-----------------------------------------------------------
🕯حضرت مولانا شاہ عبد الباری فرنگی محلی رحمۃ اللّٰه علیہ🕯
➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖
نام و نسب:
اسم گرامی: شاہ عبدالباری۔
لقب: امام العلماء، فرنگی محلی، لکھنوی۔
سلسلہ نسب اسطرح ہے: حضرت شاہ عبدالباری بن حضرت شاہ مولانا عبدالوہاب بن حضرت مولانا شاہ محمد عبدالرزاق بن مہلک الوہابیین حضرت مولانا شاہ محمد جمال الدین فرنگی محلی۔ علیہم الرحمہ۔
تاریخِ ولادت: آپ کی ولادت باسعادت 1295ھ، مطابق 1878ء کو "فرنگی محل" لکھنؤ (ہند) میں ہوئی۔
تحصیل علم: حضرت مولانا شاہ عبد الباقی فرنگی محلی مدنی علیہ الرحمۃ سے اکثر علوم کا درس لیا، چند کتابیں حضرت مولانا عین القضاۃ حیدر آبادی و لکھنوی تلمیذ مولانا ابو الحسنات عبد الحئی فرنگی محلی سے پڑھیں۔ 1322ھ میں حرمین طیبین کا سفر کیا۔ اور حج کے بعد مدینہ طیّبہ میں حضرت علامہ سید علی بن ظاہر الوتری المدنی اور شیخ الدلائل علامہ سید امین رضوان اور علامہ شیخ سید احمد برزنجی مدنی اور حضرت شیخ المشائخ سید عبد الرحمٰن بغدادی نقیب الاشراف قدس اللہ اسرارہم سے سند و اجازت حدیث وسلاسل طریقت حاصل کی، آپ کو تمام علوم میں تبحر تام حاصل تھا، امام اہلسنت الشاہ امام احمد رضا خان قادری علیہ الرحمہ آپ کو " فاضلِ اکمل " کہتے تھے۔
(تذکرہ علمائےاہلسنت:173)
بیعت و خلافت: حضرت شیخ المشائخ سید عبدالرحمٰن بغدادی نقیب الاشراف درگاہِ غوثیہ کے دستِ حق پرست پر بیعت ہوئے، اور خلافت سے سرفراز کیے گئے۔
سیرت و خصائص: نمونۂ سلف، حجۃ الخلف، امام العلماء، رئیس الاتقیاء، جامع علوم عقلیہ و نقلیہ، صاحبِ اوصاف کثیرہ، فاضلِ اکمل، عالمِ متبحر، حامیِ سنت، ماحی بدعت، غیظ المنافقین، مہلک الوہابیین، حضرت علامہ مولانا الشاہ عبدالباری فرنگی محلی لکھنوی رحمۃ اللہ علیہ۔
آپ کا شمار ہندوستان (پاک وہند) کے اعاظم علماء میں ہوتاہے۔ آپ منقول و معقول کے امام اور خاندانِ فرنگی محل کی علمی و روحانی اور اعتقادی امانتوں کے وارثِ اکمل تھے۔ تمام درسی کتب پر یکساں مہارت حاصل تھی۔ آپ کی کوشش سے فرنگی محل لکھنؤ میں مدرسہ نظامیہ میں احیائے دین اسلام کے لئے درس و تدریس کا سلسلہ شروع ہوا۔ پوری قوت کے ساتھ درس و تدریس میں مصروف ہوگئے، ابتداً معقولات کی طرف زیادہ توجہ تھی، لیکن بعد میں آپ کی مشغولیت تمام کی تمام قرآن و حدیث کی تدریس کی طرف ہوگئی۔ اس کے علاوہ گھر میں مثنوی مولانا روم کا درس دیتے تھے۔ جس میں بڑے بڑے فضلاء کرام، اور عوام شرکت فرماتے تھے۔ آپ کے علمی فیضان سے کثیر لوگوں نے استفادہ کیا۔آپ علیہ الرحمہ تمام دینی و دنیاوی امور پر بڑی گہری نظر رکھتے تھے۔
آپ نے ان آزمائشی حالات میں جب خطۂ ہندوستان پر انگریز قابض ہو چکا تھا، اور خلافتِ عثمانیہ کے خلاف سازشیں عروج پر تھیں، حجاز مقدس میں انگریزوں کے ایماء پر وہابی یلغار میں مصروف تھے، اور مقاماتِ مقدسہ کی بے حرمتی کی جا رہی تھی، اس وقت آپ نے"انجمن خدام کعبہ" کی بنیاد رکھی ،جس نے وہابیوں کے مظالم اور مقامتِ مقدسہ کی بے حرمتی کا سختی سے نوٹس لیا۔اسی طرح تحریکِ خلافت میں بھی پیش پیش رہے۔ بلکہ آپ قائدین میں سے تھے۔ ہرطریقے سے اس کی تائید پر عام لوگوں کو آمادہ، اور اس کی اعانت، اس کے حق میں مختلف شہروں میں جلسے منعقد کرتے تھے۔انگریز اور اس حامیوں کے زبردست مخالف تھے۔ جہاں موقع ملتا اچانک حملہ کرتے، اللہ جل شانہ نے آپ کو مقبولیت عامہ عطاء فرمائی تھی۔ آپ کا گھر مسلمانوں کا سیاسی مرکز تھا۔ جہاں ہر وقت عوام و خواص کا ایک جم غفیر موجود رہتا تھا۔ ان کا طعام و قیام کا مکمل بند و بست آپ کے ہاں سے ہوتا تھا۔ آپ بہت سخی، اور مہمان نواز تھے۔ آپ کا گھر کبھی مہمانوں سے خالی نہ دیکھا گیا۔ ہر آنے والی کی بڑی توقیر کرتے تھے، غریب مسلمانوں کی مدد و اعانت آپ کا شیوہ تھا۔
آپ بہت نڈر اور باوقار تھے۔ کبھی بھی کسی سے مرعوب نہیں ہوئے، اگر کہیں اسلام اور مسلمانوں کی عزت وقارکی بات آتی تو جواب دینے والوں میں اول ہوتے تھے۔ یہی وجہ ہےکہ مسٹرگاندھی آپ سے مرعوب رہتا تھا۔ علماء و مشائخ کی عزت مبالغے کی حد تک کرتے تھے۔ فرماتے علماء و مشائخ کی عزت و توقیر اسلام کی توقیر ہے۔ لیکن بدمذہبوں اور اسلام دشمنوں کے خلاف ننگی تلوار تھے۔ وہابیوں، دیوبندیوں کے سخت مخالف تھے۔ یہی وجہ ہے کہ آپ ہی کے حکم سے مولوی اشرف علی تھانوی کی بہشتی زیور اور حفظ الایمان فرنگی محل میں جلائی گئی تھی، آپ نے تھانوی کو حفظ الایمان کی کفریہ عبارت سے توبہ کے لیے بار بار متوجہ کیا، مگر ان کو توبہ کی توفیق نصیب نہ ہو سکی۔
نماز باجماعت ادا کرنے کی بہت حفاظت فرماتے تھے، خواہ سفر کی حالت میں ہوں یا حضر کی حالت میں، نماز باجماعت ادا کرتے تھے۔ سفر کی حالت میں کم از کم دو رفیق ساتھ ہوتے تھے۔ ان کا تمام خرچہ آپ صرف اس لئے برداشت کرتے تھے، انکی وجہ سے نماز باجماعت کی سعادت میسر ہوتی تھی۔ اللہ اکبر۔
(یہ آج کے نوجوان علماء کرام کے لئے ایک بہت بڑی نصیحت ہے، کہ ہمارے اکابرین کا تقویٰ کتنا بلند تھا، ہمیں ان کے نقش قدم پر چلنا چاہئے)۔
اسی طرح فرصت سے فارغ وقت میں اوراد و وظائف اور نوافل میں مشغول رہتے تھے۔ آپ کے وصال سے فرنگی محل کا ایک عہد ختم ہوگیا، اور علم کا باب بند ہوگیا۔ آپ علمائے فرنگی محل کے سرتاج تھے۔
تاریخِ وصال: آپ کا وصال 4/ رجب المرجب 1344ھ، مطابق 15/جنوری 1926ء کو فالج کے حملےسے ہوا۔ آپ نے صدقۂ جاریہ میں کثیر عمدہ تصانیف اور جید علماء کرام چھوڑے ہیں۔
ماخذ و مراجع: تذکرہ علمائے اہلسنت۔ نزہۃ الخواطر۔
➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖
المرتب⬅ محـمد یـوسـف رضـا رضـوی امجـدی نائب مدیر "فیضـانِ دارالعـلوم امجـدیہ ناگپور گروپ" 9604397443
➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖
0 تبصرے
اپنا کمینٹ یہاں لکھیں