-----------------------------------------------------------
*📚بیوی کا شوہر کی اجازت کے بغیر گھر سے نکلنا، میکے جانا کیسا؟📚*
➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان کرام اس مسئلہ میں کہ بیوی اپنے شوہر کی اجازت کے بغیر روزانہ اپنے والدین کے گھر جا سکتی ہے؟ اس فعل سے اسکے شوہر کو اچھا نہ لگے اس کے متعلق شرعی رہنمائی فرمائیں ۔
*المستفتی : اعظم بھتی پاکستان*
➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖
وعلیکم السلام و رحمۃ اللّٰہ و برکاتہ
*جواب:* صورت مسئولہ بیوی کا شوہر کی اجازت کے بغیر گھر سےنکلنا اور اپنے میکے جانا جائز نہیں اور اپنے میکے میں شوہر کے بتائے ہوئے دنوں سے زیادہ رکنا بھی جائز نہیں ، اگر اپنے شوہر کے بتائے ہوئے دنوں سے زیادہ دن شوہر کی اجازت کے بغیر رکے گی تو از روئے شرع نافرمان ہوگی لیکن اگر شوہر ماں باپ کے پاس جانے سے منع کرتا ہے تو شریعتِ مطہرہ نے عورت کو یہ اجازت دی ہے کہ وہ شوہر کی اجازت کے بغیر اپنے والدین کے یہاں ہر ہفتہ میں ایک بار صبح سے شام تک کے لئے جاسکتی ہے ، مگر رات میں بغیر اجازت شوہر وہاں نہیں رہ سکتی رات کو بہرحال شوہر کے یہاں واپس آنا ضروری ہوگا جیسا کہ در مختار مع رد المحتار میں ہے " ( و ) لها ( السفر و الخروج من بيت زوجها للحاجة و) لها ( زيارة أهلها بلا إذنه ما لم تقبضه ) أى المعجل فلا تخرج إلا لحق لها أو عليها أو لزيارة أبويها كل جمعة مرة أو المحارم كل سنة ، و لكونها قابلةً أو غاسلةً لا فيما عدا ذلك " اھ اور رد المحتار میں ہے کہ " ( قوله : فيما عدا ذلك ) عبارة الفتح : و أما عدا ذلك من زيارة الأجانب و عيادتهم و الوليمة لا يأذن لها و لا تخرج " اھ
اور اسی میں ہے کہ " فإن مقتضاه أنها إن قبضته ليس لها الخروج للحاجة و زيارة أهلها بلا إذنه الخ " اھ
( در مختار مع رد المحتار ج 4 ص 293 : کتاب النکاح ، باب المهر ، دار الکتب العلمیہ بیروت )
الموسوعة الفقهيه میں ہے کہ " قال المالكية و الحنفية فى القول المفتى به عندهم : للمراة الخروج لزيارة والديها كل جمعة و محارمها كل سنة و لو بغير إذن الزوج لان من المصاحبة بالمعروف المامور بها و من صلة الرحم ..... والصحيح من مذهب الحنفية و هو مذهب المالكية ان الزوج لا يمنع ابوى الزوجة من الدخول عليها فى كل جمعة و لا يمنع غيرها من المحارم فى كل سنة " اھ
( الموسوعۃ الفقھیہ ج 24 ص 82 :باب زیارۃ الزوجة لاهلها و والديها و زيارتهم لها ، مطبع زلزلة سرية )
اور الدر المنتقی میں ہے کہ " و الصحیح المفتی به أنه لا یمنعها من الخروج إلی الوالدین ، ولا من دخولهما علیها فى الجمعة مرۃً ، و فى غیرهما من المحارم فى السنة مرۃً به یفتی " اھ
( الدر المنتقی علی ھامش مجمع الأنھر ج 1 ص 501 )
اور الجوهرة النيرة على مختصر القدوری میں ہے کہ " ( قوله و للزوج أن يمنع والديها و ولدها من غيره و أهلها الدخول عليها ) لأن عليها الخلوة معه فی أی وقت شاء و بدخول هؤلاء يتعذر ذلك و قيل لا يمنع والديها من الدخول عليها فی الأسبوع مرة و فی غيرها من المحارم التقدير بسنة و هو الصحيح " اھ الجوهرة النيرة على مختصر القدوری ج 2 ص 86 : كتاب النفقات : المطبعة الخيرية )
اور امام اہلسنت سیدی اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان بریلوی قدس سرہ تحریر فرماتے ہیں کہ " عورت پر مرد کا حق خاص اُمورِ متعلقہ زوجیت میں اللہ و رسول کے بعد تمام حقوق حتی کہ ماں باپ کے حق سے زائد ہے ان امور میں اس کے احکام کی اطاعت اور اس کے ناموس کی نگہداشت یعنی اس کی عزت کی حفاظت عورت پر فرضِ اہم ہے بے اس کے اذن کے محارم کے سوا کہیں نہیں جا سکتی اور محارم کے یہاں بھی ( اگر بغیر اجازت جانا پڑجائے تو ) ماں باپ کے یہاں ہر آٹھویں دن وہ بھی صبح سے شام تک کے لئے اور بہن بھائی ، چچا ، ماموں ، خالہ ، پھوپھی کے یہاں سال بھر بعد (جا سکتی ہے ) اور ( بِلا اجازت ) شب کو کہیں ( یعنی ماں باپ کے یہاں بھی ) نہیں جا سکتی ( ہاں اجازت سے جہاں جانا ہو وہاں روزانہ بھی اور رات کے وقت بھی جا سکتی ہے ) نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ " اگر میں کسی کو غیر خدا کے سَجدہ کا حکم دیتا تو عورت کو حکم دیتا کہ اپنے شوہر کو سجدہ کرے ۔
اور ایک حدیث میں ہے کہ " اگر شوہر کے نتھنوں سے خون اور پیپ بہ کر اس کی ایڑیوں تک جسم بھر گیا ہو اور عورت اپنی زبان سے چاٹ کر اسے صاف کرے تو بھی اس کا حق ادا نہ ہوگا " اھ
(فتاوی رضویہ ج 24 ص 380 : رضا فاؤنڈیشن لاہور )
واللہ اعلم بالصواب
➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖
*✍🏻کتبــــــــــــــه:*
*کریم اللہ رضوی خادم التدریس دار العلوم مخدومیہ اوشیورہ برج جوگیشوری ممبئی موبائل نمبر 7666456313*
➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖
0 تبصرے
اپنا کمینٹ یہاں لکھیں