حکم اور متعلقات حکم میں فرق
زید وبکر دونوں اسمبلی الیکشن میں امیدوار ہوئے۔بظاہر زید کے جیتنے کی امید نہیں تھی,کیوں کہ بکر پرانا لیڈر تھا۔اس نے بہت سی خدمات انجام دی تھیں۔ہمیشہ ضرورت مندوں کی مدد کرتا تھا۔ان تمام خدمات واوصاف کے بکر ہار گیااور زید جیت گیا۔وہ جیت کر منسٹر بھی بن چکا۔
سارے لوگوں کی نظر میں یہ بات یقینی اور بدیہی ہے کہ زید الیکشن جیت گیا اور منسٹر بن چکا ہے۔فتح یابی کا سبب کئی سالوں تک لوگوں کو سمجھ میں نہیں آ سکا۔
1-بعض لوگ کہتے ہیں کہ زید نے ووٹ دہندگان کو پیسے دیئے تھے,اس لئے لوگوں نے اسے ووٹ دیا۔
2-بعض لوگ کہتے ہیں کہ لوگ تبدیلی چاہتے تھے۔بکر پرانا لیڈر تھا۔اس بار لوگوں نے زید کو موقع دیا ہے۔
3-بعض لوگ کہتے ہیں کہ ووٹنگ مشین میں خرابی کے سبب بکر کو دیئے گئے ووٹ بھی زید کو چلے گئے۔
4-بعض لوگ کہتے ہیں کہ ووٹوں کی گنتی میں غلطی ہو گئی۔
الغرض یہ بات یقینی اور بدیہی ہے کہ زید الیکشن میں جیت کر منسٹر بن چکا ہے اور کئی سال گزر چکے ہیں۔صرف فتح یابی کا سبب مشکوک ہے۔جو بات لوگوں کےنزدیک یقینی ہے یعنی زید کی فتح یابی,اس کو ماننا ہے۔اس کے انکار کی گنجائش نہیں۔
فتح یابی کے سبب میں شبہ کے سبب فتح یابی کا انکار کرنا جنون کے علاوہ کچھ بھی نہیں۔سبب معلوم نہیں,مگر مسبب یقینی ہے۔
اسی طرح جب خالد کو تواتر کے ساتھ معلوم ہو گیا کہ علمائے حق نے اشخاص اربعہ کی تکفیرکلامی کی ہے۔اس کو علمائے حق کے فتاوی مثلا حسام الحرمین,الصوارم الہندیہ وغیرہ بھی دکھلا دیئے گئے۔جس سے اسے مزید قلبی اطمینان حاصل ہو گیا کہ اشخاص اربعہ کی تکفیر پر عرب وعجم کے علمائے حق کا اتفاق ہے۔اشخاص اربعہ کی کتابیں بھی دکھلا دی گئیں۔وہ پڑھ لیا۔سمجھ لیا۔اگر اردو پڑھنا نہ جانتا ہو تو دوسروں سے پڑھوا کر سمجھ لیا۔علمائے کرام وقابل اعتماد مومنین کے بتانے سے اسے متواتر خبر بھی حاصل ہو چکی ہے۔
اس متواتر خبر کے سبب خالد کو یقین حاصل ہو گیا کہ علمائے حق نے اشخاص اربعہ کی کفریہ عبارات کے سبب ان لوگوں کی تکفیر کی ہے تو جو امر اس کے نزدیک یقینی ہے۔اسے تسلیم کرنا ہو گا۔
حکم میں شبہہ الگ بات ہے اور متعلقات حکم میں شبہہ الگ بات ہے۔خبر متواتر سے کوئی حکم معلوم ہو تو حکم میں شبہہ نہیں ہو گا,بلکہ حکم کے متعلقات مثلا اس کے لوازم وشرائط اور اسباب ودلائل وغیرہ میں شبہہ ہو سکتا ہے۔
الغرض علمائے حق کی جانب سے اشخاص اربعہ پر کفر کلامی کا حکم عائد ہونا خالد کے نزدیک یقینی ہو گیا,لیکن دیوبندی لوگ اشخاص اربعہ کے کفریہ کلمات کی تاویل کرتے ہیں۔حکم کفر کو غلط بتاتے ہیں۔دیابنہ کے بیان کردہ تاویلات باطلہ کے سبب خالد کے ذہن میں کوئی شبہہ پیدا ہو گیا,یا خود اس کے ذہن میں کوئی شبہہ پیدا ہوا تو وہ اس شبہہ کو دور کرنے کی کوشش کرے گا۔
اگر بدمذہبوں کی تاویل باطل پر عمل کرنا جائز ہوتا تو روافض,خوارج,معتزلہ ودیگر گمراہ ومرتد فرقوں کے عوام پر ضلالت یا کفر کا حکم عائد نہیں ہوتا۔کیوں کہ عوام کو اپنے مذہبی قائدین کی تاویل باطل کے سبب شبہہ ہو جاتا ہے۔
شبہہ کے سبب خالد اشخاص اربعہ کے کفر کا انکار نہیں کر سکتا,کیوں کہ تکفیر کی متواتر خبر اس کے پاس موجود ہے اور خبر متواتر یقین کا افادہ کرتی ہے,اور اسے اس بات کا یقین بھی حاصل ہو چکا ہے۔جیسے زید کے الیکشن میں فتح یاب ہونے اور وزیر بننے کی خبر جن لوگوں کے نزدیک یقینی ہے تو اس کا انکار نہیں کر سکتا۔
الحاصل جو امر خالد کی نظر میں یقینی ہے۔اس کے انکار کا اسے حق نہیں۔شبہات کو وہ دور کرے۔نیز عوام الناس کو حکم شرعی ماننا لازم ہے,لیکن مناظرین ومباحثین کی طرح ہر شبہہ کا جواب معلوم ہونا ضروری نہیں,بلکہ جن امور میں غور وفکر کے سبب عوام کے گمراہ ہونے کا خوف ہو,اس میں ان کو غور وفکر بھی ممنوع ہے,نیز سواد اعظم کے قول کو اختیار کرنا تقلید نہیں,اس لئے یہ نہیں کہا جا سکتا کہ باب اعتقادیات میں تقلید نہیں تو یہاں تقلید کا حکم کیسے دیا جارہا ہے۔ سواد اعظم کے اجماع پر عمل در اصل دلیل پر عمل ہے۔یہ تقلید نہیں,بلکہ تحقیق ہے۔
باب تکفیر کا ایک باطل مذہب:
آغاز اسلام سے تیرہویں صدی ہجری تک باب تکفیر میں دو مذاہب تھے۔مذہب متکلمین ومذہب فقہا۔
اہل ندوہ نے باب تکفیر میں ایک نیا مذہب ایجاد کیا ہے۔ندویوں کا مذہب یہ ہے کہ صرف کفار اصلی کافر ہیں اور کلمہ گو جماعتوں میں سے ہر جماعت حق پر ہے۔اسی کو صلح کلیت کہا جاتا ہے۔
اس طرح باب تکفیر میں تین مذاہب ہو گئے۔(1)مذہب فقہا(2)مذہب متکلمین(3)مذہب ملحدین۔
عہد حاضر کے مذبذبین نے باب تکفیر میں مذہب ملحدین کو اختیار کیا ہے۔
طارق انور مصباحی
جاری کردہ:21:اکتوبر 2021
0 تبصرے
اپنا کمینٹ یہاں لکھیں