مبسملا وحامدا::ومصلیا ومسلما
سواد اعظم:کثرت تعداد اور سماجی اختلاف
حضور اقدس حبیب کبریا علیہ التحیۃ والثنا نے جو دین ومذہب ہمیں عطا فرمایا تھا۔وہ مذہب اسلام ہے۔چوں کہ اس مذہب مہذب میں تہتر فرقے ہونے والے تھے,پس آپ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے امت مسلمہ کو ہدایت فرما دی تھی کہ فرقہ ناجیہ کو اختیار کرنا۔آپ علیہ الصلوۃ والسلام نے طبقہ ناجیہ کی علامتیں اور نشانیاں بیان فرمائیں۔اسی نجات پانے والی جماعت کو"اہل سنت وجماعت" کہا جاتا ہے۔
حضور اقدس تاجدار کائنات شفیع محشر حبیب داور علیہ الصلوۃ والسلام کے ارشادات عالیہ سے واضح ہے کہ اہل سنت وجماعت ہمیشہ کثیر التعداد ہوں گے۔امام اہل سنت قدس سرہ القوی نے رقم فرمایا کہ آج تک تمام بدمذہب فرقے مل کر مجموعی طور پر بھی تعداد میں اہل سنت وجماعت کے برابر نہ ہو سکے۔(زائد ہونے کی بات بہت دور ہے)(فتاوی رضویہ:جلد یازدہم:ص 56-57-رضا اکیڈمی ممبئ)
اصول وقوانین کے اعتبار سے یہ بات بالکل صحیح اور حق ہے کہ اگر دنیا میں ایک ہی فرد ہو جو اہل سنت وجماعت کے جملہ عقائد ومعمولات ودیگر احکام کو مانتا ہو تو وہ تنہا اہل حق ہو گا۔سوال صرف یہ ہے کہ کیا ایسی حالت وکیفیت کبھی واقع ہو گی یا نہیں؟
سوال مذکور کا جواب یہی ہے کہ بدمذہب جماعتوں کے بالمقابل اہل سنت وجماعت کا قلیل التعداد ہونا محال بالغیر ہے۔ہم نے اپنی کتاب"السواد الاعظم من عہد الرسالۃ الی قرب القیامہ"میں اس کی تفصیل رقم کر دی ہے۔
طبقہ ناجیہ میں حضرات صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم اجمعین کے عہد مسعود سے ظنی امور میں اجتہادی وتحقیقی اختلافات متوارث ہیں۔حضور اقدس صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے بھی ایسے علمی اختلاف کو رحمت قرار دیا تھا۔امت مسلمہ بھی فروعی فقہی مسائل میں صدی سوم میں چار مذاہب فقہیہ پر متفق ہو گئی۔طبقہ ناجیہ یعنی اہل سنت وجماعت آج بھی مذکورہ چار مذاہب فقہیہ پر متفق ہے۔اسی درمیان بعض لوگ عدم تقلید کی راہ اپنائے۔وہ سب اہل سنت وجماعت کے اجماع کی مخالفت کے سبب مذہب اہل سنت سے خارج قرار پائے۔
علمی وتحقیقی اختلافات متوارث وقدیم اور قابل قبول ہیں۔برصغیر میں علمی اختلاف کے سبب رونما ہونے والا سماجی اختلاف نقصان دہ ثابت ہوا۔ہم لا مرکزیت کے شکار ہو گئے۔
شرعی دلائل سے یہی ظاہر ہوتا ہے کہ صاحب ملت بیضا حبیب کبریا تاجدار دوجہاں علیہ التحیۃ والثنا اس سماجی اختلاف کو ناپسند فرماتے ہیں۔حضور اقدس صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے مسلمانوں کو متحد ومتفق رہنے کی تلقین فرمائی ہے۔باہمی اخوت ومحبت, ایک دوسرے کے ساتھ حسن سلوک اور بلند اخلاقی کی تعلیم دی ہے۔احکام نبویہ پر عمل کیا جائے۔
جب کوئی جماعت بہت وسیع اور لاتعداد افراد پر مشتمل ہو تو سماجی اختلاف ممکن ہے۔ایسی کثیر الافراد جماعت میں مختلف عادات واطوار کے لوگ ہوتے ہیں۔سب کی عقل وفکر یکساں نہیں ہوتی۔ایسی صورت میں مذہبی قائدین کی ذمہ داری ہے کہ اختلافات کا حل پیش کر کے معاملہ رفع دفع کر دیں۔
شریعت اسلامیہ نے ہر مسئلہ کا حل بتایا ہے تو سماجی اختلاف کا حل بھی ضرور ہو گا۔
طارق انور مصباحی
جاری کردہ:02:جولائی 2021
0 تبصرے
اپنا کمینٹ یہاں لکھیں