کسی کو بُرے القابات سے پکارنا کیسا؟

*🕯        «    احــکامِ شــریعت     »        🕯*
-----------------------------------------------------------
*📚کسی کو بُرے القابات سے پکارنا کیسا؟📚*
➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖

السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ
 معزز علمائے کرام و مفتیان عظام کی بارگاہ میں سوال ہے 
کہ کوئی بندہ اگر کسی بندے کو بُرے لقب سے بلائے کیا اس بارے میں کوئی قرآن و حدیث سے دلیل ہے  جس سے ہم اس بندے کا زبان کو خاموش کر سکیں اور ایسے برے القابات سے دوسرے کسی مسلمان بھائی کو نہ بلائے   مدلل جواب عنایت فرمائیں ۔ 
المستفتی : فقیر محمد  شمشاد  نعمتی اڑیسہ
➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖

وعلیکم السلام و رحمۃ اللّٰہ و برکاتہ
 *جواب:* کسی مسلمان کو بُرے لقب سے پکارنا قرآن مجید کی آیت کی رو سے حرام اور سخت گناہ ہے جیسا کہ اللہ تعالی کا ارشاد ہے کہ " یٰۤاَیُّها  الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا لَا یَسۡخَرۡ قَوۡمٌ مِّنۡ قَوۡمٍ عَسٰۤی اَنۡ یَّکُوۡنُوۡا خَیۡرًا مِّنۡهمۡ وَ لَا نِسَآءٌ مِّنۡ  نِّسَآءٍ عَسٰۤی اَنۡ یَّکُنَّ خَیۡرًا مِّنۡهنَّ وَ لَا تَلۡمِزُوۡۤا اَنۡفُسَکُمۡ وَ لَا تَنَابَزُوۡا بِالۡاَلۡقَابِ بِئۡسَ الِاسۡمُ الۡفُسُوۡقُ بَعۡدَ الۡاِیۡمَانِ وَ مَنۡ لَّمۡ یَتُبۡ فَاُولٰٓئِکَ همُ الظّٰلِمُوۡنَ " اھ یعنی اے ایمان والو نہ مرد مردوں سے ہنسیں عجب نہیں کہ وہ ان ہنسنے والوں سے بہتر ہوں اور نہ عورتیں عورتوں سے ، دور نہیں کہ وہ ان ہنسے والیوں سے بہتر ہوں اور آپس میں طعنہ نہ کرو اور ایک دوسرے کے برے نام نہ رکھو کیا ہی برا نام ہے مسلمان ہو کر فاسق کہلانا اور جو توبہ نہ کریں تو وہی ظالم ہیں " اھ ( پ 26 سورۃ الحجرات آیت 11 ) 

اور تفسیر الطبرى میں ہے کہ " و الذی هو أولى الأقوال فی تأويل ذلك عندی بالصواب أن يقال : إن الله تعالى ذكره نهى المؤمنين أن يتنابزوا بالألقاب و التنابز بالألقاب : هو دعاء المرء صاحبه بما يكرهه من اسم أو صفة ، و عمّ الله بنهية ذلك ، و لم يخصص به بعض الألقاب دون بعض ، فغير جائز لأحد من المسلمين أن ينبز أخاه باسم يكرهه ، أو صفة يكرهها و إذا كان ذلك كذلك صحت الأقوال التی قالها أهل التأويل فی ذلك التی ذكرناها كلها ، و لم يكن بعض ذلك أولى بالصواب من بعض ، لأن كلّ ذلك مما نهى الله المسلمين أن ينبز بعضهم بعضًا " اھ ( تفسیر طبری ج 22 ص 302 ) 

اور فتاوی رضویہ میں ہے کہ " کسی مسلمان بلکہ کافر ذمی کو بھی بلا حاجت شرعیہ ایسے الفاظ سے پکارنا یا تعبیر کرنا جس سے اس کی دل شکنی ہو اسے ایذاء پہنچے شرعاً ناجائز و حرام ہے اگرچہ بار فی نفسہ سچی ہو " فان كل حق صدق و ليس كل صدق حقا " اھ یعنی ہر حق سچ ہے مگر ہر سچ حق نہیں ۔ ابن السنی عمیر بن سعد رضی اللہ تعالی عنہ سے راوی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ " من دعا رجلا بغير اسمه لعنته الملائكة فی التيسير أی بلقب يكرها لا بنحو يا عبد الله " اھ یعنی جو شخص کسی کو اس کا نام بدل کر پکارے فرشتے اس پر لعنت کریں تیسیر میں ہے یعنی کسی بد لقب سے جو اسے برا لگے نہ کہ اے بندہ خدا وغیرہ سے " اھ ( التیسیر شرح الجامع الصغیر ج 2 ص 416 : مکتبہ امام شافعی ریاض ) 

اور طبرانی معجم اوسط میں بسند حسن انس رضی اللہ تعالی عنہ سے راوی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ و سلم فرماتے ہیں کہ " من أذا مسلما فقد آذانی و من آذانی فقد آذای الله " اھ یعنی جس نے کسی مسلمان کو ایذا دی اس نے مجھے ایذا دی اور جس نے مجھے ایذا دی اس نے اللہ عزوجل کو ایذا دی " اھ ( المعجم الاوسط ج 4 ص 373 رقم حدیث 3632 : مکتبہ المعارف ریاض ) 

اور بحر الرائق و در مختار میں ہے کہ " فى القنية : قال ليهودى او مجوسى يا كافر ياثم ان شق عليه و مقتضاه ان يعزر لارتكابه الاثم " اھ یعنی جس نے کسی ذمی یہودی یا مجوسی سے کہا اے کافر اور یہ بات اسے گراں گزری تو کہنے والا گہنگار ہوگا اور اس کا تقاضا یہ ہے کہ اسے تعزیر کی جائے گی " اھ ( در مختار ج 1 ص 329 : کتاب الحدود ، باب التعزیر ، مجتبائی دہلی بحوالہ فتاوی رضویہ ج 23 ص 204 : رضا فاؤنڈیشن لاہور ) 

لہٰذا بلا وجہ شرعی کسی بھی شخص کو بُرا بھلا کہنا جو اس کے دل شکنی کا باعث بنے حرام ہے ۔ 

واللہ اعلم بالصواب
➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖

*✍🏻 کتبـــــــــــه:*
*کریم اللہ رضوی خادم التدریس دار العلوم مخدومیہ اوشیورہ برج جوگیشوری ممبئی موبائل نمبر 7666456313*

➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے