روایتی احتجاج بند کیا جائے

مبسملا وحامدا::ومصلیا ومسلما

روایتی احتجاج بند کیا جائے

1-متعدد خبروں کے مطابق جمعہ(10:جون 2022)کو علمائے کرام نے احتجاج ومظاہرہ کی اپیل نہیں کی تھی۔مسلمانوں کو کن لوگوں نے ورغلایا,معلوم نہیں۔عہد ماضی میں بھی ایمان فروشوں کی کمی نہیں تھی۔عہد حاضر میں تو چند سکوں کے عوض اسلام ومسلمین کی بدخواہی کرنا کوئی تعجب خیز امر نہیں۔میر جعفر ومیر صادق کے فیض یافتگان جا بجا مل جائیں گے۔ظاہر میں خیر خواہ,باطن میں بدخواہ۔

اگر کسی کو دو چار لاکھ دے دیا جائے تو وہ مسلمانوں کو ورغلا کر احتجاج کے لئے جمع بھی کر لے گا اور پتھر بازی بھی کرا لے گا,پھر دشمنان اسلام اپنی سازشوں میں کامیاب ہو جائیں گے۔

پولیس والے فائرنگ کرتے ہیں۔نہتے مسلمانوں کی موت ہوتی ہے۔بہت سے نوجوانوں کو پولیس اسٹیشنوں میں وحشی درندوں کی طرح سخت زد وکوب کیا جاتا ہے۔مسلمانوں کے گھروں پر بلڈوزر چلا دیا جاتا ہے۔ان کے خلاف مقدمات درج کر دیئے جاتے ہیں۔

دہلی فساد:فروری 2020 کے موقع پر بھی یہ خبر آئی تھی کہ سی اے اے(CAA)کے خلاف مظاہرہ کرنے والے روڈ کنارے بیٹھتے تھے,آخر میں چند چالباز عورتوں نے ان مظاہرین کو روڈ پر بٹھا دیا اور پھر فساد پھوٹ پڑا۔بتایا جاتا ہے کہ یہ مشکوک عورتیں شرپسندوں کی سازش میں شریک تھیں۔

2-مذہب اسلام نے بے فائدہ اپنی جان ومال قربان کرنے کا حکم نہیں دیا۔بھارت ایک جمہوری ملک ہے۔اپنے مطالبات اہل حکومت سے منوانے کے بہت سے قانونی طریقے ہیں۔سب سے مؤثر طریقہ یہ ہے کہ تمام مذاہب کے لوگوں کا مشترکہ عوامی اجلاس ہو۔اس اجلاس میں حکومتی لیڈران اور اعلی پولیس افسران کو مدعو کیا جائے اور پبلک کے سامنے مطالبات پیش کئے جائیں۔بھارت میں شاہی حکومت نہیں,بلکہ عوامی وجمہوری حکومت ہے جو عوام کے ذریعہ اور عوامی مفادات کے لئے تشکیل دی جاتی ہے۔مختلف مذاہب کے عوام وخواص کو شریک اجلاس کیا جائے۔

بصورت دیگر مختلف مذاہب کے امن پسند ذمہ داران حکومتی عہدہ داران وپولیس افسران سے ڈیلی گیٹ کی شکل میں ملاقات کریں۔صرف مسلمان نہ جائیں,ورنہ بے توجہی برتی جائے گی۔


3-بدمذہبوں سے سیاسی اتحاد کا خیال دل سے نکال دیں۔پہلی جنگ آزادی یعنی جنگ غدر:1857میں وہابیہ انگریزوں کے ساتھ تھے۔جب کانگریس کو عروج ملا تو کانگریس سے ہاتھ ملا لئے۔یہ لوگ ہمیشہ اہل حکومت کی غلامی کرتے آئے ہیں۔آزادی ہند کے بعد بھی ان لوگوں نے مسلمانوں کو کانگریس کا یرغمال بنا کر رکھا۔جب راجیو گاندھی کے عہد حکومت میں بھاگلپور فساد:1989 ہوا,پھر کاںگریسی عہد حکومت میں 06:دسمبر 1992 کو بابری مسجد کی شہادت ہوگئی,تب مسلمان کانگریس سے جدا ہو گئے۔

وہ تمام کلمہ گو طبقات کے مشترکہ مظاہرے ہیں,جن میں مظاہرین پر گولیاں چلائی گئیں۔پولیس اسٹیشنوں میں نوجوانوں کو وحشی درندوں کی طرح مارا پیٹا گیا۔مسلمانوں کے گھروں پر بلڈوزر چلائے گئے۔مسلمانوں پر مقدمات ہوئے۔ان مظاہروں اور جلوسںوں میں ہر طبقے کے لوگ شریک ہوتے ہیں۔

جب اتحاد وافتراق دونوں حال میں معاملہ یکساں رہتا ہے تو بدمذہبوں سے سیاسی اتحاد کا جواز کہاں سے فراہم ہو گا۔جب شرعی حاجت وضرورت کا تحقق ہی نہیں تو امر غیر مشروع کیوں کر جواز کی رخصت پا لے گا؟

جب جواز ہی ثابت نہ ہو تو امر غیر مشروع پر رحمت الہی کی امید نہیں اور رحمت خداوندی کے بغیر کشتی ساحل نجات کو نہیں پہنچ سکتی۔

4-موجودہ صورت حال میں روایتی مظاہروں کی شرعی اجازت ہونے کی امید نہیں۔ماہر مفتیان کرام سے رابطہ کیا جائے۔

وہابیہ اور دیابنہ نے تحریک آزادی کے عہد میں مسلمانوں کو ہجرت کے لئے بھی اکسایا تھا۔بعض لوگ دھوکے میں آ کر افغانستان جا چکے تھے,پھر واپس آئے۔علمائے اہل سنت وجماعت نے ہجرت سے روکا تھا۔کانگریس کا مقصد یہ تھا کہ مسلمان بھارت چھوڑ دیں تو ہم سکون کے ساتھ بھارت میں راج کریں گے۔ملک کی تقسیم بھی اسی وجہ سے ہوئی تھی۔انگریزی عہد حکومت میں02:ستمبر 1946 کو کانگریس اور مسلم لیگ نے مشترکہ حکومت بنائی تھی۔جب حکومت چل نہ سکی تو کانگریس نے تقسیم ہند کی بات انگریزوں سے کی۔

دیابنہ اور وہابیہ نے تحریک آزادی کے عہد میں مسلمانوں کے مفادات کو ہر موقع پر کچلنے کی کوشش کی ہے۔اسلامی احکام کی پامالی کی ہے۔اس کی تفصیل المحجۃ المتمنۃ فی آیۃ الممتحنہ اور امام اہل سنت قدس سرہ العزیز کے رسائل وفتاوی میں موجود ہے۔اسلام ومسلمین کے ایسے غداروں سے امید وفا رکھنا عقل مندوں کا شیوہ نہیں۔

روایتی احتجاج ومظاہرہ اور بدمذہبوں سے عملی اشتراک کا مطالبہ بند کیا جائے۔

طارق انور مصباحی 

جاری کردہ:12:جون 2022

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے