📚 « مختصــر ســوانح حیــات » 📚
-----------------------------------------------------------
🕯شیخ ابوالحسن نوری رحمۃ اللّٰه علیہ🕯
➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖
نام و نسب:
اسم گرامی: احمد۔
کنیت: ابوالحسن۔
لقب: نوری۔ ’’شیخ ابوالحسن نوری‘‘ کے نام سے معروف ہیں۔
سلسلہ نسب اس طرح ہے: شیخ احمد بن محمد بن الفتوری علیہم الرحمہ۔
آپ کے والد ماجد بغشور افغانستان کے رہنے والے تھے۔ جو ہرات اور مرو کے درمیان کا علاقہ ہے۔ پھر افغانستان سے بغداد کی طرف ہجرت فرمائی۔
نوری کہنے کی وجہ تسمیہ: آپ کو نوری اس لیے کہا جاتا ہے کہ رات کی تاریکی میں گفتگو فرماتے تو منہ سے نور کی کرنیں ظاہر ہوتیں، جن سے سارا ماحول روشن ہوجاتا تھا۔ آپ نورِ کرامت سے لوگوں کے دلوں کے حالات معلوم کر لیتے، آپ صحراء میں ایک خانقاہ میں رہا کرتے تھے، لوگ آپ کی زیارت کو جاتے تو آپ کی جائے مقام سے نور کی شعاعیں دیکھتے جو آسمان کو چھوتیں۔ اندھیری رات میں آسانی کے ساتھ اس مقام پر پہنچ جاتےتھے۔
مقامِ ولادت: آپ کی ولادت باسعادت بغداد عراق میں ہوئی۔
تحصیلِ علم: بغداد اس وقت علم و فن کا اور اسلامی علوم کا گہوارہ تھا۔ بڑے بڑے علماء و محدثین و مفسرین اور صوفیاء موجود تھے۔ اسی مرکزِ علم و فن میں آنکھ کھولی۔ مختلف شیوخ سے علمی و روحانی استفادہ کیا۔ آپ کا شمار وقت کے جید علماء و صوفیاء میں ہوتا تھا۔
بیعت و خلافت: آپ حضرت شیخ سری سقطی رحمۃ اللّٰه علیہ کے مرید و خلیفہ تھے۔ اسی طرح حضرت جنید بغدادی رحمۃ اللّٰه علیہ کے رفیقِ خاص تھے۔حضرت شیخ احمد بن احمد جواری رحمہ اللّٰه سے بھی ملاقات ہوئی۔ ان کےعلاوہ بکثرت مشائخ سے ملے ہیں۔
سیرت و خصائص: پیشوائے اربابِ طریقت، امامِ شریعت، شیخ المشائخ، امام الآئمہ، بانیِ سلسلہ عالیہ نوریہ حضرت شیخ ابوالحسن نوری رحمۃ اللہ علیہ۔
آپ کا شمار کبار اولیاء کرام اور صوفیاءِ عظام میں ہوتا ہے۔ مشائخ و صوفیہ آپ کو ’’امیر القلو ب‘‘ کے لقب سے یاد کیا کرتے تھے۔ بعض صوفیاء آپ کو ’’قمر الصوفیاء‘‘ اور ’’طاؤس العباد‘‘ کے نام سے پکارتے تھے۔آپ نے حضرت شیخ سری سقطی قدس سرہ سے خرقہ خلافت پایا تھا اور حضرت شیخ احمد حواری کی مجالس سے بھی استفادہ کیا، آپ حضرت جنید بغدادی کے معاصر تھے خود مجتہد صاحب مذہب امام طریقت اور سلسلہ نوریہ کے بانی تھے۔
آپ فرمایا کرتے تھے کہ ابتدائے کار میں ایک دن میں دریائے دجلہ پر گیا دو کشتیوں کے درمیان کھڑے ہوکر کہنے لگا، جب تک مجھے ساٹھ سیر کی ایک مچھلی نہ ملے گی میں یہاں سے نہیں جاؤں گا۔ دریا سے ایک بہت بڑی مچھلی اچھلی میں کنارے پر لایا، اور کہا الحمدللہ میرا کام ہوگیا، میں نے یہ کرامت حضرت جنید بغدادی کو سنائی، تو آپ نے فرمایا اے ابوالحسن اگر مچھلی کی بجائے اتنا بڑا سانپ نکل آتا اور تجھے ڈس لیتا اور تم مرجاتے تو اس سے کہیں بہتر تھا کہ تم اپنی کرامت کا فخریہ اظہار کرتے۔
خلیفہ بغداد کا ایک مقرب خلیل صوفیا کی مخالفت پر کمربستہ ہوا، دربار میں کھڑے ہو کر کہنے لگا۔
امیر المومنین! یہاں ایک ایسی جماعت پیدا ہوئی ہے جو سُرور گاتی ہے اور رقص کرتی ہے، لوگ ان سے دلچسپی کا اظہار کرتے ہیں وہ خلاف شرع باتیں کرتے ہیں۔ اس طرح ان کی وجہ سے لوگ اسلام سے برگشتہ ہو رہے ہیں، اگر آپ ان زندیقوں کے قلع قمع کرنے کا اختیار دیں تو میں اس فتنہ کو اکھاڑ پھینکوں، خلیفہ نے ان لوگوں کو دربار میں طلب کیا، شیخ ابوحمزہ، حضرت شیخ شبلی، حضرت رقام، حضرت شیخ ابوالحسن نوری اور شیخ الطائفہ حضرت جنید بغدادی کے علاوہ بہت سے صوفیاء حاضرِ دربار ہوئے، رحمۃ اللہ علیہم، خلیفہ نے سب کو قتل کرنے کا حکم دیا۔
جلّاد نے سب سے پہلے حضرت رقام کی گردن اڑانی چاہی مگر حضرت نوری کود کر آگے بڑھے اور اپنی گردن پیش کردی، مسکراتے اور ہنستے ہوئے موت کے سامنے کھڑے ہوگئے، اہل دربار آپ کی اس جرأت پر دنگ رہ گئے، لوگوں نے کہا، اللہ کے بندے تلوار لحاظ نہیں کیا کرتی کہ میرے آگے کون ہے، آپ نے فرمایا میرا طریقۂ تصوف تو ایثار ہے، یہی میری دنیا کی عزیز ترین چیز ہے، میں اپنی زندگی کے چند لمحات اپنے بھائی پر نثار کرنا چاہتا ہوں حالانکہ میں اس زندگی کو آخرت کے ہزار سال سے قیمتی جانتا ہوں۔
خلیفہ نے سنا جلّاد کو کہا ہاتھ روک لو، مجھے علماء وقت سے فتویٰ لینے دو، قاضیِ شہر کو بلایا گیا قاضی نے کہا ان سب میں سے کامل علوم حضرت جنید ہیں، ابوالحسن تو دیوانہ مزاج انسان ہیں، ان سے شرعی مسئلہ کیا پوچھوں، حضرت جنید بغدادی نے قاضی سے پوچھا، حضرت بیس دینار پر زکوٰۃ کتنی دی جائے گی، حضرت شبلی نے بڑھ کر جواب دیا کہ ساڑھے بیس دینار قاضی نے پوچھا کوئی شرعی دلیل، آپ نے فرمایا، سیّدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے پاس چالیس ہزار دینار تھے آپ نے سب کے سب دے دیے، اور اپنے پاس کچھ نہ رکھا۔ ہم صوفیاء سیدنا صدیق اکبر رضی ﷲ عنہ کی اتباع میں بیس کے بیس دیں گے۔ قاضی نے کہا کہ آدھا دینار کیا ہے؟ حضرت شبلی نے فرمایا یہ کفارہ ہے اس بات کا کہ بیس دینار اپنے
پاس جمع کیوں کیے رکھے، قاضی نے خلیفہ کی طرف منہ کرکے کہا، اگر یہ لوگ زندیق اور ملحد ہیں، تو میں فتویٰ دیتا ہوں کہ آج عالم اسلام میں کوئی بھی موحد نہیں ہے، خلیفہ اپنے تخت سے نیچے اترا، صوفیاء کو احترام سے ملا اور کہنے لگا میرے لائق کوئی خدمت ہو تو حاضر ہوں، صوفیاء نے کہا بس ایک تکلیف دیں گے کہ آج کے بعد ہم سب کو اپنی مقبولیت سے دور رکھیے، اور پھر کبھی دربار میں طلب نہ کریں خلیفہ رونے لگا، اور بے پناہ احترامات کے ساتھ الوداع کہنے دور تک پا پیادہ باہر آیا۔
ایک دن حضرت ابوالحسن نوری رحمۃ اللّٰه علیہ کے پاس ایک شخص حاضر ہوا، آپ اور وہ شخص دونوں رونے لگے، کچھ وقت گزرا تو وہ شخص رخصت ہوا، حاضرین مجلس نے پوچھا یا حضرت یہ کون شخص تھا، آپ نے فرمایا یہ ابلیس تھا، وہ اپنی خدمات اور قربت الی اللہ کے واقعات بیان کرکے رو رہا تھا اور اسے اللہ کی بارگاہ سے محرومی پر رونا آتا تھا، میں اس کی باتیں سن کر رو رہا تھا، کہ جب اتنا قریب ترین دھتکارا جا سکتا ہے تو دوسرا کون ہے جو دم مار سکے۔
ایک دن آپ دریائے دجلہ میں نہا رہے تھے ایک چور آگے بڑھا آپ کے کپڑے اٹھا کر بھاگ نکلا ابھی تھوڑی دور گیا تھا کہ اس کا ہاتھ سوکھ گیا واپس آیا جس جگہ سے کپڑے اٹھائے تھے لا رکھے، حضرت نوری نے دعا کی، اے اللہ اس چور نے میرے کپڑے لوٹا دیے ہیں، تو بھی اس کے بازو کو توانائی بخش دے۔ وہ اسی وقت صحت یاب ہوگیا۔ (روض الریاحین،ص295)
ایک بار بغداد کی مارکیٹ میں آگ بھڑک اٹھی سینکڑوں مکانات جل گئے، لاکھوں کی جائیداد راکھ ہوگئی، دو رومی غلام جو نہایت حسین و جمیل تھے، آگ کے شعلوں کی لپیٹ میں آگئے، ان کے مالک کو وہ بہت پیارے تھے، اس نے اعلان کیا، آج جو ان دو غلاموں کو بچائے گا اسے دو ہزار دینار خالص انعام دوں گا، کسی کو جرات نہ ہوتی تھی کہ بھڑکتے ہوئے شعلوں میں آگے بڑھے اتفاقاً حضرت ابوالحسن نوری وہاں سے گزر رہے تھے، آپ نے بسم اللہ الرحمٰن الرحیم پڑھا، اور آگ میں قدم رکھ کر آگے بڑھے بچوں کو آگ کے شعلوں سے لے آئے، اُس نے آپ کی خدمت میں دو ہزار دینار پیش کیے مگر آپ نے لوٹا دیے اور فرمایا اللہ تعالیٰ نے دنیا کی دولت قبول نہ کرنے کی وجہ سے مجھے یہ انعام دیا ہے۔
ایک دن حضرت ابوالحسن نوری رحمۃ اللّٰه علیہ نے ایک شخص کو دیکھا کہ جس کا گدھا مر گیا تھا اور زور دار ژالہ باری ہو رہی تھی وہ شخص بہت گھبرایا ہوا تھا، حضرت آگے بڑھے اور گدھے پر قدم رکھ کر فرمانے لگے، اُٹھ اور اس شخص کو اپنی منزل پر پہنچا،اس شخص نے آپ کا شکریہ ادا کیا اور چلتا بنا۔
آپ کی اکثر زندگی بغداد میں گزری، علم شریعت میں یگانہ روزگار تھے، نوریہ کا سلسلۂ طریقت آپ کے نام سے موسوم ہوا، شاعری میں ممتاز مقام کے مالک تھے، آپ کی ظاہری زندگی پابند شریعت تھی۔ شرع کے نفاذ میں خلیفۂ وقت کے شراب خانہ کو توڑ پھوڑ دیا، خلیفہ نے پوچھا تم ایسا کرنے والے کون ہو، فرمایا میں محتسب ہوں، پوچھا تمہیں کس نے محتسب بنایا، فرمایا جس نے تجھے خلیفہ بنایا، طریقت میں معارف الٰہیہ بیان کرتے تھے۔ حضرت خواجہ فریدالدین عطار نے تذکرہ اولیاء میں حضرت سیّد علی ہجویری داتا گنج بخش لاہوری نے کشف المحجوب میں صاحب رسالہ قشیریہ اور طبقات شعرانی نے آپ کو ہدیۂ تحسین پیش کیا ہے، آپ کا سلسلہ طریقت صدیوں تک عراق، ایران میں مقبول و محبوب رہا۔
تاریخِ وصال: آپ کا وصال 24/ شوال المکرم 295ھ کو بغداد میں ہوا۔ آپ کے وصال پر سید الطائفہ حضرت جنید بغدادی رحمۃ اللّٰه علیہ نے فرمایا: نوری کے انتقال سے آدھا علم جاتا رہا۔ (نفحات الانس:94)
ماخذ و مراجع: خزینۃ الاصفیاء۔ سکینۃ الاولیاء۔ نفحات الانس۔ فیضانِ صوفیاء۔
➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖
المرتب⬅ محـمد یـوسـف رضـا رضـوی امجـدی نائب مدیر "فیضـانِ دارالعـلوم امجـدیہ ناگپور گروپ" 9604397443
➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖
0 تبصرے
اپنا کمینٹ یہاں لکھیں