شمس العلماء علامہ عبد الحق خیرآبادی رحمۃ اللّٰه علیہ

📚     «  مختصــر ســوانح حیــات  »     📚
-----------------------------------------------------------
🕯️شمس العلماء علامہ عبد الحق خیرآبادی رحمۃ اللّٰه علیہ🕯️
➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖

نام و نسب:
اسمِ گرامی: عبدالحق۔
لقب: شمس العلماء۔ خیرالبلاد  "قصبہ خیرآباد" کی نسبت سے خیرآبادی کہلائے۔
سلسلہ نسب اسطرح ہے: علامہ عبدالحق خیرآبادی بن امام المناطقہ مجاہدِ جنگ آزادی علامہ فضلِ حق خیرآبادی بن  علامہ فضلِ امام خیرآبادی (علیہم الرحمہ)۔ (خیرآباد ضلع سیتاپور، ریاست اترپردیش انڈیا میں واقع ہے، یہ قصبہ سیتاپور سے 6 کلومیٹر، اور لکھنؤ سے 75 کلومیٹر دہلی لکھنؤ ہائی پر واقع ہے)

تاریخِ ولادت: آپ  1244ھ بمطابق ستمبر/1828ءکو دہلی میں پیدا ہوئے، حضرت مولانا سید شاہ مصباح الحسن پھپھوندی اپنے استاذ مولانا ہدایت اللہ خاں جون پوری کی روایت سے فرماتے تھے: کہ حضرت علامہ خیر آبادی نے آپ کے عقیقہ میں ساٹھ ہزار روپے خرچ کیے تھے۔

تحصیلِ علم: آپ نے تمام علوم عقلیہ و نقلیہ کی تحصیل و تکمیل اپنے والد ماجد سے کی۔1258ھ میں سولہ برس کی عمر میں سندِ فراغ حاصل کی، مشاہیر علمائے دہلی، مفتی صدر الدین وغیرہ علیہم الرحمۃ نے جلسۂ  دستار بندی میں شرکت کی ۔ایک مرتبہ مولانا اکرام اللہ شہابی آپ سے پوچھا کہ بھائی صاحب! دنیا میں "حکیم" کا اطلاق کن کن پر ہے؟ آپ نے فرمایا: ساڑھے تین حکیم (منطقی و فلسفی) دنیا میں ہیں۔ اول۔رسطو۔ دوم۔فارابی۔تیسرے۔ والد ماجد اور نصف بندہ۔ (باغیِ ہندوستان: ص184)

بیعت و خلافت: آپ امام العارفین حضرت خواجہ شاہ اللہ بخش  تونسوی علیہ الرحمہ کے مرید تھے۔

سیرت و خصائص: امام المناطقہ، رئیس الفلاسفہ، جامع المنقولِ والمعقول، سلسلۂ خیرآبادیت کے مورثِ اعلیٰ شمس العلماء حضرت علامہ عبدالحق خیرآبادی رحمۃ اللہ علیہ۔
آپ فنِ منطق و حکمت میں امام وقت اور فن نحو و لغت کے بڑے ماہر اور بہت ہی سنجیدہ اور باوقار ، پوری سمجھ کے مالک اور اچھی تعبیر والے اور مسالک استدلال سے اچھے باخبر ، طبیعت میں لطافت، گفتگو کے بہتر ، نادر باتوں کو اس عمدگی سے بیان فرماتے کہ اس کی پوری تعریف  کرنی ممکن ہی نہیں ہے، اور ان کی مجلسیں ہی لوگوں  کے ذہن ان کی عقلوں کے مطابق ہوتیں اور گفتگو اس انداز سے کرتے تھے کہ مشکل سے مشکل مسائل ذہن میں  آسانی سےبٹھا دیتے تھے۔  کسی کو کسی موضوع میں آپ کی مخالفت کی ہمت نہ ہوتی، اور آپ کے فرمان ماننے ہی پڑتے۔درس کی دھوم تھی، طلبہ اکناف عالم سے آپ کے دریائے علم سے اپنی پیاس بجھانے کےلیے پہنچتے تھے۔طلبہ پربہت شفیق تھے، جو طالب علم ایک سبق پڑھ لیتا پھر آپ کا درس نہ چھوڑتا۔ آپ اپنی ذات کے اعتبار سے بہت ہی خوبصورت، اچھے چہرے والے، بہت بااخلاق، غرباء کے ہمدرد اور انگریزی وضع و معاشرت سے تَنفُّر خصوصی اوصاف تھے۔ آپ نے بہت گذا طبیعت پائی تھی، صوفیاء کے حالات و واقعات بہت شوق سے سنتے اور پڑھتے تھے۔ آپ کے سامنے جب بزرگان دین کے مجاہدات وریاضات اور مصائب کے واقعات بیان کیے جاتے تو بےاختیار سیلاب اشک رواں ہوجاتا۔جذبۂ حریت آپ کو میراث میں ملا تھا۔ اسلئے جذبۂ  حریت آپ کی رگ رگ میں موجود تھا۔ ساری زندگی انگریز اور انگریزی تہذیب سے سخت نفرت کرتے رہے۔

علامہ عبدالحق خیرآبادی علیہ الرحمۃ کی وصیت:
آپ نے  فرمایا: جب انگریز ہندوستان سے چلے جائیں تو میری قبر پر خبر کر دی جائے۔چنانچہ 15 اگست 1947ء کو مولوی سید نجم الحسن رضوی خیرآبادی نے مولانا عبدالحق کے مدفن درگاہ مخدومیہ خیرآباد ضلع سیتاپور پر ایک جمِ غفیر کے ساتھ حاضر ہو کر میلاد شریف کے بعد قبر پر فاتحہ خوانی کی اور اس طرح پورے پچاس سال کے بعد انگریزی سلطنت کے خاتمہ کی خبر سنا کر وصیت پوری کی۔ (مقدمہ زبدۃ الحکمۃ:ص 12)

وصال: 23/شوال المکرم 1316ھ، بمطابق 1899ء کو آپ کا وصال ہوا۔ آپ کی قبرِ انور خیرآباد میں مخدوم شیخ سعد کی درگاہ کے احاطے میں ہے۔

ماخذ و مراجع: تذکرہ علمائے اہلِ سنت۔ خیرآبادیت۔ نزہۃ  الخواطر۔

➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖
المرتب⬅ محـمد یـوسـف رضـا رضـوی امجـدی نائب مدیر "فیضـانِ دارالعـلوم امجـدیہ ناگپور گروپ" 9604397443
➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے