قائل کی مغفرت اورصاحب تاویل پرحکم شرعی

مبسملا وحامدا::ومصلیا ومسلما

قائل کی مغفرت اورصاحب تاویل پرحکم شرعی

(1)بعض صورتوں میں لاعلمی کے سبب قائل پر حکم شرعی عائد نہیں ہوت،بلکہ اپنی لغزش وخطا سے لاعلمی اور عدم تنبہ کے سبب وہ معافی کا مستحق ہوتا ہے،لیکن جان بوجھ کر اس غلط کو صحیح ماننے والوں اورغلط تاویل کرنے والوں پر حکم شرعی عائد ہو جاتا ہے۔

کسی سے لغزش وخطا کے سبب کفر لزومی کاصدور ہوگیا،لیکن اسے اس کفر لزومی کا علم نہ ہو سکا اور اس کی موت ہو گئی۔اب اس کو نہ بتایا جا سکتا ہے،نہ اس کے رجوع کی کوئی صورت ہے،پس اپنی لغزش سے لاعلم ہونے کے سبب وہ معذور ہے،لیکن اس کی غلط بات یعنی کفر لزومی کو موافق اسلام ثابت کرنے والے پر شرعی حکم ضرور وارد ہو گا،لہٰذا ایسی صورت میں غلط کو غلط کہا جائے اور صاحب معاملہ کو معذور سمجھا جائے۔

(الف)علامہ میر سیدشریف جرجانی حنفی(۰۴۷؁ھ-۶۱۸؁ھ) نے تحریرفرمایا:
(من یلزمہ الکفر ولایعلم بہ لیس بکافر)(شرح المواقف:ص556)

ترجمہ:جسے کفر لازم ہو،اوراسے اس کا علم نہ ہوتووہ کافر نہیں۔

(ب)امام عبد الوہاب شعرانی شافعی (۸۹۸؁ھ-۳۷۹؁ھ)نے تحریریر فرمایا: (لا یکفر اذا لم یعلم بان اللازم کفر)(الیواقیت والجواہر:جلددوم:ص 123:مصر)

ترجمہ: جب لزوم کفر کا علم نہ ہوتو مرتکب کی تکفیرنہیں کی جائے گی۔

کفری قول کوصحیح ماننے والے کا حکم

رضابالکفر بھی کفر ہے۔قائل کو اس کفر لزومی کا علم ہی نہیں،لہٰذا وہ معذور ہے، اورجو اس کے کفری کلام پر راضی ہو،یا اس کوصحیح بتائے،اس پر حکم شرعی عائدہونے میں کوئی مانع نہیں۔

امام اہل سنت قدس سرہ العزیز نے رقم فرمایا:”اعلام بقواطع الاسلام میں ہمارے علمائے اعلام سے ان امور کے بیان میں جو بالاتفاق کفر ہیں، نقل فرمایا: (من تلفظ بلفظ کفر یکفر وکذا کل من ضحک او استحسنہ او رضی بہ یکفر) 

(جس نے کلمہ کفر یہ بولا اس کو کافر قرار دیا جائے گا،یونہی جس نے اس کلمہ کفر پر ہنسی کی یا اس کی تحسین کی اور اس پر راضی ہوا ا س کو بھی کافر قرار دیا جائے گا۔ت)

بحرالرائق میں ہے:من حسن کلام اھل الاھواء وقال معنوی اوکلام لہ معنی صحیح ان کان ذلک کفرا من القائل کفر المحسن۔
(جس نے بے دینی کی بات کو سراہا، یا بامقصد قرار دیا،یااس کے معنی کو صحیح قرار دیا تو اگر یہ کلمہ کفر ہو تو اس کاقائل کافر ہوگا اورا س کی تحسین کرنے والا بھی۔ت)“۔
(فتاویٰ رضویہ:جلد یازدہم:ص 381-جامعہ نظامیہ لاہور)

(2)ایک جدید نظریہ بعد فہم سے متعلق منظر عام پر آیا ہے۔ان شاء اللہ تعالیٰ اس پر بھی بحث کرنی ہے کہ وہ کس حد تک معتبر ہے۔ایسا نہ ہو کہ لوگ غلط بولتے جائیں اور بعد فہم کا سہارا لے کر ہر شخص کو معذور قرار دیا جائے۔تاویلات اقوال کلامیہ میں بھی اس پربحث ہے۔

بعض صورتوں میں عدم علم ضرور معتبر ہے،لیکن نفس مسئلہ بتا دینے کے بعد بعد فہم کا لحاظ مشکل ہے۔دلائل کے سمجھنے میں بعد فہم رکاوٹ ڈال سکتا ہے،لیکن دلائل کو سمجھنا ہر شخص کے لیے ضروری نہیں،بلکہ دلائل میں غور وفکر کے سبب جس کے غلط راہ پر جانے کا خوف ہو، اس کو دلائل میں غور وفکر ممنوع ہے(شرح فقہ اکبر للقاری:ص407-دارالسلامہ بیروت) اور نفس مسئلہ کو سمجھنا عاقل کے لیے مشکل نہیں،گرچہ وہ جاہل ہو:واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب

(3)کسی کی جانب سے کوئی غیر مناسب بات ظاہر ہو تو خوش اسلوبی کے ساتھ انہیں مطلع کر دیاجائے۔ماننا یا نہ ماننا اس کا کام ہے:و ما علینا الا البلاغ

(4)اگر کسی ضلالت وبدعت کے سبب کوئی شخص دائرۂ اہل سنت سے خارج ہو جائے تو وہ سنی نہیں،پھر وہ اکابر اہل سنت میں سے کیسے ہو گا۔حکم شرعی کوئی بیان کرے،یا نہ کرے،شرعی حکم من جانب اللہ عائد ہوجاتا ہے۔ اگر صاحب معاملہ خودعالم ہوتو اپنا حکم شرعی خود معلوم کرے،ورنہ اہل علم سے دریافت کر ے۔تائید کنندگان کی ایک جماعت ہوتو بھی حکم شرع عائد ہوگا۔اگر ضلالت وبدعت اور کفر وارتداد کے باوجود کسی کا شمار اکابر اہل سنت میں ہو سکتا ہے تو اسماعیل دہلوی،نواب صدیق حسن خاں بھوپالی،نذیرحسین دہلوی،سرسیدعلی گڑھی،قاسم نانوتوی، رشید احمد گنگوہی،خلیل احمد انبیٹھوی، اشرف علی تھانوی،غلام احمد قادیانی،ابوالاعلیٰ مودودی،ودیگر ضالین ومرتدین بھی اکابر اہل سنت قرار پائیں گے۔

(5)حالیہ دنوں میں سوشل میڈیا پر ذبیحہ سے متعلق بحث جاری ہے۔

ذبیحہ سے متعلق تین حکم ہو گا۔

(الف)کافر کلامی کا ذبیحہ فقہا ومتکلمین سب کے یہاں حرام اور مردار ہو گا۔

(ب)کافر فقہی کا ذبیحہ فقہائے کرام کے اصول کے مطابق حرام ومردار ہو گا،اور عملی احکام مثلاًنکاح،نماز،ذبیحہ وغیرہ میں فقہائے کرام کے احکام پر عمل ہوگا۔

(ج)گمراہ محض کا ذبیحہ حلال ہو گا۔گمراہ محض سے وہ مراد ہے جو کافر کلامی یا کافر فقہی نہ ہو،جیسے روافض کا فرقہ تفضیلیہ اور وہابیوں کا فرقہ اسحاقیہ۔عصر حاضر میں فرقہ اسحاقیہ کا وجود نہیں۔اسحاقیوں کو گلابی وہابی کہا جاتا تھا۔برصغیر میں وہابیہ کی دوقسم تھی۔اسماعیلی وہابی اور اسحاقی وہابی۔بعدمیں وہابیہ کی مزیددوقسم ہوگئی۔مقلد وہابیہ (دیابنہ)اورغیرمقلد وہابیہ۔

عہد حاضرکے فرقہ وہابیہ(غیرمقلدین) اور فرقہ دیوبندیہ کے وہ افراد جو اپنے اکابر کے کفریات کلامیہ وکفریات فقہیہ سے واقف نہ ہوں، جیسے عوام وہابیہ اور عوام دیابنہ۔وہ لوگ کافر فقہی ہیں۔ان کا ذبیحہ فقہائے کرام کے یہاں حرام ومردار ہے۔ ان لوگوں کے کافر فقہی ہونے کی بحث امام اہل سنت قدس سرہ العزیز کے رسالہ: ازالۃ العار بحجر الکرائم عن کلاب النار“(ابتدائی صفحات)میں ہے۔ہمارے رسالہ:فرقہ وہابیہ:اقسام واحکام میں اس کی تشریح ہے۔ان شاء اللہ تعالیٰ ذبیحہ سے متعلق جلد ہی تفصیلی مضمون رقم کیا جائے گا۔

دیوبندیوں اور وہابیوں میں محض گمراہ(جو کافر کلامی اور کافر فقہی نہ ہو)وہ شخص ہو گا جو کفریات کلامیہ وکفریات فقہیہ کو نہ مانتا ہو اور ان کفریات کے حاملین کو بھی حسب ترتیب کافر کلامی وکافر فقہی مانتا ہو,لیکن خود کو دیوبندی اور وہابی کہتا ہو۔ان جماعتوں کے نظریات کے مطابق معمولات اہل سنت کو بدعت اور ناجائز کہتا ہو,ایسا شخص محض گمراہ ہو گا۔

ماضی قریب کے صاحب نظر متکلم کی عبارتوں سے یہی معلوم ہوا۔اور ہم اہل نظر متکلم کا قول تسلیم کریں گے۔مذکورہ دونوں رسائل دیکھیں۔

(6)یہ کہنا بھی درست نہیں کہ یقین جانئے کہ جو وہابی ودیوبندی ذبیحہ کرنے والے ہیں،وہ درجہ کفر تک نہیں پہنچے ہیں،لہٰذا اسے کرید کرنے کی ضرورت نہیں۔

اولاً یہ بات ہی صحیح نہیں کہ جتنے ذبیحہ کرنے والے وہابی ودیوبندی ہیں، وہ اپنے اکابر کے کفریات کوجانتے ہی نہیں۔گوشت کی بہت سی دوکانوں میں ذبح کے لیے آس پاس کی مساجد کے ائمہ یا فارغین مدارس یا تعلیم یافتہ لوگوں کو مقرر کیا جاتا ہے۔ تمام وہابی ودیوبندی ائمہ اور فارغین مدارس اپنے اکابرکے کفریات کو جانتے ہی نہیں۔یہ دعویٰ محض دعویٰ ہے۔

دیابنہ,وہابیہ سے ان کی کفریہ عبارات پر مناظرے ہوتے ہیں۔علمائے اہل سنت اپنی تقریروں میں ان کے عقائد باطلہ بیان کرتے ہیں۔ان کی کتابوں میں کفریہ عبارات موجود ہیں۔وہ کتابیں چھپتی ہیں اور فروخت ہوتی ہیں۔یہ لوگ اپنے اکابر کے کفریات کی تاویل میں کتابیں لکھتے ہیں۔ان کتابوں میں بھی وہ کفریہ عبارات منقول ہوتی ہیں۔الحاصل ان فرقوں کے کفریات ڈھکے چھپے نہیں,بلکہ مشہور ومعروف ہیں اور بہت سے لوگ جانتے ہیں۔

ثانیا یہ یقین کیسے حاصل ہوگا کہ ذبیحہ کرنے والے تمام وہابی ودیوبندی اپنے اکابر کے کفریات کو جانتے ہی نہیں۔یقین کے تین ذرائع ہیں۔بلا ذریعہ کیسے یقین حاصل ہوگا؟

علامہ سعد الدین تفتازانی نے رقم فرمایا:(واسباب العلم للخلق ثلاثۃ: الحواس السلیمۃ،والخبر الصادق والعقل)(عبارۃ المتن)
(شرح العقائد النسفیہ:ص32-31 -مجلس برکات مبارک پور)

ترجمہ:مخلوق کے لیے علم کے تین اسباب ہیں:حواس سلیمہ،خبر صادق اور عقل۔

محض عقل سے یہ معلوم نہیں ہوسکتا کہ فلاں شخص کو فلاں بات معلوم ہے یا نہیں اور قرینہ سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ جب وہ وہابی یا دیوبندی ہے تو اپنے اکابر کے عقائد سے واقف ہوگا۔حواس ظاہرہ یعنی حاسہ سمع وبصرسے اس وقت ہمیں کچھ معلوم ہوگاجب وہ ہمارے سامنے اقرارکرے کہ ہمیں اپنے اکابر کے کفریات کا علم ہے یا علم نہیں ہے،لیکن جب اقرار وانکار کچھ نہ ہو تو عدم علم کا یقین نہیں ہوسکے گا،نیزخبرصادق بھی یہاں موجود نہیں، پس بلا سبب یقین کیوں کر حاصل ہوگا؟یہ باب اعتقادیات کا مسئلہ ہے۔احتیاط لازم ہے۔ 

اگرایک آدمی سمندر میں ڈوبنے لگے تو سب لوگ سمندر میں کود کر خود کشی نہ کریں، بلکہ ڈوبنے والے کا ہاتھ پکڑ کر اسے باہر لانے کی کوشش کریں۔یہی خیر خواہی وہمدردی ہے۔

نوٹ:سوشل میڈیا پر وائرل ایک ویڈیو پر بحث ہے,لیکن منسوب الیہ کی جانب نسبت کا مجھے یقین نہیں۔محض نفس مسئلہ پر بحث ہے۔

طارق انور مصباحی
 
جاری کردہ:19:جولائی 2022

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے