امام اعظم ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ ۔۔احوال و آثار

امام اعظم ابو حنیفہ  رضی اللہ عنہ ۔۔احوال و آثار
نام ونسب:۔
نام :۔           نعمان ۔
کنیت :۔       ابوحنیفہ ۔
والدکانام :۔      ثابت ۔
القاب:۔      امام اعظم ،امام الائمہ سراج الامہ ،رئیس الفقہاء والمجتہدین ،سیدالاولیاء والمحدثین ۔
آپکے دادا اہل کابل سے تھے ۔

سلسلہ نسب یوں بیان کیا جاتاہے ۔

نعمان بن ثابت بن مرزبان زوطی بن ثابت بن یزدگرد بن شہریاربن پرویز بن نوشیرواں۔

شرح تحفہ نصائح کے بیان کے مطابق آپ کا سلسلہ نسب حضرت ابراہیم علی نبینا علیہ الصلوۃ والتسلیم تک پہونچتاہے اوریہاں آکر حضور سیدعالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم سے آپ کانسب مل جاتاہے ۔

خطیب بغدادی نے سیدنا حضرت امام اعظم کے پوتے حضرت اسمعیل بن حماد سے نقل کیاہے کہ میں اسمعیل بن حماد بن نعمان بن مرزبان ازاولاد فرس احرارہوں ۔اللہ کی قسم !ہم پر کبھی غلامی نہیں آئی ۔میرے داداحضرت ابوحنیفہ کی ولادت ٨٠ھ میں ہوئی ،انکے والد حضرت ثابت چھوٹی عمر میں حضرت علی مرتضی کرم اللہ تعالیٰ وجہہ الکریم کی خدمت میں حاضر کئے گئے ،آپ نے انکے اورانکی اولاد کیلئے برکت کی دعاکی ۔اور ہم اللہ سے امید رکھتے ہیں کہ حضرت علی مرتضی کی دعاہمارے حق میں قبول کرلی گئی ہے۔

اس روایت سے ثابت کہ آپکی ولا دت ٨٠ ھ میں ہوئی۔ دوسری روایت جو حضرت امام ابویوسف سے ہے اس میں ٧٧ھ ہے ۔ علامہ کوثری نے ٧٠ھ کودلائل وقرائن سے ترجیح دی ہے اورکہا ہے کہ ٨٧ھ میں اپنے والد کے ساتھ حج کوگئے اوروہاں حضرت عبداللہ بن الحارث سے ملاقات ہوئی اور حدیث سنی ۔اسی ٧٠ھ کوابن حبان نے بھی صحیح بتایا ہے ۔

   معتمدقول یہ ہی ہے کہ آپ فارسی النسل ہیں اورغلامی کادھبہ آپکے آباء میں کسی پر نہیں لگا، مورخوں نے غیر عرب پر موالی کا استعمال کیا ہے بلکہ عرب میں ایک رواج یہ بھی تھا کہ پردیسی یا کمزورفرد کسی بااثر شخص یاقبیلہ کی حمایت وپناہ حاصل کرلیتا تھا ۔لہذاجبکہ حضرت امام اعظم کے جد امجد جب عراق آئے توآپ نے بھی ایساہی کیا ۔

امام طحاوی شرح مشکل الآثار میں راوی کہ حضرت عبداللہ بن یزید کہتے ہیں ،میں امام اعظم کی خدمت میں حاضر ہوا توانہوں نے مجھ سے پوچھا ،تم کون ہو ؟میں نے عرض کیا :میں ایسا شخص ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے جس پر اسلام کے ذریعہ احسان فرمایا ،یعنی نومسلم  حضرت امام اعظم نے فرمایا: یوں نہ کہو ،بلکہ ان قبائل میں سے کسی سے تعلق پیداکرلو پھر تمہاری نسبت بھی انکی طرف ہوگی ،میں خود بھی ایساہی تھا ۔

مولی صرف غلام ہی کو نہیں کہاجاتا ،بلکہ ولاء اسلام ،ولاء حلف ،اور ولاء لزوم کو بھی ولاء کہتے ہیں اور ان تعلق والوں کو بھی موالی کہاجاتاہے ۔امام بخاری ولاءاسلام کی وجہ سے جعفی ہیںامام مالک ولاء حلف کی وجہ سے تیمی ۔ اورمقسم کو ولاء لزوم یعنی حضرت ابن عباس کی خدمت میں ایک عرصہ تک رہنے کی وجہ سے مولی ابن عباس کہاجاتاہے ۔

کنیت کی وضاحت :۔

 آپکی کنیت ابوحنیفہ کے سلسلہ میں متعدد اقوال ہیں ۔ 

١۔ چونکہ اہل عرب دوات کو حنیفہ کہتے ہیں اورکوفہ کی جامع مسجد میں وقف کی چارسودواتیں طلبہ کیلئے ہمیشہ وقف رہتی تھیں ۔امام اعظم کا حلقہ درس وسیع تھا اورآپکے ہرشاگرد کے پاس علیحدہ دوات رہتی تھی ، لہذاآپ کو ابوحنیفہ کہاگیا ۔

٢۔ صاحب ملت حنیفہ ،یعنی ادیان باطلہ سے اعراض کرکے حق کی طرف پورے طور پر مائل رہنے والا ۔

٣۔ ماء مستعمل کو آپ نے طہارت میں استعمال کرنے کیلئے جائز قرار نہیں دیا توآپ کے متبعین نے ٹوٹیوں کاستعمال شروع کیا ، چونکہ ٹوٹی کو حنیفہ کہتے ہیں لہذاآپ کانام ابوحنیفہ پڑگیا۔ 

وجہ تسمیہ ۔

وجہ تسمیہ یہ بیان کی جاتی ہے کہ نعمان لغت عرب میں خون کو کہتے ہیں جس پر مدار حیات ہے ۔نیک فالی کے طور پر یہ نام رکھا گیا ۔آپ نے شریعت اسلامیہ کے وہ اصول مرتب کئے جو مقبول خلائق ہو ئے اورشریعت مطہرہ کی ہمہ گیری کا ذریعہ بنے ۔یہاں تک کہ امام شافعی قدس سرہ نے بھی آپ کی علمی شوکت وفقہی جلالت شان کو دیکھ کر فرمایا۔

الناس فی الفقہ عیال ابی حنیفۃ ۔

فقہ میں سب لوگ ابو حنیفہ کے محتاج ہیں ۔   نعمان گل لالہ کی ایک قسم کانام بھی ہے ۔اسکا رنگ سرخ ہوتاہے اور خوشبونہایت روح پرورہوتی ہے ،چنانچہ آپ کے اجتہاد اور استنباط سے بھی فقہ اسلامی اطراف عالم میں مہک اٹھی ۔

بشارت عظمی :۔

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ ہم حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں حاضر تھے ،اسی مجلس میں سورہ جمعہ نازل ہوئی ،جب آپ نے اس سورۃ کی آیت :۔آخرین منھم لما یلحقوبہم ۔

پڑھی توحاضرین میں سے کسی نے پوچھا ،یارسول اللہ !یہ دوسرے حضرات کون ہیں جوابھی ہم سے نہیں ملے ؟حضور یہ سنکر خاموش رہے ،جب باربار پوچھاگیا تو حضرت سلمان 

فارسی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے کاندھے پر دست اقدس رکھ کر ارشاد فرمایا :۔ 

لوکان الایمان عندالثریا لنالہ رجل من ھؤلائ۔اگر ایمان ثریا کے پاس بھی ہوگا تو اسکی قوم کے لوگ اسکو ضرور تلاش کرلیں گے ۔

یہ حدیث متعدد سندوں سے مختلف الفاظ کے ساتھ مروی ہے ۔جسکا مفہوم ومعنی ایک ہے ۔علامہ ابن حجر مکی نے حافظ امام سیوطی کے بعض شاگردوں کے حوالے سے لکھاہے کہ ہمارے استاد امام سیوطی یقین کے ساتھ کہتے تھے ۔
اس حدیث کے اولین مصداق صرف امام اعظم ابوحنیفہ ہیں ۔کیونکہ امام اعظم کے زمانے میں اہل فارس سے کوئی بھی آپ کے علم وفضل تک نہ پہونچ سکا۔ الفضل ماشہدت بہ الاعداء ۔کے بموجب نواب صدیق حسن خاں بھوپالی کو بھی اس امر کا اعتراف کرناپڑا ۔لکھتے ہیں 

ہم امام دراں داخل ست ۔ امام اعظم بھی اس حدیث کے مصداق ہیں۔

امام بخاری کی روایت سے یہ بھی ظاہر ہے کہ حضرت سلمان فارسی کیلئے یہ بشارت نہ تھی کہ آیت میں ،لمایلحقوبہم ،کے بارے میں سوال تھا اورجواب میں آئندہ لوگوں کی نشاندھی کی جارہی ہے ،لہذا وہ لوگ غلط فہمی کا شکارہیں جو یہ کہتے ہیں کہ حدیث تو حضرت سلمان فارسی کیلئے تھی اوراحناف نے امام اعظم پر چسپاں کردی ۔قارئین غور کریں کہ یہ دیانت سے کتنی بعید بات ہے۔

تعلیم کے مراحل :۔

آپ نے ابتدائی ضروری تعلیم کے بعد تجارت کا میدان اختیار کرلیا تھا ۔ آپ ریشم کے کپڑے کی تجارت کرتے تھے ،حفص بن عبدالرحمن بھی آپ کے شریک تجارت تھے۔آپکی تجارت عامیانہ اصول سے بالاترتھی ۔آپ ایک مثالی تاجر کا رول ادافرماتے ،بلکہ یوں کہاجائے کہ تجارت کی شکل میں لوگوں پر جودوکرم کا فیض جاری کرنا آپ کا مشغلہ تھا ۔

ایک دن تجارت کے سلسلہ میں بازارجارہے تھے ،راستے میں امام شعبی سے ملاقات ہوئی ،یہ وہ عظیم تابعی ہیں جنہوں نے پانچسو صحابہ کرام کا زمانہ پایا ،فرمایا : کہاں جاتے ہو ؟عرض کی بازار ،چونکہ آپ نے امام اعظم کے چہر ہ پر ذہانت وسعادت کے آثار نمایاں دیکھ کر بلایا تھا ، فرمایا: علماء کی مجلس میں نہیں بیٹھتے ہو ،عرض کیا نہیں ۔فرمایا : غفلت نہ کرو تم علماء کی مجلس میں بیٹھاکرو ۔کیونکہ میں تمہارے چہرے میں علم وفضل کی درخشندگی کے آثار دیکھ رہاہوں۔

امام اعظم فرماتے ہیں :۔ امام شعبی کی ملاقات اور ان کے اس فرمان نے میرے دل پر اثر کیا اوربازار کاجانا میں نے چھوڑ دیا ۔پہلے علم کلام کی طرف متوجہ ہوا اور اس میں کمال حاصل کرنے کے بعد گمراہ فرقوں مثلا جہمیہ قدریہ سے بحث ومباحثہ کیا اورمناظرہ شروع کیا ۔پھر خیال آیا کے صحابہ کرام سے زیادہ دین کو جاننے والاکون ہوسکتاہے ،اس کے باوجود ان حضرات نے اس طریق کو نہ اپناکر شرعی 

اورفقہی مسائل سے زیادہ شغف رکھا ،لہذا مجھے بھی اسی طرف متوجہ ہوناچاہئے۔

کوفہ آپ کے عہد پاک میں فقہائے عراق کا گہوارہ تھا جس طرح اس کے برخلاف بصرہ مختلف فرقوں اور اصول اعتقاد میں بحث ومجادلہ کرنے والوں کا گڑھ تھا ۔کوفہ کا یہ علمی ماحول بذات خود بڑااثر آفریں تھا ۔ خود فرماتے ہیں :میں علم وفقہ کی کان کوفہ میں سکونت پذیر تھا اوراہل کوفہ کا جلیس وہم نشیں رہا ۔پھر فقہاء کوفہ میں ایک فقیہ کے دامن سے وابستہ ہوگیا ۔

ان فقیہ سے مراد حضرت حماد بن ابی سلیمان ہیں جواس وقت جامع کوفہ میں مسنددرس و تدریس پر متمکن تھے اوریہ درسگاہ باقاعدہ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے عہد پاک سے چلی آرہی تھی ۔

اس مبارک شہر میں ایک ہزار پچاس صحابہ کرام جن میں ستر اصحاب بدر اورتین سو بیعت رضوان کے شرکاء تھے آکر آباد ہوگئے ۔جس برج میں یہ نجوم ہدایت اکٹھے ہوں اسکی ضوفشانیاں کہاں تک ہونگی اس کا اندازہ ہرذی فہم کرسکتاہے ۔ اس کا نتیجہ یہ تھاکہ کوفہ کا ہرگھر علم کے انوار سے جگمگا رہاتھا ۔ ہرہرگھر دارالحدیث اور دارالعلوم بن گیا تھا ۔حضرت امام اعظم جس عہد میں پیدا ہوئے اس وقت کوفہ میں حدیث وفقہ کے وہ ائمہ مسند تدریس کی زینت تھے جن میں ہر شخص اپنی اپنی جگہ آفتاب و مہتاب تھا۔ کوفہ کی یہ خصوصیت صحاح ستہ کے مصنفین کے عہد تک بھی باقی تھی ۔یہی وجہ ہے کہ امام بخاری کو اتنی بار کوفہ جانا پڑا کہ وہ اسے شمار نہیں کرسکے ،اور صحاح ستہ کے اکثر شیوخ کوفہ کے ہیں ۔

اس وقت کوفہ میں مندرجہ ذیل مشاہر ائمہ موجود تھے ۔

حضرت ابراہیم نخعی فقیہ عراق ،امام عامر شعبی،سلمہ بن کہیل ،ابواسحاق سبعی ،سماک بن حرب ، محارب بن دثار،عون بن عبداللہ بن عتبہ بن مسعود ،ہشام بن عروہ بن زبیر ،سلیمان بن مہران اعمش ، حماد بن ابی سلیمان فقیہ عراق ۔ سب سے بڑی خصوصیت یہ ہے کہ اس وقت صحابہ کرام میں سے حضرت عبداللہ بن ابی اوفی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کوفہ ہی میں تھے ۔

کوفہ کو مرکز علم وفضل بنانے میں ایک ہزار پچاس صحابہ کرام نے جوکیا وہ تو کیا ہی اصل فیض حضرت عبداللہ بن مسعود اور حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہما کا ہے ۔حضرت ابن مسعود کو حضرت فاروق اعظم نے کوفہ کا قاضی اور وہاں کے بیت المال کا منتظم بنایاتھا ،اسی عہد میں انہوں نے کوفہ میں علم وفضل کا دریابہایا ۔

اسرارالانوارمیں ہے :۔

کوفہ میں ابن مسعود کی مجلس میں بیک وقت چارہزار افراد حاضر ہوتے ۔ایک بار حضرت علی کوفہ تشریف لائے اور حضرت ابن مسعود ان کے استقبال کے لئے آئے تو سارامیدان آپ کے تلامذہ سے بھر گیا ۔انہیں دیکھ کر حضرت علی نے خوش ہوکر فرمایا ابن مسعود !

تم نے کوفہ کو علم وفقہ سے بھر دیا ،تمہاری بدولت یہ شہر مرکز علم بن گیا ۔

پھر اس شہر کو باب مدینۃ العلم حضرت علی نے اپنے روحانی وعرفانی فیض سے ایساسینچاکہ تیرہ سوسال گذرنے کے باوجود پوری دنیاکے مسلمان اس سے سیراب ہورہے ہیں ۔ خواہ علم حدیث ہو یا علم فقہ ۔اگر کوفہ کے راویوں کو ساقط الاعتبار کردیا جائے تو پھر صحاح ستہ صحاح ستہ نہ رہ جائیں گی۔

امام شعبی نے فرمایا: صحابہ میں چھ قاضی تھے ،ان میں تین مدینے میں تھے ۔عمر ،ابی بن کعب ،زید ۔ اور تین کوفے میں علی ، ابن مسعود ،ابوموسی اشعری ۔رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین ۔

امام مسروق نے کہا : میں نے اصحاب رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کو دیکھا ان میں چھ کو منبع علم پایا ۔ عمر ،علی ،ابن مسعود ، زید ، ابودرداء ،ابی بن کعب ، اسکے بعد دیکھا تو ان چھ حضرات کاعلم ان دومیں مجتمع پایا ۔ علی اورابن مسعود ۔ ان دونوں کا علم مدینے سے بادل بن کر اٹھا اور کوفے کی وادیوں پر برسا ۔ان آفتاب وماہتاب نے کوفے کے ذرے ذرے کو چمکایا ۔

حضرت عمر نے اس شہر کو راس الاسلام ،راس العرب ،جمجمۃ العرب ، رمح اللہ اورکنزالایمان کہا ۔

حضر ت سلمان فارسی نے قبۃ الاسلام کا لقب دیا ۔

حضرت علی نے کنزالایمان ،جمجمۃ الاسلام ،رمح اللہ ،سیف اللہ فرمایا۔

امام اعظم نے امام حماد کی حلقہ تلامذہ میں شرکت اس وقت کی جب آپکی عمر بیس سال سے متجاوز ہوگئی تھی اور آپ اٹھارہ سال تک انکی خدمت میں فقہ حاصل کرتے رہے ،درمیان میں آپ نے دوسرے بلاد کا سفر بھی فرمایا،حج بیت اللہ کیلئے حرم شریف میں بھی حاضری کا موقع ملا ۔اس طرح آپ ہرجگہ علم کی تلاش میں رہے اورتقریباً چارہزار مشائخ سے علم حدیث وفقہ 

حاصل کیا اور پھر اپنے استاذ حضرت حماد کی مسند درس پر جلوس فرمایا ۔

یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ امام حماد کا وصال ١٢٠ھ میں ہوا، لہذا انکے وصال کے وقت امام اعظم کی عمر چالیس سال تھی ،گویا جسم وعقل میں کامل ہونے کے بعد آپ نے چالیس 

سال کی عمر میں مسند درس کو رونق بخشی ۔ آپ کو پہلے بھی اس چیز کا خیال آیا تھا کہ میں اپنی درسگاہ علیحدہ قائم کرلوں مگر تکمیل کی نوبت نہ آئی ۔آپکے شاگرد امام زفر فرماتے ہیں ۔

امام اعظم ابو حنیفہ نے اپنے استاذ حضرت حماد سے وابستگی کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا میں دس سال آپکی صحبت میں رہا ، پھرمیرا جی حصول اقتدار کیلئے للچایا تو میں نے الگ اپنا حلقہ جمانے کا ارادہ کرلیا ۔ ایک روز میں پچھلے پہر نکلا اورچاہا کہ آج یہ کام کرہی لوں ،مسجد میں قدم رکھا اور شیخ حماد کو دیکھا تو ان سے علیحدگی پسند نہ آئی اور انکے پاس ہی آکر بیٹھ گیا ۔اسی رات حضرت حمادکو اطلاع ملی کہ بصرہ میں ان کاکوئی عزیزفوت ہوگیا ہے ،بڑامال چھوڑا اور حماد کے سوا کوئی دوسرا وارث نہیں ہے ، آپنے اپنی جگہ مجھے بٹھا یا ، جیسے ہی وہ تشریف لے گئے کہ میرے پاس چند ایسے مسائل آئے جو میں نے آج تک ان سے نہ سنے تھے ،میں جواب دیتا جاتا اوراپنے جوابات لکھتا جاتا تھا ۔جب حضرت حماد واپس تشریف لائے تو میں نے وہ مسائل پیش کئے ،یہ تقریباً ساٹھ مسائل تھے ۔چالیس سے تو آپ نے اتفاق کیا لیکن بیس میں میرے خلاف جواب دیئے ۔میں نے اسی دن یہ تہیہ کر لیا کہ تاحین حیات ان کا ساتھ نہ چھوڑونگا ،لہذا میں اسی عہد پر قائم رہا اور تازندگی انکے دامن سے وابستہ رہا ۔

غرضکہ آپ چالیس سال کی عمر میں کوفہ کی جامع مسجد میں اپنے استاذ کی مسند پر متمکن ہوئے اوراپنے تلامذہ کو پیش آمدہ فتاوی وجوابات کا درس دینا شروع کیا ۔آپ نے بڑی سلجھی ہوئی گفتگو اورعقل سلیم کی مددسے اشباہ وامثال پر قیاس کا آغاز کیا اور اس فقہی مسلک کی داغ بیل ڈالی جس سے آگے چل کر حنفی مذہب کی بنیاد پڑی ۔

آپ نے دراسات علمی کے ذریعہ ان اصحاب کرام کے فتاوی تک رسائی حاصل کی جو اجتہاد واستنباط ،ذہانت وفطانت اور جودت رائے میں اپنی مثال آپ تھے ۔

ایک دن آپ منصور کے دربار میں تشریف لے گئے ،وہاں عیسی بن موسی بھی موجود تھا ۔ اس نے منصور سے کہا : یہ اس عہد کے سب سے بڑے عالم دین ہیں ،منصور نے امام اعظم کو مخاطب کرکے کہا :۔ نعمان ! آپ نے علم کہاں سے سیکھا ،فرمایا: حضرت ابن عمر کے تلامذہ سے اور انہوں نے حضرت ابن عمر سے ۔ نیز شاگردان علی سے انہوں نے حضرت علی سے ۔ اسی طرح تلامذہ ابن مسعود سے ۔بولا : آپ نے بڑا قابل اعتماد علم حاصل کیا ۔

شرف تابعیت :۔

امام اعظم قدس سرہ کو متعددصحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین سے شرف ملاقات بھی حاصل تھا ،آپکے تمام انصاف پسندتذکرہ نگار اور مناقب نویس اس بات پر متفق ہیں اور یہ وہ خصوصیت ہے جو ائمہ اربعہ میں کسی کو حاصل نہیں ۔بلکہ بعض نے تو صحابہ کرام سے روایت کابھی ذکر کیاہے ۔

علامہ ابن حجر ہیتمی مکی لکھتے ہیں :۔

امام اعظم ابوحنیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے صحابہ کرام کی ایک جماعت کو پایا ۔آپکی ولادت ٨٠ھ میں ہوئی ، اس وقت کوفہ میں صحابہ کرام کی ایک جماعت تھی ۔حضرت عبداللہ بن 

ابی اوفی کا وصال ٨٨ھ کے بعد ہواہے ۔

حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس وقت بصرہ میں موجود تھے اور ٩٥ھ میں وصال فرمایا ۔ آپ نے انکو دیکھا ہے ۔ ان حضرات کے سوا دوسرے بلاد میں دیگر صحابہ کرام بھی موجود تھے ۔جیسے

٭ حضرت واثلہ بن اسقع شام میں ۔وصال ٨٥ھ

٭ حضرت سہل بن سعد مدینہ میں ۔وصال ٨٨ھ

٭ حضرت ابوالطفیل عامر بن واثلہ مکہ میں ۔وصال ١١٠ھ

یہ تمام صحابہ کرام میں آخری ہیں جنکا وصال دوسری صدی میں ہوا ۔اور امام اعظم نے ٩٣ھ میں انکو حج بیت اللہ کے موقع پر دیکھا ۔امام ابو یوسف سے روایت ہے کہ میں نے خود امام اعظم کو فرماتے سنا کہ:۔ 

میں ٩٣ھ میں اپنے والد کے ساتھ حج کو گیا ،اس وقت میری عمر سولہ سال کی تھی ۔میں نے ایک بوڑھے شخص کودیکھا کہ ان پر لوگوں کا ہجوم تھا ،میں نے اپنے والد سے پوچھا کہ یہ بوڑھے شخص کون ہیں ؟ انہوں نے فرمایا : یہ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی صحابی ہیں اور انکا نام عبداللہ بن حارث بن جزہے ،پھر میں نے دریافت کیا کہ ان کے پاس کیا ہے ؟ میرے والد نے کہا: ان کے پاس وہ حدیثیں ہیں جو انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم سے سنی ہیں ۔میں نے کہا : مجھے بھی انکے پاس لے چلئے تاکہ میں بھی حدیث شریف سن لوں ،چنانچہ وہ مجھ سے آگے بڑھے اور لوگوں کو چیرتے ہوئے چلے یہاں تک کہ میں انکے قریب پہونچ گیا اور میں نے ان سے سنا کہ آپ کہہ رہے تھے ۔

قال رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم : من ثفقہ فی دین اللہ کفاہ اللہ وھمہ ورزقہ من حیث لایحسبہ۔

رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : جس نے دین کی سمجھ حاصل کرلی اسکی فکروں کا علاج اللہ تعالیٰ کرتاہے اوراس کو اس طرح پر روزی دیتاہے کہ کسی کو شان و گمان بھی نہیں ہوتا۔

علامہ کوثری کی صراحت کے مطابق پہلا حج ٨٧ھ میں سترہ سال کی عمر میں کیا ،اور دوسرا '٩٦'ھ میں ٢٦سال کی عمرمیں ۔ اور متعدد صحابہ کرام سے شرف ملاقات حاصل ہوا ۔درمختار میں بیس اور خلاصہ اکمال میں چھبیس صحابہ کرام سے ملاقات ہونا بیان کی گئی ہے ۔

بہر حال اتنی بات متحقق ہے کہ صحابہ کرام سے ملاقات ہوئی اور آپ بلاشبہ تابعی ہیں اوراس شرف میں اپنے معاصرین واقران مثلا امام سفیان ثوری ،امام اوزاعی ،امام مالک،اور امام لیث بن سعد پر آپکو فضیلت حاصل ہے ۔

لہذا آپکی تابعیت کا ثبوت ہر شک وشبہ سے بالاتر ہے ۔ بلکہ آپکی تابعیت کے ساتھ یہ امر بھی متحقق ہے کہ آپ نے صحابہ کرام سے احادیث کاسماع کیا اورروایت کیاہے ۔تویہ وصف بھی بلاشبہ آپکی عظیم خصوصیت ہے ۔بعض محدثین ومورخین نے اس سلسلہ میں اختلاف بھی کیا ہے لیکن منصف مزاج لوگ خاموش نہیں رہے ،لہذا احناف کی طرح شوافع نے بھی اس حقیقت 

کو واضح کردیا ہے ۔

علامہ عینی حضرت عبداللہ بن ابی اوفی صحابی رسول کے ترجمہ میں لکھتے ہیں :۔

ھواحد من راٰہ ابوحنیفۃ من الصحابۃ وروی عنہ ولا یلتفت الی قول المنکر المتعصب وکان عمر ابی حنیفۃ حینئذ سبع سنین وھو سن التمییز ہذاعلی الصحیح ان مولد ابی حنیفۃ سنۃ ثمانین وعلی قول من قا ل سنۃ سبعین یکون عمر ہ حینئذ سبع عشرۃ سنۃ ویستبعدجدا ان یکون صحابی مقیما ببلدۃ وفی اہلہا من لارأہ واصحابہ اخبر بحالہ وہم ثقاۃ فی انفسہم ۔

عبداللہ بن ابی اوفی ان صحابہ سے ہیں جنکی امام ابو حنیفہ نے زیارت کی اور ان سے روایت کی قطع نظر کرتے ہوئے منکر متعصب کے قول سے امام اعظم کی عمر اس وقت سات سال کی تھی کیونکہ صحیح یہ ہے کہ آپ کی ولادت ٨٠ھ میں ہوئی اور بعض اقوال کی بنا پر اس وقت آپکی عمر سترہ سال کی تھی۔ بہر حال سات سال عمر بھی فہم وشعور کاسن ہے اور یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ ایک صحابی کسی شہر میں رہتے ہوں اور شہر کے رہنے والوں میں ایسا شخص ہو جس نے اس صحابی کو نہ دیکھا ہو۔ اس بحث میں امام اعظم کی تلامذہ کی بات ہی معتبر ہے کیونکہ وہ ان کے احوال سے زیادہ واقف ہیں اور ثقہ بھی ہیں ۔

ملاعلی قاری امام کردری کے حوالہ سے لکھتے ہیں :۔ 

قال الکردری جماعۃ من المحدثین انکر واملاقاتہ مع الصحابۃ واصحابہ اثبتوہ بالاسانید الصحاح الحسان وہم اعرف باحوالہ منہم والمثبت العدل اولی من النافی۔

امام کردری فرماتے ہیں کہ محدثین کی ایک جماعت نے امام اعظم کی صحابہ کرام سے ملاقات کا انکار کیا ہے اور انکے شاگردوں نے اس بات کو صحیح اور حسن سندوں کے ساتھ ثابت کیا 

اور ثبوت روایت نفی سے بہتر ہے۔ 

مشہور محدث شیخ محمد طاہر ہندی نے کرمانی کے حوالہ سے لکھا ہے:۔ 

واصحابہ یقولون انہ لقی جماعۃ من الصحابۃ وروی عنہم۔  امام اعظم کے شاگرد کہتے ہیں کہ آپ نے صحابہ کی ایک جماعت سے ملاقات کی ہے اور ان سے سماع حدیث بھی کیا ہے ۔

امام ابو معشر عبدالکریم بن عبدالصمد طبری شافعی نے امام اعظم کی صحابہ کرام سے مرویات میں ایک مستقل رسالہ لکھا اور اس میں روایات مع سند بیان فرمائیں۔ نیز انکو حسن وقوی 

بتایا ۔ امام سیوطی نے ان روایات کو تبییض الصحیفہ میں نقل کیا ہے جن کی تفصیل یوں ہے ۔

عن ابی یوسف عن ابی حنیفۃ سمعت انس بن مالک یقول سمعت رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم یقول : طلب العلم فریضۃ علی کل مسلم۔

امام سیوطی نے فرمایا یہ حدیث پچاس طرق سے مجھے معلوم ہے اور صحیح ہے ۔

حضرت امام ابو یوسف حضرت امام اعظم ابو حنیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اور انہوں نے حضور نبی کریم صلی اللہ 

تعالیٰ علیہ وسلم کو فرماتے سنا :علم کا طلب کرنا ہر مسلمان پر فرض ہے ۔

عن ابی یوسف عن ابی حنیفۃ سمعت انس بن مالک یقول سمعت رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم یقول : الدال علی الخیر کفاعلۃ ۔اس معنی کی حدیث مسلم شریف میں بھی ہے ۔

حضرت امام ابو یوسف حضرت امام اعظم ابوحنیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ اورانہوں نے حضور نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ 

وسلم کو فرماتے سنا : نیکی کی رہنمائی کرنے والا نیکی کرنے والے کے مثل ہے ۔ 

عن ابی یوسف عن ابی حنیفۃ سمعت انس بن مالک یقول سمعت رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم یقول :ان اللہ یحب اغاثۃ اللہفان ۔

ضیاء مقدسی نے مختارہ میں اسکو صحیح کہا۔ 

حضرت امام ابویوسف حضرت امام اعظم ابوحنیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور انہوں نے حضور نبی کریم صلی اللہ 

تعالیٰ علیہ وسلم کو فرماتے سنا : بیشک اللہ تعالیٰ مصیبت زدہ کی دست گیری کو پسند فرماتاہے ۔

عن یحی بن قاسم عن ابی حنیفۃ سمعت عبداللہ بن ابی اوفی یقول سمعت رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم یقول : من بنی للہ مسجدا ولو کمفحص قطاۃ بنی اللہ لہ بیتا فی الجنۃ ۔

امام سیوطی فرماتے ہیں ،اس حدیث کا متن صحیح بلکہ متواتر ہے ۔

حضرت یحیی بن قاسم حضرت امام اعظم ابو حنیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں حضرت عبداللہ بن ابی اوفی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو فرماتے سنا کہ انہوں نے حضور نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کو فرماتے سنا : جس نے اللہ کی رضا کیلئے سنگ خوار کے گڑھے کے برابر بھی مسجد بنائی تو اللہ تعالیٰ اس کیلئے جنت میں گھر بنائے گا ۔

عن اسمعیل بن عیاش عن ابی حنیفۃ عن واثلۃ بن اسقع ان رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم قال :دع مایریبک الی مالا یریبک ۔

امام ترمذی نے اس کی تصحیح فرمائی ۔

حضرت اسمعیل بن عیاش حضرت امام اعظم ابو حنیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہماسے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے حضرت واثلہ بن اسقع رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: شک وشبہ کی چیزوں کو چھوڑ کر ان چیزوں کو اختیار کرو جو شکوک وشبہات سے بالاتر ہیں ۔

ان تمام تفصیلات کی روشنی میں یہ بات ثابت ومتحقق ہے کہ امام اعظم صحابہ کرام کی رویت وروایت دونوں سے مشرف ہوئے ۔یہاں اس امر کی وضاحت بھی ضروری ہے کہ امام اعظم کے بعض سوانح نگا راپنی صاف گوئی اور غیر جانب داری کا ثبوت دیتے ہوئے وہ باتیں بھی لکھ گئے ہیں جن سے تعصب کا اظہار ہوتاہے ۔ان کے پیچھے حقائق تو کیا ہوتے دیانت سے بھی کام نہیں لیا گیا ۔اس سلسلہ میں علامہ غلام رسول سعیدی کی تصنیف تذکرۃ المحدثین سے ایک طویل اقتباس ملاحظہ ہو لکھتے ہیں ۔

شبلی نعمانی نے امام اعظم کی صحابہ کرام سے روایت کے انکار پر کچھ عقلی وجوہات بھی پیش کئے ہیں لکھتے ہیں ۔

میرے نزدیک اس کی ایک اور وجہ ہے۔ محدثین میں باہم اختلاف ہے کہ حدیث سیکھنے کیلئے کم از کم کتنی عمرشرط ہے ؟ اس امر میں ارباب کوفہ سب سے زیادہ احتیاط کرتے تھے یعنی بیس برس سے کم عمر کا شخص حدیث کی درسگاہ میں شامل نہیں ہوسکتا تھا ، ان کے نزدیک چونکہ حدیثیں بالمعنی روایت کی گئی ہیں اس لئے ضروری ہے کہ طالب علم پوری عمر کو پہنچ چکا ہوورنہ مطالب کو سمجھنے اوراس کے اداکرنے میں غلطی کا احتمال ہے ،غالباً یہی قید تھی جس نے امام ابوحنیفہ کو ایسے بڑے شرف سے محروم رکھا ۔

اس سلسلہ میں

۔: اولاً 
تو ہم یہ پوچھتے ہیں کہ اہل کوفہ کایہ قاعدہ کہ سماع حدیث کیلئے کم ازکم بیس سال عمر درکار ہے ، کونسی یقینی روایت سے ثابت ہے ؟ امام صاحب کی مرویات صحابہ کیلئے جب یقینی اورصحیح روایت کامطالبہ کیاجاتاہے تواہل کوفہ کے اس قاعدہ کو بغیر کسی یقینی اور صحیح روایت کے کیسے مان لیا گیا ،

ثانیاً :۔

یہ قاعدہ خود خلاف حدیث ہے کیونکہ صحیح بخاری میں امام بخاری نے متی یصح سماع الصغیر کاباب قائم کیا ہے اس کے تحت ذکرفرمایاہے کہ محمود بن ربیع رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم سے پانچ سال کی عمر میں سنی ہوئی حدیث کو روایت کیاہے ،اس کے علاوہ حسنین کریمین رضی اللہ تعالیٰ عنہما کی عمر حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے وصال کے وقت چھ اورسات سال تھی۔ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما کی عمر حضور کے وصال کے وقت تیرہ سال تھی ،اور یہ حضرات آپ کے وصال سے کئی سال پہلے کی سنی ہوئی احادیث کی روایت کرتے تھے۔ پس روایت حدیث کیلئے بیس سال عمرکی قید لگاناطریقہ صحابہ کے مخالف ہے اور کوفہ کے ارباب علم وفضل اوردیانت دار حضرات کے بارے میں یہ بدگمانی نہیں کی جاسکتی کہ انہوں نے اتنی جلدی صحابہ کی روش کو چھوڑدیاہوگا ۔ 

ثالثا:۔

برتقدیر تسلیم گزارش یہ ہے کہ اہل کوفہ نے یہ قاعدہ کب وضع کیا ،اس بات کی کہیں وضاحت نہیں ملتی ۔اغلب اورقرین قیاس یہی ہے کہ جب علم حدیث کی تحصیل کاچرچا عام ہوگیا اور کثرت سے درس گاہیں قائم ہوگئیں اوروسیع پیمانے پر آثار وسنن کی اشاعت ہونے لگی ،اس وقت اہل کوفہ نے اس قید کی ضرورت کو محسوس کیاہوگا تاکہ ہرکہ ومہ حدیث کی روایت کرنا شروع نہ کردے ،یہ کسی طرح بھی باور نہیں کیاجاسکتا کہ عہد صحابہ میں ہی کوفہ کے اندر باقاعدہ درس گاہیں بن گئیں اوران میں داخلہ کیلئے قوانین اورعمر کا تعین بھی ہوگیا تھا ۔

رابعاً :۔

اگریہ مان بھی لیاجائے کہ ٨٠ھ ہی میں کوفہ کے اندر باقاعدہ درسگاہیں قائم ہوگئی تھیں اوران کے ضوابط اورقوانین بھی وضع کئے جاچکے تھے توان درس گاہوں کے اساتذہ سے سماع حدیث کیلئے بیس برس کی قید فرض کی جاسکتی ہے مگر یہ حضرت انس اور حضرت عبداللہ بن ابی اوفی وغیرہ ان درس گاہوں میں اساتذہ تو مقررتھے نہیں کہ ان سے سماع حدیث بھی بیس سال کی عمر میں کیا جاتا ۔

خامساً :۔

بیس برس کی قید اگر ہوتی بھی توکوفہ کی درس گاہوں کے لئے اگر کوفہ کاکوئی رہنے والا بصرہ جاکر سماع حدیث کرے تویہ قید اس پر کیسے اثر انداز ہوگی ؟ حضرت انس بصرہ میں رہتے تھے اورامام اعظم ان کی زندگی میں بارہابصرہ گئے اور ان کی آپس میں ملاقات بھی ثابت ہے توکیوں نہ امام صاحب نے ان سے روایت حدیث کی ہوگی ۔

سادساً:۔

 اگر بیس سال عمر کی قید کو بالعموم بھی فرض کرلیا جائے توبھی یہ کسی طور قرین قیاس نہیں ہے کہ حضرات صحابہ کرام جن کا وجود مسعود نوادرروزگار اور مغتنمات عصر میں سے تھا ان سےاز راہ تبرک وتشرف احادیث کے سماع کیلئے بھی کوئی شخص اس انتظار میں بیٹھا رہے گا کہ میری عمر بیس سال کو پہنچ لے تومیں ان سے جاکر ملاقات اور سماع حدیث کروں ۔حضرت انس کے وصال کے وقت امام اعظم کی عمر پندرہ برس تھی اورامام کردری فرماتے ہیں کہ حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی زندگی میں امام اعظم بیس سے زائد مرتبہ بصرہ تشریف لے گئے ۔پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ امام اعظم پندرہ برس تک کی عمر میں بصرہ جاتے رہے ہوں اور حضرت انس سے مل کر اوران سے سماع حدیث کرکے نہ آئے ہوں ،راوی اورمروی عنہ میں معاصرت بھی ثابت ہوجائے توامام مسلم کے نزدیک روایت مقبول ہوتی ہے ۔ یہاں معاصرت کے بجائے ملاقات کے بیس سے زیادہ قرائن موجود ہیں پھر بھی قبول کرنے میں تامل کیا جارہاہے ۔

الحمد للہ العزیز ! کہ ہم نے اصول روایت اورقرائن عقلیہ کی روشنی میں اس امر کو آفتاب سے زیادہ روشن کردیا ہے کہ امام اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کوصحابہ کرام سے روایت حدیث کا شرف حاصل تھا اوراس سلسلے میں جتنے اعتراضاف کئے جاتے ہیں ان پر سیر حاصل گفتگوکرلی ہے ۔ اس کے باوجود بھی ہم نے جو کچھ لکھا وہ ہماری تحقیق ہے ہم اسے منوانے کیلئے ہرگزاصرار نہیں کرتے ۔(٢٢)

اساتذہ :۔

 گذشتہ پیغامات میں آپ متفرق طور پر پڑھ چکے کہ امام اعظم نے کثیر شیوخ واساتذہ سے علم حدیث حاصل کیا ،ان میں سے بعض کے اسماء یہ ہیں ۔

عطاء بن ابی رباح ،حماد بن ابی سلیمان ،سلیمان بن مہران اعمش ،امام عامر شعبی ، عکرمہ مولی ابن عباس ،ابن شہاب زہری ،نافع مولی بن عمر ،یحیی بن سعید انصاری ،عدی بن ثابت انصاری ، ابوسفیان بصری ،ہشام بن عروہ ،سعید بن مسروق، علقمہ بن مرثد ،حکم بن عیینہ ، ابواسحاق بن سبیعی ،سلمہ بن کہیل ،ابوجعفر محمد بن علی ، عاصم بن ابی النجود ،علی بن اقمر ،عطیہ بن سعید عوفی ، عبدالکریم ابوامیہ ،زیاد بن علاقہ ۔سلیمان مولی ام المومنین میمونہ ،سالم بن عبداللہ ،

چونکہ احادیث فقہ کی بنیاد ہیں اور کتاب اللہ کے معانی ومطالب کے فہم کی بھی اساس ہیں لہذا امام اعظم نے حدیث کی تحصیل میں بھی انتھک کوشش فرمائی ۔یہ وہ زمانہ تھا کہ حدیث کادرس شباب پرتھا ۔تمام بلاد اسلامیہ میں اس کا درس زور وشور سے جاری تھا اورکوفہ تو اس خصوص میں ممتاز تھا ۔کوفہ کا یہ وصف خصوصی امام بخاری کے زمانہ میں بھی اس عروج پرتھا کہ خودامام بخاری فرماتے ہیں ،میں کوفہ اتنی بار حصول حدیث کیلئے گیا کہ شمار نہیں کرسکتا۔

امام اعظم نے حصول حدیث کا آغاز بھی کوفہ ہی سے کیا ۔ کوفہ میں کوئی ایسا محدث نہ تھا جس سے آپ نے حدیث اخذ نہ کی ہو ۔ابوالمحاسن شافعی نے فرمایا :۔ 

تر انوے وہ مشائخ ہیں جو کوفے میں قیام فرماتھے یاکوفے تشریف لائے جن سے امام اعظم نے حدیث اخذ کی ۔ان میں اکثر تابعی تھے ۔ بعض مشائخ کی تفصیل یہ ہے ۔

امام عامر شعبی :۔
 انہوں نے پانچسو صحابہ کرام کا زمانہ پایا ،خود فرماتے تھے کہ بیس سال ہوئے میرے کان میں کوئی حدیث ایسی نہ پڑی جسکا علم مجھے پہلے سے نہ ہو ۔ امام اعظم نے ان 
سے اخذحدیث فرمائی ۔

امام شعبہ :۔
 انہیں دوہزار حدیثیں یادتھیں ،سفیان ثوری نے انہیں امیرالمومنین فی الحدیث کہا ،امام شافعی نے فرمایا : شعبہ نہ ہوتے توعراق میں حدیث اتنی عام نہ ہوتی ۔امام شعبہ کو امام اعظم سے قلبی لگاؤ تھا ،فرماتے تھے ،جس طرح مجھے یہ یقین ہے کہ آفتاب روشن ہے اسی طرح یقین سے کہتاہوں کہ علم اورابو حنیفہ ہمنشیں ہیں ۔

امام اعمش:۔
مشہور تابعی ہیں شعبہ وسفیان ثوری کے استاذ ہیں ،حضرت انس اورعبداللہ بن ابی اوفی سے ملاقات ہے ۔ امام اعظم آپ سے حدیث پڑھتے تھے اسی دوران انہوں نے آپ سے مناسک حج لکھوائے ۔واقعہ یوں ہے کہ امام اعمش سے کسی نے کچھ مسائل دریافت کئے ۔انہوں نے امام اعظم سے پوچھا ۔آپ کیاکہتے ہیں ؟ حضرت امام اعظم نے ان سب کے حکم بیان فرمائے ۔امام اعمش نے پوچھا کہاں سے یہ کہتے ہو ۔فرمایا۔آپ ہی کی بیان کردہ احادیث سے اور ان احادیث کو مع سندوں کے بیان کردیا ۔امام اعمش نے فرمایا ۔ بس بس ،میں نے آپ سے جتنی حدیثیں سودن میں بیان کیں آپ نے وہ سب ایک دن میں سناڈالیں ۔میں نہیں جانتا تھا کہ آپ ان احادیث میں یہ عمل کرتے ہیں ۔
یامعشر الفقہاء انتم الاطباء ونحن الصیادلۃ وانت ایہا الرجل اخذت بکلاالطرفین۔
اے گروہ فقہاء !تم طبیب ہواور ہم محدثین عطار اورآپ نے دونوں کو حاصل کرلیا ۔

امام حماد :۔
 امام اعظم کے عظیم استاذ حدیث وفقہ ہیں اور حضرت انس سے حدیث سنی تھی بڑے بڑے ائمہ تابعین سے ان کو شرف تلمذ حاصل تھا ۔

سلمہ بن کہیل :۔
 تابعی جلیل ہیں ،بہت سے صحابہ کرام سے روایت کی ۔کثیرالروایت اور صحیح الروایت تھے ۔

ابواسحاق سبیعی ۔ 
علی بن مدینی نے کہا انکے شیوخ حدیث کی تعداد تین سو ہے ۔ان میں اڑتیس صحابہ کرام ہیں ۔ عبداللہ بن عباس ، عبداللہ بن عمر ، عبد اللہ بن زبیر، نعمان بن بشیر ،زید بن ارقم سرفہرست ہیں۔
کوفہ کے علاوہ مکہ معظمہ اور مدینہ طیبہ میں آپ نے ایک زمانہ تک علم حدیث حاصل فرمایا: چونکہ آپ نے پچپن حج کئے اس لئے ہرسال حرمین شریفین زادھما اللہ شرفا وتعظیما میں حاضری کا موقع ملتاتھا اور آپ اس موقع پر دنیا ئے اسلام سے آنے والے مشائخ سے اکتساب علم کرتے ۔
مکہ معظمہ میں حضرت عطاء بن ابی رباح سرتاج محدثین تھے ،دوسرے صحابہ کرام کی صحبت کا شرف حاصل تھا ۔ محدث ہونے کے ساتھ ساتھ عظیم مجتہد وفقیہ تھے ۔ حضرت ابن عمر فرماتے تھے کہ عطاء کے ہوتے ہوئے میرے پاس کیوں آتے ہیں ۔ ایام حج میں اعلان عام ہوجاتا کہ عطاء کے علاوہ کوئی فتوی نہ دے ۔ اساطین محدثین امام اوزاعی ،امام زہری ، امام عمروبن دینار انکے شاگردتھے۔ امام اعظم نے اپنی خداداد ذہانت وفطانت سے آپ کی بارگاہ میں وہ مقبولیت حاصل کرلی تھی آپ کو قریب سے قریب تر بٹھاتے ۔ تقریباً بیس سال خدمت میں حج بیت اللہ کے موقع پر حاضر ہوتے رہے ۔ 
حضرت عکرمہ کا قیام بھی مکہ مکرمہ میں تھا ، یہ جلیل القدر صحابہ کے تلمیذ ہیں۔ حضرت علی،حضرت ابوہریرہ ، ابوقتادہ ، ابن عمر اورابن عباس کے تلمیذ خاص ہیں ۔ستر مشاہیر ائمہ تابعین انکے تلامذہ میں داخل ہیں ۔امام اعظم نے ان سے بھی حدیث کی تعلیم حاصل کی۔
مدینہ طیبہ میں سلیمان مولی ام المومنین میمونہ اورسالم بن عبداللہ سے احادیث سنیں ۔ 
انکے علاوہ دوسرے حضرات سے بھی اکتساب علم کیا ۔
بصرہ کے تمام مشاہیر سے اخذ علم فرمایا ،یہ شہر حضرت انس بن مالک کی وجہ سے مرکز حدیث بن گیا تھا۔ امام اعظم کی آمد ورفت یہاں کثرت سے تھی ۔حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے آپکی ملاقات بصرہ میں بھی ہوئی اورآپ جب کوفہ تشریف لائے اس وقت بھی ۔
غرضکہ امام اعظم کو حصول حدیث میں وہ شرف حاصل ہے جو دیگر ائمہ کو نہیں ،آپکے مشائخ میں صحابہ کرام سے لیکر کبار تابعین اورمشاہیر محدثین تک ایک عظیم جماعت داخل ہے اور 
آپکے مشائخ کی تعداد چارہزار تک بیان کی گئی ہے ۔
تلامذہ :۔
 آپ سے علم حدیث وفقہ حاصل کرنے والے بے شمار ہیں ، چند مشاہیر کے اسماء اس طرح ہیں ۔
امام ابو یوسف ،امام محمد بن حسن شیبانی ،امام حماد بن ابی حنیفہ ، امام مالک ،امام عبداللہ بن مبارک ،امام زفربن ہذیل ،امام داؤد طائی ،فضیل بن عیاض ،ابراہیم بن ادہم ،بشربن الحارث حافی ، ابوسعید یحی بن زکریاکوفی ہمدانی ،علی بن مسہر کوفی ، حفص بن غیاث ،حسن بن زناد ، مسعر بن کدام ،نوح بن درا ج نخعی ،ابراہیم بن طہران ،اسحاق بن یوسف ازرق ،اسد بن عمر وقاضی ،عبدالرزاق ،ابونعیم ،حمزہ بن حبیب الزیات ،ابو یحیی حمانی ،عیسی بن یونس ،یزید بن زریع ،وکیع بن جراح ، ہیثم، حکام بن یعلی رازی ،خارجہ بن مصعب ،عبدالحمید بن ابی داؤد ، مصعب بن مقدام ،یحیی بن یمان ،لیث بن سعد ،ابو عصمہ بن مریم ،ابو عبدالرحمن مقری ،ابوعاصم وغیرہم ۔

تصانیف ۔
امام اعظم نے کلام وعقائد ،فقہ واصول اورآداب واخلاق پر کتابیں تصنیف فرماکر اس میدان میں اولیت حاصل کی ہے۔
امام اعظم کے سلسلہ میں ہردور میں کچھ لوگ غلط فہمی کا شکار رہے ہیں اورآج بھی یہ مرض بعض لوگوں میں موجود ہے ۔فقہ حنفی کو بالعموم حدیث سے تہی دامن اورقیاس ورائے پراسکی بنا سمجھی جاتی ہے جوسراسر خلاف واقع ہے۔اس حقیقت کو تفصیل سے جاننے کیلئے بڑے بڑے علماء فن کے رشحات قلم ملاحظہ کریں جن میں امام یوسف بن عبدالھادی حنبلی ،امام سیوطی شافعی ، امام ابن حجر مکی شافعی ،امام محمد صالحی شافعی وغیرہم جیسے اکابر نے اسی طرح کی پھیلائی گئی غلط فہمی کے ازالہ کیلئے کتابیں تصنیف فرمائیں ۔علم حدیث میں امام اعظم کو بعض ایسی خصوصیات حاصل ہیں جن میں کوئی دوسرامحدث شریک نہیں ۔
امام اعظم کی مرویات کے مجموعے چار قسم کے شمار کئے گئے ہیں جیسا کہ شیخ محمد امین نے وضاحت سے ''مسانید الامام ابی حنیفہ '' میں ل
کتاب الآثار ۔مسند امام ابو حنیفہ ۔ اربعینات ۔وحدانیات ۔
متقدمین میں تصنیف وتالیف کا طریقہ اس طرح بیان کیا جاتا ہے کہ وہ اپنے لائق وقابل فخر تلامذہ کو املا کراتے ،یاخود تلامذہ درس میں خاص چیزیں ضبط تحریر میں لے آتے ،اسکے بعد راوی کی حیثیت سے ان تمام معلومات کو جمع کرکے روایت کرتے اورشیخ کی طرف منسوب فرماتے تھے ۔
کتاب الآثار ۔ امام اعظم نے علم حدیث وآثار پر مشتمل کتاب الآثار ،یونہی تصنیف فرمائی ، آپ نے اپنے مقرر کردہ اصول وشرائط کے مطابق چالیس ہزار احادیث کے ذخیرہ سے اس مجموعہ کا انتخاب کرکے املا کرایا ۔قدرے تفصیل گذر چکی ہے ۔ کتاب میں مرفوع ،موقوف ، اورمقطوع سب طرح کی احادیث ہیں ۔ کتاب الآثار کے راوی آپکے متعددتلامذہ ہیں جنکی طرف منسوب ہوکر علیحدہ علیحدہ نام سے معروف ہیں اور مرویات کی تعداد میں بھی حذف 
واضافہ ہے ۔
عام طور سے چند نسخے مشہور ہیں: ۔
١۔ کتاب الآثار بروایت امام ابویوسف ۔
٢۔ کتاب الآثار بروایت امام محمد ۔
٣۔ کتاب الآثار بروایت امام حماد بن امام اعظم ۔
٤۔ کتاب الآثار بروایت حفص بن غیاث ۔
٥۔ کتاب الآثار بروایت امام زفر (یہ سنن زفر کے نام سے بھی معروف ہوئی) 

٦۔ کتاب الآثار بروایت امام حسن بن زیاد 
ان میں بھی زیادہ شہرت امام محمد کے نسخہ کو حاصل ہوئی ۔
امام عبداللہ بن مبارک فرماتے ہیں :۔
روی الآثار عن نبل ثقات ۔غزارالعلم مشیخۃ حصیفۃ۔

امام اعظم نے الآثار ،کوثقہ اورمعززلوگوں سے روایت کیا ہے جو وسیع العلم اورعمدہ مشائخ تھے ۔
علامہ ابن حجر عسقلانی لکھتے ہیں ۔
والموجود من حدیث ابی حنیفۃ مفرداانما ھوکتاب الآثار التی رواہ محمد بن الحسن ۔
اور اس وقت امام اعظم کی احادیث میں سے کتاب الآثار موجود ہے جسے امام محمد بن حسن نے روایت کیا ہے ۔ اس میں مرفوع احادیث ١٢٢ ہیں ۔
امام ابویوسف کا نسخہ زیادہ روایات پر مشتمل ہے ،امام عبدالقادر حنفی نے امام ابویوسف کے صاحبزادے یوسف کے ترجمہ میں لکھا ہے:۔ 
روی کتا ب الآثار عن ابی حنیفۃ وھو مجلد ضخم ۔
یوسف بن ابویوسف نے اپنے والد کے واسطہ سے امام اعظم ابو حنیفہ سے کتاب الآثار کو روایت کیا ہے جو ایک ضخیم جلد ہے ، اس میں ایک ہزارستر( ١٠٧٠) احادیث ہیں ۔

مسند امام ابوحنیفہ :۔ 
یہ کتاب امام اعظم کی طرف منسوب ہے ،اسکی حقیقت یہ ہے کہ آپ نے جن شیوخ سے احادیث کو روایت کیا ہے بعد میں محدثین نے ہرہر شیخ کی مرویات کو علیحدہ کرکے مسانید کو مرتب کیا ۔ دوسرے الفاظ میں یوں کہاجاسکتاہے کہ آپ نے تدوین فقہ اوردرس کے وقت تلامذہ کو مسائل شرعیہ بیان فرماتے ہوئے جو دلائل بصورت روایت بیان فرمائے تھے ان روایات کو آپکے تلامذہ یابعد کے محدثین نے جمع کرکے مسند کانام دیدیا ۔ان مسانید اورمجموعوں کی تعداد حسب ذیل ہے ۔
١۔ مسندالامام مرتب امام حماد بن ابی حنیفہ 
٢۔ مسندالامام مرتب امام ابویوسف یعقوب بن ابراہیم الانصاری 
٣۔ مسندالامام مرتب امام محمد بن حسن الشیبانی 
٤۔ مسندالامام مرتب امام حسن بن زیاد ثولوی 
٥۔ مسندالامام مرتب حافظ ابو محمد عبداللہ بن یعقوب الحارث البخاری 
٦۔ مسندالامام مرتب حافظ ابو القاسم طلحہ بن محمد بن جعفر الشاہد 
٧۔ مسندالامام مرتب حافظ ابوالحسین محمد بن مظہر بن موسی 
٨۔ مسندالامام مرتب حافظ ابونعیم احمد بن عبداللہ الاصفہانی 
٩۔ مسندالامام مرتب الشیخ الثقۃ ابوبکر محمد بن عبدالباخی الانصاری
١٠۔ مسندالامام مرتب حافظ ابو احمد عبداللہ بن عدی الجرجانی 
١١۔ مسندالامام مرتب حافظ عمربن حسن الاشنانی 
١٢۔ مسندالامام مرتب حافظ ابوبکر احمدبن محمد بن خالد الکلاعی 
١٣۔ مسندالامام مرتب حافظ ابوعبداللہ حسین بن محمد بن خسروالبلخی 
١٤۔ مسندالامام مرتب حافظ ابو القاسم عبداللہ بن محمد السعدی 
١٥۔ مسندالامام مرتب حافظ عبداللہ بن مخلد بن حفص البغدادی 
١٦۔ مسندالامام مرتب حافظ ابوالحسن علی بن عمربن احمد الدارقطنی 
١٧۔ مسندالامام مرتب حافظ ابوحفص عمر بن احمد المعروف بابن شاہین 
١٨۔ مسندالامام مرتب حافظ ابوالخیر شمس الدین محمد بن عبدالرحمن السخاوی 
١٩۔ مسندالامام مرتب حافظ شیخ الحرمین عیسی المغربی المالکی 
٢٠۔ مسندالامام مرتب حافظ ابوالفضل محمدبن طاہر القیسرانی 
٢١۔ مسندالامام مرتب حافظ ابوالعباس احمد الہمدانی المعروف بابن عقدہ 
٢٢۔ مسندالامام مرتب حافظ ابوبکر محمد بن ابراہیم الاصفہانی المعروف بابن المقری
٢٣۔ مسندالامام مرتب حافظ ابو اسمعیل عبداللہ بن محمد الانصاری الحنفی 
٢٤۔ مسندالامام مرتب حافظ ابوالحسن عمربن حسن الاشنانی 
٢٥۔ مسندالامام مرتب حافظ ابوالقاسم علی بن حسن المعروف بابن عساکر الدمشقی ۔
ان علاوہ کچھ مسانید وہ بھی ہیں جنکو مندرجہ بالا مسانید میں سے کسی میں مدغم کردیاگیا ہے ۔مثلا ابن عقدہ کی مسند میں ان چار حضرات کی مسانید کا تذکرہ ہے اور یہ ایک ہزار سے زیادہ احادیث پر مشتمل ہے۔ 
١۔ حمزہ بن حبیب التیمی الکوفی 
٢۔ محمد بن مسروق الکندی الکوفی 
٣۔ اسمعیل بن حماد بن امام ابو حنیفہ 
٤۔ حسین بن علی 
پھر یہ کہ جامع مسانید امام اعظم جس کو علامہ ابو المؤید محمد بن محمود بن محمد الخوارزمی نے ابواب فقہ کی ترتیب پر مرتب کیا تھا اس میں کتاب الآثار کے نسخے بھی شامل ہیں اگر انکو علیحدہ شمار کیا جائے تو پھر اس عنوان سند کے تحت آنے والی مسانید کی تعداد اکتیس ہوگی جبکہ جامع المسانید میں صرف پندرہ مسانید ہیں اور انکی بھی تلخیص کی گئی ہے مکرراسناد کو حذف کردیاہے یہ مجموعہ چالیس ابواب پر مشتمل ہے اور کل روایات کی تعداد ١٧١٠ ہے ۔
مرفوع روایات ٩١٦
غیر مرفوع ٧٩٤
پانچ یا چھ واسطوں والی روایات بہت کم اور نادر ہیں ،عام روایات کا تعلق رباعیات ، ثلاثیات ،ثنائیات اوروحدانیات سے ہے
علامہ خوارزمی نے اس مجموعہ مسند کے لکھنے کی وجہ یوں بیان کی ہے ،کہ میں نے ملک شام میں بعض جاہلوں سے سنا کہ حضرت امام اعظم کی روایت حدیث کم تھی ۔ایک جاہل نے تو یہانتک کہاکہ امام شافعی کی مسند بھی ہے اورامام احمد کی مسند بھی ہے ،اورامام مالک نے تو خود مؤطالکھی ۔لیکن امام ابو حنیفہ کا کچھ بھی نہیں ۔
یہ سنکر میری حمیت دینی نے مجھکو مجبورکیا کہ میں آپکی ١٥ مسانید وآثار سے ایک مسند مرتب کروں ،لہذا ابواب فقہیہ پر میں نے اسکو مرتب کرکے پیش کیاہے ۔(٢٣)
کتاب الآثار ،جامع المسانید اوردیگر مسانید کی تعداد کے اجمالی تعارف کے بعد یہ بات اب حیز خفا میں نہیں رہ جاتی کہ اما م اعظم کی محفوظ مرویات کتنی ہونگی ،امام مالک اورامام شافعی کی مرویات سے اگر زیادہ تسلیم نہیں کی جاسکیں توکم بھی نہیں ہیں ،بلکہ مجموعی تعداد کے غالب ہونے میں کوئی شک وشبہ نہیں ہوناچاہیئے ۔
امام اعظم کی مسانید کی کثرت سے کوئی اس مغالطہ کا شکار نہ ہو کہ پھر اس میں رطب ویابس سب طرح کی روایات ہونگی ۔ہم نے عرض کیاکہ اول تو مرویات میں امام اعظم قدس سرہ اور حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے درمیان واسطے بہت کم ہوتے ہیں ۔اور جوواسطے مذکور ہوتے ہیں انکی حیثیت وعلوشان کا اندازہ اس سے کیجئے کہ :۔
امام عبدالوہاب شعرانی میزان الشریعۃ الکبری میں فرماتے ہیں ۔
وقد من اللہ علی بمطالعۃ مسانید الامام ابی حنیفۃ الثلاثۃ فرأیئہ لایروی حدیثا الاعن اخبار التابعین العدول الثقات الذین ھم من خیرالقرون بشہادۃ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کالاسود وعلقمۃ وعطاء وعکرمۃ ومجاہد ومکحول والحسن البصری واضرابھم رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین ۔بینہ وبین رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم عدول ثقات اعلام اخیار لیس فیہم کذاب  ولامنہم بکذب
اللہ تعالیٰ نے مجھ پر احسان فرمایا کہ میں نے امام اعظم کی مسانید ثلاثہ کو مطالعہ کیا۔ میں نے ان میں دیکھا کہ امام اعظم ثقہ اور صادق تابعین کے سوا کسی سے روایت نہیں کرتے جن کے حق میں حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے خیرالقرون ہونے کی شہادت دی ،جیسے اسود ،علقمہ عطاء ،عکرمہ ، مجاہد ،مکحول اور حسن بصری وغیرہم ۔لہذا امام اعظم اور حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے درمیان تمام راوی عدول ، ثقہ اور مشہور اخیار میں سے ہیں جنکی طرف کذب کی نسبت بھی نہیں کی جاسکتی اور نہ وہ کذاب ہیں ۔

اربعینات :۔
امام اعظم کی مرویات سے متعلق بعض حضرات نے اربعین بھی تحریر فرمائی ہیں 
مثلاً:۔
الاربعین من روایات نعمان سیدالمجتہدین ۔مولانا محمد ادریس نگرامی
الاربعین۔ شیخ حسن محمد بن شاہ محمد ہندی

وحدانیات :۔
 امام اعظم کی وہ روایات جن میں حضور سید عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم تک صرف ایک وسطہ ہو ان روایات کو بھی ایک جگہ جمع کرنے کی کوشش کی گئی ہے ، اس سلسلہ میں بعض تفصیلات حسب ذیل ہیں :۔
١۔ جزء مارواہ ابوحنیفۃ عن الصحابۃ۔
جامع ابومعشر عبدالکریم بن عبدالصمد شافعی ۔
امام سیوطی نے اس رسالہ کو تبییض الصحیفہ فی مناقب الامام ابی حنیفہ میں شامل کردیا ہے ، چنداحادیث قارئین ملاحظہ فرماچکے ۔
٢۔ الاختصار والترجیح للمذہب الصحیح۔ 
امام ابن جوزی کے پوتے یوسف نے اس کتاب میں بعض روایات نقل فرمائی ہیں ۔ 
دوسرے ائمہ نے بھی اس سلسلہ میں روایات جمع کی ہیں ۔مثلا:۔
١۔ ابو حامد محمد بن ہارون حضرمی 
٢۔ ابوبکر عبدالرحمن بن محمد سرخسی 
٣۔ ابوالحسین علی بن احمد بن عیسی نہفقی 
ان تینوں حضرات کے اجزاء وحدانیات کو ابو عبداللہ محمد دمشقی حنفی المعروف بابن طولون م ٩٥٣،نے اپنی سند سے کتاب الفہرست الاوسط میں روایت کیا ۔
نیز علامہ ابن حجر عسقلانی نے اپنی سند سے المعجم المفہرس میں علامہ خوارزمی نے جامع المسانید کے مقدمہ میں 
ابوعبداللہ صیمری نے فضائل ابی حنیفہ واخبارہ میں روایت کیاہے ۔
البتہ بعض حضرات نے ان وحدانیات پر تنقید بھی کی ہے ،تواسکے لئے ملاعلی قاری ،امام عینی اورامام سیوطی کی تصریحات ملاحظہ کیجئے ،ان تمام حضرات نے حقیقت واضح کردی ہے ۔
امام اعظم کی فن حدیث میں عظمت وجلالت شان ان تمام تفصیلات سے ظاہر وباہر ہے لیکن بعض لوگوں کو اب بھی یہ شبہ ہے کہ جب اتنے عظیم محدث تھے تو روایات اب بھی اس حیثیت کی نہیں ،محدث اعظم واکبر ہونے کا تقاضہ تو یہ تھا کہ لاکھوں احادیث آ پ کو یاد ہونا چاہیئے تھیں جیساکہ دوسرے محدثین کے بارے میں منقول ہے ۔تو اس سلسلہ میں علامہ غلام رسول 
سعیدی کی محققانہ بحث ملاحظہ کریں جس سے حقیقت واضح ہوجا ئے گی ۔لکھتے ہیں :۔
چونکہ بعض اہل اہوایہ کہتے ہیں کہ امام اعظم کو صرف سترہ حدیثیں یاد تھیں ۔اس لئے ہم ذرا تفصیل سے یہ بتلانا چاہتے ہیں کہ امام اعظم کے پاس احادیث کا وافر ذخیرہ تھا۔ حضرت 
ملاعلی قاری امام محمد بن سماعہ کے حوالے سے لکھتے ہیں ۔
ان الامام ذکر فی تصانیفہ بضع وسبعین الف حدیث وانتخب الآثار من اربعین الف حدیث ۔
امام ابوحنیفہ نے اپنی تصانیف میں ستر ہزار سے زائد احادیث بیان کی ہیں اور چالیس ہزار احادیث سے کتاب الآثار کا انتخاب کیا ہے ۔
اور صدر الائمہ امام موفق بن احمد تحریر فرماتے ہیں
وانتخب ابوحنیفۃ الاثار من اربعین الف حدیث ۔
امام ابو حنیفہ نے کتاب الاثار کا انتخاب چالیس ہزار حدیثوں سے کیا ہے ۔
ان حوالوں سے امام اعظم کا جو علم حدیث میں تبحر ظاہر ہورہاہے وہ محتاج بیاں نہیں ہے
ممکن ہے کوئی شخص کہہ دے کہ سترہزار احادیث کو بیان کرنا اور کتاب الآثار کا چالیس ہزار حدیثوں سے انتخاب کرنا چنداں کمال کی بات نہیں ہے ۔ امام بخاری کو ایک لاکھ احادیث صحیحہ اور دولاکھ احادیث غیر صحیحہ یاد تھیں اور انہوں نے صحیح بخاری کا انتخاب چھ لاکھ حدیثوں سے کیا تھا پس فن حدیث میں امام بخاری کے مقابلہ میں امام اعظم کا مقام بہت کم معلوم ہوتا ہے ۔ اسکے جواب میں گزارش ہے کہ احادیث کی کثرت اور قلت درحقیقت طرق اور اسانید کی قلت اور کثرت سے عبارت ہے ۔ایک متن حدیث اگر سو مختلف طرق اور سندوں سے روایت کیا جائے تو محدثین کی اصطلاح میں ان کو سو احادیث قرار دیا جائے گاحالانکہ ان تما م حدیثو ں کا متن واحد ہوگا ۔منکرین حدیث انکار حدیث کے سلسلے میںیہ دلیل بھی پیش کرتے ہیں کہ تمام کتب حدیث کی روایات کو اگر جمع کیا جائے تو یہ تعداد کروڑوں کے لگ بھگ ہوگی اور حضور کی پور ی رسالت کی زند گی کی شب وروز پر انکو تقسیم کیاجائے تو احادیث حضور کی حیات مبارکہ سے بڑھ جا ئیں گی ۔پس اس صورت میں احادیث کی صحت کیونکر قابل تسلیم ہوگی ۔ان لوگوں کو یہ معلوم نہیں کہ روایا ت کی یہ کثرت دراصل اسانید کی کثرت ہے ورنہ نفس احادیث کی تعداد چار 
ہزارچارسو سے زیادہ نہیں ہے ۔
چنانچہ علامہ امیر یمانی لکھتے ہیں
ان جملۃ الاحادیث المسندۃ عن النبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم یعنی الصحیحۃ بلاتکرار اربعۃ الاف واربع مائۃ
بلاشبہ وہ تمام مسند احادیث صحیحہ جو بلا تکرار حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم سے مروی ہیں 
ان کی تعداد چار ہزار چار سو ہے ۔
امام اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ولادت ٨٠ھ ہے اور امام بخاری ١٩٤ھ میں پید اہوئے اور ان کے درمیان ایک سو چودہ سال کا طویل عرصہ ہے اور ظاہر ہے اس عرصہ میں بکثرت احادیث شائع ہو چکی تھیں اور ایک ایک حدیث کو سیکڑوں بلکہ ہزاروں اشخا ص نے روایت کرنا شروع کردیاتھا ۔امام اعظم کے زمانہ میں راویوں کا اتنا شیوع اور عموم تھا نہیں ، اس لئے امام اعظم اور امام بخاری کے درمیان جو روایت کی تعداد کا فرق ہے وہ در اصل اسانید کی تعداد کا فرق ہے ، نفس روایت نہیں ہے ورنہ اگر نفس احادیث کا لحاظ کیا جائے تو امام اعظم کی مرویات امام بخاری سے کہیں زیادہ ہیں ۔
اس زمانہ میں احادیث نبویہ جس قدر اسانید کے ساتھ مل سکتی تھیں امام اعظم نے ان تمام طرق واسانید کے ساتھ ان احادیث کو حاصل کرلیا تھا اورحدیث واثر کسی صحیح سند کے ساتھ موجود نہ تھے مگر امام اعظم کا علم ا نہیں شامل تھا ۔وہ اپنے زمانے کے تمام محدثین پر ادر اک حدیث میں فائق اور غالب تھے۔ چنانچہ امام اعظم کے معاصر اور مشہور محدث امام مسعر بن کدام فرماتے ہیں : ۔
طلبت مع ابی حنیفۃ الحدیث فغلبت واخذ نا فی الزہد فبرع علینا وطلبنا معہ الفقہ فجاء منہ ماترون۔
میں نے امام ابو حنیفہ کے ساتھ حدیث کی تحصیل کی لیکن وہ ہم سب پر غالب رہے اور زہد میں مشغول ہوئے تو وہ اس میں سب سے بڑھ کرتھے اور فقہ میں ان کا مقام تو تم جانتے ہی 
ہو ۔
نیزمحدث بشربن موسی اپنے استاد امام عبدالرحمن مقری سے روایت کرتے ہیں :۔
وکان اذاحدث عن ابی حنیفۃ قال حدثنا شاہنشاہ ۔
امام مقری جب امام ابوحنیفہ سے روایت کرتے تو کہتے کہ ہم سے شہنشاہ نے حدیث بیان کی۔
ان حوالوں سے ظاہر ہوگیا کہ امام اعظم اپنے معاصرین محدثین کے درمیان فن حدیث میں تمام پر فائق اور غالب تھے ۔ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی کوئی حدیث ان کی نگاہ سے اوجھل نہ تھی ،یہی وجہ ہے کہ ان کے تلامذہ انہیں حدیث میں حاکم اور شہنشاہ تسلیم کرتے تھے ۔اصطلاح حدیث میں حاکم اس شخص کو کہتے ہیں جو حضور کی تمام مرویات پر متناًوسنداً دسترس رکھتاہو ،مراتب محدثین میں یہ سب سے اونچا مرتبہ ہے اور امام اعظم اس منصب پر یقیناً فائز تھے۔ کیونکہ جو شخص حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی ایک حدیث سے بھی ناواقف ہو وہ حیات انسانی کے تمام شعبوں کے لئے رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی لائی ہوئی ہدایات کے مطابق جامع دستور نہیں بناسکتا ۔

امام اعظم کے محدثانہ مقام پرا یک شبہ کاازالہ: ۔
گزشتہ سطور میں ہم بیان کرچکے ہیں کہ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم سے بلاتکراراحادیث مرویہ کی تعداد چارہزار چار سو ہے اور امام حسن بن زیادکے بیان کے مطابق امام اعظم نے جو احادیث بلاتکرار بیان فرمائی ہیں انکی تعداد چار ہزار ہے۔ پس امام اعظم کے بارے میں حاکمیت اور حدیث میں ہمہ دانی کا دعوی کیسے صحیح ہوگا ؟ اس کاجواب یہ ہے کہ چار ہزار احادیث کے بیان کرنے سے یہ لازم نہیں آتا کہ باقی چار سو حدیثوں کا امام اعظم کو علم بھی نہ ہو کیونکہ حسن بن زیاد کی حکایت میں بیان کی نفی ہے علم کی نہیں ۔'
خیال رہے امام اعظم نے فقہی تصنیفات میں ان احادیث کا بیان کیا ہے جن سے مسائل مستنبط ہوتے ہیں اور جن کے ذریعہ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے امت کیلئے عمل کا ایک راستہ متعین فرمایا ہے جنہیں عرف عام میں سنن سے تعبیر کیاجاتا ہے لیکن حدیث کا مفہوم سنت سے عام ہے کیونکہ احادیث کے مفہوم میں وہ روایات بھی شامل ہیں جن میں حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے حلیہ مبارکہ، آپ کی قلبی واردات ،خصوصیات ، گذشتہ امتوں کے قصص اور مستقبل کی پیش گوئیاں موجود ہیں اور ظاہر ہے کہ اس قسم کی احادیث سنت کے قبیل سے نہیں ہیں اور نہ ہی یہ احکام ومسائل کیلئے ماخذ کی حیثیت رکھتی ہیں ۔
پس امام اعظم نے جن چارہزار احادیث کو مسائل کے تحت بیان فرمایاہے وہ از قبیل سنن ہیں اور جن چارسو احادیث کو امام اعظم نے بیان نہیں فرمایا وہ ان روایات پر محمول ہیں 
جواحکام سے متعلق نہیں ہیں لیکن یہاں بیان کی نفی ہے علم کی نہیں ۔

فن حدیث میں امام اعظم کا فیضان :۔

امام اعظم علم حدیث میں جس عظیم مہارت کے حامل اور جلیل القدر مرتبہ پر فائز تھے اس کالازمی نتیجہ یہ تھا کہ تشنگان علم حدیث کا انبوہ کثیر آپ کے حلقہ درس میں سماع حدیث کیلئے حاضر ہوتا۔
حافظ ابن عبدالبر امام وکیع کے ترجمے میں لکھتے ہیں :۔ 
وکان یحفظ حدیثہ کلہ وکان قد سمع من ابی حنیفۃ کثیرا ،۔
وکیع بن جراح کو امام اعظم کی سب حدیثیں یادتھیں اور انہوں نے امام اعظم سے احادیث کا بہت زیادہ سماع کیا تھا ۔
امام مکی بن ابراہیم ،امام اعظم ابوحنیفہ کے شاگرد اورامام بخاری کے استاذ تھے اور امام بخاری نے اپنی صحیح میں بائیس ثلاثیات صرف امام مکی بن ابراہیم کی سند سے روایت کی ہیں ۔ امام صدر الائمہ موفق بن احمد مکی ان کے بارے میں لکھتے ہیں :۔
ولزم اباحنیفۃ رحمہ اللہ وسمع منہ الحدیث ۔
انہوں نے اپنے اوپر سماع حدیث کیلئے ابوحنیفہ کے درس کو لازم کرلیا تھا ۔
اس سے معلوم ہو اکہ امام بخاری کو اپنی صحیح میں عالی سند کے ساتھ ثلاثیات درج کرنے کا جو شرف حاصل ہواہے وہ دراصل امام اعظم کے تلامذہ کا صدقہ ہے اور یہ صرف ایک مکی بن ابراہیم کی بات نہیں ہے ۔امام بخاری کی اسانید میں اکثر شیوخ حنفی ہیں ان حوالوں سے یہ آفتاب سے زیادہ روشن ہوگیاکہ امام اعظم علم حدیث میں مرجع خلائق تھے ،ائمہ فن نے آپ سے حدیث کاسماع کیا اور جن شیوخ کے وجود سے صحاح ستہ کی عمارت قائم ہے ان میں سے اکثر حضرات آپ کے علم حدیث میں بالواسطہ یابلا واسطہ شاگرد ہیں ۔

فقیہ عصر شارح بخاری علیہ رحمۃ الباری تقلیل روایت کا موازنہ کرتے ہو ئے لکھتےہیں ۔

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے