سوال 278: کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام کہ سید اور عالم میں کس کا درجہ اونچا ہے؟ تفصیل سے جواب عطا فرمائیں۔
ضمیر الدین، ہبلی، کرناٹک
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ:
بلاشبہ سادات کرام کو جو نسبی فضیلت و شرافت حاصل ہے، اس میں ان کا کوئی شریک و سہیم نہیں مگر چوں کہ قرآن و احادیث کے مطابق شرافت و فضیلت کلی کا مدار علم و تقوی پر ہے؛ اس لیے عالم دین، غیر عالم سید سے افضل ہے۔ قرآن پاک میں ہے: قُلْ هَلْ یَسْتَوِی الَّذِیْنَ یَعْلَمُوْنَ وَ الَّذِیْنَ لَا یَعْلَمُوْنَؕ-اِنَّمَا یَتَذَكَّرُ اُولُوا الْاَلْبَابِ۠(۹) ( سورۃ الزمر)
یعنی تم فرماؤ کیا برابر ہیں جاننے والے اور انجان نصیحت تو وہی مانتے ہیں جو عقل والے ہیں۔
دوسری آیت میں ہے: یَرْفَعِ اللّٰهُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مِنْكُمْۙ-وَ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْعِلْمَ دَرَجٰتٍؕ-وَ اللّٰهُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِیْرٌ(۱۱) ( سورۃ المجادلۃ)
یعنی اللہ تمہارے ایمان والوں کے اور ان کے جن کو علم دیا گیا درجے بلند فرمائے گا اور اللہ کو تمہارے کاموں کی خبر ہے۔
سورہ حجرات میں ہے: اِنَّ اَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللّٰهِ اَتْقٰىكُمْؕ-اِنَّ اللّٰهَ عَلِیْمٌ خَبِیْرٌ(۱۳) ( سورۃ الحجرات)
یعنی بےشک اللہ کے یہاں تم میں زیادہ عزت والا وہ جو تم میں زیادہ پرہیزگار ہے بےشک اللہ جاننے والا خبردار ہے۔
حدیث پاک میں ہے: حضرت حذیفہ بن یمان رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: علم کی فضیلت عبادت کی فضیلت سے زیادہ ہے اور تمہارے دین کی بھلائی تقویٰ و پرہیز گاری (میں) ہے۔ ( معجم الاوسط، باب العین، من اسمہ:علی، ح: 3960)
دوسری حدیث میں ہے: حضرت ابو درداء رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسولِ اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: عالم کی عابد پر فضیلت ایسی ہے جیسے چودھویں رات کے چاند کی تمام ستاروں پر فضیلت ہے۔( سنن ابو داؤد، کتاب العلم، باب الحث علی طلب العلم، ح: 3641)
سنن ترمذی میں حضرت ابو امامہ باہلی رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے ایک طویل روایت میں ہے: حضورِ اَقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: عالم کی فضیلت عبادت گزار پر ایسی ہے جیسے میری فضیلت تمہارے ادنیٰ پر ہے۔ (ترمذی، کتاب العلم، باب ما جاء فی فضل الفقہ علی العبادۃ، ح: 2694)
صحیح مسلم میں حضرت ابوہریرہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے: جس کو اس کا عمل سست (پیچھے) کردے اسے اس کا نسب تیز (آگے) نہیں کرے گا۔ صحيح ( مسلم كتاب الذِّكْرِ وَالدُّعَاءِ وَالتَّوْبَةِ وَالِاسْتِغْفَارِ، بَابُ فَضْلِ الِاجْتِمَاعِ عَلَى تِلَاوَةِ الْقُرْآنِ وَعَلَى الذِّكْرِ، ح: 4996)
اس معنی میں کثیر احادیث کتب احادیث میں موجود ہیں، جنھیں اپنے اصل ماخذ میں ملاحظہ کیا جا سکتا ہے۔
کتب فقہ میں تنویر الابصار و درمختار میں ہے: ( وَلِلشَّابِّ الْعَالِمِ أَنْ يَتَقَدَّمَ عَلَى الشَّيْخِ الْجَاهِلِ ) وَلَوْ قُرَشِيًّا قَالَ تَعَالَى { وَاَلَّذِينَ أُوتُوا الْعِلْمَ دَرَجَاتٍ } - فَالرَّافِعُ هُوَ اللَّهُ فَمَنْ يَضَعْهُ يَضَعْهُ اللَّهُ فِي جَهَنَّمَ. ( الدر المختار مع رد المحتار، كتاب الخنثی، مسائل شتی، ج:6، ص: 755-756، دارالفکر بیروت)
یعنی نوجوان عالم کو بوڑھے جاہل پر تقدم کا حق حاصل ہے اگرچہ وہ (جاہل) قرشی ہو، اﷲ تعالی نے فرمایا : اﷲ تعالی عالموں کے درجے بلند فرمائے گا۔ چوں کہ بلندی عطا فرمانے والا اﷲ تعالی ہے لہذا جو اس کو گھٹائے گا اﷲ تعالی اس کو جہنم میں ڈالے گا۔
اسی کے تحت رد المحتار میں ہے: لِأَنَّهُ أَفْضَلُ مِنْهُ وَلِهَذَا يُقَدَّمُ فِي الصَّلَاةِ. وَصَرَّحَ الرَّمْلِيُّ فِي فَتَاوَاهُ بِحُرْمَةِ تَقَدُّمِ الْجَاهِلِ عَلَى الْعَالِمِ ، حَيْثُ أَشْعَرَ بِنُزُولِ دَرَجَتِهِ عِنْدَ الْعَامَّةِ لِمُخَالَفَتِهِ - { يَرْفَعُ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنْكُمْ وَاَلَّذِينَ أُوتُوا الْعِلْمَ دَرَجَاتٍ } - إلَى أَنْ قَالَ وَهَذَا مُجْمَعٌ عَلَيْهِ فَالْمُتَقَدِّمُ ارْتَكَبَ مَعْصِيَةً فَيُعَزَّرُ. ( رد المحتار، كتاب الخنثی، مسائل شتی، ج:6، ص: 755-756، دارالفکر بیروت)
یعنی جوان عالم بوڑھے جاہل سے اگر چہ وہ قریشی ہو افضل ہے اس لیے نماز میں اس کو آگے کیا جاتا ہے، رملی نے اپنے فتاوی میں تصریح کی کہ جاہل کا عالم سے اس طرح آگے بڑھنا حرام ہے کہ عوام یہ سمجھیں کہ عالم کا درجہ اس جاہل سے کم ہے، اس لیے کہ اللہ تعالی کے اس ارشاد کے خلاف ہے کہ فرمایا: اللہ تعالی تم میں سے ایمان والوں اور علم والوں کو درجوں بلند فرماتا ہے اور اس پر اجماع ہے۔ اس لیے جو عالم سے آگے بڑھے وہ گناہ کا مرتکب ہے، اسے سزا دی جائے گی۔
فتاوی خیریہ میں ہے: کونہ قرشیا لایبیح لہ التقدم علی ذی العلم مع جھلہ اذکتب العلم طافحۃ بتقدم العالم علی القرشی ولم یفرق سبحنہ وتعالی بین القرشی وغیرہ فی قولہ تعالی ھل یستوی الذین یعلمون والذین لا یعلمون. ( الفتاوی الخیر یۃ، مسائل شتی، ج: 2، ص: 234، دارالمعرفۃ بیروت)
یعنی جاہل کا قرشی ہونا عالم پر اس کے تقدم کو مباح نہیں کرتا، کیونکہ علم کی کتابیں عالم کے قرشی پر تقدم کے حق سے بھری پڑی ہیں اور اﷲ سبحنہ و تعالی نے قرشی و غیر قرشی کے درمیان اپنے اس ارشاد میں کوئی فرق نہیں، فرمایا کہ کیا جاننے والے اور نہ جاننے والے برابر ہوسکتے ہیں۔
اسی میں ہے: والعالم یقدم علی القرشی الغیر العالم والدلیل علی ذلک تقدم الصھرین علی الختنین و ان کان الختن اقرب نسبا منھم ۔ ( ایضا، ص: 235)
یعنی قرشی غیر عالم پر عالم کو تقدم حاصل ہے، اس کی دلیل یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کے سسر آپ کے دامادوں پر مقدم ہیں حالاں کہ نسب کے اعتبار سے داماد بنسبت سسر کے اقرب ہوتا ہے۔
فتاوی رضویہ میں ہے: شریعت نے تقوی کو فضیلت دی ہے۔ ان اکرمکم عنداﷲ اتقکم.
مگر یہ فضل ذاتی ہے۔ فضل نسب منتہائے نسب کی افضلیت پر ہے سادات کرام کی انتہائے نسب حضور سید عالم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم پر ہے۔ اس فضل انتساب کی تعظیم ہر متقی پر فرض ہے کہ وہ اس کی تعظیم نہیں حضور صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کی تعظیم ہے۔ ( فتاوی رضویہ، ج: 22، ص: 419)
دوسرے مقام پر ہے: عند اللہ فضلِ علم فضلِ نسب سے اشرف و اعظم ہے۔ یہ میر (سیِّد) صاحِب کہ عالم نہ ہوں اگر چِہ صالح ہوں، آج کل کے عالِم سُنّی صحیح العقیدہ کے مرتبہ کو شرعاً نہیں پہنچتے۔ ( ایضا، ج: 29، ص: 275)
ایک مقام پر امام اہل سنت فرماتے ہیں: اور شک نہیں کہ عالم دین سنی صحیح العقیدہ کو ہر جاہل پر مطلقا فضیلت ہے۔ ( فتاوی رضویہ، ج: 19، ص: 22، امام احمد رضا اکیڈمی، بریلی)
عالم دین کی سید پر فضیلت و شرافت کے باوجود کسی عالم دین کا سید پر اپنی تعلی یا بڑائی و برتری ظاہر کرنا یا فضیلت تقوی و علم کی آیات و احادیث کو سادات پر اپنی فضیلت بتانے کے لیے بطور دلیل پیش کرنا ایک ہلاکت خیز کام ہے، چناں چہ فتاوی رضویہ میں ہے: غیر سید اگر نفی ترجیح وفضیلت سادات کرام یا معاذاللہ ان پر اپنی یا اپنے کسی معتقد فیہ کی تعلی یا عوام کے ذہن میں فضل سادات کی تخفیف کے لیے ان سے استناد کرے تو وہ ہالک و گمراہ اور عوام مسلمین کا بدخواہ ہے۔ نہ یہ روایات ہرگز ان معانی باطلہ پر محمول، نہ ان مقاصد فاسدہ کو مفید، نصوص قران عظیم وصرائح احادیث صحیحہ کثیرہ شہیرہ متواترہ اس کے ابطال پر ناطق و شہید۔
اسی میں ایک صفحہ کے بعد ہے: سیدوں کی تنقید سے چشم پوشی کرنا چاہیے؛ کیوں کہ اہل بیت کے فاسقوں کا فعل ناپسندیدہ ہے، ان کی ذات ناپسندیدہ نہیں۔ کیوں کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جسم کا ٹکڑا ہیں اگر چہ ان میں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں کتنے ہی واسطے ہوں۔ ( ایضا، ص: 23- 24)
حاصل یہ کہ قرآن و احادیث سے عالم دین کو غیر عالم پر (خواہ سید ہوں یا غیر سید) مطلقا فضیلت و شرافت حاصل ہے مگر کسی عالم دین کے لیے مناسب نہیں کہ وہ اپنی یا اپنے کسی معتقد فیہ کی فضیلت و برتری کی نیت سے ان آیات و احادیث کو پیش کریں۔ ہاں! خادمانہ نصیحت کے لیے ان کو بیان کرے تو یہ بجا اور اداے انما الدین النصح لکل مسلم ہے۔ و اللہ تعالی اعلم
کتبہ
محمد اظہارالنبی حسینی
رکن شرعی بورڈ آف نیپال
و مدرس دارالعلوم قادریہ مصباح المسلمین، علی پٹی شریف
23/ ربیع الآخر1442ھ مطابق 9/ دسمبر 2020ء
0 تبصرے
اپنا کمینٹ یہاں لکھیں