رمضان کے روزے فرض ہیں

رمضان کے روزے فرض ہیں

اللہ تعالی فرماتا ہے۔ يَـٰٓأَيُّهَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُوا۟ كُتِبَ عَلَيْكُمُ ٱلصِّيَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَى ٱلَّذِينَ مِن قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ۔آیت نمر ١٨٣-سورہ بقرہ
 ترجمہ کنزالایمان۔
اے ایمان والو تم پر روزے فرض کئے گئے جیسے اگلوں پر فرض ہوئے تھے۔ کہ کہیں تمہیں پرہیز گاری ملے۔
مذکورہ آیت کریمہ سے روزے کی فرضیت ثابت ہوتی ہے۔اور اگلی آیت کریمہ میں اس کی وضاحت موجود ہے کہ روزہ کب فرض ہے۔
شَهۡرُرَمَضَانَ ٱلَّذِيٓ أُنزِلَ فِيهِ ٱلۡقُرۡءَانُ هُدٗى لِّلنَّاسِ وَبَيِّنَٰتٖ مِّنَ ٱلۡهُدَىٰ وَٱلۡفُرۡقَانِۚ فَمَن شَهِدَ مِنكُمُ ٱلشَّهۡرَفَلۡيَصُمۡهُۖ۔
ترجمہ کنزالایمان رمضان کا مہینہ جس میں قرآن اترا۔ لوگوں کے لئے ہدایت اور رہنمائی اور فیصلہ کی روشن باتیں۔ تو تم میں جو کوئی یہ مہینہ پائے ضرور روزے رکھے۔

حدیث پاک میں ہے۔

(1) عَنْ أَبِي هُرَیْرَةَ رضی الله عنه قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ ﷲِ صلی الله علیه وآله وسلم: أَتَاکُمْ رَمَضَانُ شَهْرٌ مُبَارَکٌ فَرَضَ ﷲ عَلَیْکُمْ صِیَامَهُ تُفْتَحُ فِیْهِ أَبْوَابُ السَّمَاءِ وَتُغْلَقُ فِیْهِ أَبْوَابُ الْجَحِیْمِ وَتُغَلُّ فِیْهِ مَرَدَةُ الشَّیَاطِیْنِ ِلله فِیْهِ لَیْلَةٌ خَیْرٌ مِنْ أَلْفِ شَهْرٍ مَنْ حُرِمَ خَیْرَهَا فَقَدْ حُرِمَ. رَوَاهُ النَّسَائِيُّ وَابْنُ أَبِي شَیْبَةَ.’’
ترجمہ:حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: تمہارے پاس ماہ رمضان آیا۔ یہ مبارک مہینہ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے تم پر اس کے روزے فرض کیے ہیں۔ اس میں آسمانوں کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں اور جہنم کے دروازے بند کر دیئے جاتے ہیں اور بڑے شیاطین جکڑ دیئے جاتے ہیں۔ اس (مہینہ) میں ﷲ تعالیٰ کی ایک ایسی رات (بھی) ہے جو ہزار مہینوں سے افضل ہے جو اس کے ثواب سے محروم ہوگیا،بیشک وہ محروم ہو گیا۔‘‘
  آیت کریمہ اور حدیث پاک سے یہ بات واضح ہوگئی کہ رمضان کے پورے مہینے کا روزہ رکھنا فرض ہے۔اور چونکہ اسلام میں قمری مہینے کا اعتبار ہے اور قمری مہینہ کبھی انتیس کا ہوتا ہے اور کبھی تیس کا،جس کا تعین چاند کے نظر آنے سے ہوتا ہے۔ اور ہر شہرمیں موسم یکساں نہیں ہوتا بلکہ کہیں موسم ابرآلود اور آسمان دھندلا ہوتا ہےاور کہیں بالکل صاف ہوتا ہے۔ ظاہر ہے ایسی صورت میں ہر شہر کے لوگوں کا فردا فرداً چاند دیکھنا محال ہے۔ پس جس شہر کے لوگ چاند نہیں دیکھ پائے وہ روزہ کب سے رکھیں؟ اس کا جواب بھی حدیث پاک میں موجود ہے،حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں مدینہ منورہ کے لوگ چاند نہیں دیکھ پائے،اور اسی دوران ایک دیہاتی نے چاند دیکھنے کی بات کی،اور پھر اسی کی شہادت پر روزے رکھنے کا حکم ہوا۔ حدیث ملاحظہ فرمائیں:
عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضي الله عنهما قَالَ : جَاءَ أَعْرَابِيٌّ إِلَى النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم فَقَالَ إِنِّي رَأَيْتُ الْهِلاَلَ- فَقَالَ : (أَتَشْهَدُ أَنْ لاَ إِلَهَ إِلاَّ اللَّهُ ؟) ، قَالَ : نَعَمْ ، قَالَ : (أَتَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ ؟) ، قَالَ : نَعَمْ ، قَالَ : (يَا بِلاَلُ أَذِّنْ فِي النَّاسِ فَلْيَصُومُوا غَداً) .
ترجمہ: حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا کہ ایک اعرابی نے حضور کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا کہ میں نے رمضان کا چاند دیکھا ہے حضور نے فرمایا کیا تو گواہی دیتا ہے کہ اللہ تعالی کے سوا کوئی معبود نہیں؟۔ عرض کیا ہاں۔ فرمایا کیا تو گواہی دیتا ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالی کے رسول ہیں؟۔ اس نے کہا ہاں۔ حضور نے ارشاد فرمایا اے بلال لوگوں میں اعلان کردو کہ کل روزہ رکھیں۔(ابو داؤد, ترمذی, نسائی)
نہ ہر مسلمان 29 کا چاند دیکھتا ہے اور نہ ہی ہر مسلمان کو دیکھنا ضروری ہے۔ بلکہ کچھ ہی لوگ دیکھتے ہیں،اور بقیہ 99 فیصد مسلمان انہیں دیکھنے والوں کی بات کا اعتبار کرتے ہوئے روزہ رکھتے ہیں یاعید مناتے ہیں۔ اب اگر کسی شہر کا کوئی شخص بھی چاند نہ دیکھ سکا تو اس کی دو صورتیں ہیں۔ (١) پہلی صورت یہ ہے کہ اسے کسی مسلمان کے کہنے سے یا کسی اور ذریعے سے یقین حاصل ہوجائے۔ جیسا کہ ابن عباس رضی اللہ عنہما کی حدیث میں ہے۔ تو پھر روزہ رکھنا فرض ہے۔ کہ رویت ہلال کا تعین رمضان کا مہینہ پا لینے کے مترادف ہے۔اور دوسری صورت یہ ہے کہ کہیں بھی چاند نظر نہیں آیا۔ یا اگر کہیں چاند دیکھنے کی بات ہوئی بھی تو ،اس طرح سے بات پھیلی کہ اس سے یقین حاصل نہیں ہو، مثلا چاند دیکھنے کی بات گردش کر گئی لیکن دیکھنے والے کی کوئی خبر نہیں، یا اس کی بات شک اور تذبذب کے گھیرے میں ہو۔ تو پھر تیس کی گنتی پوری کی جائے گی،اور اسی پر مسلمانان عالم ایک طویل عرصے تک عمل پیرا رہے۔لیکن بعد میں جب اسلام اور مسلمانوں کے اتحاد کو توڑنے کے لیے یہود و نصاریٰ کی سازشوں نے زور پکڑا اور وہ مسلمان بن کر کذب بیانی سے چاند دیکھنے اور نہ دیکھنے کی بات کرنے لگے تو ہمارے ائمہ و فقہاء نے سخت قسم کے اصول وضع کیے تاکہ کذابوں کی شناخت ہو جائے اور مسلمانوں میں اتحاد باقی رہے۔بلا شبہ یہ اس دور کا جبری تقاضا تھا، جس کے مطابق فقہاء نے احکامات جاری کیے اور مسلمانوں نے اس پر سختی سے عمل کر کے باطل طاقتوں کے فتنے کو ختم کیا۔یہ ماضی بعید کی باتیں ہیں۔اور اب زمانے اور اس کے تقاضے نے نئی کروٹ لی ہے۔
 اب سوال یہ ہے کہ موجودہ دور میں جب کہ ذرائع ابلاغ دن بدن ترقی پذیر ہے۔ حال یہ ہے کہ میں اس وقت کوڈرما جھارکھنڈ میں بیٹھ کر امریکہ میں موجود ایک شخص سے اس طرح بات کر سکتا ہوں کہ مانو وہ میرے سامنے ہو۔آج کی جدید ٹکنالوجی نے دوریوں کو سمیٹ کر پوری دنیا کو ایک گلوبل ویلج بنا دیا ہے اور اس میں آئے دن مزید ترقی جاری ہے۔آج کی جدید ٹکنالوجی اور اس کے موثوق ذرائع اس قدر عام ہیں کہ جس کے صحیح استعمال سے کوئی بھی صحیح اور غلط کی تمیز کے ساتھ سچ تک رسائی حاصل کرسکتا ہے۔اگر کہیں چاند دیکھا گیا ہے تو اس سے بات کرکے کوئی بھی عین الیقین کی حد تک یہ مان سکتا ہے کہ چاند ہو گیا ہے اور رمضان کا مہینہ آگیا ہے۔ اور اللہ تعالی کا حکم ہے کہ جو رمضان کا مہینہ پالے وہ روزہ رکھے۔ دوسری جانب ایک مفتی صاحب کہتے ہیں کہ ہمارے ائمہ کرام کے بنائے ہوئے اصول کے مطابق رویت ہلال کی تصدیق کے لیے ایک رسم ادا کرنا ہوگا کہ جس نے چاند دیکھا ہے وہاں جانا ہوگا یا اس کو یہاں آ کر گواہی دینی ہوگی۔ تب قاضی صاحب حکم دیں گے کہ روزہ رکھنا ہے۔ تب ہی روزہ رکھنا جائز ہوگا۔ اور ظاہر ہے کہ چاند دیکھنے والا اگر زیادہ دور ہے تو کم از کم دو دن تو گزر ہی جائیں گے۔ اب ہم کیا کریں؟ اللہ تعالی اور اس کے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کو مان کر روزہ رکھیں؟ یا مفتی صاحب کی شہادت کی رسم ادا کرنے والی بات مان کر روزہ چھوڑ دیں؟.
یقینا ہر مسلمان کو اللہ تعالی اور اس کے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم پر چلنا چاہیے. 

محمد شہادت حسین فیضی

9431538584

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے