کتاب 'راد المھند' اور 'التحقیقات' کی تعریب

کتاب 'راد المھند' اور 'التحقیقات' کی تعریب اور عرب سے اشاعت
قابل صد مبارک باد اقدام

ہندوستان میں مسلمانوں کا ہزار سالہ جاہ و جلال چراغ سحری بن چکا تھا، انگریزوں کی فریب کی آندھیاں، اس کی روشنی گل کر دینے کے در پے تھیں، ایسے پر آشوب حالات میں ایک ایسا گروہ پیدا ہوا، جس نے اسلامی لبادے کی آڑ میں، اسلامی قلعے پر شب خون مارنے کا ارادہ کیا اور اپنی فاسد فکروں سے ایسے نئے نئے عقائد، امت محمدیہ علی صاحبہا التحیۃ و الثناء کے سامنے لا کھڑے کیے، جو اسلامی عقائد و نظریات سے بالکل بھی میل نہیں کھاتے تھے، یہاں تک کہ اللہ جل و علا کے صدق بیانی اور آقا کریم ﷺ کے آخری نبی ہونے پر سوالیہ نشان قائم کیے گیے، ان کے علاوہ اور بھی دیگر فاسد عقائد وجود میں لائے گئے، جو اسلامی عقائد کے بالکل منافی اور مخالف تھے۔

یہ حملے ایسے تند و تیز تھے کہ بہت سے مسلمانوں کا ایمانی ڈھانچہ متزلزل ہو گیا اور وہ ایمان کی نوری سلطنت سے نکل کر، کفر کے تاریک گڑھوں میں جا پڑے۔ ایسے پر آشوب حالات میں کسی بھی مومن مرد حق پرست کا خاموش رہنا بہت بعید تھا؛ اس لیے متعدد علماء کرام نے تقریر و تحریر کے ذریعے، ان باطل پرستوں کا ڈٹ کر مقابلہ کیا، بالخصوص رب تعالی کی طرف سے ان پر کاری ضرب لگانے کے لیے، مجدد دین و ملت اعلی حضرت امام‌ احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمن کا انتخاب ہوا، آپ نے "سبحان السبوح عن کذب عیب مقبوح" اور "سلطنت المصطفیٰ (ﷺ)فی ملکوت کل الوری" وغیرہ جیسے رسالے لکھ کر، ان باطل نظریات کے حاملین کا حملہ ناکام بنانے کے ساتھ، ان کے عزائم کو خاک میں ملا دیا اور اس طرح ان کا خود ساختہ ہوائی قلعہ ریت کا تودہ ثابت ہوا۔

لیکن ان کی حقیقت کو پوری طرح آشکارا کرنے کے لیے، ضروری تھا کہ ایمان و اسلام کے منبع اصلی، تمام دنیا کے مسلمانوں کے مرکز، حرمین شریفین -زادھما اللہ شرفا و تعظیما- کے علماء کرام بھی ان کے اوپر وارد ہونے والے حکم کو ظاہر فرما دیں؛ لہذا جب آپ حرمین کریمین -زادھما اللہ اکراما- کی حاضری کے لیے گئے؛ تو اپنی تصنیف "المستند المعتمد" کا وہ حصہ جس میں ان باطل پرست، خارج از اسلام لوگوں کے عقائد بیان کر کے، ان پر حکم کفر لگایا گیا تھا، اسے حرمین شریفین کے اکابر علما کے سامنے پیش کیا؛ تو انھوں نے اس کی تصدیق فرما کر، ان پر عائد ہونے والے حکم کفر کو محکم کر دیا اور "من شك في كفره و عذابه فقد كفر"۔ فرما کر، ان کی تابوت میں آخری کیل ٹھوک دی۔ پھر یہ حصہ "حسام الحرمین علی منحر الکفر و المین" کے نام سے شائع کر دیا گیا۔

جب اس گروہ کو پتہ چلا کہ علماء حرمین شریفین، ان کے کفر پر مطلع ہو چکے ہیں اور اب وہاں ان کی دال گلنے والی نہیں ہے؛ تو ان میں کھلبلی مچ گئی اور بجائے اس کے کہ اپنے اوپر وارد ہونے والے حکم سے توبہ کرکے، بارگاہ تواب و غفار میں رجوع لاتے، الٹا اس پر ڈٹ گئے ((وَإِذَا قِيلَ لَهُ اتَّقِ اللَّهَ أَخَذَتْهُ الْعِزَّةُ بِالْإِثْمِ ۚ فَحَسْبُهُ جَهَنَّمُ ۚ وَلَبِئْسَ الْمِهَادُ)) پھر کیا تھا، اللہ عز و جل اور اس کے محبوب اعظم صلی اللہ علیہ وسلم کی گستاخی اور توہین پر پردہ ڈالنے کے لیے، دیوبندیوں کے عالم خلیل احمد انبیٹھی نے یہ چال چلی کہ خود ہی کچھ سوالات مرتب کرکے، ان کے جوابات لکھے اور پھر خود اپنے علما سے تصدیقیں کروائیں اور حرمین طیبین میں آکر رہنے والے چند آفاقیوں سے بھی اس پر تصدیقات لے کر، اسے "المہند علی المفند" کے نام سے شائع کر دیا اور یہ باور کرانے کی کوشش کی کہ علماء حرمین شریفین ان کے ساتھ ہیں۔

جب علماء حق، علماء اہل سنت کو ان کی اس دسیسہ کاری کی خبر ہوئی؛ تو ان کی حقیقت ظاہر کرنے کے لیے کمر بستہ ہو گئے، خاص طور سے حضرت شیر بیشۂ اہل سنت مولانا حشمت علی خان صاحب علیہ الرحمہ نے "راد المہند علی المفند" تصنیف فرمائی اور اس میں "المہند" کے دھوکہ اور فریب کو ظاہر فرما کر، ان کے مکروہ چہروں پر پڑے خوبصورت غلاف کو الٹ کر رکھ دیا اور ان کی چالبازیوں کے تار و پود بکھیر دیے اور ان لوگوں کی کتاب، الٹا انھیں کے خلاف حجت بن گئی اور وہ ذلت و رسوائی کے عمیق غار میں جا پڑے۔ ((كُبِتُوا كَمَا كُبِتَ الَّذِينَ مِن قَبْلِهِمْ)) 

البتہ چوں کہ یہ کتاب "راد المہند" اردو زبان میں تھی، جس سے صرف بر صغیر کے لیے لوگ ہی نفع حاصل کر سکتے تھے۔ اہل عرب کو اس سے فائدہ حاصل کرنا کافی مشکل تھا؛ لہذا ضروری تھا کہ جن علماء عرب کی آڑ لے کر، انھوں نے ہندستانیوں کو فریب دینے کی کوشش کی تھی، انھیں علماء عرب کے سامنے، ان کا بہروپ اجاگر کیا جائے تاکہ اس کتاب کا نفع عام و تام ہو سکے اور پوری طرح سے حق واضح ہوکر سب کے سامنے آ جائے۔ اس کا سب سے آسان طریقہ یہ تھا کہ اس کتاب کو عربی قالب میں ڈھال دیا جائے، اس کی ضرورت بھی محسوس ہو رہی تھی، لیکن متعدد وجوہات کے باعث یہ کام التوا کا شکار ہوتا رہا اور حق تو یہ ہے کہ حق تعالیٰ نے اس کے لیے جانشین فقیہ ملت حضرت مولانا مفتی ازہار احمد امجدی مصباحی ازہری صاحب حفظہ اللہ تعالی کو اس مبارک کام کے لیے منتخب فرما لیا تھا، چناں چہ اس کی ضرورت محسوس کرتے ہوۓ، آپ نے اس کی تعریب کا کام اپنے کاندھوں پر لیا اور باری تعالیٰ پر توکل کرکے اس کام کا آغاز کر دیا۔

کسی مضمون یا کسی مستقل کتاب کو ایک زبان سے دوسری زبان میں تبدیل کرنا، کتنا دشوار ہے، اس کا تجربہ اس وادی کے سیر کرنے والوں کو ہی ہوگا۔ ہر زبان کے اپنے الگ الگ اسالیب و محاورات ہوتے ہیں، صنائع بدائع، عبارات کی آراستگی و پیراستگی، اسی زبان کے شایان شان ہونا چاہیے، ایک مترجم کے لیے لازم ہے کہ دونوں زبانوں کی باریکی اور تہ داری، ان کے اسرار و رموز اور اسلوب و محاورات پر بھرپور نظر رکھتا ہو، تبھی ترجمہ کا حق ادا ہو سکتا ہے اور مضامین و مفاہیم کی ترجمانی خوب سے خوب تر کی جا سکتی ہے، خاص طور سے جب کتاب کے مضمون کا تعلق عقائد سے ہو؛ تو اس وقت تو ترجمہ نگاری کے قلم کو اور زیادہ احتیاط کے ساتھ اٹھانے کی ضرورت ہوتی ہے تاکہ بیان حکم میں سر مو فرق نہ ہونے پائے، جس کو مفتی صاحب قبلہ نے بحسن و خوبی ادا فرمایا ہے۔

آپ نے اس کو عربی جامہ پہنانے کا کام اسی وقت شروع کر دیا تھا جب آپ عالمی یونیورسٹی جامع ازہر مصر میں زیر تعلیم تھے، یہ کام مکمل ہونے ہی والا تھا کہ ٢٠١٤ء کے اخیر میں آپ اپنی تعلیم مکمل کرکے، ہندستان واپس تشریف لائے اور باقی ماندہ کام، یہاں آکر، ایک سال کے اندر، پایۂ تکمیل کو پہنچایا، حضرت نے اس کتاب کی تعریب کے ساتھ، اس کی تحقیق بھی فرمائی ہے۔

ابھی اس کتاب پر علماء کرام کی تقریظات و تقدیمات لینے اور اس کی تصحیح کا سلسلہ جاری تھا کہ پڑوسی ملک کے عالی جناب میثم عباس قادری صاحب نے علامہ سید نعیم الدین مرادآبادی علیہ الرحمہ کی کتاب "التحقیقات لدفع التلبیسات" جس کی تعریب ہو چکی تھی، اس کی تصحیح کی درخواست کی۔ یہ کتاب بھی "المہند" کے مکر و فریب کو چاک اور حقیقت کو وا شگاف کرنے والی ہے اور بہترین انداز میں ان کی چالبازیوں کو ناکام کرنے والی بھی ہے۔

آپ نے فرمایا کہ تصحیح میں وقت زیادہ لگے گا، اس لیے میں اس کی از سر نو تعریب کیے دیتا ہوں؛ لہذا عالی جناب میثم عباس قادری صاحب کے تحقیق کردہ نسخے پر اعتماد کرتے ہوۓ، آپ نے چند دنوں میں ہی اس کو بھی عربی زبان میں منتقل کر دیا۔ تعریب و تحقیق کا کام مکمل ہوا؛ تو عرب و عجم کے علماء کرام سے ان دونوں کتابوں پر تقاریظ و تقدیمات حاصل کرنے، تصحیح کرانے اور مکتبے وغیرہ کے انتخاب میں تقریباً چھ سال کا عرصہ لگ گیا۔ بہر کیف دیر آید درست آید۔ 

کسی بھی کام کی تکمیل کے لیے بہت اہم چیز سرمایہ ہے، اس کی عدم فراہمی کی وجہ سے ہمارے اسلاف کے کتنے ہی اہم کام منصۂ شہود پر نہ آ سکے اور کتنوں پر غیروں نے اپنے نام کا لیبل لگا کر، عوام کے سامنے پیش کر دیا۔ بہر حال کتاب کی طباعت کی اہم ذمہ داری مولانا سید محمد زرقانی صاحب، یوکے نے اٹھائی اور اس پر ہونے والے اخراجات کو اپنے کاندھوں پر لے کر، مفتی صاحب قبلہ کی اہم کاوش کو منظر عام پر لانے میں، کافی مدد فرمائی۔ بہر کیف انتھک کوششیں رنگ لائیں اور اب یہ کتاب عرب و عجم کے علماء کی تقاریظ و تقدیمات سے مزین ہونے کے بعد، زیور طبع سے آراستہ ہوچکی ہے اور آپ کے مطالعے کی میز پر آنے کے لیے تیار ہے۔ اس کی طباعت، قاہرہ، مصر کے مشہور مطبع دار الصالح سے ہوئی ہے، جو اس کی سند میں چار چاند لگا رہا ہے۔

علماے اہل سنت کو جیسے ہی ان دو اہم کتابوں کے عربی زبان میں قاہرہ، مصر سے منظر عام پر آنے کی خبر ملی، مفتی صاحب قبلہ کو عرب و عجم سے مبارک بادی ملنا شروع ہوگئی، مفتی صاحب کی بارگاہ میں مبارک بادی و تبریکی کلمات پیش کرنے والے بعض علما کے نام درج ذیل ہیں:

١- یمن سے مولانا ابرار شافی یمنی صاحب حفظہ اللہ تعالی۔
٢- یو کے سے مولانا محمد کلیم صاحب حفظہ اللہ تعالی۔
٣- پاکستان سے حضرت علامہ مولانا حق النبی سکندری ازہری صاحب حفظہ اللہ تعالی۔
ان کے علاوہ دیگر بہت سارے علماے کرام نے بھی مفتی صاحب کو ان کے اس اہم کام پر مبارک باد پیش فرمائی۔
میں بھی مفتی صاحب قبلہ کی بارگاہ میں ہدیۂ تبریک نذر کرتا ہوں اور دعا گو ہوں کہ اللہ رب العزت، اس کتاب کو اہل عرب و عجم کے لیے نفع بخش، مصنفین علیہم الرحمہ کے لیے بلندی درجات کا باعث اور مفتی صاحب قبلہ حفظہ اللہ تعالی کے لیے نجات کا ذریعہ بنائے، جنھوں نے اس کے ذریعے عرب و عجم کے اہل سنت و جماعت کو آپس میں مربوط کرنے کی بہترین کوشش فرمائی۔

نیز جن حضرات نے بھی اس کام میں کسی بھی طرح حصہ لیا ہے یا کسی بھی طرح تعاون فرمایا ہے، وہ سب مبارک بادی اور اعزاز کے مستحق ہیں، بالخصوص خیر الاذکیاء حضرت مولانا محمد احمد مصباحی زید مجدہ، نبیرہ صدر الشریعہ حضرت مولانا فیضان المصطفی زید شرفہ، حضرت مولانا ڈاکٹر انوار احمد بغدادی زید علمہ، حضرت مولانا اسلم نبیل ازہری زید علمہ، عالی جناب میثم عباس قادری زید علمہ، مولانا سید محمد زرقانی زید علمہ اور حضرت مولانا شیراز ازہری زید علمہ و حفظہم اللہ تعالی، اللہ رب العزت ان سب کو دارین کی سعادتوں سے سرفراز فرمائے۔ آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ علیہ وسلم۔ 

نورالہدی مصباحی
خادم جامعہ امام احمد رضا رتناگیری
٤/ذی الحجہ ١٤٤٤ھ

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے