کافر کلامی کو کافر ماننا ضروریات دین سے
کافر کلامی کو کافر ماننا ضروریات دین سے ہے۔ اس میں اہل اسلام کا اختلاف نہیں۔ دیابنہ بھی اس کا اقرار کرتے ہیں۔
جو امر ضروریات دین سے ہو، اس کا انکار کفرکلامی ہے۔ کافر کلامی کے کفر کا انکار کفر کلامی ہے،لہٰذا کافر کلامی کوکافر ماننا ضروریات دین سے ہے۔
جو لو گ انکار کرتے ہیں،وہ بتائیں کہ کافر کلامی کوکافر ماننا ضروریات دین سے نہیں ہے تو کیا ضروریات اہل سنت سے ہے؟یا ضروریات دین اور ضروریات اہل سنت دونوں سے خارج ہے؟ منکر ین اپنا موقف بتائیں،تب اس پر کلام کیا جائے۔
(1)صدرالشریعہ اعظمی قدس سرہ العزیز نے تحریر فرمایا:”مسلمان کومسلمان،کافر کو کافر ماننا ضروریات دین میں سے ہے۔ اگر چہ کسی خاص شخص کی نسبت یہ یقین نہیں کیا جا سکتا کہ اس کا خاتمہ ایمان یا معاذاللہ کفر پر ہوا،تاوقتے کہ اس کے خاتمہ کاحال دلیل شرعی سے ثابت نہ ہو،مگر اس سے یہ نہ ہوگا کہ جس شخص نے قطعا کفرکیا ہو، اس کے کفر میں شک کیا جائے کہ قطعی کافر کے کفر میں شک بھی آدمی کوکافر بنا دیتا ہے“۔
(بہارشریعت حصہ اول: ص185 -مجلس المدینۃ العلمیہ)
توضیح:کافر کلامی کو قطعی کافر کہا جاتا ہے۔کافرکلامی کو کافرماننا ضروریات دین سے ہے۔ یہ دین اسلام کے مسلمات میں سے ہے۔دیابنہ بھی اس کوتسلیم کرتے ہیں۔
(2)دیوبند کے سابق شیخ الحدیث انورشاہ کشمیری دیوبندی(۲۹۲۱ھ-۲۵۳۱ھ) نے لکھا:(وان من لم یکفر کافرا مقطوعا بکفرہ فہوکذلک)
(اکفارالملحدین:ص100- مجلس علمی: کراچی)
ترجمہ: جو قطعی کافر کو کافر نہ کہے،وہ بھی اسی طرح (کافر)ہے۔
(3)وکیل دیابنہ مرتضیٰ حسن دربھنگوی نے لکھا:”اگر خان صاحب کے نزدیک بعض علمائے دیوبند واقعی ایسے ہی تھے،جیسا انہوں نے سمجھا تو خاں صاحب پر ان علمائے دیوبند کی تکفیر فرض تھی۔ اگر وہ ان کو کافر نہ کہتے تووہ خود کافر ہو جاتے،جیسے علمائے اسلام نے جب مرزا صاحب کے عقائد کفریہ معلوم کر لیے اور وہ قطعاً ثابت ہو گئے تو اب علمائے اسلام پر مرزاصاحب اور مرزائیوں کو کافر ومرتدکہنا فرض ہو گیا۔اگر وہ مرزا صاحب اور مرزائیوں کو کافر نہ کہیں، چاہے وہ لاہوری ہو ں یا قدنی وغیرہ وغیرہ تو وہ خود کافر ہو جائیں گے، کیوں کہ جو کافر کو کافر نہ کہے،وہ خود کافر ہے“۔(اشد العذاب: ص13-مطبع مجتبائی دہلی)
دیابنہ بھی کہتے ہیں کہ اعلیٰ حضرت قدس سرہ العزیز کی نظر میں اکابر دیوبند کافر تھے تو ان پر ان کی تکفیر فرض تھی۔اگر وہ تکفیر نہ کرتے تو خود کافر ہوجاتے۔اس سے بالکل واضح ہے کہ کافر کلامی کوکافر ماننا ضروریات دین سے ہے۔یہ دیوبندیوں کوبھی تسلیم ہے۔
سوال: اشخاص اربعہ اور قادیانی کافر کلامی ہیں تو اشخاص اربعہ کو کا فر ماننا ضروریات دین سے ہے یا نہیں؟
جواب:جب ہر کافر کلامی کوکافر ماننا ضروریات دین سے ہے،اور اشخاص اربعہ وقادیانی بھی کافر کلامی ہیں تو اشخاص اربعہ وقادیانی کوبھی کافر ماننا ضروریات دین سے ہے۔
امام اہل سنت قدس سرہ العزیز نے ایک سوال کے جواب میں رقم فرمایا:
”جوان کے خیالا ت وحالات پر مطلع ہوکر انہیں عالم جانے،یا قابل امامت مانے، ان کے پیچھے نماز پڑھے،وہ بھی انہیں کی طرح کافر ومرتد ہے کہ: من شک فی کفرہ فقد کفر۔
اس کے لیے حسام الحر مین کی وہ عبارتیں کہ سوال سوم میں مذکور ہوئیں،کافی ہیں۔ یوں ہی جوان احکام ضروریات اسلام کو کہے:یہ مولوی کے جھگڑے ہیں،وہ بھی کافر ہے“۔
(فتاویٰ رضویہ جلد ششم ص109-رضا اکیڈمی ممبئ)
اس مقام پرفتاویٰ رضویہ کے سوال سوم میں حسام الحر مین کی عبارتیں نقل کی گئی ہیں۔ ان عبارتوں میں افراد خمسہ (قادیانی، نانوتوی،گنگوہی،انبیٹھوی وتھانوی)کے کافر ہونے کا حکم مذکور ہے، اور یہ حکم مذکور ہے کہ جو ان کے کفرمیں شک کرے،وہ بھی کافر ہے۔انہیں احکام کو اما م احمد رضا قادری قدس سرہ العزیزنے ضروریات اسلام قرار دیا اور فرمایا کہ:
((جوان احکام ضروریات اسلام کو کہے:یہ مولوی کے جھگڑے ہیں،وہ بھی کافر ہے))
منقولہ بالا جملے میں جن احکام کو ضروریات اسلام کہا گیا ہے، وہ اشخاص اربعہ اورقادیانی کے کافر ہونے کے شرعی احکام ہیں۔
سوال:اشخاص اربعہ اورقادیانی کو کافر ماننا ضروریات دین سے کیسے ہے؟اس کا ذکر قرآن وحدیث میں نہیں ہے۔
جواب: قرآن وحدیث میں جو اصول بیان کیے گئے ہیں۔انہی اصول کی روشنی میں شرعی حکم بیان کیا جاتا ہے۔
قرآن مجید میں خنزیر کاگوشت حرام فرمایا گیا ہے۔
ارشاد الٰہی ہے:(حرمت علیکم المیتۃ والدم ولحم الخنزیر)(سورہ مائدہ:آیت 3)
رام پرساد کے گھر میں ایک خنزیر ہے۔ بکر نے کہا کہ اس خنزیر کا گوشت حرام ہے۔ اب زید کہے کہ قرآن عظیم میں یہ توضرورہے کہ خنزیر کا گوشت حرام ہے،لیکن یہ کہاں ہے کہ رام پرساد کے گھر میں جوخنزیر ہے،اس کا گوشت حرام ہے؟
اس کا جواب یہی ہے کہ خنزیر ایک کلی ہے۔ رام پر ساد کے گھر میں جو خنزیر ہے،وہ اسی کلی کا ایک فرد ہے۔ کلی کا جو حکم بیان کیا جاتا ہے،وہ دراصل اس کے افرادکے لیے بیان کیا جاتا ہے۔جب یہ خنزیر اسی کلی کا ایک فردہے تو اس کا گوشت حرام ہوا۔
اگر زید نہ مانے تو اس سے دریافت کیا جائے کہ کیا رام پرساد کے گھر میں جوخنزیر ہے، زیداس کا گوشت کھا سکتا ہے؟ اگروہ انکار کرے تو اس سے سبب دریافت کیا جائے۔
اگر کھانے پر راضی ہو تووہ ایک بے عقل ہے۔دین کی باتوں میں ایسے بے عقلوں کی بات کا کوئی اعتبار نہیں۔
کافر کلامی کوکافر ماننا ضروریات دین سے ہے، اور اشخاص اربعہ اورقادیانی کافر کلامی کے افراد میں سے ہیں،لہٰذا اشخاص اربعہ اورقادیانی کوکافر ماننا ضروریات دین سے ہے۔
مزید تفصیل، البرکات النبویہ،جلد یازدہم (باب دوم فصل اول)اوررسالہ دوازدہم (باب پانزدہم) میں مرقوم ہے۔
علم نحو کا مشہور قانون ہے:(کل فاعل مرفوع)یعنی ہرفاعل مرفوع ہوتا ہے۔(جاء زید) میں زید فاعل ہے تو زید مرفوع ہوگا۔ اب کوئی یہ سوال کرے کہ نحو کی کتاب میں یہ کہاں ہے کہ (جاء زید)میں جو زید ہے،وہ مرفوع ہوگا۔ اس کا جواب یہی ہے کہ (کل فاعل مرفوع) ایک قاعدہ کلیہ ہے۔ قاعدہ کلیہ میں جو حکم بیان کیا جاتا ہے،وہ اس کے موضوع کے تمام افراد کے لیے ہوتا ہے۔ (جاء زید)میں زید فاعل ہے،تویہ بھی مرفوع ہوگا۔
اسی طرح ہر کافر کلامی کوکافرماننا ضروریات دین سے ہے اور قادیانی کافر کلامی ہے تو اس کو کافر ماننا ضروریات دین سے ہے۔ یہ سب بدیہی امور ہیں۔
من شک فی کفرہ فقد کفر کی غلط تشریح
بعض لوگ (من شک فی کفرہ وعذابہ فقد کفر) کی یہ تشریح کرتے ہیں کہ جس کی تحقیق میں اشخاص اربعہ کافر ہیں،وہ کافر نہ مانے، تب وہ کافر ہے۔یہ تشریح غلط اور بدیہی البطلان ہے۔ اس تشریح کے بطلان کے چند اشارات درج ذیل ہیں۔
(۱) قادیانیوں کی تحقیق میں مرزا غلام احمدقادیانی کافر نہیں ہے،اس وجہ سے وہ لوگ مرزا قادیانی کوکافر نہیں مانتے ہیں۔اب یہ بتایا جائے کہ مرزا غلام احمدقادیانی کو مسلمان ماننے والے قادیانی لوگ مومن ہیں یا کافر؟
دربھنگوی نے لکھا کہ جوشخص قدنی یالاہوری قادیانیوں کوکافر نہ مانے،وہ خود کافر ہے۔ اس سے واضح ہے کہ مرزا غلام احمد کو مومن ماننے والے کو دیابنہ بھی کافر مانتے ہیں۔
(۲)اشخاص اربعہ دیوبندیوں کی تحقیق میں کافر نہیں۔مذکورہ تشریح کے مطابق اگر دیابنہ اشخاص اربعہ کو کافر نہ مانیں تو ان پر حکم کفرنہیں ہوگا، پھر سواد اعظم اہل سنت وجماعت دیوبندیوں کوکافر کیوں مانتا ہے۔سواد اعظم کبھی ضلالت وگمرہی میں مبتلا نہیں ہو سکتا۔
دیابنہ پہلے ہی سے سواد اعظم اہل سنت وجماعت سے خارج تھے۔وہ لوگ اسماعیل دہلوی کے متبع تھے۔اسماعیل دہلوی وہابی تھا۔ وہابیہ،اہل سنت وجماعت سے خارج ہیں۔
مذکورہ بالاتشریح کو مان لیا جائے تو قادیانی بھی اپنی تحقیق کے اعتبارسے کافر نہیں۔ اشخاص اربعہ اپنی تحقیق میں کافر نہیں۔ روافض بھی اپنی تحقیق میں کافر نہیں۔ مسیلمہ کذاب کو نبی ماننے والے بھی اپنی تحقیق میں کافر نہیں۔منکرین زکات بھی اپنی تحقیق میں کافر نہیں،پھر حضرت صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے منکرین زکات اور مسیلمہ کذاب کونبی ماننے والوں سے جہاد کیوں فرمایا؟حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مرتدین کوآگ میں کیوں جلایا؟
مذکورہ تشریح کے مطابق اہل باطل بھی اپنی تحقیق کے اعتبارسے اہل حق ہوں گے،اور مرتدین بھی اپنی تحقیق کے اعتبارسے مومن ہوں گے۔یعنی حقانیت اور حکم شرعی کا دارومدار شرعی اصول وضوابط پر نہیں ہے،بلکہ لوگوں کی اپنی تحقیق پر ہے۔یہ عجیب وغریب تشریح ہے۔ جس نے بھی یہ جدیدتشریح گڑھی ہے،اس کو نظرثانی کرنی چاہئے۔ یہ تاویل باطل کے ذریعہ کافر کلامی کومومن ثابت کرنے کی ایک کوشش ہے۔تاویل باطل کے ذریعہ کافرکلامی کو مومن ماننا بھی کفر کلامی ہے۔ سواد اعظم اہل سنت وجماعت نے اس تشریح کو قبول نہیں کیا ہے۔
(من شک فی کفرہ وعذابہ فقد کفر)کی مذکورہ تشریح خوساختہ اوراختراعی ہے،جیسے نانوتوی نے ختم نبوت کی ایک جدید تشریح کا اختراع کیا تھا۔اسی طرح بعض لوگوں نے (من شک فی کفرہ وعذابہ فقد کفر)کا ایک نیا معنی گڑھ لیا ہے۔صحیح یہ ہے کہ کافر کلامی کو مومن ماننے والا کافر ہے۔ جس کو کچھ معلوم ہی نہیں، وہ لاعلمی کی حالت میں کافر کلامی کو مومن کہے تو وہ معذور ہے۔ تمام ضروری تفصیل کا علم ہوجانے کے بعدجو انکار کرے،وہ معذور نہیں۔
وضاحت: جس کے بارے میں کفر کلامی کا غلط فتویٰ دیا گیا،وہ کافر کلامی نہیں۔
ہر گمراہ اپنی گمرہی پر کچھ دلیل رکھتا ہے،گر چہ اس کا استدلال غلط ہے تو کیا یہ کہا جائے گا کہ اس کی تحقیق میں جو صحیح ہے،اس کو مانے۔قطعیات اور اجماعی امور میں جب اجتہاد کی اجازت ہی نہیں تو ہر ایک کو اپنی تحقیق پر عمل کا حکم کیسے ہوگا؟
کسی کی تکفیر کلامی کے مسئلہ میں اجتہاد نہیں ہوتا ہے،بلکہ شرعی اصول وقوانین کی روشنی میں یہ متعین کیا جاتا ہے کہ فلاں شخص ضروری دینی کا منکر ہے یا نہیں؟ جیسے خنزیر کی مذکورہ مثال میں صرف فرد کا تعین ہے۔اس واسطے اجتہادیا مجتہد وعالم سے سوال کی ضرورت نہیں۔
اسی طرح جب کفر کلامی بالکل بدیہی ہو،یعنی بدیہی اولی تواس کے لیے فتویٰ کی ضرورت نہیں،مثلاً زید دین اسلام چھوڑ کراعلانیہ طورپرعیسائی مذہب اختیار کرلیا۔ اعلانیہ طور پر اسلام کا انکار کرتا ہے۔وہ گرجا گھر جاکر عیسائیوں کی طر ح عبادت کرتا ہے۔
اب جن لوگوں کوزید کے تمام حالات کا مشاہدہ ہے،یا یقینی طورپر معلوم ہے تو اس پر لازم ہے کہ اس کو کافر مانے۔کوئی عالم اس کے کفر کافتویٰ دے،یا نہ دے۔جب سب کچھ بالکل ظاہر ہے تو اسے مومن کیسے مان سکتا ہے۔جو حکم شرعی بالکل ظاہر ہے،اس کی تصدیق کرے،اوراسے مانے۔
جب کفرکلامی بدیہی غیر اولی یعنی بدیہی خفی ہو، اور اہل علم نے اس پر غور وفکر کرلیا، اس کی تصویب وتصحیح ہوچکی۔ علمائے کرام من جانب اللہ حکم شرعی بتانے پر مامور ہیں۔انہوں نے ہر طرح سے غور وفکر کرکے حکم شرعی بتادیا تو اب اس حکم شرعی کو ماننا سب پر لازم ہے۔ یہ تصدیق ہے، تکفیر نہیں۔ عوام کوتکفیر نہیں کرنی ہے۔مکفر کے لیے متعدد شرائط ہیں،اور حکم کی تصدیق ہرمسلمان کو کرنی ہے،جس کوحکم کا علم ہو۔تصدیق اور تکفیر میں فرق ہے۔
اعلیٰ حضرت علیہ الرحمۃوالرضوان عظیم متکلم اسلام تھے۔وہ اپنے عہد میں امام اشعری اور امام ماتریدی کے جانشیں تھے۔ انہوں نے فرمایا کہ تمام ضروری تحقیقات ہوچکی ہیں۔ علمائے حرمین طیبین نے بھی حکم شرعی کی تصدیق وتائید فر مادی ہے۔تمام تاویلات باطل وغلط ہیں۔ اب دوہی راستہ ہے۔ ایک جنت کا راستہ اور ایک جہنم کا راستہ۔جس کو جوپسند ہو، وہ اختیار کرے۔
مجددگرامی نے یہ نہیں فرمایا کہ جس کی تحقیق میں جو ثابت ہو، وہ اسی پر عمل کر ے۔ عہد حاضر میں لوگ (من شک فی کفرہ فقدکفر)کی عجیب وغریب تشریح کرنے لگے۔ اسلاف کرام نے بھی ایسا نہیں فرمایا۔بہر حال سواد اعظم ضلالت میں مبتلا نہیں ہوسکتا،گرچہ کچھ لوگ گمرہی میں مبتلاہوجائیں۔ کفرکلامی کے صحیح فتویٰ میں اختلاف کی اجازت نہیں۔
اعلیٰ حضرت علیہ الرحمۃوالرضوان نے رقم فرمایا:”یہاں چار مرحلے تھے۔
(1)جو کچھ ان دشنامیوں نے لکھا،چھا پا،ضروروہ اللہ ورسول جل وعلا وصلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی توہین ودشنام تھا۔
(2)اللہ ورسول جل وعلا وصلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی توہین کرنے والا کافر ہے۔
(3)جو انہیں کافر نہ کہے، جو ان کا پاس لحاظ کرے،جو ان کی استادی یارشتے یا دوستی کا خیال کرے،وہ انہیں میں سے ہے۔ انہیں کی طرح کافرہے۔ قیامت میں ان کے ساتھ ایک رسی میں باندھا جائے گا۔
(4)جو عذر مکر جہال وضلا ل یہاں بیان کرتے ہیں، سب باطل وناروا وپادر ہواہیں۔
یہ چاروں بحمد اللہ تعالیٰ بروجہ اعلیٰ واضح وروشن ہوگئے۔ جن کے ثبوت قرآن عظیم ہی کی آیات کریمہ نے دیے۔ اب ایک پہلو پر جنت وسعادت سرمدی۔دوسری طرف شقاوت وجہنم ابدی ہے۔ جسے جو پسند آئے،اختیار کرے، مگر اتنا سمجھ لو کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کا دامن چھوڑ کر زیدوعمر وکا ساتھ دینے والا کبھی فلاح نہیں پائے گا۔باقی ہدایت رب العزت کے اختیار میں ہے۔
بات بحمداللہ تعالیٰ ہرذی علم مسلمان کے نزدیک اعلیٰ بدیہیات میں سے تھی،مگر ہمارے عوام بھائیوں کو مہریں دیکھنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ مہریں علمائے کرام حرمین طیبین سے زائد کہاں کی ہوں گی۔ جہاں سے دین کا آغاز ہوا، اور بحکم احادیث صحیحہ کبھی وہاں شیطان کا دوردورہ نہ ہوگا، لہٰذااپنے عام بھائیوں کی زیادت اطمینان کومکہ معظمہ ومدینہ طیبہ کے علمائے کرام ومفتیان عظام کے حضور فتویٰ پیش ہوا۔ جس خوبی وخوش اسلوبی وجوش دینی سے ان عمائداسلام نے تصدیقیں فرمائیں،بحمداللہ تعالیٰ کتاب مستطاب ”حسام الحرمین علی منحرالکفر والمین“(۴۲۳۱ھ)میں گرامی بھائیوں کے پیش نظر اور ہرصفحہ کے مقابل اردو میں اس کا ترجمہ ”مبین احکام وتصدیقات اعلام“(۵۲۳۱ھ)جلوہ گر“۔(تمہید ایمان:ص 358-357 - فتاویٰ رضویہ جلد30 -جامعہ نظامیہ لاہور)
من شک کاصحیح مفہوم
(من شک فی کفرہ وعذابہ فقد کفر)کا صحیح مفہوم یہ ہے کہ جوشخص اسلامی اصول وقوانین کے اعتبارسے کافرکلامی ہے،اس کومومن ماننا کفر ہے۔اگرکافرکلامی کو بہت سے لوگ مومن کہیں تو وہ لوگ بھی کافر ہیں۔عہدحاضر کے رافضی مجتہدین قرآن عظیم کوناقص اور حضرات ائمہ اہل بیت رضی اللہ تعالیٰ عنہم کو حضرات انبیائے کرام علیہم الصلوٰۃوالسلام سے افضل ماننے کے سبب کافر کلامی ہیں اور لاکھوں شیعہ ان مجتہدین کو مومن مانتے ہیں،پس ان مجتہدین کو مومن ماننے والے تمام روافض کافر ہیں۔
سوال: بعض علمائے کرام نے حضرت شیخ اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی تکفیر کی، اور اس کو دیگر علمائے کرام نے اس کوتسلیم نہیں کیا تو انکار کرنے والوں پر کیا حکم ہوگا؟
جواب: وہاں تکفیرکلامی کی ایک شرط مفقود ہے۔ ان کی کتابوں میں تحریف واقع ہوئی تھی۔ بعض علما ئے کرام نے سمجھا کہ ان کتابوں کی نسبت حضرت شیخ اکبر قدس سرہ القوی کی جانب صحیح ہے۔اسی وجہ سے لغزش واقع ہوئی۔لغزش پر مطلع ہونے کے بعد رجوع لازم ہے۔ عدم رجوع اسی کو ظاہر کرتا ہے کہ لغزش پر اطلاع نہ ہوسکی۔احتمال فی التکلم کے سبب کفر کلامی کا یہ فتوی صحیح نہیں ہے۔
اشخاص اربعہ کے بارے میں کلام،متکلم اور تکلم میں کوئی احتمال نہیں۔سواد اعظم اہل سنت وجماعت نے اشخاص اربعہ کوکافر قرار دیا۔ عرب وعجم کے علمائے اہل سنت اس پر متفق ہیں۔
بعض مشائخ طریقت کے بارے میں غلط روایات وحکایات پیش کی جاتی ہیں کہ انہوں نے اشخاص اربعہ کی تکفیر کا انکار کیا ہے۔ ایسی غلط روایتوں کے سبب ان مشائخ کرام کے بارے میں بدگمانی نہیں کی جاسکتی۔کافرکلامی کو کافر ماننا ضروری ہے،لیکن ہرایک کوفتویٰ دینا ضروری نہیں۔ جب سوال ہو،تب عقیدہ کا اظہار ضروری ہے۔
آج بعض لوگ اشخاص اربعہ کو مومن ثابت کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ان کے فتنوں سے چند لوگ گمراہ ہوسکتے ہیں،لیکن سواد اعظم اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم سے ضلالت سے محفوظ رہتا ہے۔ خلیل بجنوری نے بھی کوشش کی تھی۔ اب اس کے متبعین کوشش میں ہیں۔
اہل علم کے لیے وضاحت
اگریہ شبہہ ہو کہ کافر کلامی کوکافرماننا ضروریات دین میں سے ہے یاضروریات اہل سنت میں سے تو پہلے دونوں کے انکار کا حکم دیکھیں۔ ضروریات دین کا انکار تاویل کے ساتھ ہو، یا بلا تاویل ہو، دونوں صورت میں متکلمین کے یہاں کفر ہے۔
ضروریات اہل سنت کا انکار تاویل کے ساتھ متکلمین کے یہا ں ضلالت وگمرہی ہے,کفر نہیں
جب کہ کافر کلامی کے کفر کا انکار تاویل کے ساتھ بھی ہو تو یہ بھی متکلمین کے یہاں کفر ہے، پس واضح ہوگیا کہ کافر کلامی کوکافر ماننا ضروریات دین سے ہے۔ ضروریات اہل سنت سے نہیں۔
کبھی یہ بھی شبہہ ہوسکتا ہے کہ ضرور یات دین کی دوقسمیں ہیں تو تکفیر کلامی کا مسئلہ کس قسم سے ہے۔اس کا جواب یہ ہے کہ ضروریات دین کی قسم دوم ہی کوضروریات اہل سنت کہا جاتا ہے۔ عہد ماضی میں ضروریات اہل سنت کی اصطلاح رائج نہیں تھی۔بعد میں یہ اصطلاح رائج ہوئی۔
طارق انور مصباحی
جاری کردہ:04:دسمبر 2021
0 تبصرے
اپنا کمینٹ یہاں لکھیں