حیات حضور تاج الشریعہ کے چند تابندہ نقوش
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
*تحریر*:✍️
محمد رجب علی مصباحی،گڑھوا ،جھارکھنڈ
رکن:مجلس علماے جھارکھنڈ
➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖
اس خاکدان گیتی پر روزانہ انگنت اور بے شمار افراد جنم لیتے ہیں اور اپنی زندگی کی مقررہ میعاد پوری کرکے داعی اجل کے حضور لبیک بول کر اس دارفانی کو الوداع کہ جاتے ہیں۔اگر انہوں نے اس عالم رنگ و بو میں کسی بھی شعبے میں نمایاں خدمات انجام دیا ہے تو تاریخ کے پنے انہیں مدت مدید تک مقید کرلیتے ہیں ورنہ صفحہ ہستی سے مٹ جایا کرتے ہیں۔آپ تاریخ کے اوراق کا مطالعہ کریں گے تو معلوم ہوگا کہ جہاں ایک طرف ایسے افراد بھی ہیں جو دنیاوی نظم و نسق اور اس کے فلاح و بہبود میں اپنی زندگی صرف کی اور دنیادار کا لبادہ اوڑھے دنیا کو خیرآباد کہا وہیں کچھ ایسے اشخاص بھی ہیں جنہوں نے اپنی قیمتی زندگی دین و سنیت کے فروغ و استحکام اور اسلام کی تبلیغ و اشاعت میں صرف کی اور حیات اخروی کو سجانے سنوارنے میں ہمہ دم کوشاں رہے اور دین کا علم بردار بن کر دنیا سے رخصت ہوئے،آخر الذکر افراد کا تذکرہ بار بار ہوتا ہے اس لیے کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے :فَاذْكُرُوْنِیْۤ اَذْكُرْكُمْ وَ اشْكُرُوْا لِیْ وَ لَا تَكْفُرُوْنِ۠(البقرۃ :۱۵۲)
تو میری یاد کرو میں تمہارا چرچا کروں گا اور میرا حق مانو اور میری ناشکری نہ کرو۔(کنزالایمان)
ہندوستان کی سرزمین پر بھی بہت عبقری شخصیات نے جنم لیا اور اپنے وجود مسعود سے شجر اسلام کی خوب آب یاری کی اور اسے سرسبز و شاداب کیا انہیں عبقری شخصیات میں ایک ذات بابرکات سیدی و مرشدی جانشین مفتی اعظم ہند،قاضی القضاۃ فی الہند،تاج الشریعہ حضرت علامہ مفتی اختر رضا خاں ازہری معروف بہ"ازہری میاں"علیہ الرحمہ و الرضوان کی ہے۔آپ جہاں گوناگوں اوصاف و کمالات کے حامل اور مختلف علوم و فنون کے حسین امتزاج تھے وہیں زہد و تقوی کے جبل شامخ اور علم و عمل کے بحر بیکراں تھے۔آپ کے اخلاق و کردار،گفتار و رفتار،نشست و برخاست اسوۂ حسنہ کے آئینہ دار تھے۔اللہ رب العزت نے آپ کو ذہانت و فطانت جیسی عظیم نعمت سے نوازا تھا آپ جہاں ایک بے مثال فقیہ و محدث تھے وہیں ایک عدیم النظیر مفسر و مدبر تھے۔آپ کی حیات مبارکہ پر قلم فرسائی کی جرأت اس کم علم کو کہاں تاہم اپنی کوتاہ علمی اور بے مائیگی کے اعتراف کے باوجود چند اہم گوشے کو اجاگر کرنے کی سعی محمود کی ہے اس امید کے ساتھ کہ"گر قبول افتد زہے عز و شرف"۔
*ولادت با سعادت:*
آپ کی ولادت با سعادت کاشانہ رضا محلہ سوداگراں بریلی شریف میں ١٤/ذی قعدہ ١٣٦١ھ مطابق ٢٣/نومبر ١٩٤٢ء بروز منگل ہوئی۔(سوانح تاج الشریعہ،ص:١٠)
*نام و نسب:*
آپ حضور مفسر اعظم ہند حضرت علامہ محمد ابراہیم رضا خان علیہ الرحمہ کے فرزند ارجمند ہیں۔خاندانی دستور کے مطابق آپ کا پیدائشی نام"محمد" رکھا گیا،چوں کہ آپ کے والد ماجد کا نام ابراہیم رضا اس نسبت سے آپ کا نام"اسماعیل" منتخب ہوا، عرفی نام "اختر رضا" ہےاور اسی نام سے دنیاے اسلام میں مشہور و معروف ہوئے۔آپ شاعری کی دنیا میں اپنا تخلص" اختر" رکھتے ہیں،"قادری" مشربا اور "ازہری" علما نام کے آگے تحریر کرتے ہیں، آپ افغانی النسل ہیں۔آپ کا شجرہ نامہ کچھ اس طرح ہے:
*شجرۂ پدری:*
تاج الشریعہ مفتی محمد اختر رضا بن مفسر اعظم ہند محمد ابراہیم رضا خان علیہ الرحمہ بن حجۃ الاسلام محمد حامد رضا علیہ الرحمہ ابن امام اہل سنت اعلی حضرت مفتی محمد احمد رضا خان بن خاتم المتکلمین مفتی محمد نقی علی خان علیہ الرحمہ الخ۔
*شجرۂ مادری:*
تاج الشریعہ مفتی محمد اختر رضا خان بن نگار فاطمہ عرف سرکار بیگم بنت مفتی اعظم ہند مفتی محمد مصطفی رضا علیہ الرحمہ ابن اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان علیہ الرحمہ الخ۔(حیات اعلیٰ حضرت، ج:١،ص:١٠٣،برکات رضا، پوربندر، گجرات)
*تعلیم و تربیت:*
آپ کو آپ کے والد ماجد نے روحانی و جسمانی، ظاہری و باطنی ہر طرح کی تربیت سے آراستہ و پیراستہ فرمایا یہی وجہ ہے کہ آپ رشد و ہدایت کے بلند منارہ پر فائز رہے اور آپ کی ذات عوام تو در کنار علما کے لیے بھی مشعل راہ بنی رہی۔جب آپ کی عمر شریف چار سال، چار ماہ، چار دن کی ہوئی تو آپ کے والد ماجد نے دار العلوم منظر اسلام کے اساتذہ کو مدعو کرکے رسم تسمیہ خوانی ادا کی۔آپ اپنے والد ماجد سے ناظرہ قرآن کے علاوہ ابتدائی کتابوں کا درس لیا بعدہ منظر اسلام میں داخلہ لے کر محنت و لگن اور جد و جہد کے ساتھ مروجہ درس نظامی کی تکمیل یہیں سے فرمائی۔ آپ چونکہ اعلی ذہانت و فطانت کے مالک تھے جس کا اعتراف ہم عصر علما اور خود آپ کے اساتذہ نے کیا اور انہیں کی اصرار پر ١٩٦٣ء میں مشہور یونیورسٹی جامعۃ الازہر، قاہرہ،مصر میں اعلی تعلیم کی حصول یابی بالخصوص زبان و ادب پر مہارت تامہ حاصل کرنے کے لیے تشریف لے گیے اور "کلیۃ اصول الدین" میں داخلہ لے کر اصول قرآن و احادیث پر ریسرچ فرمائی اور عربی ادب کو مضبوط کیا۔(مارہرہ سے بریلی تک،ص:١٨٤،رضا اکیڈمی، ممبئی)
*اساتذہ کرام:*
آپ کے اساتذہ کرام کی تو ایک لمبی فہرست ہے مگر یہاں انہیں اساتذہ کے اسما ذکر کیے جاتے ہیں جن سے آپ نے خاص اکتساب علم و فضل کیا اور جن سے بھر پور استفادہ فرمایا۔
( ١)حضور مفتی اعظم ہند مفتی محمد مصطفی رضا نوری علیہ الرحمہ
( ٢)مفسر اعظم ہند حضرت مولانا ابراہیم رضا علیہ الرحمہ
( ٣)مفتی محمد افضل حسین مونگیری ثم پاکستانی علیہ الرحمہ
( ٤)حضرت والدہ ماجدہ نگار فاطمہ عرف سرکار بیگم علیہا الرحمہ
( ٥)حضرت مولانا حافظ محمد انعام اللہ خاں تسنیم حامدی، بریلی
(٦)حضرت مولانا شیخ محمد سماحی، شیخ الحدیث و التفسير، جامعہ ازہر، مصر
( ٧)حضرت مولانا شیخ عبد الغفار،شیخ الحدیث، مصر
( ٨)حضرت مولانا عبد التواب مصری، شیخ الادب،منظر اسلام، بریلی
( ٩)حضرت مفتی محمد تحسین رضا خاں،جامعۃ الرضا،بریلی شریف
( سوانح تاج الشریعہ ،ص:٢٧)
*درس و تدریس:*
جامعۃ الازہر،مصر سے مختلف علوم و فنون میں مہارت تامہ اور کامل درک حاصل کرکے واپسی کے بعد ١٩٦٧ء میں دار العلوم منظر اسلام میں بحیثیت مدرس آپ کا تقرر ہوا جہاں آپ نے تدریسی خدمات کا باضابطہ آغاز فرمایا اور جہد مسلسل،محنت پیہم اور کامل انہماک کے ساتھ طالبان علوم نبویہ کی علمی نشنگی بجھاتے رہے یہاں تک کہ ١٩٧٨ء میں آپ صدر المدرسین کے عہدے پر فائز ہوئے۔ آپ کی لگن اور دھن کو دیکھتے ہوئے منظر اسلام کا *دار الافتا* بھی آپ کے سپرد ہو گیا اور لوگوں کے استفتا کا کاشفی وکافی شرعی حل فرماتے رہے لیکن کثرت مصروفیات اور دینی امور کی بار گراں کی وجہ سے یہ سلسلہ عرصہ دراز تک نہ چلا اور تقریباً ١٩٨٠ء میں منظر اسلام سے علا حدہ ہو گئے مگر آپ نے درس وتدريس،تصنیف و تالیف اور تعریب و ترجمہ کا کام متاثر نہ ہونے دیا۔(ماہ نامہ سنی دنیا،بریلی شریف،شمارہ جنوری 2012،ص:١٦)
*علوم و فنون میں مہارت:*
حضور تاج الشریعہ علیہ الرحمہ جن علوم میں کامل درک اور نبوغ تام رکھتے تھے وہ درج ذیل ہیں:
( ١)علوم قرآن(٢)علم حدیث (٣)اصول تفسیر (٤)اصول حدیث (٥)اسماء الرجال(٦)فقہ حنفی(٧)فقہ مذاہب اربعہ(٨)اصول فقہ(٩)علم کلام(١٠)علم صرف(١١)علم نحو(١٢)علم معانی (١٣)علم بدیع (١٤)علم بیان(١٥)علم منطق (١٦)علم فلسفہ قدیم و جدید (١٧)علم مناظرہ (١٨)علم الحساب(١٩)علم ہندسہ (٢٠)علم ہیئت (٢١)علم تاریخ (٢٢)علم مربعات (٢٣)علم عروج وقوافی (٢٤)علم تکسیر (٢٥)علم جفر (٢٦)علم فرائض (٢٧)علم توقیت (٢٨)علم تقویم (٢٩)علم تجوید و قراءت (٣٠)علم ادب (٣١)علم زیجات (٣٢)علم خطاطی (٣٣)علم جبر و مقابلہ (٣٤)علم تصوف (٣٥)علم سلوک (٣٦)علم اخلاق۔(سوانح تاج الشریعہ،ص:٣٧)
*بیعت و ارادت:*
حضور تاج الشریعہ کو بچپن ہی میں حضور مفتی اعظم ہند علیہ الرحمہ و الرضوان نے اپنے حلقہ ارادت میں داخل فرمالیا تھا۔آپ خود رقم طراز ہیں:"میں بچپن سے ہی حضرت(مفتی اعظم ہند علیہ الرحمہ سے داخل سلسلہ ہو گیا ہوں "اور تقریبا ٢٠ /سال مفتی اعظم ہند علیہ الرحمہ نے ١٥/جنوری ١٩٦٢ء مطابق ٨/شعبان ١٣٨١ھ میں وقت کے اجلہ اکابرین و اسلاف کی موجودگی میں محفل میلاد منعقد کرکے خلافت و اجازت بھی عطا کر دی۔(سوانح تاج الشریعہ،ص:٤٧)
علاوہ ازیں آپ کو خلیفہ اعلیٰ حضرت برہان ملت حضرت مفتی برہان الحق جبل پوری علیہ الرحمہ،سید العلما حضرت سید شاہ آل مصطفیٰ برکاتی مارہروی،احسن العلما حضرت سید حیدر حسن میاں برکاتی،والد ماجد مفسر اعظم ہند علامہ مفتی محمد ابراہیم رضا خان قادری علیہ الرحمہ سے بھی جمیع سلاسل کی اجازت و خلافت حاصل ہے۔(تجلیات تاج الشریعہ،ص:١٤٩)
*زیارت حرمین شریفین:*
آپ متعدد بار عمرہ اور زیارت روضہ رسول کے علاوہ چھ بار حج بیت اللہ کا شرف حاصل کیا جن کی تفصیل یہ ہے:
*پہلاحج*:١٤٠٣ھ مطابق ٤/ستمبر ١٩٨٣ء
*دوسرا حج*:١٤٠٥ھ مطابق ١٩٨٦ء
*تیسراحج*:١٤٠٦ھ مطابق ١٩٨٧ء
*چوتھا حج*:١٤٢٩ھ مطابق ٢٠٠٨ء
*پانچواں حج*:١٤٠٣ھ مطابق ٢٠٠٩ء
*چھٹا حج*:١٤٣١ھ مطابق ٢٠١٠ء(سوانح تاج الشریعہ،ص:٥٣)
*تصانیف و تراجم:*
حضور تاج الشریعہ علیہ الرحمہ اپنے جد امجد مجدد دین و ملت سیدنا اعلیٰ حضرت رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے مظہر اتم اور پرتو کامل تھے۔آپ میدان تحریر و قلم میں بھی اعلیٰ حضرت کا عکس جمیل نظر آتے ہیں،آپ کی تصانیف و تحقیقات مختلف علوم و فنون پر مشتمل ہیں ۔تحقیقی انداز،مضبوط طرز استدلال،کثرت حوالہ لات،سلاست و روانی آپ کی تحریر کو شاہکار بناتی ہے۔آپ علوم اعلیٰ حضرت کے سچے جانشین تھے یہی وجہ ہے کہ آپ نے اردو، عربی، انگریزی زبان میں کتابیں تصنیف کرنے کے ساتھ ساتھ متعدد کتابوں کو تعریب و ترجمہ اور تعلیقات و حواشی سے مزین فرمایا۔آپ کے نوک قلم سے جن کتابوں کا وجود مسعود ہوا ان میں سے چند یہ ہیں:
ٹائی کا مسئلہ،تین طلاقوں کا حکم،الحق المبین،تصویروں کا حکم،الصحابہ نجوم الاھتداء،الفردہ فی شرح قصیدۃ البردہ،شرح حدیث الاخلاص، المواھب الرضویہ فی الفتاوی الازھریہ، سفینۂ بخشش،ازہر الفتاوی،آثار قیامت، رویت ہلال،افضلیت صدیق اکبر و فاروق اعظم، چلٹی ٹرین پر نماز کا حکم،نغمات اختر،وغیرہ
*آپ کے کار نامے*
یوں تو آپ کی ذات مجمع البحرين تھی وقت کے جید علما و فضلا نے آپ کی بارگاہ میں زانوئے تلمذ طے کیا اور آپ کے علم و فضل سے لاتعداد علماے عرب و عجم نے استفادہ فرمایا۔آپ جہاں اپنی علمی جواہر پاروں سے بے شمار لوگوں کو رشد و ہدایت اور راہ راست پر گامزن فرمایا وہیں دشمنان اسلام اور اعداے دین کی قلع قمع کی۔ رب تعالیٰ نے آپ کو حق گوئی و بے باکی کا نایاب تحفہ بھی عطا فرمایا تھا جس کے ذریعہ آپ نے مخالفین کا ڈٹ کر مقابلہ فرمایا اگر چہ وقت کا وزیر اعظم ہی کیوں نہ ہو اور احقاق حق و ابطال باطل کا مظاہرہ فرمایا جیسا کہ نسبندی کے خلاف فتوی نویسی،مزارات پر عورتوں کی حاضری کا ممانعتی پیغام،تحفظ پرسنل لا کی تحریک، بابری مسجد کے تئیں جد و جہد اور حالات حاضرہ کے شرعی تقاضے کی شانداد رہنمائی وغیرہ قابل فخر کارنامے ہیں۔ان کے علاوہ آپ نے متعدد ادارے قائم کرکے امت مسلمہ پر احسان عظیم فرمایا جو آج بھی دین و سنیت کے کاموں میں مصروف عمل ہیں،جن اداروں کو آپ نے وجود بخشا وہ درج ذیل ہیں :
( ١)مرکز الدراسات الاسلامیہ جامعۃ الرضا، (٢)مرکزی دارالافتا(٣)مرکزی دار القضا (٤) شرعی کونسل آف انڈیا (٥)ازہری مہمان خانہ (٦)ازہری گیسٹ ہاؤس۔
اس کے علاوہ ہند و بیرون ہند کی مختلف تنظیموں،تحریکوں،اداروں،مکتبوں اور فلاحی و ملی سوسائیٹیوں اور ٹرسٹوں کی سرپرستی فرمائی۔کچھ کے اسما درج ذیل ہیں :
اختر رضا لائبریری،پاکستان
مرکزی دارالافتا،ہالینڈ
رضا اکیڈمی، ممبئی
جامعہ مدینۃ الاسلام،ہالینڈ
الانصار ٹرسٹ، بنارس
الجامعۃ الاسلامیہ،رامپور
الجامعۃ النوریہ،قیصر گنج،بہرائچ
الجامعۃ الرضویہ،مغل پورہ،پٹنہ
مدرسہ عربیہ غوثیہ حبیبہ،برہان پور، ایم، پی
مدرسہ اہل سنت گلشن رضا،دھنباد
مدرسہ فیض رضا،کولمبو، سری لنکا
سنی رضوی جامع مسجد،نیو جرسی،امریکہ
مدرسہ فیض العلوم،جمشید پور، جھارکھنڈ
جامعہ امجدیہ،ناگپور
مدرسہ رضاء العلوم،بمبئی
مدرسہ غوثیہ جشن رضا،گجرات
دار العلوم قریشیہ رضویہ،گوہاٹی،آسام
مدرسہ تنظیم المسلمین،بائسی،پورنیہ،بہار
النور سوسائٹی و مسجد،ہوسٹن ،امریکہ
( سوانح تاج الشریعہ،ص:٧٥،٧٦)
*انتقال پر ملال:*
جس کے علمی سمندر میں بڑے سے بڑے جید علما و فضلا،صاحب فقہ و افتا،بادشاہ تحریر و قلم غوطہ زن ہو کر اپنی علمی،عملی و اخلاقی تشنگی بجھا رہے تھے وہ علم کا کوہ ہمالہ یعنی سیدی و مرشدی حضور تاج الشریعہ علیہ الرحمہ و الرضوان ٢٠/جولائی ٢٠١٨ء مطابق ٦/ذی قعدہ ١٤٣٩ھ بروز جمعۃ المبارک ہم سب کو روتا بلکتا چھوڑ کر اپنے مالک حقیقی سے جا ملے۔انا للہ وانا الیہ راجعون
ابر رحمت ان کے مرقد پہ گہر باری کرے
حشر تک شان کریمی ناز برداری کرے
ہو سکے تو دیکھ اختر باغ جنت میں اسے
وہ گیا تاروں سے آگے آشیانہ چھوڑ کر
رب تعالیٰ ان کے فیوض و برکات سے ہم سب کو مستفض فرمائے اور ان کے درجات کو بلند تر فرمائے ۔آمین ثم آمین بجاہ سید المرسلین علیہ الصلاۃ و التسليم
0 تبصرے
اپنا کمینٹ یہاں لکھیں