوررات میں اللہ کریم جل مجدہ کی عبادت سے روکنے والے خطاکار ہیں، اللہ کریم جل مجدہ انہیں راہِ راست پہ آنے کی توفیق عطافرمائے۔اوراہلِ اسلام کے لیے وہی حکم ہے جواللہ کریم جل مجدہ نے ابوجہل کے منع کرنے پر اپنے حبیب صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کوفرمایا:

            کلالاتطعہ واسجد واقترب۔

            ہاں ہاں روکنے والے کی بات مت مان اورتوسجدہ کراورمیرے قریب ہوجا!!!

فقط واللہ عزاسمہ اعلم۔


ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے