حضور تاج الشریعہ رحمہ اللہ کی شان عبقریت
محمد روشن رضا مصباحی ازہری
گڑھوا ،جھارکھنڈ
سب سے پہلے میں جملہ مسلمانانِ عالم و عاشقانِ حضور تاج الشریعہ علیہ الرحمہ والرضوان کی بارگاہ میں ان کے سالانہ "عرس ازہری " کے پر بہار موقع پر دل کی اتھاہ گہرائیوں سے مبارک باد پیش کرتا ہوں.
اللہ جل مجدہ الکریم نے اس ارض گیتی پر آباد بنی نوع انسان کو راہ مستقیم کی رہبری اور پوری انسانیت کو خدائے واحد کی شان وحدانیت سے آشنا کرانے کے لیے انبیاء کرام علیہم السلام کی پاکیزہ جماعت کو مبعوث فرمایا، اور اس مقدس جماعت نے دعوت و ارشاد و اشاعت دین الہی اور لوگوں کے اذہان و افکار کو معبودان باطل سے مبذول کرکے ایک ذات خدا پر مرکوز کرانے میں اپنی توانائی صرف فرمائیں جس کے نتیجے میں جہاں انسان کو انسانیت کے مفاہیم و معانی سے آشنائی ہوئی وہیں ان کے اوپر اخلاقی اقدار کی قدر و منزلت کے اسرار و رموز بھی منکشف ہوے الغرض انہیں زندگی گزارنے کا سلیقہ میسر آیا. پھر جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد کے بعد باب نبوت بند ہوگیا تو یہی ذمہ داری اللہ نے اولیاء کرام کو تفویض فرمائی، اور اس زمین پر لاکھوں اہل اللہ جلوہ گر ہوئے اور اپنی علمی و روحانی استعداد سے خلق خدا کو کفر و ضلالت و ظلم و جہالت کے اندھیروں سے نکال کر ایمان و اسلام و علم و فضل کے نوری شاہراہ پر گامزن فرمایا اور یہ سلسلہ تاقیام قیامت جاری رہے گا،جب جب امت کو کسی رہنما کی حاجت ہوگی اللہ کسی نہ کسی مرد قلندر کو بھیج کر ان کے تذکیہ قلب و تصفیہ نفس کا انتظام فرمائے گا، بے شمار اہل اللہ آے اور اپنی نظر ولایت سے گم گشتگان راہ کو منزل کی طرف گامزن کرکے اس جہان فانی سے کوچ کر گئے مگر اس زمین پر آنے والی کچھ ایسے معزز و پاکیزہ نفوس و نابغہ روزگار ہستیاں ہیں جنھوں نے اپنی حیات ظاہری کے ہر ہر لمحہ کو خلق خدا کے رشد و ہدایت اور ان کو جہالت و ضلالت کے گھٹاٹوپ اندھیرے سے نکال کر علم و ہدایت کے نوری شاہراہ پر گامزن کرنے میں جادہ پیمائی کرتے رہے، قوم و ملت کی بقا اور نئی نسلوں میں دین و شریعت کی روح پھونکنے کے لیے مسلسل کوشاں رہے، اور اپنی زندگی کی ہر سانس کوقوم مسلم کے سیدھے سادھے افراد کو دیگر فرقہاے باطلہ کی ریشہ دوانی و دام تزویر سے بچانے کے لیے وقف فرمادیا.
انھیں عظیم الشان و نابغہ روزگار و متعدد خصائص و مميزات کی حامل شخصیات میں ایک نام عہدحاضرکی لائق صدتکریم ذات اورقدم قدم پرعقیدتوں کے پھول نچھاو رکئے جانے والی عظیم شخصیت "، وارث علو م اعلیٰ حضرت، نبیرۂ حضورحجۃ الاسلام، جانشین حضورمفتی اعظم ہند، جگرگوشۂ مفسراعظم، شیخ الاسلام والمسلمین، قاضی القضاۃ، تاج الشریعہ، حضرت علامہ الحاج الشاہ مفتی محمداختررضاخان ازہری رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی ہے.
جن کی زندگی کاایک ایک لمحہ اورحیات مقدسہ کی ایک ایک ساعت سرمایۂ سعادت اوردولتِ افتخار ہے۔ جن کی ساری عمر دین اسلام کے آفاقی پیغام کو نشر کرتے اورطریقت کی راہ مستقیم سے آشنا کراتے گزری، جن کی زندگی کاایک ایک عمل شریعت کی میزان اورطریقت کی ترازو پرتولاہواتھا.
تصلب فی الدین اور شریعت کی پابندی و سنت رسول کی پاسداری تو کوئی ان سے سیکھے جب سے ہوش و خرد کی منزل میں قدم رکھا اس دم سے تادم حیات عشق رسول و سنت رسول کو ہی اپنا نصب العین سمجھا، اور اللہ نے ایسی ذہانت و فطانت کی دولت سے سرفراز فرمایا تھا کہ آپ جس میدان میں اترے اس میدان کے شہسوار کہلائے، فن درس و تدریس ہو کہ فن وعظ و ارشاد، مجال فقہ و افتا ہو کہ فن شعر و شاعری ہر محاذ پر ناقابل فراموش و انمٹ نقوش مرتب فرمائے، اللہ نے آپ کو وہ قلم سیال عطا کیا تھا کہ جس سے معرض وجود میں آنے والی لازوال تحریر کے سامنےفریق مخالف کے بڑے بڑے آشیانے بھی تار عنکبوت نظر آتے ہیں ، آپ نے اپنے جد امجد کے کلک رضا کو ایسے گردش میں لایاکہ دور جدید کے تمام تر مفاسد و فتن کا قلع قمع بھی فرمایا اور امت کے دلوں میں عشق رسول کی ایسی شمع روشن کی کہ آج ہر عقیدت مند کا سینہ عشق رسول کا مدینہ نظر آتا ہے.
یقیناً اللہ کا خاص فضل اور خاص عنایت تھی آپ پر کہ آپ کی شخصیت میں ایسی جاذبیت و کشش تھی کہ جدھر بھی چلے جاتے خلق خدا کا ایک ہجوم دیدار کو امنڈ آتا، کسی سنسان بستی سے بھی آپ کا گزر ہوجائے تو کیا اپنے کیا بیگانے سبھی اکتساب فیض کے لیے کشاں کشاں چلے آتے.
مجھے یاد آتا ہے کہ بنارس کی سرزمین تھی اور میں اس وقت ضیاء العلوم خیر آباد مئو کا طالب علم ہوا کرتا تھا، مئو اور بنارس کی مسافت تقریباً /١١٦ کلو میٹر ہے، یقین جانیں آپ جب یہ خبر ملی کہ شہر بریلی کا وہ مرد مجاہد و مرد حق آگاہ، شریعت و طریقت ایک سنگم اور زہد و تقوی کا ایک جبل شامخ جو امام احمد رضا کے علم کا وارث اور حضور مفتی اعظم ہند کا چہیتا آرہا ہے تو سینکڑوں طلبہ اور ہزاروں عوام مئو سے بس ایک جھلک دیکھنے کے لیے پا بہ رکاب ہوئے اور جب بنارس میں رسائی ہوئی تو دیکھا کہ ریلوے اسٹیشن سمیت بنارس کے ہر کوچے اور ہر گلی میں بس ایک ہی شور تھا کہ آج حضور ازہری میاں صاحب کی زیارت ہوگی اور ہر لب پر بس یہی شعر تھا.
مفتی اعظم کا ذرہ کیا بنا اختر رضا
محفل انجم میں اختر دوسرا ملتا نہیں.
اور اس قدر بھیڑ کہ قدم رکھنے کی جگہ نہ تھی جیسے تیسے اس جلسہ گاہ تک پہونچے، رات کے تقریباً ایک بجے علم و فن کا یہ شہسوار اپنے تمام تر علمی و روحانی فیض لیے برسر اسٹیج ہوا. وہیں پر یہ آنکھیں بھی شرف زیارت سے مشرف ہوئیں اور جب پہلی نظر پڑی ہے اس رخ منور پر تو گویا ایک آواز آئی.
دیکھنے والو جی بھر کے دیکھو ہمیں
پھر نہ کہنا کہ اختر رضا چل دیے.
اس منظر کے بعد دل نے کہا کہ اس سے بہتر موقع نہیں ملے گا، دے دے اپنا ہاتھ اس ولی صفت، مرد حق آگاہ کے ہاتھ میں، کیوں کہ ان کی نسبت اس دنیا میں تو کام آئے گی ہی بعد موت آخرت میں بھی یاوری کرتی نظر آئے گی. پھر کیا تھا میں بھی اپنی کم عمری ہی میں ہزاروں متلاشی فیض کے ساتھ آپ کے دست حق پرست پر بیعت ہوگیا اور آپ لاکھوں مریدین کی فہرست میں میری بھی شمولیت ہوگئی. اور آج ناز ہے مجھے اپنے اس مرشد برحق پر کہ جن کی ایک نظر نے لاکھوں افراد کے عقائد و نظریات کی حفاظت کرلی.
آپ شعر و سخن کے اس عظیم سنگھاشن پر متمکن تھے کہ آپ کی نعتیہ شاعری کے ہر لفظ سے عشق و عقیدت و محبت کے گوہر آب دار ٹپکتے ہیں،
آپ کو اللہ عزوجل نے وہ ملکہ تامہ و کامل استعداد عطا فرمایا تھا کہ آپ کے رشحات قلم سے مختلف مضامین پر متعدد تصانیف معرض وجود میں آئیں اور رہتی دنیا تک امت مسلمہ کا ہر فرد اپنی علمی تشنگی بجھاتا رہے گا.
اور کیسا جاں دوز و جاں سوز تھا وہ لمحہ جب اسی آنکھ سے آپ کے وصال کی خبر پڑھی اور یہ خبر پڑھتے ہی برجستہ آنکھیں برسنے لگیں، کیوں کہ دل و دماغ اس بات کو ماننے کے لیے تیار ہی نہیں تھے اور ان دنوں میں جامعہ ازہر شریف، قاہرہ مصر میں میں زیر تعلیم تھا، بہت سے احباب نے اس روح فرسا خبر کی تصدیق کی تو مزید اشک رواں ہوگئے ایک تو اس غم میں کہ میں دیار مرشد سے باہر ہوں، آپ کے جنازہ میں شریک ہونے سے بھی قاصر تھا پھر خیال آیا "مرضی مولی از ہمہ اولی" اللہ کی رضا پر راضی رہنا ہی میرے مرشد کی تعلیم ہے، پھر کلمہ استرجاع پڑھا اور آپ کے درجات کی بلندی کے لیے رب کی بارگاہ میں التجائیں کی.
آپ اگر چہ ہماری نظروں سے اوجھل ہیں مگر آپ کی تعلیمات، آپ کے فرمودات، آپ کے پاکیزہ نقوش قدم قدم پر ہماری رہنمائی کرتے نظر آتے ہیں. جبھی تو کہتا ہوں. ع
خدا کی رحمتیں ہوں اے امیر کارواں تجھ پر
فنا کے بعد بھی باقی ہے شان رہبری تیری.
آج ہم سب کی مشترکہ ذمہ داری ہے کہ تعلیمات تاج الشریعہ سے اقوام عالم کو شناسا کرایا جائے اور ان کے آفاقی پیغام کو چہار دانگ عالم میں نشر کیا جائے.
اخیر میں بارگاہ صمدیت میں دعا گو ہوں کہ رب قدیر! آپ کے مرقد انور پہ رحمتوں کی بھرن برسائے اور آپ کے فیوض و برکات سے ہم سب کو شادکام فرمائے.
ع
ابر رحمت تیری مرقد پہ گہر باری کرے
حشر تک شان کریمی ناز برداری کرے.
✍️محمد روشن رضا مصباحی ازہری رکن :مجلس علمائے جھارکھنڈ
0 تبصرے
اپنا کمینٹ یہاں لکھیں