Header Ads

گیہوں کا صدقۂ فطر ایک صاع یا نصف صاع؟- تحقیق وتجزیہ۔ ‏

گیہوں کا صدقۂ فطر ایک صاع یا نصف صاع؟- تحقیق وتجزیہ۔ 

(قسط اول)

اسلم نبیل ازہری پیلی بھیت

مالی عبادتوں میں سے ایک عبادت صدقۂ فطر ہے، جو عید الفطر کے موقعے پر عمل میں آتی ہے، متعدد حدیثوں سے اس کی فضیلت ثابت ہے، صدقۂ فطر کی ادائیگی کی بہت سے حکمتیں ہیں، ان میں سے دو یہ ہیں:

١-پہلی یہ کہ اس کے ذریعے روزوں میں ہونے والی کوتاہیوں کی تلافی ہوجاتی ہے۔
دوسری یہ کہ اس سے غربا ومساکین کا مالی تعاون ہو جاتا ہے جس سے ان کی عید خوشی سے گزر جاتی ہے۔
ان دونوں حکمتوں کا ذکر درج ذیل حدیث میں موجود ہے۔

صحابی جلیل ﺣﻀﺮﺕ ﻋﺒﺪﺍﻟﻠﮧ ﺑﻦ ﻋﺒﺎﺱ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ تعالی عنہما ﺳﮯ ﺭﻭﺍﯾﺖ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺭﺳﻮﻝ ﺍﻟﻠﮧ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﻧﮯ ﺻﺪﻗﮧ ﻓﻄﺮ ﺭﻭﺯﮦ ﺩﺍﺭ ﮐﯽ ﺑﯿﮑﺎﺭ ﺑﺎﺕ ﺍﻭﺭ ﻓﺤﺶ ﮔﻮﺋﯽ ﺳﮯ ﺭﻭﺯﮮ ﮐﻮ ﭘﺎﮎ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﮯ لیے ﺍﻭﺭ ﻣﺴﺎﮐﯿﻦ ﮐﻮ ﮐﮭﺎﻧﺎ ﮐﮭﻼﻧﮯ ﮐﮯ لیے ﻣﻘﺮﺭ فرمایا۔ 

{سنن ابی داؤد، حدیث نمبر:1371}

صدقۂ فطر میں اناج یا اس کی قیمت میں سے جو فائدہ مند ہو وہ دینا بہتر ہے۔

زمانۂ نبوی میں صدقۂ فطر میں گیہوں، جو، کھجور، منقی، پنیر وغیرہ غذائی اجناس دی جاتی تھیں۔

گیہوں کے علاوہ دوسری اجناس سے صدقۂ فطر کی مقدار ایک صاع ہونے میں فقہا کا اتفاق ہے، البتہ گیہوں کے سلسلے میں اختلاف ہے، جمہور فقہا بہ شمول ائمۂ ثلاثہ دوسرے غلوں کی مانند گیہوں میں بھی ایک صاع صدقۂ فطر کے قائل، لیکن گیہوں کی مقدار کے سلسلے میں امام ابو حنیفہ رضی اللہ تعالی عنہ کا جمہور فقہا سے اختلاف ہے، آپ کے نزدیک گیہوں سے صدقۂ فطر کی مقدار نصف صاع ہے۔

کچھ اہل علم حضرات نے طرفین کے دلائل کا جائزہ لیے بغیر یہ کہنا شروع کردیا کہ اس مسئلے میں جمہور فقہا کا موقف قوی اور امام ابو حنیفہ کا موقف ضعیف ہے۔

لیکن اپنی بے مائیگی کے باوجود جب ہم نے اس مسئلے کا جائزہ لیا تو معاملہ بر عکس نظر آیا، اور آفتاب نیم روز کی مانند یہ ظاہر ہوگیا کہ دوسرے درجنوں مسائل کی طرح اس مسئلے میں بھی فقہ حنفی کو دیگر مذاہب پر بالا دستی حاصل ہے۔
والحمد لله على ذلك.

ذیل میں اس مسئلے سے متعلق مختصر تجزیاتی تحریر پیش کی جاتی ہے قارئین احباب سے نیک دعاؤں اور مفید اصلاحات کی گذارش ہے۔

کھجور، جو، منقی، پنیر، وغیرہ میں صدقۂ فطر کی مقدار جمہور کی طرح احناف کے نزدیک بھی ایک صاع ہے۔

البتہ صاع کی مقدار میں جمہور اور فقہائے احناف کا اختلاف ہے؛ جمہور فقہا صاعِ حجازی کا اعتبار کرتے ہیں؛ حجازی صاع پانچ رطل اور تہائی رطل کا ہوتا ہے، فقہائے احناف کے نزدیک عراقی صاع کا اعتبار ہے؛ عراقی صاع آٹھ رطل کا ہوتا ہے۔قول مختار پر موجودہ وزن سے عراقی صاع چار (4)کلو، چورانوے(94)گرام، چونسٹھ (64)ملی گرام ہے۔

تاہم گیہوں کی مقدار میں جمہور فقہا اور احناف کا اختلاف ہے، جمہور فقہا کے نزدیک دوسری اجناس کی طرح گندم میں بھی فطرے کی مقدار ایک صاع ہے، جب کہ احناف کے نزدیک گیہوں میں نصف صاع(2/ کلو 47/ گرام 32/ ملی گرام) ہے۔ 

دلائل کی روسے احناف کا مذہب راجح اور قوی ہے؛ کیوں کہ فطرے میں گیہوں کی مقدار سے متعلق دونوں طرح  کی احادیث موجود ہیں، کچھ احادیث میں ایک صاع اور کچھ میں نصف صاع کی صراحت ہے۔ 

لیکن اصول تحقیق کی کسوٹی پر پرکھنے کے بعد یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ ایک صاع گندم والی احادیث یا تو باعتبار سند ضعیف ومردود ہیں، یا  مرفوع نہیں ہیں، جب کہ نصف صاع گندم والی احادیث صحیح بھی ہیں اور مرفوع بھی، جس سے فقہ حنفی کی بالا دستی آشکار ہوتی ہے۔

اور بعض اہل علم نے جو حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کی متفق علیہ حدیث پاک سے گندم میں ایک صاع فطرہ ثابت کرنے کی سعی بلیغ کی ہے وہ اپنے محل میں نہیں۔لہذا پہلے ہم حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ  کی حدیث پاک اور اس سے اخذ کردہ چند نتائج اور ان کا فساد ذکر کریں گے، اور آخر میں نصف صاع گندم والی احادیث کی اپنی بساط بھر تحقیق پیش کریں گے۔ واللہ الموفق، وھو المستعان۔ 

حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کی حدیث جس سے کچھ لوگوں نے ایک صاع گندم فطرہ ثابت کرنے کی کوشش کی۔

ائمۂ ستہ( بخاری، مسلم، ابو داود، ترمذی، نسائی، ابن ماجہ)نے اپنی اپنی کتب میں اختصار و تطویل کے ساتھ حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت کی، درج ذیل الفاظ صحیح مسلم کے ہیں۔ 
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں : كنا نخرج - إذ كان فينا رسول الله صلى الله عليه وسلم- زكاة الفطر عن كل صغير وكبير حر أو مملوك صاعا من طعام، أو صاعا من أقط، أو صاعا من شعير، أو صاعا من تمر، أو صاعا من زبيب، فلم نزل نخرجه حتى قدم علينا معاوية بن أبى سفيان حاجا أو معتمرا، فكلم الناس على المنبر، فكان فيما كلم به الناس أن قال: " إنى أرى أن مدين من سمراء الشام تعدل صاعا من تمر"، فأخذ الناس بذلك. قال أبو سعيد: فأما أنا فلا أزال أخرجه كما كنت أخرجه أبدا ما عشت.

ترجمہ: رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ظاہری زمانے میں اور اس کے بعدہم ہر چھوٹے، بڑے، آزاد اور غلام کی طرف سے صدقۂ فطر میں کھانے، پنیر، جو، کھجور اور کشمش میں سے ایک ایک صاع دیتے تھے، پھر جب ہمارے پاس معاویہ ابن ابی سفیان (رضی اللہ عنہما) حج یا عمرہ کرنےکی غرض سے آئے اور آپ نے ممبر پر دوران خطاب فرمایا کہ میری رائے میں دو (2)مُد، شامی گندم ایک صاع کھجور کے برابر ہیں، تو لوگوں نے آپ کی رائے پر عمل کرنا شروع کردیا، لیکن میں پوری زندگی ایک صاع گندم ہی فطرہ نکالتا رہوں گا جیسے پہلے نکالتا تھا۔ 

(صحیح بخاری "کتاب الزکاۃ "، "باب صاع من زبیب "حدیث نمبر:1508)
(صحیح مسلم "کتاب الزکاۃ "، "باب زکاۃ الفطر علی المسلمین "حدیث نمبر :985)

مذکورہ حدیث سے ماخوذ نتائج اور ان کا فساد۔ 

پہلا نتیجہ۔
 گندم میں ایک صاع فطرے کے قائل حضرات اس حدیث میں وارد لفظ " طعام " سے گندم مراد لیتے ہیں، اور اس پر علامہ خطابی کے اس قول سے استدلال کرتے ہیں کہ جب لفظ طعام مطلق بولاجائے تو اس سے گندم ہی مراد ہوتا، اور لوگ جب "اذھب إلی سوق الطعام"بولتے ہیں تو اس سے "سوق الحنطة" (گندم کا بازار)ہی مراد لیتے ہیں، لہٰذا حدیث کا مطلب یہ ہوا کہ حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ مذکورہ اشیا کے ساتھ ساتھ گندم سے بھی ایک صاع فطرہ ادا کرتے تھے۔

پہلے نتیجےکا فساد۔
ہمارے علم کی حد تک ان حضرات کا لفظ طعام سے گندم مراد لینا ضعیف اور نا قابل اعتبار ہے۔

اولا:اس حدیث میں لفظ طعام سے کیا مراد ہے، اس بارے میں علما کے متعدد نظریے ہیں، مثلا: 
(1)طعام سے مراد کھجوریں ہیں۔(2)طعام سے مراد مکئی ہے۔ 
(3)طعام سے مراد گندم ہے۔
(4)طعام عام ہے جو کھانے کی ہر قسم کو شامل ہے، حدیث میں طعام کے بعد دوسری اشیا کا ذکر اہتمام کے پیش نظر تخصیص بعد التعمیم کے قبیل سے ہے۔(5) طعام سے مراد گندم کے علاوہ دوسرے غلے ہیں۔ 

ثانیا:محقق علمائے احناف فرماتے ہیں کہ اس حدیث میں طعام سے اس کا مفہوم عام بھی مراد لیا جاسکتا ہے، البتہ طعام سے گندم کے علاوہ دوسرے غلے مراد لینا ہی از روئے تحقیق درست ہے، اس کے چند دلائل ہیں، ان میں سے دو دلیلیں درج ذیل ہیں۔

مذکورہ بالا حدیث میں "طعام" سے گندم کے علاوہ دوسرے اناج مراد ہونے پر دلائل۔

پہلی دلیل: حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی صحیح میں حضرت  ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کی مذکورہ حدیث کو اختصارا روایت کیا، آپ فرماتے ہیں: عن أبي سعيد الخدري رضي الله عنه قال : كنا نخرج في عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم يوم الفطر صاعا من طعام، وقال أبو سعيد: وكان طعامنا الشعير، والزبيب، والأقط، والتمر.

(ترجمہ) حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالی عنہ نے ارشاد فرمایا: کہ ہم نبی معظم صلی اللہ علیہ وسلم کے دور اقدس میں عید الفطر کے دن کھانے سے ایک صاع صدقہ فطر نکالتے تھے، اس وقت ہمارے کھانے جو، کشمش، پنیر، اور کھجور ہی ہوا کرتےتھے۔

(صحیح بخاری، کتاب صدقة الفطر، باب الصدقة قبل العید، حدیث:1510)

صحیح بخاری کی اس روایت سے یہ ثابت ہوگیا کہ حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کی مذکورہ بالا حدیث میں طعام کے عموم سے گندم خارج ہے۔کیوں کہ راوی حدیث حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالی عنہ نے طعام کی مراد کوخود واضح فرمادیا، اور اہل علم سے مخفی نہیں کہ راوی کی تفسیر کے بعد کسی قسم کی تاویل مسموع نہیں ہوتی، لہذایہ ثابت ہوگیا کہ حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالی عنہ فطرے میں گندم کے علاوہ دوسرے غلوں کا ایک صاع دیا کرتے تھے۔

دوسری دلیل:
مشہور محدث امام محمد بن خزیمہ علیہ الرحمۃ (م311/ھ)نے بطریق فضیل بن غزوان، حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت کی کہ:
لم تكن الصدقة على عهد رسول الله صلي الله عليه وسلم إلا التمر، والزبيب، والشعير، ولم تكن الحنطة.

ترجمہ:رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ اقدس میں صدقۂ فطر کھجور، منقی، اور جو ہی دیا جاتا تھا۔گیہوں اس وقت عام مروج نہ تھا۔
 
(صحیح ابن خزیمہ، ج 4/ص 85/ حدیث : 2406/ مطبوعہ، المکتب الاسلامی )

اس روایت سے بھی معلوم ہوا کہ حجاز مقدس میں اس وقت گیہوں عام نہیں تھا، لوگ صدقات میں دوسرے غلے دیا کرتے تھے۔

البتہ امام حاکم نے "المستدرک " میں بطریق عِیاض بن عبد اللہ، حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ سے روایت کیا کہ جب حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کے سامنے صدقہ فطر کا تذکرہ ہوا تو آپ نے فرمایا:
 لا أخرج إلا ما كنت أخرجه على عهد رسول الله صلى الله عليه و سلم صاعا من تمر، أو صاعا من حنطة، أو صاعا من شعير، أو صاعا من إقط، فقال له رجل من القوم : أو مدين من قمح، فقال : لا، تلك قيمة معاوية، لا أقبلها، و لا أعمل بها.

ترجمہ: میں فطرے میں وہی اناج نکالوں گا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں نکالتا تھا، کھجور، گندم، جو، پنیر سے ایک ایک صاع، حاضرین میں سے ایک شخص نے کہا: یا گندم سےدو مُد، تو اپ نے فرمایا: نہیں، یہ تو حضرت معاویہ کی (مقررکردہ) قیمت ہے، نہ مجھے یہ تسلیم ہے اور نہ میں اس پر عمل کرتاہوں۔

(المستدرک علی الصحیحین، ج1/ص 570/حدیث : 1495/ مطبوعہ، دار الکتب العلمیہ، بیروت)

 مگر اس روایت میں "أو صاعا من حنطة " کے الفاظ راوی کا وہم ہیں، اسی وجہ سے ان پر امام ابو داود رحمۃ اللہ تعالی علیہ(م 275/ھ)نے اپنی سنن (حدیث نمبر: 1618/) میں اور امام ابن خزیمہ نے اپنی صحیح (حدیث نمبر:2419/) میں "غیر محفوظ" ہونے کا ریمارک لگایا۔امام ابن خزیمہ کا اس لفظ کی زیادتی پر تبصرہ ملاحظہ کیجیئے:
 ذكر الحنطة في خبر أبي سعيد غير محفوظ، و لا أدري ممن الوهم. قوله: و قال له رجل من القوم :" أو مدين من قمح" إلى آخر الخبر دال على أن ذكر الحنطة في أول القصة خطأ، أو وهم. إذ لو كان أبو سعيد قد أعلمهم أنهم كانوا يخرجون على عهد رسول الله صلى الله عليه و سلم صاع حنطة، لما كان لقول الرجل : أو مدين من قمح معنى.

(ترجمہ) حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالی عنہ کی حدیث میں حِنطہ (گیہوں)کا ذکر احادیث مشہورہ کے خلاف ہے، معلوم نہیں یہ وہم کس راوی کی طرف سے ہے۔راوی کا قول :حاضرین میں سے ایک شخص نے آپ سے کہا: "یا گیہوں کے دو مُد۔۔،الخ" اس بات کی دلیل ہے کہ اس حدیث کے شروع میں گیہوں کا ذکر غلطی یا وہم ہے، کیوں کہ اگر حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالی عنہ لوگوں کو پہلے ہی سے یہ بتادیتے کہ صحابہ کرام رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں ایک صاع گندم نکالتے تھے تو سائل کے قول:"یا گیہوں سے دو مُد" کا کوئی مطلب ہی نہیں رہ جاتاہے۔

دوسرا نتیجہ۔
 کچھ لوگ حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کی روایت سے یہ نتیجہ اخذ کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ نصف صاع گندم سے متعلق  کوئی مرفوع حدیث نہیں ہے؛ اس لیے کہ اگر کوئی مرفوع حدیث ہوتی تو امیر معاویہ رضی اللہ عنہ فطرے میں نصف صاع گندم متعین کرتے وقت ضرور ذکر فرماتے اور یہ نہ کہتے کہ"إني أري"( میری رائے یہ ہے۔۔الخ۔)۔ کیوں کہ نص کے ہوتے ہوئے رائے واجتہاد کی گنجائش نہیں ہوتی، یونہی اگر حدیث مرفوع ہوتی تو حضرت ابو سعید خدری، حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہما کے فتوے کی مخالفت نہ کرتے۔

دوسرے نتیجےکا فساد۔
 ممکن ہے کہ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ یا حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کو نصف صاع گیہوں والی حدیث نہ پہنچی ہو، تاہم آپ حضرات تک کسی حدیث کے نہ پہنچنے سے ہرگز یہ لازم نہیں آتا کہ نفس الامر میں اس حدیث کا وجود ہی نہیں، اسی لیے علما فرماتے ہیں کہ:" عدم وجود، وجود عدم کو مستلزم نہیں"، کتنے ہی صحابہ کرام ایسے ہیں جنھیں کچھ حدیثیں نہیں پہنچ سکیں، بلکہ یوں کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ ساری احادیث تو حضرات خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم کو بھی نہیں پہنچیں، جب کہ دیگر صحابہ کرام کو پہنچ گئیں تھیں، لیکن اس سے ان مقدس ہستیوں کی علمی جلالت پر کوئی فرق نہیں پڑے گا، کیوں کہ مجتہد کے لیے تمام احادیث کا احاطہ کرنا ضروری نہیں ہے۔ 

چناں چہ خلیفہ اول حضرت صدیق اکبر رضی اللہ تعالی عنہ کو ابتدا میں میراث جدہ کی روایت نہ پہنچنا۔
خلیفہ دوم حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ کو گھر میں داخل ہونے کے لیے تین بار اجازت مانگنے کے بعد اجازت نہ ملنے پر واپس ہوجانے والی حدیث موصول نہ ہونا۔
خلیفہ سوم حضرت عثمان ذوالنورین رضی اللہ تعالی عنہ کا شوہر کے گھر عدت گذارنے سے متعلق ہم شیرۂ حضرت ابو سعید خدری، فریعہ بنت مالک رضی اللہ  تعالی عنہا کی حدیث پر اطلاع نہ پانا۔
خلیفہ چہارم مولائے کائنات حضرت علی شیر خدا کرم اللہ تعالی وجہہ الکریم کو حاملہ کی عدت وضع حمل ہونے کے حوالے سے حضرت سُبیعہ بنت حارث اسلمیّہ کی حدیث کا نہ پہنچنا اسی قبیل سے ہے؛ کہ واقع میں یہ احادیث موجود تھیں مگر دوسرے مہتم بالشان امور میں مصروفیت کے سبب ان حضرات قدسیہ تک تاخیر سے پہنچیں ۔

لہٰذا اگر حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ یا دوسرے صحابہ کرام کو نصف صاع گندم والی حدیث نہیں پہنچ سکی تو اس کایہ مطلب  ہرگز نہیں کہ اس تعلق سے حدیث ہے ہی نہیں، اگر تھوڑی سی بھی توجہ دی جاتی تو کئی مرفوع اور غیر مرفوع احادث مل جاتیں۔

غالباً اس وقت نصف صاع گیہوں والی حدیث کے مشہور نہ ہونے کا ایک سبب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اس وقت حجاز شریف میں گیہوں عام نہیں تھا، بعد میں زمانہ امیر معاویہ رضی اللہ میں عام ہوا، اس وقت چند ہی لوگ گیہوں استعمال کرتے تھے، ان کے یہاں دوسرے غلے جیسے کھجور، جو، منقی وغیرہ کا چلن تھا، جیسا کہ حضرت ابو سعید رضی اللہ عنہ کا ارشاد مبارک صحیح بخاری کے حوالے سے اوپر گذرا۔

(جاری)۔۔

٢١/اپریل ٢٠٢١ء

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے