-----------------------------------------------------------
*📚غیر مدخولہ بیوی کو الگ الگ تین طلاقیں دینے پر حکم شرع📚*
➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖
*السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ*
کیا فرماتے ہیں علمائے کرام مفتیان عظام اس مسئلہ میں کہ اگر غیر مدخولہ عورت کو شوہر طلاق دے تو کیا وہی شوہر دوبارہ نئے حق مہر کے ساتھ نکاح کرسکتا ہے ؟ رہنمائی فرما کر شکریہ کا موقع عنایت فرمائیں ۔
*المستفتی : محمد توقیر احمد پاکستان*
➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖
وعلیکم السلام و رحمۃ اللّٰہ و برکاتہ
*جواب:* اگر کسی نے اپنی غیر مدخولہ بیوی کو الگ الگ تین طلاقیں دیں تو ایک طلاق بائن واقع ہوگی اور باقی دو لغو اور بےکار ہوگئیں اور بیوی پر عدت گزارنا بھی لازم نہیں ہے ، اس صورت میں اگر آپ اسی عورت سے باہمی رضامندی سے دوبارہ نکاح کرنا چاہتے ہیں تو از سر نو نئے مہر اور گواہوں کی موجودگی میں تجدید نکاح کرسکتے ہیں اور آئندہ کے لئے آپ کو دو طلاقوں کو اختیار باقی ہوگا ۔ اور اگر آپ نے تینوں طلاق اکٹھی ایک ہی جملے سے دی ہوں تو اس صورت میں بیوی پر تینوں طلاقیں واقع ہو جائیں گی اور نکاح ختم ہو جائے گا بیوی حرمتِ مغلظہ کے ساتھ حرام ہو جائے گی ، اب رجوع کرنا جائز نہیں ہوگا مگر یہ کہ وہ عورت از خود کہیں اور نکاح کرے اور اس کے شوہر کا انتقال ہو جائے یا وہ شوہر حقوق زوجیت ادا کرنے کے بعد بغیر کسی شرط یا دباؤ کے ازخود طلاق دے دے اور اس کی عدت گزر جائے جیسا کہ فتاوی عالمگیری میں ہے کہ " إذا طلق الرجل امراته ثلاثا قبل الدخول بها وقعن عليها فان فرّق الطّلَاقَ بَانتْ بِالْأُولى و لم تقع الثانية و الثالثة كذا فى الهداية " اھ یعنی اگر کسی نے اپنی غیر مدخولہ بیوی کو تین طلاقیں دیں ( مثلاً یوں کہا میں نے تجھے تین طلاقیں دیں تو تینوں واقع ہو جائے گی اور عورت مغلظہ ہو جائے گی ) اور اگر طلاق میں تفریق کی تو ایک طلاق بائن واقع ہوگی اور دوسری تیسری لغو ہو جائے گی " اھ ( فتاوی عالمگیری ج 1 ص 349 : مطبوعہ مصر )
اور ھدایہ و فتح القدیر میں ہے کہ " فَانْ فَرّقَ الطّلَاقَ بَانتْ بِالْأُولى وَ لَمْ تَقعْ الثَّانِيةُ وَ الثَّالِثَةُ ) وَ ذَلِكَ مِثْلُ أَنْ يَقُولَ: أَنْتِ طَالِقٌ طَالِقٌ طَالِقٌ لِأَنَّ كُلَّ وَاحِدَةٍ إيقَاعٌ عَلَى حِدَةٍ إذَا لَمْ يَذْكُرْ فِي آخِرِ كَلَامِهِ مَا يُغَيِّرُ صَدْرَهُ حَتَّى يَتَوَقَّفَ عَلَيْهِ فَتَقَعُ الْأُولَى فِي الْحَالِ فَتُصَادِفُهَا الثَّانِيَةُ وَهِيَ مُبَانَةٌ " اھ یعنی اگر شوہر نے غیر مدخولہ بیوی کو الگ الگ تین طلاقیں دیں تو پہلی طلاق سے بائن ہو جائے گی ، دوسری اور تیسری واقع نہیں ہوں گی مثلاً شوہر یوں کہے کہ تجھے طلاق تجھے طلاق تجھے طلاق ان میں سے ہر ایک الگ الگ طلاق واقع کر رہا ہے بشرطیکہ شوہر نے اپنے آخری کلام میں کوئی ایسی چیز نہ ذکر کی ہو جو صدر کلام کو بدل دے حتیٰ کہ وقوع اسی پر موقوف ہو جائے ، چنانچہ پہلی طلاق فوراً واقع ہو جائے گی اب دوسری طلاق اس حال میں دی کہ نکاح ٹوٹ چکا تھا " اھ
( هدايہ ج 1 ص 240 : المکتبة الاسلامية / فتح القدير ج 4 ص 55 : دار الفکر بیروت )
اور بہار شریعت میں ہے کہ " غیر مدخولہ کو کہا تجھے تین طلاقیں تو تین ہونگی اور اگر کہا تجھے طلاق تجھے طلاق تجھے طلاق یا کہا تجھے طلاق طلاق طلاق یا کہا تجھے طلاق ہے ایک اور ایک اور ایک تو ان صورتوں میں ایک بائن واقع ہوگی باقی لغو و بیکار ہیں یعنی چند لفظوں سے واقع کرنے میں صرف پہلے لفظ سے واقع ہوگی اور باقی کے لئے محل نہ رہے گی اور موطؤہ میں بہر حال تین واقع ہونگی ۔ کہا تجھے تین طلاقیں الگ الگ تو ایک ہوگی ۔ یوہیں اگر کہا تجھے دو طلاقیں اُس طلاق کے ساتھ جو میں تجھے دوں پھر ایک طلاق دی تو ایک ہی ہوگی " اھ
( بہار شریعت ج 2 ص 125 : غیر مدخولہ کی طلاق کا بیان )
واللہ اعلم بالصواب
➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖
*✍🏻 کتبـــــــــــــه:*
*کریم اللہ رضوی، خادم التدریس دار العلوم مخدومیہ اوشیورہ برج جوگیشوری ممبئی موبائل نمبر 7666456313*
https://t.me/Faizan_E_DarulUloom_Amjadia_Ngp
➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖
0 تبصرے
اپنا کمینٹ یہاں لکھیں