حضرت مولانا فضل حق رام پوری رحمۃ اللّٰه علیہ

📚 « مختصــر ســوانح حیــات » 📚
-----------------------------------------------------------
🕯حضرت مولانا فضل حق رام پوری رحمۃ اللّٰه علیہ🕯
➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖

نام و نسب:
اسم گرامی: حضرت علامہ مولانا فضلِ حق رام پوری رحمۃ اللّٰه علیہ۔
لقب: فخر العلماء۔
سلسلہ نسب اس طرح ہے: حضرت علامہ مولانا فضلِ حق رام پوری بن مولانا حافظ عبد الحق علیہما الرحمہ۔
آپ کے والد گرامی مولانا حافظ عبدالحق رحمہ اللّٰه باعمل حافظ قرآن تھے۔ 
(تذکرہ کاملان رام پور:317)

تاریخِ ولادت: آپ کی ولادت باسعادت 1278ھ مطابق 1861ء کو ’’رام پور‘‘ (انڈیا) میں ہوئی۔ یہ حُسن اتفاق ہی تو تھا کہ ایک فضلِ حق (خیر آبادی) 1278ھ میں دُنیا سے اُٹھا، اسی سن میں دوسرا فضل حق (صاحبِ ترجمہ) رونق افزا ہوا۔ گویا اللہ تعالیٰ نے مرحوم کا علمی و فکری جانشین سالِ رحلت پیدا کر دیا۔
(تذکرہ علمائے اہل سنت:/312 تذکرہ کاملان رام پور:317)

تحصیلِ علم: حفظ قرآن مجید کی ابتداء اپنے والد ماجد سے کی۔ والد گرامی بسلسلہ تدریس نوا کھالی بنگال چلے گئے تو شہر کے دوسرے حفاظ سے دس سال کی عمر میں تکمیل فرمائی۔ فارسی حکیم احسن ساکن محلہ کھاری کنواں رام پور سے پڑھی۔ صرف و نحو اور منطق کی ابتدائی کتب مولانا عبد الرحمن قندھاروی اور مولانا عبدالعزیز سہارنپوی سے پڑھیں۔فقہ شرح وقایہ تک اور ملا حسن، مولانا عبدالکریم رام پوری سے بھیکن پور میں پڑھیں۔ علی گڑھ میں استاذ الکل مولانا لطف اللہ علی گڑھی سے معقول و منقول اور ریاضی کی تکمیل کی۔ شرح اشارات، حدیث، اور تفسیر حضرت مولانا ہدایت علی بریلوی (تلمیذ علامہ مولانا فضل حق خیرآبادی) سے پڑھ کر بیس سال کی عمر میں سندِ فراغت حاصل کی۔

بیعت و خلافت: سلسلہ عالیہ چشتیہ نظامیہ میں غوث الاسلام، فاتحِ قادیانیت، حضرت علامہ سید پیر مہر علی شاہ گولڑوی رحمہ اللّٰه سے شرفِ بیعت رکھتے تھے۔ 
مولانا فیض احمد فیض لکھتے ہیں: مولانا فضلِ حق رام پوری رحمۃ اللّٰہ علیہ حضرت قبلۂ عالم قدس سرہ کی خدمت میں بیعت کے لئے عریضہ لکھا تھا۔ جس کے جواب میں آپ نے ایک رومال روانہ فرما کر اوراد و وظائف کی اجازت بخشی اور ارشاد فرمایا کہ آپ کی یہی بیعت کافی ہے۔ زیادہ سفر کی تکلیف نہ فرمائیں۔ مولانا موصوف پکے وحدت الجودی تھے اور حضرت کی تصنیف ’’تحقیق الحق‘‘ سے بے حد متأثر تھے۔

مولانا فیض احمد فیض مزید لکھتےہیں: ہندوستان کے مشہور مفتی اور عالم ریاست رام پور میں مدرسہ عالیہ رام پور کے پرنسپل مولانا فضلِ حق رامپوری رحمہ اللّٰه نے ایک سال اجمیر شریف میں عرس کے موقع پر حضرت بابوجی رحمہ اللّٰه سے حضرت قبلہ ٔ عالم قدسر سرہ کی تصنیف کے متعلق ذکر کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ یوں تو حضرت کے کمالات بہت بیان ہوتے ہیں۔ لیکن میں تو اس دماغ کا شیدائی ہوں جس سے ’’سیف چشتیائی‘‘ ظہور میں آئی ہے۔(مہر منیر:251)

سیرت و خصائص: استاذ العلماء، مرجع الفضلاء، فخر العلماء، جامع المعقول و المنقول، مجمع البحرین، محبوب الطرفین حضرت علامہ مولانا فضل حق رام پوری رحمۃ اللّٰہ علیہ۔
آپ اپنے وقت کے فاضلِ متبحر اور عالم اکمل تھے۔ آپ کی شہرت آپ کی زندگی میں ہی اطرافِ عالم میں پھیل گئی تھی۔ آپ ایک عدیم النظیر عالم، بلند پایہ مدرس، عظیم الشان مصنف، اور جلیل القدر صوفی تھے۔ دین و مذہب کی محبت رگ و پے میں جاری تھی۔ خوش خلق، خوش مزاج، ملنسار اور مہمان نواز تھے۔ آپ کی علمی فضیلت فضلاء دہر میں مسلم تھی۔ سلسلہ خیر آبادی کی ایک روشن کڑی تھے۔ کثیر الفیض علماء ہند میں فردِ وحید تھے۔ آپ سے ایک جہاں فیض یاب ہوا۔
فراغت کے بعد ساری زندگی درس و تدریس، اور تصنیف و تالیف میں مصروف رہے۔ ابتداء ً مدرسہ طالبیہ بریلی میں علوم دینیہ کی تدریس شروع کی اور صبح تا شام تیس، بتیس اسباق مختلف علوم و فنون کے پڑھاتے۔نواب عرش آشیاں مشتاق علی خان کے عہد 1304ھ میں مدرسہ عالیہ کے نظام میں توسیع ہوئی تو مولانا ہدایت علی بریلوی اول مدرس اور آپ مدرس سوم مقرر ہوئے۔ مولوی عبدالجبار وزیر ریاست بھوپال کی درخواست پر مدرسہ سلیمانیہ بھوپال میں ایک سال صدر مدرس رہے۔ طلبہ کی ایک کثیر جماعت بھی آپ کے ساتھ بھوپال گئی۔ بھوپال کے مشہور عالم حسین بن محسن یمنی سے تبرکاً اجازت حدیث حاصل کی۔شیخ نے آپ کی سند پر یہ الفاظ لکھے: ’’وھو فی الحقیقۃ بحر نبار وحباب ذخار کما یعلم ذلک من حالہ ومقالہ‘‘
پھر سال کےآخر میں واپس رام پور آگئے۔

جب شمس العلماء حضرت علامہ مولانا عبدالحق خیرآبادی رحمۃ اللّٰه علیہ مدرسہ عالیہ رام پور کے صدر مدرس مقرر ہوئے تو آپ نے مدرس ہونے کے باوجود ان سے علمی استفادہ کیا۔ شرح سلم، شمس بازغہ، حواشی زاہدیہ علیٰ شرح المواقف، شرح سلم قاضی گوپاموی اور شرح تجرید پڑھی اور علمی ذوق کے تسکین اور استفادے کا حق ادا کر دیا۔ مولانا خیر آبادی رحمۃ اللّٰه علیہ اپنے تلامذہ میں سے آپ کی بہت تعریف اور قدر کرتے تھے۔ مولانا عبدالحق خیر آبادی رحمۃ اللّٰہ علیہ کے مدرسہ عالیہ سے جانے کے

بعد آپ اول مدرس ہوئے۔ 1909ء میں حکومت کی درخواست پر ایک سال مدرسہ عالیہ کلکتہ میں اول مدرس کے منصب پر فائز رہے۔

سالانہ تعطیلات میں جب رام پور آئے تو نواب حامد علی خان باصرار روک لیا۔ چنانچہ مصطفیٰ علی سیکرٹری تعلیم اور نجم الحسن ڈائریکٹر تعلیم کی کوشش سے مدرسہ عالیہ رام پور کے دوبارہ صدرالمدرسین منتخب ہوئے۔ طلبہ کو پڑھانے میں بڑی محنت کرتے۔ مدرسہ کے اوقات کے علاوہ رات گیارہ بجے تک پڑھاتے اور طریقۂ تعلیم ایسا تھا کہ غبی سے غبی طالب علم کو بھی مطالب ذہن نشین ہوجاتے۔ ہند و پاک کے علاوہ افغانستان، ایران، اور خراسان تک طلبہ شریک ِدرس ہوتے۔ 

بعض تلامذہ کے اسماء گرامی:   
امام المناطقہ مولانا دین محمد بدھوی۔ شیخ الجامعہ مولانا غلام محمد گھوٹوی۔ مولانا غلام جیلانی ہزاروی۔ مولانا مفتی عطاء محمد ضلع چکوال۔ مولانا عبدالعزیز۔ مولانا صدیق قندھاروی۔ مولانا سیف اللہ ہراتی۔ مولانا محمد مسلم جون پوری۔ مولانا عبدالکریم لکھنوی وغیرہ۔
آپ کا ہر شاگرد علم کی دنیا میں نیر تاباں تھا۔ ہر ایک سے ایک جہاں منور و فیض یاب ہوا۔
(مہر انور:720)

تصانیف: آپ نے تدریسی مصروفیات کے باوجود تصنیف و تالیف کی طرف بھی خاصی توجہ دی اور ایک بڑا علمی ذخیرہ یادگار چھوڑا۔
الظفر الحامدی۔ شرح میر ایسا غوجی۔ حاشیہ حمد اللہ۔ حاشیہ میر زاہد۔ حاشیہ تلویح۔ حاشیہ دروس البلاغہ۔ افضل التحقیقات فی مسئلۃ الصفات۔ یادگار ہیں۔ 
آپ کے فرزند ارجمند حضرت مولانا افضال الحق رام پوری رحمہ اللہ بڑے فاضل عالم اور آپ کے بعد مدرسہ عالیہ رام پور کے پرنسپل ہوئے۔ حضرت مجدد گولڑی رحمہ اللّٰه کے ارادت مندوں میں سے تھے۔ (ایضا:721)

تاریخِ وصال: آپ کا وصال 28 /ذالقعدہ 1359ھ مطابق 7/جنوری 1940ء بروز اتوار کو ہوا۔ محلہ مردان خان رام پور کے قبرستان میں مدرسہ مطلع العلوم کے نزدیک دفن ہوئے۔(ایضا:721)

ماخذ و مراجع: تذکرہ علمائے اہل سنت۔ تذکرہ کاملان رام پور۔ مہر منیر۔ مہر انور۔ تذکرہ علمائے ہند۔

➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖
المرتب⬅ محـمد یـوسـف رضـا رضـوی امجـدی نائب مدیر "فیضـانِ دارالعـلوم امجـدیہ ناگپور گروپ" 9604397443
➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے