خلع کے بعد بچے کس کے پاس رہیں گے؟

🕯 « احــکامِ شــریعت » 🕯
-----------------------------------------------------------
📚خلع کے بعد بچے کس کے پاس رہیں گے؟📚
➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖

السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ 
کیافرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ میں اگر میاں اور بیوی میں اختلاف ہونے کی وجہ سے اگر خلع ہوجائے تو بچے کس کے پاس ہوں گے؟ ایک لڑکا اور ایک لڑکی ان کی عمر اس وقت تقریباً نو اور پندرہ سال کی ہے رہبری فرمائیں؟ 
سائل: سید مقبول احمد رضوی
ــــــــــــــــــــــ❣♻❣ـــــــــــــــــــــــ

وعليكم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
الجواب بعون الملک الوہاب :
میاں اور بیوی کے درمیان اختلاف ہونے کی وجہ سے خلع ہوجائے تو تو عند الشرع چھوٹے بچوں کی پرورش کا حق ماں کو ہے. اب اگر لڑکا ہے تو سات سال کی عمر تک اس کی ماں کو پرورش کا حق حاصل ہے، اس کے بعد سے بلوغ تک لڑکا اپنے باپ کے پاس رہے گا پھر جب بالغ ہوگیا اور سمجھ والا کہ فتنہ یا بدنامی کا اندیشہ نہ ہو اور نہ ہی تادیب کی ضرورت ہو تو جہاں چاہے رہے اور تادیب کی ضرورت ہوتو باپ دادا کے پاس رہے گا ، حالات زمانہ کو دیکھتے ہوئے خود مختار نہ چھوڑاجائے البتہ بعد بلوغ نفقہ باپ کے ذمہ نہیں. اور اگر لڑکی ہے تو نوسال کی عمر تک ماں کی پرورش میں رہےگی لیکن اگر ماں پرورش کی اہل نہ ہو جیسے کہ مرتدہ ہوجائے یافسق میں مبتلا ہو جائے جس کی وجہ سے بچی کی پرورش میں فرق آئے یا وہ بچی کے غیر محرم سے نکاح کر لے تو حق پرورش نانی کو ہوگا ورنہ دادی کو اس کے بعد سے لڑکی جب تک کنواری ہے باپ دادا وغیرہم کے پاس رہے گی، مگر جب کہ عمر رسیدہ ہوجائے اور فتنہ کا اندیشہ نہ ہو تو اسے اختیار ہے جہاں چاہے رہے، اور ثیب ہے مثلاً بیوہ ہے اور فتنہ کا اندیشہ نہ ہو تو اسے اختیار ہے ورنہ باپ دادا وغیرہ کے یہاں رہے. 
(📕ایسا ہی بہار شریعت ج :2،ح :8،ص :252. 255. 256 ط:مکتبۃ المدینہ)

 فتاوی الھندیہ میں ہے : "أحق الناس بحضانۃ الصغير حال قیام النکاح او بعدالفرقۃ الام الا ان تکون مرتدۃ او فاجرۃ غیر مامونۃ کذا فی الکافی الخ... والأم والجدۃ أحق بالغلام حتی یستغنی وقدر بسبع سنیںن وقال القدوری حتی یاکل وحدہ ویشرب وحدہ ویستنجی وحدہ... والأم والجدۃ أحق بالجاریۃ حتی تحیض وفی نوادر ھشام عن محمد رحمہ اللہ اذابلغت حدالشھوۃ فالاب أحق وھذا صحيح، ھکذا فی التبیین... ویمسکہ هؤلاء ان کان غلاما الی ان یدرک فبعد ذالک ینظر ان کان قد اجتمع رایہ وھو مأمون علی نفسہ یخلی علی سبیلہ فیذھب حیث شاء وان کان غیر مأمون علی نفسہ فالاب یضمہ الی نفسہ و بولیہ ولانفقۃ علیہ الا اذاتطوع کذا فی شرح الطحاوی والجاریۃ ان کانت ثیبا وغیرمامونۃ علی نفسھا لایخلی سبیلہا و یضمھاالی نفسہ و ان کانت مامونۃ علی نفسہا فلا حق لہ فیہا ویخلی سبیلہا وتنزل حیث أحببت کذا فی البدائع اھ"
(📒ج:1ص:541 542،کتاب الطلاق باب الحضانۃ الدر المختار ج:5ص:252-262 :دار عالم ریاض )

واللہ تعالیٰ اعلم
➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖

✍🏻کتبـــــــــــہ:
محمد آصف رضا علیمی امجدی پرسا سیتامڑھی بہار۔

✅الجواب صحیح والمجیب نجیح : خلیفۂ حضور تاج الشریعہ حضرت مفتی سید شمس الحق برکاتی مصباحی صاحب قبلہ۔

ــــــــــــــــــــــ❣♻❣ـــــــــــــــــــــــ

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے