رفعت و شان
اکتساب فیض اور اتصال نسبت کی بنیاد پر اولیاے کرام کے مختلف مراتب ہیں، نبوی فیض نے ہمارے ممدوح حضرت سید احمد کبیر رفاعی رضی اللہ تعالٰی عنہ کو وہ مقام رفیع و رتبۂ کمال عطا کیا کہ ہماری عقل خام اس کا اندازا نہیں لگا سکتی، وہ دست مبارک کہ:
ہاتھ جس سمت اٹھا غنی کر دیا
موج بحر سخاوت پہ لاکھوں سلام
اور جس مبارک ہاتھ میں دو جہاں کی نعمتیں ہوں:
مالک کونین ہیں گو پاس کچھ رکھتے نہیں
دوجہاں کی نعمتیں ہیں ان کے خالی ہاتھ میں
(اعلٰی حضرت)
ایسے نور نور دست اقدس کا حضرت سیدنا احمد کبیر رفاعی نے بوسا لیا، کیا عظیم سعادت ملی، کہ جس کی لذت تو وہ عاشق صادق ہی جانتا ہے، اللہ اللہ کیا سوز ہے، کیسی سرشاری ہے حضرت رفاعی کے اس معروضے میں:
فِیْ حَالَۃِ الْبُعْدِ رُوْحِیْ کُنْتُ أرْسِلُھَا
تُقَبِّلُ الْاَرْضَ عَنِّیْ وَھِیَ نَائِبَتِیْ
ترجمہ: زمانۂ دوری میں مَیں اپنی روح کو حاضر (در نبوی علیہ التحیۃ والثناء) کرتا تھا وہ میری طرف سے زمین بوسی کرتی۔
عشق میں بڑی قوت ہے، محبت میں بڑی کشش ہے، اس سے بڑے بڑے معرکے سر ہوتے ہیں، اور جب یہ عشق و محبت محبوب رب کائنات مدنی تاج دار صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم سے ہو تو اس کا کیف و سرور ہی کچھ عجب ہوتا ہے، اس میں عقیدہ و عقیدت یک جا ہو جاتے ہیں اور ایمان کے گلشن میں وہ بہار آجاتی ہے کہ زبان کو کہتے بنتی ہے:
دو عالم سے کرتی ہے بیگانہ دل کو
عجب چیز ہے لذت آشنائی
بات ایک عاشق صادق کی ہے اس لیے تمہید میں طول ہوتا جارہا ہے، دل کہتا ہے کہ اس نغمۂ دل کو اور پھیلایا جائے لیکن موضوع کا احساس روکے دیتا ہے۔ خیر بات تھی عاشق کی، نبوی نسبت اور نگہِ خصوصی نے وہ رفعت عطا کی کہ رفاعی فیض پھیلتا گیا۔ سعادتوں کا یہ کارواں آگے بڑھتا گیا، حضرت سید احمد کبیر رفاعی کی ذات علم و عشق، اور اخلاص و کردار کی تابندگی کا استعارہ بن گئی، وہ روشن تھے لیکن ان کی یاد بھی روشن، ان کا ذکر بھی روشن، ان کی تعلیمات میں روشنی اور ان کے مبارک سلسلے میں روشنی۔
*بقلم: غلام مصطفٰی رضوی*
*نوری مشن مالیگاؤں*
0 تبصرے
اپنا کمینٹ یہاں لکھیں