••────────••⊰۩۞۩⊱••───────••
🕯حضرت مفتی عبدالقیوم ہزاروی رحمۃ اللہ علیہ🕯
➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖
اسم گرامی: محمد عبدالقیوم۔
والد ماجد: حضرت مولانا حمیداللہ رحمہ اللہ۔
ولادت باسعادت: آپ کی ولادت 29 شعبان المعظم 1352ھ بمطابق 28 دسمبر 1933ء کو مانسہرہ، خیبر پختونخواہ (پاکستان) میں ہوئی۔
حصولِ علم : قراٰنِ پاک اپنے والدِ ماجد سے پڑھا، ابتدائی تعلیم اپنے چچّا حضرت مولانا محبوب الرّحمٰن رحمہ اللہ سے حاصل کی، جیندھڑ شریف ضلع گجرات کے ایک دینی مدرسے کے علاوہ پاکستان کے مُتعدّد دینی اداروں سے اکتسابِ علم کرتے ہوئے 1955ء میں مرکزی دارُالعُلوم حِزبُ الاَحْناف (لاہور) سے فارِغُ التحصیل ہوئے، اس کے بعد آپ کا ذوقِ حدیث آپ کو محدّثِ اعظم پاکستان مولانا محمد سردار احمد چشتی قادری رحمۃ اللہ علیہ کی بارگاہ میں لے آیا، چنانچہ 1956ء میں جامعہ رضویہ مظہرِ اسلام، فیصل آباد سے سندِ حدیث اور دستارِ فضیلت حاصل کی۔
شرف بیعت: محدث اعظم پاکستان قدس سرہ کے دست حق پرست پر سلسلہ عالیہ قادریہ میں بیعت ہوئے۔
اساتذہ: آپ کے اساتذہ کی فہرست میں محدثِ اعظم پاکستان مولانا سردار احمد چشتی، مولانا محبوبُ الرّحمٰن، مولانا سید محمد انور شاہ صاحب اور علامہ غلام رسول رضوی رحمۃ اللہِ علیہم جیسے نامور علمائے کرام شامل ہیں۔
سیرت و خصائص: استاذ العلماء، جامع المعقول والمنقول، شیخ الحدیث و التفسیر، مفتیِ اعظم پاکستان حضرت علامہ مولانا مفتی محمد عبدالقیوم قادری ہزاروی رحمۃ اللہ علیہ۔
آپ اپنے عہد کے ایک منفرد اور جامع الکمالات شخصیت تھے۔ آپ کی زندگی اخلاص و ایثار، سعی پیہم، جہد مسلسل اور عزم صمیم سے عبارت تھی۔ آپ اپنے اسلاف کے ایثار، اخلاص، استقامت و عزیمت، ورع و تقوی کا کامل مظہر، اُن کی علمی وراثت کے امین تھے۔ آپ درس نظامی میں عدیم النظیر معلم کی حیثیت سے جانے جاتے تھے۔ ہر علم اور ہر فن پر آپ کو کامل عبور اور ملکہ حاصل تھا۔ آپ علوم عربیہ و اسلامیہ کی تدریس کے ایسے مرکب تھے جس نے علم کے میدان میں ہر جانب اپنی کامیابی کے جھنڈے گاڑے۔ آپ اپنی حیات مبارکہ میں علمی رفعتوں اور مناصب جلیلہ تک پہنچے مگر ان میں سے کچھ بھی موروثی نہ تھا۔ آپ اُن لوگوں میں سے تھے جو اپنی دنیا آپ تعمیر کرتے ہیں، اپنے امکانات مواقع کا ماحول خود پیدا کرتے اور اُن کے متمنی و طلبگار رہتے ہیں۔ جن سے مناصب کو عزت ملتی ہے، عہدوں کو وقار ملتا ہے جس مقام اور مسند پر بیٹھیں اُسے نشان امتیاز بنا دیتے ہیں۔ آپ اپنے تلامذہ، معتقدین اور متوسلین کے روحانی باپ، مربی اور محسن تھے۔ آدمی کو باکمال انسان بنانا ایک مشکل ترین فن ہے، کردار سازی میں آپ کو خدا داد صلاحیت حاصل تھی۔ در اصل یہی اِعجازِ نبوت ہے اور فیضان نبوت ہے۔ یہی تربیتِ نبوت تھی جس نے گڈریوں، گنواروں، وحشی انسانوں اور صحراؤں اورر یگستانوں کے مکینوں کو رہتی دنیا تک کے لیے علم، تہذیب، عدل و انصاف، زُہد و تقویٰ اور الغرض شجاعت و صداقت کی مثال بنا دیا۔
مختلف دینی خدمات: آپ جامعہ نظامیہ (لاہور ) کے شیخُ الحدیث اور ناظمِ اعلیٰ رہے۔ جامعہ رضویہ (شیخوپورہ) کے مؤسّس و بانی اور مہتمم تھے۔ اردو و عربی زبان میں درجنوں علمی و تحقیقی کُتُب تصنیف کیں جن میں التوسّل ، العقائد والمسائل اور علمی مقالات زیادہ مشہور ہیں۔ ہزاروں طلبہ کی تعلیم و تربیت فرماتے ہوئے تقریباً 49سال تدریس کی اور 29 سال حدیث شریف پڑھائی۔ تنظیمُ المدارس اہلِ سنّت پاکستان جیسے عظیم ادارے کا قیام آپ ہی کی کاوش ہے، آپ 29 سال اس ادارے کے صدر اور ناظمِ اعلیٰ رہے۔ امامِ اہلِ سنّت، مجددِ دین و ملّت شاہ امام احمد رضا خان رحمۃ اللہِ علیہ کے عظیم علمی و فقہی شاہکار 12 جلدوں پر مشتمل “فتاویٰ رضویہ“ کو آپ نے جدید دور کے تقاضوں کے مطابق ڈھالنے کے لئے اس کی عربی و فارسی عبارات کا ترجمہ کروایا اور حوالہ جات کی تخریج کے ساتھ 33 جلدوں میں اس کی خوبصورت اِشاعت و طَباعت کا اِہتمام بھی فرمایا۔ ( 24 جلدیں آپ کی زندگی میں جبکہ 9 بعدِ وصال شائع ہوئیں)
تلامذہ : آپ سینکڑوں علماء و فضلاء اور مدرسین کے استاذ محترم تھے۔ آپ کے چند ناموَر تلامذہ میں علامہ عبدُالحکیم شرف قادری۔ پروفیسر مفتی منیبُ الرّحمٰن (صدر تنظیم المدارس اہلِ سنّت پاکستان، مہتمم دارُالعلوم نعیمیہ)۔ علامہ محمد صدّیق ہزاروی۔ مولانا عبد السّتار سعیدی۔ مولانا ضیاء المصطفےٰ قصوری اور مولانا غلام نصیرُالدین نمایاں ہیں۔
اولاد: آپ کو اللہ کریم نے چار صاحبزادوں سے نوازا۔ مولانا سعید احمد، مولانا عبد المصطفٰے، مولانا حافظ عبد المجتبیٰ اور مولانا حافظ عبد المرتضیٰ۔
وصال: آپ کا وصال 27 جمادی الآخر 1424ھ بمطابق 26 اگست 2003ء بروز منگل بعد نمازِ مغرب اچانک حرکتِ قلب بند ہونے کے سبب لاہور میں ہوا۔ مزار مبارک جامعہ نظامیہ رضویہ شیخوپورہ (پنجاب، پاکستان) میں ہے۔
نمازِ جنازہ: آپ کی نمازِ جنازہ میں ملک بھر کے ممتاز اور جیّد عُلَمائے کرام و مشائخ عظّام اور ہزاروں کی تعداد میں عوامُ النّاس نے شرکت کی۔
ماخذ و مراجع: مجلّہ النظامیہ، ستمبر 2003ء۔ مفتیِ اعظم پاکستان نمبر، 37 ، 46 ، 57 ، 66 ، 179۔ روشن دریچے، ص 166 تا 170ملخصاً۔ حیات محدث اعظم، ص364 ، 365 ملخصاً۔ روز نامہ نوائے وقت، 2 ستمبر 2016، از پروفیسر مفتی منیب الرحمنٰ ہزاروی۔ ماہنامہ فیضان مدینہ جنوری 2022، از مولانا بلال حسین عطاری مدنی۔
https://t.me/Faizan_E_DarulUloom_Amjadia_Ngp
◈◈⊰──────⊱◈◈◈⊰──────⊱◈◈
*مرتبیـن📝 شمـس تبـریز نـوری امجـدی، محمـد یـوسف رضـا رضـوی امجـدی "فیضـانِ دارالعـلوم امجـدیہ ناگپور گروپ" 966551830750+/ 9604397443+*
◈◈⊰──────⊱◈◈◈⊰──────⊱◈◈
0 تبصرے
اپنا کمینٹ یہاں لکھیں