Header Ads

محمد بن عبدالوھاب نجدی ‏کون ‏ہے

*☠️ محمد بن عبدالوھاب نجدی کا تعارف☠️*

محمد بن عبدالوھاب نجدی کا 
 ظہور بارھویں صدی ہجری میں ہوا۔
اس کا عقیدہ یہ تھا کہ انبیاء (علیہم السلام) سے توسل کرنا، اور ان سے شفاعت طلب کرنا شرک ہے اور جو شخص یہ عقیدہ رکھے، وہ کافر ہے، اور اس کو قتل کرنا مباح ہے۔
محمد بن عبدالوھاب نے لکھا ہے :
تم یہ جان چکے ہو کہ لوگ اللہ کی ربوبیت کا اقرار کرنے کی وجہ سے اسلام میں داخل نہیں ہوتے، اور فرشتوں اور نبیوں کی شفاعت کا ارادہ کرنے کی وجہ سے اور ان کے وسیلہ سے اللہ کا تقرب حاصل کرنے کی وجہ سے ان کو قتل کرنا اور ان کا مال لوٹنا مباح ہوگیا ہے۔ 
*(کشف الشبہات صفحہ 9 مطبوعہ مکتبہ سلفیہ مدینہ منورہ)*
محمد بن عبدالوہاب نجدی کے بھائی شیخ سلیمان بن عبدالوھاب نے اپنے بھائی شِیخ محمد بن عبدالوہاب نجدی کے ردّ میں مسطور الصدر حدیث سے استدلال کیا ہے، وہ لکھتے ہیں :
اللہ تعالی نے اپنے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو جس قدر چاہا، اپنے غیب سے مطلع فرمایا اور قیامت تک جو کچھ ہونے والا ہے، اس کی خبر دے دی، اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خبر دی ہے کہ جزیرہ عرب میں شیطان اپنی عبادت سے مایوس ہوچکا ہے، اور شداد کی روایت میں یہ مذکورہ ہے کہ جزیرہ عرب میں بت پرستی نہیں ہوگی اور تمہارا مذہب ان حدیثوں کے برعکس ہے کیونکہ تمہارا عقیدہ ہے کہ بصرہ اور اس کے گرد ونواح اور عراق میں دجلہ سے لے کر اس جگہ تک جہاں حضرت علی (کرم اللہ تعالیٰ وجھہ الکریم) اور حضرت امام حسین (رضی اللہ عنہ) کی قبریں ہیں، اسی طرح سارے یمن اور حجاز میں شیطان کی پرستش اور بت پرستی ہوتی ہے اور یہاں کے مسلمان بت پرست اور کفار ہیں۔ حالانکہ یہ تمام جگہیں سر زمینِ عرب کے وہ تمام علاقے ہیں جن کی سلامتی ایمان اور کفر سے برات کی حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خبر دی ہے اور تم کہتے ہو کہ یہاں کے لوگ کافر ہیں اور جو ان کو کافر نہ کہے، وہ بھی کافر ہے۔ سو یہ تمام احادیث تمہارے مذہب کا ردّ کرتی ہیں۔ نیز امام احمد، امام ترمذی، امام نسائی اور امام ابن ماجہ نے حضرت عمرو بن احوص (رضی الله عنه) سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حجۃ الوداع کے موقع پر فرمایا : 
"شیطان ہمیشہ کے لیے اس سے مایوس ہوچکا ہے کہ تمہارے اس شہر (مکہ مکرمہ) میں اس کی پرستش کی جائے۔ البتہ تمہاری آپس کی لڑائیوں میں اس کی پیروی ہوتی رہے گی۔"
رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کبھی خلافِ واقع خبر نہیں دیتے اور جن چیزوں (توسل اور طلب اور طلب شفاعت) کا نام تم شرک اکبر رکھتے ہو، ان کے مرتکبین کو بت پرست کہتے ہو، ان تمام امور پر تمام اہل مکہ، ان کے عوام، امراء اور علماء چھ سو سال سے زیادہ عرصہ سے عمل پیرا ہیں، اور تمہارا گمان ہے کہ یہ لوگ کافر ہیں اور یہ احادیث تمہارے زعمِ فاسد کا رد کرتی ہیں۔ 
*(الصواعق الالہیہ صفحہ 46، 47 مطبوعہ مکتبہ الیثیق استنبول)*
علامہ سید محمد امین ابن عابدین شامی حنفی متوفی ١٢٥٢ ھ تحریر فرماتے ہیں :
"ہمارے زمانہ میں محمد بن عبد الوھاب کے متبعین نجد سے نکلے اور حرمین پر قابض ہوگئے۔ یہ خود کو حنبلی مذہب کی طرف منسوب کرتے ہیں، لیکن ان کا عقیدہ یہ ہے کہ صرف وہی مسلمان ہیں اور جو ان کے اعتقاد کے مخالف ہوں اور وہ مشرک ہیں۔ انہوں نے اہل سنت کے قتل اور اور ان کے علماء کے قتل کو جائز قرار دیا۔"
*(رد المختار جلد 3 صفحہ 309 مطبوعہ دارا حیاء التراث العربی بیروت)*
محمد انور شاہ کشمیری لکھتا ہے :
"رہا محمد بن عبدالوھاب نجدی تو وہ پلید شخص تھا، کم علم تھا، اور وہ بہت جلد کفر کا حکم لگاتا تھا۔ حالانکہ تکفیر اس شخص کو کرنی چاہیے جس کا علم بہت پختہ ہو اور وہ حاضر دماغ ہو اور کفر کی وجوہ اور اس کے اسباب کا جاننے والا ہو۔"
*(فیض الباری جلد اول صفحہ 171 مطبوعہ مطبعہ الحجازی القاہرہ)*
https://chat.whatsapp.com/HaxJuXeKacBDRsBC6klQ58
سید احمد بن زینی دحلان مکی شافعی تحریر فرماتے ہیں :
"اور محمد بن عبدالوہاب نجدی بہ صراحت کہا کرتا تھا کہ چھ سو سال سے تمام امت کافر ہے اور وہ ہر اس شخص کی تکفیر کرتا تھا جو اس کی اتباع نہ کرے۔ خواہ وہ انتہائی پرہیزگار شخص ہی کیوں نہ ہو، وہ ایسے تمام مسلمانوں کو مشرک قرار دے کر ان کو قتل کرا دیتا اور ان کے مال ومتاع کو لوٹنے کا حکم دیتا اور جو شخص اس کی اتباع کرلیتا اس کو مومن قرار دیتا۔ خواہ وہ شخص بد ترین فاسق ہو۔
*(خلاصۃ الکلام فی امر البلد الحرام صفحہ 333 مطبوعہ مکتبہ الیثیق استنبول)*
حسین احمد مدنی دیوبندی لکھتا ہے :
"محمد بن عبدالوھاب نجدی ابتداء تیرھویں صدی میں نجد عرب سے ظاہر ہوا۔ 
(یہ 1115 ھ میں پیدا ہوا اور 1206 میں مرگیا) 
اور چونکہ یہ خیالات باطلہ اور عقائد فاسدہ رکھتا تھا، اس لیے اس نے اہل سنت و الجماعت سے قتل و قتال کیا، ان کو بالجبر اپنے خیالات کی تکلیف دیتا رہا ان کے اموال کو غنیمت کا مال اور حلال سمجھا گیا، ان کے قتل کرنے کو باعث ثواب و رحمت شمار کرتا رہا، اہلِ حرمین کو خصوصاََ اور اہلِ حجاز کو عموماً تکالیف شاقہ پہنچائیں، سلف صالحین اور اتباع کی شان میں نہایت گستاخی اور بےادبی کے الفاظ استعمال کیے، بہت سے لوگوں کو بوجہ اس کی تکلیف شدیدہ کے مدینہ منورہ اور مکہ معظمہ چھوڑنا پڑا، اور ہزاروں آدمی اس کے اور اس کی فوجوں کے ہاتھوں شہید ہوگئے۔ الحاصل وہ ایک ظالم وباغی وخونخوار شخص تھا۔
*(شہاب ثاقب صفحہ 42 مطبوعہ کتب خانہ اعزازیہ دیوبند ضلع سہارن پور)*
نیز یہ مزید لکھتا ہے : 
1- محمد بن عبدالوہاب کا عقیدہ تھا کہ جملہ اھل عالم و تمام مسلمانان دیار مشرک و کافر ہیں، اور ان سے قتل و قتال کرنا ان کے اموال کو ان سے چھین لینا حلال اور جائز بلکہ واجب ہے، چناچہ نواب صدیق حسن خان نے خود اس کے ترجمہ میں ان دونوں باتوں کی تصریح کی ہے۔
2- نجدی اور اس کے اتباع کا اب تک یہی عقیدہ ہے کہ انبیاء (علیہم السلام) کی حیات فقط اسی زمانہ تک ہے، جب تک وہ دنیا میں تھے، بعد ازاں وہ اور دیگر مومنین موت میں برابر ہیں۔ 
*(شہاب ثاقب صفحہ 43)*
3- زیارتِ رسولِ مقبول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) و حضوری آستانہ شریفہ و ملاحظہ روضہ مطہرہ کو یہ طائفہ بدعت، حرام وغیرہ لکھتا ہے، اس طرف اس نیت سے سفر کرنا محظور و ممنوع جانتا ہے۔ بعض ان میں کے سفر زیارت کو معاذ اللہ زنا کے درجہ کو پہنچاتے ہیں اور نہ اس طرف متوجہ ہو کر دعا وغیرہ مانگتے ہیں۔ 
*(شہاب ثاقب صفحہ 45)*
4- شان نبوت و حضرت رسالت علی صاحبھا الصلوۃ والسلام میں وہابیہ نہایت گستاخی کے کلمات استعمال کرتے ہیں اور نہایت تھوڑی سی فضیلت زمانہ تبلیغ کی مانتے ہیں، اور اپنی شقاوتِ قلبی و ضُعفِ اعتقادی کی وجہ سے جانتے ہیں کہ ہم عالم کو ہدایت کر کے راہ پر لا رہے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ رسولِ مقبول (علیہ السلام) کا کوئی حق اب ہم پر نہیں اور نہ کوئی احسان اور فائدہ ان کی ذات پاک سے بعد وفات ہے اور اسی وجہ سے تو سل و دعا میں آپ کی ذات پاک سے بعدِ وفات ناجائز کہتے ہیں۔ ان کے بڑوں کا مقولہ ہے : 
*نقل کفر کفر نہ باشد* کہ ہمارے ہاتھ کی لاٹھی ذاتِ سرورِ کائنات (علیہ الصلوۃ والسلام) سے ہم کو زیادہ نفع دینے والے ہے، ہم اس سے کتے کو بھی دفع کرسکتے ہیں، اور ذاتِ فخرِ عالم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تو یہ بھی نہیں کرسکتے۔
https://chat.whatsapp.com/HaxJuXeKacBDRsBC6klQ58
*(شہاب ثاقب صفحہ 47)*
5- وہابیہ اشغالِ باطنیہ و اعمالِ صوفیہ مراقبہ ذکر و فکر و ارادت و مشیخت و ربط القلب بالشیخ و فنا و بقا و خلوت وغیرہ اعمال کو فضول و لغو و بدعت و ضلالت شمار کرتے ہیں اور ان اکابر کے اقوال و افعال کو شرک وغیرہ کہتے ہیں اور ان سلاسل میں داخل ہونا بھی مکروہ و مستقبح بلکہ اس سے زائد شمار کرتے ہیں۔ 
*(شہاب ثاقب صفحہ 59)*
6- وہابیہ کسی خاص امام کی تقلید کو شرک فی الرسالت جانتے ہیں اور ائمہ اربعہ اور ان کے مقلدین کی شان میں الفاظ وہابیہ خبیثہ استعمال کرتے ہیں اور اس کی وجہ سے مسائل میں وہ گروہ اہل سنت والجماعت کے مخالف ہوگئے، چناچہ غیر مقلدینِ ہند اسی طائفہ شنیعہ کے پیرو ہیں۔ وہابیہ نجد عرب اگرچہ بوقت اظہار دعوی حنبلی ہونے کا اقرار کرتے ہیں لیکن عمل در آمد ان کا ہرگز جملہ مسائل میں امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ عنہ کے مذہب پر نہیں ہے بلکہ وہ بھی اپنے فہم کے مطابق جس حدیث کو مخالفِ فقہ حنابلہ خیال کرتے ہیں اس کی وجہ سے فقہ کو چھوڑ دیتے ہیں۔ 
*(شہاب ثاقب  صفحہ 62، 63)*
7- مثلا *”علی العرش استوی“* وغیرہ آیات میں طائفہ وہابیہ استواءِ ظاہری اور جہات وغیرہ ثابت کرتا ہے جس کی وجہ سے ثبوتِ جسمیت وغیرہ لازم آتا ہے۔
مسئلہ نداءِ رسولِ اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں وہابیہ مطلقا منع کرتے ہیں۔ (الی قولہ) چناچہ وہابیہ عرب کی زبان سے بارہا سنا گیا کہ  *”الصلوۃ والسلام علیک یا رسول اللہ“* کہنے کو سخت منع کرتے ہیں اور اہل حرمین پر سخت نفرین اس نداء اور خطاب پر کرتے ہیں اور ان کا استہزاء اڑاتے ہیں اور کلمات ناشائستہ استعمال کرتے ہیں۔ حالانکہ ہمارے مقدس بزرگانِ دین اس صورت اور جملہ صورت درود شریف کو اگرچہ بصیغہ نداء و خطاب کیوں نہ ہو، مستحب و مستحسن جانتے ہیں اور اپنے متعلقین کو اس کا امر کرتے ہیں۔
وہابیہ نجدیہ یہ بھی اعتقاد رکھتے ہیں اور برملا کہتے ہیں کہ *"یا رسول اللہ"* میں استعانت بغیر اللہ ہے اور وہ شرک ہے اور یہ بھی ان کے نزدیک سبب مخالفت کی ہے حالانکہ یہ اکابر مقدسانِ دینِ متین اس کو ان اقسامِ استعانت میں سے شمار نہیں کرتے جو کہ مستوجب شرک یا باعث ممانعت ہو۔ 
*(شہاب ثاقب صفحہ 64، 65 ملخصاً)*
https://chat.whatsapp.com/HaxJuXeKacBDRsBC6klQ58
8- وہابیہ خبیثہ کثرت صلوۃ و سلام و درود بر خیر الانام (علیہ السلام) اور قراتِ دلائلِ الخیرات و قصیدہ ہمزیہ اور اس کے پڑھنے اور اس کے استعمال کرنے و ورد بنانے کو سخت قبیح و مکروہ جانتے ہیں اور بعض اشعار کو قصیدہ بردہ میں شرک وغیرہ کی طرف منسوب کرتے ہیں۔ 
مثلاََ 
*یا اشرف الخلق ما لی من الوذ بہ*
*سواک عند حلول الحادث العمم*
یعنی اے افضل مخلوقات ! میرا کوئی نہیں جس کی پناہ پکڑوں بجز تیرے، بر وقت نزولِ حوادث۔
*(شہاب ثاقب صفحہ 66)*
9- وہابیہ امرِ شفاعت میں اس قدر تنگی کرتے ہیں کہ بمنزلہ عدم کو پہنچا دیتے ہیں۔ 
*(شہاب ثاقب صفحہ 67)*
10- وہابیہ سوائے علمِ احکامِ الشرائع جملہ علوم، اسرارِ حقانی وغیرہ سے ذاتِ سرورِ کائنات خاتمُ النبیین (علیہ الصلوۃ والسلام) کو خالی جانتے ہیں۔ 
*(شہاب ثاقب صفحہ 67)*
11- وہابیہ نفسِ ذکرِ ولادت حضور سرورِ کائنات (علیہ الصلوۃ والسلام) کو قبیح بدعت کہتے ہیں، اور علی ھذا القیاس اذکارِ اولیاء کرام رحمہم اللہ تعالی کو بھی برا سمجھتے ہیں۔ 
*(شہاب ثاقب صفحہ 68)*
12- وہابیہ نے علماء حرمین شریفین کے خلاف کیا تھا اور کرتے رہتے ہیں اور اسی وجہ سے جبکہ وہ غلبہ کرکے حرمین شریفین پر حاکم ہوگئے تھے، ہزاروں کو تہ تیغ کر کے شہید کیا اور ہزاروں کو سخت ایذائیں پہنچائیں، بار بار ان سے مباحثے ہوئے ان سب امور میں ہمارے اکابر ان کے سخت مخالف ہیں۔ 
*(شہاب ثاقب صفحہ 68 مطبوعہ کتب خانہ اعزازیہ دیوبند ضلع سہارنپور)*
خلیل انبیٹھوی دیوبندی  نے ایک کتاب لکھی ہے *”المھند“* اس میں لکھا ہے کہ :
ہمارے نزدیک محمد بن عبد الوھاب کا وہی حکم ہے جو صاحب الدرالمختار نے خوارج کا لکھا ہے۔ اور جو علامہ شامی نے محمد بن عبدالوھاب کے متعلق لکھا ہے۔ 
(اشرف علی تھانوی دیوبندی، شبیر احمد عثمانی دیوبندی، حبیب الرحمن دیوبندی اور دیگر اکابر دیوبند نے اس کی تصدیق کی ہے۔) 
 نواب صدیق حسن خان بھوپالی لکھتا ہے :
حرمین شریفین کے لوگ عبد الوہاب نجدی کے نام سے بھی ناراض ہوتے ہیں کیونکہ شِیخ نجدی ان کے لیے شدید تکالیف اور مصائب کا سبب بنا تھا۔ پس جو شخص بھی مکہ معظمہ اور مدینہ منورہ سے ہو کر آتا ہے، وہ اپنے دل میں محمد بن عبد الوہاب کے خلاف سخت غم و غصہ لے کر آتا ہے۔ 
*(موائد العوائد من عیون الاخبار و الفوائد، صفحہ 38)*
تعجب ہے رشیدگنگوہی دیوبندی پر جس کو یہ سب عقائد عمدہ نظر آئے!!!! 
(جیسا کہ اس نے فتاوی رشیدیہ میں لکھا) 
*(منقول بتغیر قلیل)*https://chat.whatsapp.com/KLkGpfGrjNCEmFlffopmFK
*☠️ محمد بن عبدالوھاب نجدی کا تعارف☠️*
محمد بن عبدالوھاب نجدی کا 
 ظہور بارھویں صدی ہجری میں ہوا۔
اس کا عقیدہ یہ تھا کہ انبیاء (علیہم السلام) سے توسل کرنا، اور ان سے شفاعت طلب کرنا شرک ہے اور جو شخص یہ عقیدہ رکھے، وہ کافر ہے، اور اس کو قتل کرنا مباح ہے۔
محمد بن عبدالوھاب نے لکھا ہے :
تم یہ جان چکے ہو کہ لوگ اللہ کی ربوبیت کا اقرار کرنے کی وجہ سے اسلام میں داخل نہیں ہوتے، اور فرشتوں اور نبیوں کی شفاعت کا ارادہ کرنے کی وجہ سے اور ان کے وسیلہ سے اللہ کا تقرب حاصل کرنے کی وجہ سے ان کو قتل کرنا اور ان کا مال لوٹنا مباح ہوگیا ہے۔ 
*(کشف الشبہات صفحہ 9 مطبوعہ مکتبہ سلفیہ مدینہ منورہ)*
https://chat.whatsapp.com/HaxJuXeKacBDRsBC6klQ58
محمد بن عبدالوہاب نجدی کے بھائی شیخ سلیمان بن عبدالوھاب نے اپنے بھائی شِیخ محمد بن عبدالوہاب نجدی کے ردّ میں مسطور الصدر حدیث سے استدلال کیا ہے، وہ لکھتے ہیں :
اللہ تعالی نے اپنے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو جس قدر چاہا، اپنے غیب سے مطلع فرمایا اور قیامت تک جو کچھ ہونے والا ہے، اس کی خبر دے دی، اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خبر دی ہے کہ جزیرہ عرب میں شیطان اپنی عبادت سے مایوس ہوچکا ہے، اور شداد کی روایت میں یہ مذکورہ ہے کہ جزیرہ عرب میں بت پرستی نہیں ہوگی اور تمہارا مذہب ان حدیثوں کے برعکس ہے کیونکہ تمہارا عقیدہ ہے کہ بصرہ اور اس کے گرد ونواح اور عراق میں دجلہ سے لے کر اس جگہ تک جہاں حضرت علی (کرم اللہ تعالیٰ وجھہ الکریم) اور حضرت امام حسین (رضی اللہ عنہ) کی قبریں ہیں، اسی طرح سارے یمن اور حجاز میں شیطان کی پرستش اور بت پرستی ہوتی ہے اور یہاں کے مسلمان بت پرست اور کفار ہیں۔ حالانکہ یہ تمام جگہیں سر زمینِ عرب کے وہ تمام علاقے ہیں جن کی سلامتی ایمان اور کفر سے برات کی حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خبر دی ہے اور تم کہتے ہو کہ یہاں کے لوگ کافر ہیں اور جو ان کو کافر نہ کہے، وہ بھی کافر ہے۔ سو یہ تمام احادیث تمہارے مذہب کا ردّ کرتی ہیں۔ نیز امام احمد، امام ترمذی، امام نسائی اور امام ابن ماجہ نے حضرت عمرو بن احوص (رضی الله عنه) سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حجۃ الوداع کے موقع پر فرمایا : 
"شیطان ہمیشہ کے لیے اس سے مایوس ہوچکا ہے کہ تمہارے اس شہر (مکہ مکرمہ) میں اس کی پرستش کی جائے۔ البتہ تمہاری آپس کی لڑائیوں میں اس کی پیروی ہوتی رہے گی۔"
رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کبھی خلافِ واقع خبر نہیں دیتے اور جن چیزوں (توسل اور طلب اور طلب شفاعت) کا نام تم شرک اکبر رکھتے ہو، ان کے مرتکبین کو بت پرست کہتے ہو، ان تمام امور پر تمام اہل مکہ، ان کے عوام، امراء اور علماء چھ سو سال سے زیادہ عرصہ سے عمل پیرا ہیں، اور تمہارا گمان ہے کہ یہ لوگ کافر ہیں اور یہ احادیث تمہارے زعمِ فاسد کا رد کرتی ہیں۔ 
*(الصواعق الالہیہ صفحہ 46، 47 مطبوعہ مکتبہ الیثیق استنبول)*
علامہ سید محمد امین ابن عابدین شامی حنفی متوفی ١٢٥٢ ھ تحریر فرماتے ہیں :
"ہمارے زمانہ میں محمد بن عبد الوھاب کے متبعین نجد سے نکلے اور حرمین پر قابض ہوگئے۔ یہ خود کو حنبلی مذہب کی طرف منسوب کرتے ہیں، لیکن ان کا عقیدہ یہ ہے کہ صرف وہی مسلمان ہیں اور جو ان کے اعتقاد کے مخالف ہوں اور وہ مشرک ہیں۔ انہوں نے اہل سنت کے قتل اور اور ان کے علماء کے قتل کو جائز قرار دیا۔"
*(رد المختار جلد 3 صفحہ 309 مطبوعہ دارا حیاء التراث العربی بیروت)*
محمد انور شاہ کشمیری لکھتا ہے :
"رہا محمد بن عبدالوھاب نجدی تو وہ پلید شخص تھا، کم علم تھا، اور وہ بہت جلد کفر کا حکم لگاتا تھا۔ حالانکہ تکفیر اس شخص کو کرنی چاہیے جس کا علم بہت پختہ ہو اور وہ حاضر دماغ ہو اور کفر کی وجوہ اور اس کے اسباب کا جاننے والا ہو۔"
*(فیض الباری جلد اول صفحہ 171 مطبوعہ مطبعہ الحجازی القاہرہ)*
سید احمد بن زینی دحلان مکی شافعی تحریر فرماتے ہیں :
"اور محمد بن عبدالوہاب نجدی بہ صراحت کہا کرتا تھا کہ چھ سو سال سے تمام امت کافر ہے اور وہ ہر اس شخص کی تکفیر کرتا تھا جو اس کی اتباع نہ کرے۔ خواہ وہ انتہائی پرہیزگار شخص ہی کیوں نہ ہو، وہ ایسے تمام مسلمانوں کو مشرک قرار دے کر ان کو قتل کرا دیتا اور ان کے مال ومتاع کو لوٹنے کا حکم دیتا اور جو شخص اس کی اتباع کرلیتا اس کو مومن قرار دیتا۔ خواہ وہ شخص بد ترین فاسق ہو۔
*(خلاصۃ الکلام فی امر البلد الحرام صفحہ 333 مطبوعہ مکتبہ الیثیق استنبول)*
حسین احمد مدنی دیوبندی لکھتا ہے :
"محمد بن عبدالوھاب نجدی ابتداء تیرھویں صدی میں نجد عرب سے ظاہر ہوا۔ 
(یہ 1115 ھ میں پیدا ہوا اور 1206 میں مرگیا) 
اور چونکہ یہ خیالات باطلہ اور عقائد فاسدہ رکھتا تھا، اس لیے اس نے اہل سنت و الجماعت سے قتل و قتال کیا، ان کو بالجبر اپنے خیالات کی تکلیف دیتا رہا ان کے اموال کو غنیمت کا مال اور حلال سمجھا گیا، ان کے قتل کرنے کو باعث ثواب و رحمت شمار کرتا رہا، اہلِ حرمین کو خصوصاََ اور اہلِ حجاز کو عموماً تکالیف شاقہ پہنچائیں، سلف صالحین اور اتباع کی شان میں نہایت گستاخی اور بےادبی کے الفاظ استعمال کیے، بہت سے لوگوں کو بوجہ اس کی تکلیف شدیدہ کے مدینہ منورہ اور مکہ معظمہ چھوڑنا پڑا، اور ہزاروں آدمی اس کے اور اس کی فوجوں کے ہاتھوں شہید ہوگئے۔ الحاصل وہ ایک ظالم وباغی وخونخوار شخص تھا۔
*(شہاب ثاقب صفحہ 42 مطبوعہ کتب خانہ اعزازیہ دیوبند ضلع سہارن پور)*
نیز یہ مزید لکھتا ہے : 
1- محمد بن عبدالوہاب کا عقیدہ تھا کہ جملہ اھل عالم و تمام مسلمانان دیار مشرک و کافر ہیں، اور ان سے قتل و قتال کرنا ان کے اموال کو ان سے چھین لینا حلال اور جائز بلکہ واجب ہے، چناچہ نواب صدیق حسن خان نے خود اس کے ترجمہ میں ان دونوں باتوں کی تصریح کی ہے۔
2- نجدی اور اس کے اتباع کا اب تک یہی عقیدہ ہے کہ انبیاء (علیہم السلام) کی حیات فقط اسی زمانہ تک ہے، جب تک وہ دنیا میں تھے، بعد ازاں وہ اور دیگر مومنین موت میں برابر ہیں۔ 
*(شہاب ثاقب صفحہ 43)*
3- زیارتِ رسولِ مقبول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) و حضوری آستانہ شریفہ و ملاحظہ روضہ مطہرہ کو یہ طائفہ بدعت، حرام وغیرہ لکھتا ہے، اس طرف اس نیت سے سفر کرنا محظور و ممنوع جانتا ہے۔ بعض ان میں کے سفر زیارت کو معاذ اللہ زنا کے درجہ کو پہنچاتے ہیں اور نہ اس طرف متوجہ ہو کر دعا وغیرہ مانگتے ہیں۔ 
*(شہاب ثاقب صفحہ 45)*
4- شان نبوت و حضرت رسالت علی صاحبھا الصلوۃ والسلام میں وہابیہ نہایت گستاخی کے کلمات استعمال کرتے ہیں اور نہایت تھوڑی سی فضیلت زمانہ تبلیغ کی مانتے ہیں، اور اپنی شقاوتِ قلبی و ضُعفِ اعتقادی کی وجہ سے جانتے ہیں کہ ہم عالم کو ہدایت کر کے راہ پر لا رہے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ رسولِ مقبول (علیہ السلام) کا کوئی حق اب ہم پر نہیں اور نہ کوئی احسان اور فائدہ ان کی ذات پاک سے بعد وفات ہے اور اسی وجہ سے تو سل و دعا میں آپ کی ذات پاک سے بعدِ وفات ناجائز کہتے ہیں۔ ان کے بڑوں کا مقولہ ہے : 
*نقل کفر کفر نہ باشد* کہ ہمارے ہاتھ کی لاٹھی ذاتِ سرورِ کائنات (علیہ الصلوۃ والسلام) سے ہم کو زیادہ نفع دینے والے ہے، ہم اس سے کتے کو بھی دفع کرسکتے ہیں، اور ذاتِ فخرِ عالم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تو یہ بھی نہیں کرسکتے۔
*(شہاب ثاقب صفحہ 47)*
5- وہابیہ اشغالِ باطنیہ و اعمالِ صوفیہ مراقبہ ذکر و فکر و ارادت و مشیخت و ربط القلب بالشیخ و فنا و بقا و خلوت وغیرہ اعمال کو فضول و لغو و بدعت و ضلالت شمار کرتے ہیں اور ان اکابر کے اقوال و افعال کو شرک وغیرہ کہتے ہیں اور ان سلاسل میں داخل ہونا بھی مکروہ و مستقبح بلکہ اس سے زائد شمار کرتے ہیں۔ 
https://chat.whatsapp.com/HaxJuXeKacBDRsBC6klQ58
*(شہاب ثاقب صفحہ 59)*
6- وہابیہ کسی خاص امام کی تقلید کو شرک فی الرسالت جانتے ہیں اور ائمہ اربعہ اور ان کے مقلدین کی شان میں الفاظ وہابیہ خبیثہ استعمال کرتے ہیں اور اس کی وجہ سے مسائل میں وہ گروہ اہل سنت والجماعت کے مخالف ہوگئے، چناچہ غیر مقلدینِ ہند اسی طائفہ شنیعہ کے پیرو ہیں۔ وہابیہ نجد عرب اگرچہ بوقت اظہار دعوی حنبلی ہونے کا اقرار کرتے ہیں لیکن عمل در آمد ان کا ہرگز جملہ مسائل میں امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ عنہ کے مذہب پر نہیں ہے بلکہ وہ بھی اپنے فہم کے مطابق جس حدیث کو مخالفِ فقہ حنابلہ خیال کرتے ہیں اس کی وجہ سے فقہ کو چھوڑ دیتے ہیں۔ 
*(شہاب ثاقب  صفحہ 62، 63)*
7- مثلا *”علی العرش استوی“* وغیرہ آیات میں طائفہ وہابیہ استواءِ ظاہری اور جہات وغیرہ ثابت کرتا ہے جس کی وجہ سے ثبوتِ جسمیت وغیرہ لازم آتا ہے۔
مسئلہ نداءِ رسولِ اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں وہابیہ مطلقا منع کرتے ہیں۔ (الی قولہ) چناچہ وہابیہ عرب کی زبان سے بارہا سنا گیا کہ  *”الصلوۃ والسلام علیک یا رسول اللہ“* کہنے کو سخت منع کرتے ہیں اور اہل حرمین پر سخت نفرین اس نداء اور خطاب پر کرتے ہیں اور ان کا استہزاء اڑاتے ہیں اور کلمات ناشائستہ استعمال کرتے ہیں۔ حالانکہ ہمارے مقدس بزرگانِ دین اس صورت اور جملہ صورت درود شریف کو اگرچہ بصیغہ نداء و خطاب کیوں نہ ہو، مستحب و مستحسن جانتے ہیں اور اپنے متعلقین کو اس کا امر کرتے ہیں۔
وہابیہ نجدیہ یہ بھی اعتقاد رکھتے ہیں اور برملا کہتے ہیں کہ *"یا رسول اللہ"* میں استعانت بغیر اللہ ہے اور وہ شرک ہے اور یہ بھی ان کے نزدیک سبب مخالفت کی ہے حالانکہ یہ اکابر مقدسانِ دینِ متین اس کو ان اقسامِ استعانت میں سے شمار نہیں کرتے جو کہ مستوجب شرک یا باعث ممانعت ہو۔ 
*(شہاب ثاقب صفحہ 64، 65 ملخصاً)*
8- وہابیہ خبیثہ کثرت صلوۃ و سلام و درود بر خیر الانام (علیہ السلام) اور قراتِ دلائلِ الخیرات و قصیدہ ہمزیہ اور اس کے پڑھنے اور اس کے استعمال کرنے و ورد بنانے کو سخت قبیح و مکروہ جانتے ہیں اور بعض اشعار کو قصیدہ بردہ میں شرک وغیرہ کی طرف منسوب کرتے ہیں۔ 
مثلاََ 
*یا اشرف الخلق ما لی من الوذ بہ*
*سواک عند حلول الحادث العمم*
یعنی اے افضل مخلوقات ! میرا کوئی نہیں جس کی پناہ پکڑوں بجز تیرے، بر وقت نزولِ حوادث۔
*(شہاب ثاقب صفحہ 66)*
9- وہابیہ امرِ شفاعت میں اس قدر تنگی کرتے ہیں کہ بمنزلہ عدم کو پہنچا دیتے ہیں۔ 
*(شہاب ثاقب صفحہ 67)*
10- وہابیہ سوائے علمِ احکامِ الشرائع جملہ علوم، اسرارِ حقانی وغیرہ سے ذاتِ سرورِ کائنات خاتمُ النبیین (علیہ الصلوۃ والسلام) کو خالی جانتے ہیں۔ 
*(شہاب ثاقب صفحہ 67)*
11- وہابیہ نفسِ ذکرِ ولادت حضور سرورِ کائنات (علیہ الصلوۃ والسلام) کو قبیح بدعت کہتے ہیں، اور علی ھذا القیاس اذکارِ اولیاء کرام رحمہم اللہ تعالی کو بھی برا سمجھتے ہیں۔ 
*(شہاب ثاقب صفحہ 68)*
12- وہابیہ نے علماء حرمین شریفین کے خلاف کیا تھا اور کرتے رہتے ہیں اور اسی وجہ سے جبکہ وہ غلبہ کرکے حرمین شریفین پر حاکم ہوگئے تھے، ہزاروں کو تہ تیغ کر کے شہید کیا اور ہزاروں کو سخت ایذائیں پہنچائیں، بار بار ان سے مباحثے ہوئے ان سب امور میں ہمارے اکابر ان کے سخت مخالف ہیں۔ 
*(شہاب ثاقب صفحہ 68 مطبوعہ کتب خانہ اعزازیہ دیوبند ضلع سہارنپور)*
خلیل انبیٹھوی دیوبندی  نے ایک کتاب لکھی ہے *”المھند“* اس میں لکھا ہے کہ :
ہمارے نزدیک محمد بن عبد الوھاب کا وہی حکم ہے جو صاحب الدرالمختار نے خوارج کا لکھا ہے۔ اور جو علامہ شامی نے محمد بن عبدالوھاب کے متعلق لکھا ہے۔ 
(اشرف علی تھانوی دیوبندی، شبیر احمد عثمانی دیوبندی، حبیب الرحمن دیوبندی اور دیگر اکابر دیوبند نے اس کی تصدیق کی ہے۔) 
 نواب صدیق حسن خان بھوپالی لکھتا ہے :
حرمین شریفین کے لوگ عبد الوہاب نجدی کے نام سے بھی ناراض ہوتے ہیں کیونکہ شِیخ نجدی ان کے لیے شدید تکالیف اور مصائب کا سبب بنا تھا۔ پس جو شخص بھی مکہ معظمہ اور مدینہ منورہ سے ہو کر آتا ہے، وہ اپنے دل میں محمد بن عبد الوہاب کے خلاف سخت غم و غصہ لے کر آتا ہے۔ 
*(موائد العوائد من عیون الاخبار و الفوائد، صفحہ 38)*
تعجب ہے رشیدگنگوہی دیوبندی پر جس کو یہ سب عقائد عمدہ نظر آئے!!!! 
(جیسا کہ اس نے فتاوی رشیدیہ میں لکھا) 
*(منقول بتغیر قلیل)*

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے