قاضی ثناء الله پانی پتی

قاضی ثناء الله پانی پتی (1145-1225) ❤

از :  محمد سلیم انصاری ادروی

ولادت: مفسر قرآن قاضی ثناء الله عثمانی مجددی پانی پتی علیہ الرحمه شیخ جلال الدین کبیر اولیاء چشتی رحمه الله کی اولاد میں سے تھے، آپ کا سلسلہ نسب امیر المؤمنین سیدنا عثمان بن عفان رضی الله تعالیٰ عنہ سے جا ملتا ہے۔ آپ کی ولادت با سعادت سنہ ١١۴٣ھ/ سنہ ١٧٣١ء یا سنہ ١٧٣٢ء کو پانی پت (مشرقی پنجاب) میں ہوئی۔ آپ جلیل القدر مفسر ہونے کے ساتھ عظیم محدث، فقیہ، محقق اور منصف کتب کثیره تھے۔ آپ جامع علوم عقلیہ و نقلیہ اور فقہ و اصول میں بہ مرتبۂ اجتہاد پر فائز تھے۔ سراج الہند علامہ شاہ عبد العزیز محدث دہلوی علیہ الرحمه آپ کو "بہیقی وقت" کے لقب سے یاد کیا کرتے تھے۔

تحصیل علم: آپ نے سات سال کی عمر میں قرآن پاک حفظ کر لیا۔ پھر اپنے شہر ہی میں آپ نے ابتدائی تعلیم حاصل کی۔ کچھ عرصے تک شاہ محمد عابد سنامی کی خدمت میں رہے۔ شاہ صاحب کی وفات کے بعد مرزا مظہر جان جاناں کی خدمت میں حاضر ہو کر اکتباس فیض کیا۔ جب مرزا مظہر جان جاناں رحمه الله نے دیکھا کہ قاضی صاحب مروجہ علوم میں پوری طرح مہارت حاصل کر چکے ہیں تو آپ نے قاضی صاحب کو اعلیٰ تعلیم و سند حاصل کرنے کے لیے امام الہند شاہ ولی الله محدث دہلوی رحمه الله کے پاس بھیج دیا۔ چنانچہ آپ دہلی پہنچے اور اٹھارہ سال کی عمر میں شاہ ولی الله سے درس حدیث و اجازت سند حاصل کی۔ آپ نے ایام طالب علمی میں نے درسی کتابوں کے علاوہ ساڑھے تین سو اور کتابوں کا مطالعہ کر لیا تھا۔

بیعت و خلافت: آپ اپنے دادا قاضی محمد ہدایت الله پانی پتی رحمه الله کے شاگرد شاہ محمد عابد سنامی نقشبندی رحمه الله کے دست اقدس پر بیعت تھے۔ شاہ محمد کے علاوہ آپ نے مرزا مظہر جان جاناں دہلوی کی خدمت میں حاضر ہو کر طریقۂ مجددیہ کے مقامات علیہ حاصل کئے۔ مرزا مظہر کو قاضی صاحب پر بڑا فخر تھا۔ آپ فرماتے ہیں "اگر خدا نے مجھ سے قیامت کو پوچھا کہ ہماری درگاہ میں کیا تحفہ لایا ہے تو میں ثناء اللہ کو پیش کرونگا۔" (حدائق الحنفیہ/ص: ۴٨۴)

تدریس: قاضی صاحب نے با قاعدہ کسی مدرسے میں درس و تدریس کے فرائض انجام نہیں دئے۔ ہاں یہ حقیقت ہے کہ آپ اکّا دکّا طلبہ کو پڑھایا کرتے تھے۔ آپ کے بڑے صاحب زادے قاضی احمد اللہ پانی پتی نے آپ ہی سے تعلیم حاصل کی۔ آپ کے دوسرے فرزند مولانا دلیل اللہ پانی پتی نے آپ سے ہدايه کا درس لیا۔ 

منصب قضاء:  قاضی صاحب کے بارے میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ منصب قضاء آپ کو وراثت میں ملا تھا۔ آپ کے خاندان کے تین بزرگ (دادا قاضی ہدایت اللہ، والد: قاضی محمد حبیب اللہ، بڑے بھائی: قاضی محمد فضل اللہ علیہم الرحمه) اس منصب پر تعینات رہ چکے تھے۔ اس اعتبار سے یہ کہا جا سکتا ہے کہ یہ منصب آپ کی خاندانی وراثت ہو چکی تھی۔ اسی وجہ سے آپ کے محلے کا نام بھی محلہ قاضيان ہو گیا تھا۔ عہدۂ قضا کے حدود و اختیارات میں آپ کو دیوانی اختیارات، محصلانہ اختیارات اور ادائیگی پروانہ جات، ملحصین کا تقرر اور فوجداری اختیارات وغیرہ حاصل تھے۔

خدمت علم حدیث: فن حدیث میں آپ نے تین تصانیف قلم بند کیں۔ "حلیہ شریف" (یا ترجمه ترمذی شریف)، "رسالہ چہل حدیث مع شرح و بیان" اور "حدیث مظہری"۔

تصانیف: قاضی ثناء اللہ پانی پتی نے علم تفسیر، حدیث، فقہ اور رد بد مذہب وغیرہ موضوعات پر تقریبا ٣٠ کتب و رسائل قلم بند کئے۔ جن میں سے چند کے نام یہ ہیں:

● تفسیر مظہری، ● جواہر القرآن، ● حدیث مظہری، ● حلیہ شریف، ● فتاویٰ مظہری، ● رسالہ فقہ و مذاہب اربعہ، ● رسالہ چہل حدیث مع شرح و بیان، ● مالا بد منہ، ● تذکرۃ الموتٰی والقبور، ● حقیقت الاسلام، ● ارشاد الطالبین، ● رساله الشہاب ثاقب،  ● تذکرۃ المعاد، ● رسالہ در رد متعہ، ● وصیت نامہ، ● السیف المسلول، ● ازالة العنود فی مسئلہ السماع و وحدة الوجود، ● وصیت نامہ، ● تفسیر پنج آیات بطریقہ صوفیہ، ● رسالہ در بیان اولاد امام ربانی، ● رسالہ وسیلة النجات۔

تفسیر مظہری: آپ نے قرآن شریف کی عربی زبان میں سات جلدوں پر مشتمل تفسیر تفسیر مظہری لکھی۔ اس تفسیر کا نام اپنے استاذ مرزا مظہر جان جاناں کے نام پر رکھا۔ تفسیر مظہری کے بارے میں قاضی صاحب خود فرماتے ہیں: "فقیر اکثر وقت تفسیر اور حدیث کی خدمت میں گزارتا ہے، اور حضرت مظہر کے نام پر تفسیر مظہری لکھ رہا ہے۔" تفسیر قرآن حکیم لکھنے کے کے لیے علم حدیث و روایت علم حدیث کی بہت اہمیت ہے، چنانچہ تفسیر مظہری لکھنے کے لیے آپ نے ١٠٨ کتب حدیث کی مدد لی۔ یہ تفسیر ١۴ سال (سنہ ١١٩۵ھ تا ١٢٠٨ھ) میں مکمل ہوئی۔ 

وصال: یکم رجب سنہ ١٢٢۵ھ/ سنہ ١٨١٠ء میں قاضی ثناء الله پانی پتی علیہ الرحمه کا وصال ہوا۔ مولانا حافظ محب اللہ پانی پتی نے آپ کی تاریخ وفات قرآن پاک کی آیت کریمہ ’فهم مکرمون في جنّة النعیم‘‘ سے نکالی۔

(تذکرہ علمائے ہند/ص: ١۴۴، ١۴۵۔ ، حدائق الحنفیہ/ص: ۴٨٣، ۴٨۴۔ ، السیف المسلول/ ١ ، قاضی ثناء اللہ پانی پتی/ص: ٦١-٣٠٩)

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے