🕯 « احــکامِ شــریعت » 🕯
-----------------------------------------------------------
📚"اشرف الھدایہ" کے مسئلۂ قربانی سے متعلق تحقیقی جواب📚
➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖
سوال:
فقیر اگر بنیت قربانی جانور خریدے تو کیا فقیر پر مطلقا قربانی واجب ہو جائے گی؟ چاہےایام نحر میں خریدے یا پہلے؟ یا صرف ایام نحر میں خریدنے پر ہی واجب ہوگی؟
ھدایہ کی اردو شرح اشرف الھدایہ میں ہے: فقیر جب قربانی کا جانور بنیت قربانی ایام نحرمیں خریدے گا تو ہی قربانی واجب ہوگی۔ ایام نحر سے پہلے خریدنے میں قربانی واجب نہیں ہوگی۔حوالہ:شامی ج ۴ ص ۲۰۵(اشرف الہدایہ ۱۳؍۲۸۴)
اشرف الھدایہ کا یہ مسئلہ درست ہے یا نہیں؟ دلائل و براہین کی روشنی میں جواب عنایت فرمائیں!
سائل : ثاقب رضا، مدھوبنی بہار۔
➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖
الجواب بعون الملک الوھاب:
کتب فقہ کے متون و شروح مثلا قاضی خان، بدائع الصنائع، تنویر الابصار، ہدایہ وغیرہ میں مطلقا بلا تقیید ایام نحر فقیر کے لیے محض قربانی کی نیت سے جانور خریدنے کی وجہ سے وجوب قربانی کا سبب قرار دیا گیا ہے۔
لھذا مفتی بہ قول کے مطابق درست مسئلہ یہی ہے کہ فقیر نے بنیت قربانی جانور خریدا ہے تو اس متعین جانور کی قربانی واجب ہوگی خواہ اس نے ایام نحر میں خریدا ہو یا ایام نحر سے پہلے خریداہو۔ایسا نہیں ہے کہ ایام نحر ہی میں خریدے گا تو ہی اس کی قربانی واجب ہوگی اور ایام نحر سے پہلے خریدنے سے قربانی واجب نہیں ہوگی۔
(📙بدائع الصنائع میں ہے):
ان الشراء للاضحیۃ ممن لااضحیۃ علیہ یجری مجری الایجاب وھو النذر للتضحیۃ عرفا لانہ اذا اشتری للاضحیۃ مع فقرہ فالظاہر ان یضحی فیصیر کانہ قال جعلت ھذہ الشاۃ اضحیۃ۔
(📕بدائع الصنائع 4/ 192)
(📘ہدایہ میں ہے):
وعلی الفقیر بشرأءہ بنیت الاضحیۃ۔ یعنی قربانی کی نیت سے جانور خریدنے کی وجہ سے فقیر پر قربانی واجب ہے۔ )
(📗بنایہ شرح ہدایہ میں ہے:)
ای الوجوب علی الفقیر بسبب شرأءہ بنیت الاضحیۃ، فتعینت الاضحیۃ بسبب ذالک، بخلاف ما یقولہ الزعفرانی)
فقیر قربانی کی نیت سے جانور خریدے گاتو قربانی واجب ہوگی یا نہیں؟ اس سلسلے میں اختلاف ہے قیاس کے مطابق قربانی واجب نہیں ہوگی اور ظاہر الروایہ کے مطابق نفس شراءسے بنیت قربانی جانور متعین ہو جائے گا اب وہ بیچ بھی نہیں سکتا اور نہ ہی اس کے بدلے میں دوسرا جانور لے سکتاہے۔ امام زعفرانی نے اپنے اصحاب سے روایت کیا ہےکہ صرف فقیر کے بنیت قربانی جانور خریدنے سے قربانی واجب نہیں ہوگی جب تک کہ وہ اپنی زبان سے نہ کہہ لے۔ لیکن فتوی ظاہر الروایہ پر ہے۔
(📘بنایہ شرح ہدایہ ہی میں ہے:)
واعلم ان الشاۃ تتعین لاضحیۃ بان نذر ان یضحی بھا او نوی عند الشراءان یضحی بھاوکان المشتری فقیرا ھذا ظاھر الروایۃ وروی الزعفرانی عن اصحابنا ان التضحیۃ بعینھا لا تجب بالنذر ولا تجب التضحیۃ بعینھا بنیت الشراء لاضحیۃ وان کان المشتری فقیرا، وھو القیاس؛
(📗البنایہ علی شرح الھدایہ ج ۱۳ ص ۳۱)
اسی میں ہے:
(وروی الزعفرانی: انھا لاتجب، والیہ اشار شمس الائمۃواتفقواعلی انھا لا تجب بمجرد النیۃ لاضحیۃ حتی کانت لہ شاۃ فنوی ان یضحی بھا ولم یذکر بلسانہ شیئالا تصیر واجبۃ لاضحیۃ و ذکر شیخ الاسلام: اذا کان المشتری موسرا لاتصیر واجبۃ بنیت الاضحیۃ باتفاق الروایات وان کام معسرا ففی ظاہر الروایات تجب)
(📕حوالہ سابق ص ۷۳)
(📕واختار فی فتاوی الظھیریۃ ظاھر الروایۃ۔(ج ۱۳ص ۴۲)
در مختار میں ہے: فقیر شرائھا لھا لوجوبھا علیہ بذالک حتی یمتنع علیہ بیعھا۔
(📗رد المحتار میں ہے:)
(قولہ لوجوبھا علیہ لذالک)
ای بالشراءو ھذا ظاھر الروایۃ لان شراءہ لھا یجری مجری الایجاب وھو النذر بالتضحیۃ عرفا کما فی البدائع۔ووقع فی التاتارخانیۃ التعبیر بقولہ شراھا لھا ایام النحر و ظاھرہ انہ لو شراھا لھا قبلھا لا تجب ولم ارہ صریحا فلیراجع۔)
(📗رد المحتار کتاب الاضحیۃ)
فقیر پرقربانی کی نیت سے خریدنے سے ہی اس جانور کی قربانی واجب ہے اس لیے کہ فقیر کا خریدنا واجب کر لینے کی طرح ہوا یعنی عرفا قربانی کی نذر کی طرح۔
اس کے تحت علامہ ابنِ عابدین شامی فرماتے ہیں: تاتارخانیہ میں ہے"ایام نحر میں خریدنے سے" اس سے مفہوم مخالف نکلتا ہے کہ اگر ایام نحر سے پہلے جانور خریدا ہے تو قربانی واجب نہیں ہوگی
ہم فتاوی تاتارخانیہ کی اصل عبارت پیش کرتے ہیں۔ وہ اس طرح ہے:
وفی العتابیۃ المختار ان الفقیر لو اشتراھا بنیۃ التضحیۃ فی ایام النحر تصیر التضحیۃ واجبۃ فی حقہ وان لم یقل بلسانہ شیئا فی جواب ظاھر الروایۃ ھذا اختار الصدر الشھید وعلیہ الفتوی۔
(📕تاتارخانیہ ۱۷؍۴۱۲)
رد المحتار کی عبارت سے یہ بات ثابت نہیں ہوتی کہ فقیر نے ایام نحر سے پہلے بنیت قربانی جانور خریدا ہو تو اس کی قربانی واجب نہیں ہوگی اور نا ہی یہ ثابت ہوتا ہے کہ علامہ شامی رحمۃ اللہ علیہ کو وجوب قربانی میں تردد و شک ہے۔اور نا ہی علامہ شامی کا قول ہے البتہ علامہ شامی رحمۃ اللہ علیہ نے فتاوی تاتارخانیہ کی عبارت سے مفہوم مخالف اخذ کرتے ہوئے یہ فرمایا ہےکہ فتاوی تاتارخانیہ کی عبارت سے ظاہر مفہوم یہی نکلتا ہےکہ اگر فقیر نے ایام نحر سے پہلے قربانی کی نیت سے جانور خریدا ہے تو قربانی واجب نہیں ہوگی۔
لیکن آپ آگے خود ہی فرماتے ہیں: لم ارہ صریحا۔ یعنی ایام نحر یا قبل ایام نحر کی صراحت نہیں ہے۔ اس کا مطلب یہ ہےکہ یہ آپ کا موقف نہیں ہے بلکہ آپ بھی ظاہر الروایہ ہی کو ترجیح دیتے ہوئے فرماتے ہیں کہ قربانی واجب ہوگی۔
مذکورہ بالا تصریحاتِ فقہاء سے معلوم ہوا کہ قربانی کی نیت سے فقیر کے جانور خریدنے سے قربانی واجب ہوگی خواہ ایام نحر میں خریدا ہو یا اس سے پہلے خریدا ہو۔
لھذا ہدایہ کی اردو شرح "اشرف الھدایہ" میں بیان کردہ مسئلہ درست نہیں ہے۔
واللہ اعلم باالصواب
اس مسئلہ کے سلسلے میں استاذ گرامی، محقق مسائل جدیدہ، حضرت مفتی محمد نظام الدین رضوی برکاتی شیخ الحدیث و صدر شعبہ افتا جامعہ اشرفیہ مبارک پور سے بذریعہ فون رابطہ کر کے راہنمائی حاصل کی گئی تو انھوں نے جوابا یہ ارشاد فرمایا:
اشرف الھدایہ میں جو مسئلہ لکھا گیا ہے وہ ظاہر الروایہ اور قول مختار کے خلاف ہے۔
بہار شریعت میں حضور صدر الشریعہ رحمۃ اللہ علیہ نے بھی ظاہر الروایہ کے مطابق مطلقا وجوب ہی کا قول نقل فرمایا ہے۔
لھذا اشرف الھدایہ کا مسئلہ ظاہر الروایہ اور قول مختار کے خلاف ہے۔
➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖
✍️کتبـــــــــــــــــــــــــــہ:
محمد ھاشم رضا مصباحی شیموگہ کرناٹکا۔
رابطہ؛ 7760517611)
✅الجواب صحیح والمجیب مصیب و مثاب و صاحب اشرف الھدایہ ضال وقولہ باطل: محمد عابد حسین قادری نوری مصباحی مدرسہ فیض العلوم دھتکی ڈیہ جمشید پور جھارکھنڈ.
✅قد اصاب من اجاب: محمد عاقل رضا مصباحی، امام مرکزی سنی جامع مسجد شیموگہ۔
✅الجواب صحیح والمجیب مصیب ومثاب: محمد مجاھد رضا مصباحی دارالعلوم نوری اندور۔
✅الجواب صحیح: فقیر محمد شہروز عالم رضوی خادم التدریس والافتاء دارالعلوم قادریہ حبیبیہ کلکتہ بنگال۔
✅الجواب صحیح: محمد شرف الدین رضوی دارالعلوم قادریہ حبیبیہ کلکتہ بنگال۔
✅الجواب صحیح والمجیب نجیح: محمد عثمان غنی مصباحی خادم التدریس والافتاء دارالعلوم فدائیہ سمرقندیہ بہار انڈیا۔
✅الجواب صحیح والمجیب نجیح: محمد شاھدرضا شمسی بہار انڈیا۔
✅الجواب صحیح: محمد شکیل اختر قادری برکاتی صدرصوفہ ہبلی کرناٹکا۔
✅الجواب صحیح: محمد منظر مصطفی ناز صدیقی جامعی۔
➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖
0 تبصرے
اپنا کمینٹ یہاں لکھیں